غریب کسانوں کی خود کشی

عبدالعزیز

      ہندستان میں بڑے بڑے سانحات اور سنگین سے سنگین واقعات پر عام طور پر لوگ اپنے کانوں کو بند کرلیتے ہیں ، آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں اور دل پر مہر لگا لیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ واقعات پر واقعات ہوتے رہتے ہیں ، ظالموں اور قاتلوں کو اس سے حوصلہ ملتا ہے اور وہ اپنے سیاہ کاموں پر نہ شرمندہ ہوتے ہیں اور نہ بے شرم حکومتیں انھیں سزا کا مستحق سمجھتی ہیں ۔ بعض بیانات وزیروں یا سرکاروں کی طرف سے لیپا پوتی کیلئے آجاتے ہیں ۔ وہ  بیانات بھی ظالموں کا نہ کچھ بگاڑ پاتے ہیں اور نہ ان سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

      مثال کے طور پر جہیز کی لعنت کی وجہ سے ملک میں ہر سال آٹھ ہزار (8,000) عورتیں موت کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں یعنی ہر روز 21عورتوں کا خون ظالم شوہروں یا ان کے لواحقین کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ ان واقعات سے دہشت پھیلنے کے بجائے اسے معمولی سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ تو ہمارے ملک میں ہوتا رہتا ہے۔ کسی کو نہ اس سے کسی قسم کی پریشانی لاحق ہوتی ہے اور نہ احساس ہوتا ہے :  ع ’’کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا‘‘۔ جو لوگ جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں وہ بے شرمی سے شادی کیلئے سودے بازی کرتے ہیں ۔ ان کو بھی معاشرہ پورے طور پر قبول (Accept)ہی نہیں کرتا بلکہ ان کی دعوتوں میں وہ لوٹ کے مال کھاتے ہیں ۔ شادی کی تقریب میں شرکت سے لٹیروں کی شان بڑھاتے ہیں ۔ یہ ہے ہمارے ملک میں لٹیروں اور قاتلوں کی عزت افزائی۔ یہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سبھی کر رہے ہیں۔

      دوسری مثال کسانوں کی آئے دن خود کشی کی ہے۔ قرض کی ادائیگی کے اعلان کے بعد 8جون کے پہلے دو ہفتے کے اندر اتر پردیش میں 5 کسانوں نے خود کشی کرلی اور مہاراشٹر میں 19 کسانوں نے خود کشی کی ہے۔ 17جون کو مدھیہ پردیش میں دس کسانوں نے اور راجستھان میں گزشتہ ماہ کے دو ہفتے کے اندر 5کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان سب کے باوجود ہندستان کے سیاست دانوں یا ملک کے عوام میں کوئی خاص قسم کی ہلچل یا شور و غل نہیں پیدا ہوا جبکہ زراعت کو ہندستان میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جون کے آخری دو ہفتے میں چنڈی گڑھ میں 10 کسانوں نے خود کشی کی۔ وزیر زراعت برج موہن اگروال نے اس پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ کسانوں کی یہ خود کشی فطری موت (Natural death) ہے۔ اس کا فارمنگ (کھیتی باڑی) سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

      اس میں کوئی شک نہیں کہ بے رحم وزیر کو کسانوں یا عورتوں کی موت پر کوئی حیرت نہیں ہے کیونکہ غریب عورتوں اور غریب کسانوں کی موت ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی، ایسے لوگ وہ تو غربت و افلاس کے باعث پہلے سے مرے ہوئے تھے۔ اگر خود کشی کرنے پر آمادہ ہوگئے تو پھر کون سی حیرت اور تعجب کی بات ہے۔ ایسے کسانوں کو تو مرنا ہی ان کیلئے باعث راحت ہے۔ روز روز کے مرنے سے بہتر ایک دن کامرنا ہے۔ ایسے ہیں ہمارے وزیر نامدار۔ اسی کو کہتے ہیں  ع  ’’ہوس کی امیری ہوس کی وزیری‘‘ ۔ ان میں انسانیت کے بجائے حیوانیت کوٹ کوٹ کر بھر جاتی ہے۔ ان کی انسانیت مردہ ہوجاتی ہے اور آنکھوں کا پانی بھی مرجاتا ہے۔  ع  ’’بے حیا باش ہرچہ خواہی کن‘‘ (بے حیا بن جاؤ جو چاہو سو کرو)۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر کسان مسائل اور مصائب کی وجہ سے اپنی جان کے دشمن ہوجاتے ہیں ۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں تو یہ نیچرل موت ہے کیونکہ نریندر مودی کا ہندستان کسانوں کیلئے جنت بنا ہوا ہے۔

      مسٹر اگروال کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے مہاراشٹر کی بھارتیہ جنتا پارٹی ک ایک ممبر اسمبلی نے کیا خوب کہا ہے کہ مہاراشٹر میں جہاں 2016ء میں جنوری اور فروری دو ماہ میں 124 کسان غربت و افلاس، مسائل و مصائب کی وجہ سے خود کشی کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ کسانوں کی موت نہ بھوک کی وجہ سے ہوئی ہے اور نہ ہی بے روزگاری اس کا سبب ہے۔ یہ ایک فیشن بن گیا ہے۔ ایک رجحان ہے۔ ایسے بے رحم سیاست داں دنیا میں کہاں ملیں گے جو خود کشی کو بھی فیشن، رجحان یا فطری موت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو چاہئے کہ اپنے ایسے لیڈروں کو بھارت رتن کا ایوارڈ دے جو غریبوں کی موت کا نہ صرف مذاق اڑا رہے ہیں بلکہ اس کو نیا معنی پہنا کر بھارت کی شان اور عزت دنیا بھر میں بڑھا رہے ہیں ۔

      حقیقت تو یہ ہے کہ آر ایس ایس کی تربیت گاہ میں جن لوگوں کی تربیت ہوئی ہے وہ حیوان کو انسان پر ترجیح دیتے ہیں ۔ آج جو پورے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ اور دلتوں کے ساتھ ہورہا ہے کیا آر ایس ایس کی حیوانی قسم کی تربیت کا نتیجہ نہیں ہے۔ ہر جگہ لوگ گئو کشی کے نام پر قاتل گئو رکشک بنے ہوئے ہیں ۔ معصوم انسانوں اور بے قصور لوگوں کی جان لے رہے ہیں ۔ انسانوں کے خون پی رہے ہیں اور ہر جگہ اپنی خونخواری اور خونخوار ذہنیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ یہ ہندستانیوں کو سوچنا ہے کہ خونخوار جانوروں سے کیسے اور کیونکر نمٹنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے منہ کے نوکیلے دانت ٹوٹ سکیں اور ملک میں جو جنگل راج قائم ہے، اس کا خاتمہ ہو، لوگ سکون اور اطمینان کی نیند سوسکیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔