غزوات نبویؐ: ایک جائزہ

محمدصابر حسین ندوی

اسلام کا ماننا یہ ہے کہ ظلم وجبر اور قہر ناجائز وحرام ہے، یہ کسی کی جانب سے بھی ہو اس کاتدارک کرنا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا لازم ہے، یہ ایک عبادت ہے جسے جہاد سے تعبیر کیا جاتا ہے، حضور اکرمﷺ ایک مجاہد، سپہ سالار اور کمانڈر بھی تھے، آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں دفاعی اور اقدامی ہر دو قسم کی جنگیں لڑی ہیں، جو حکمت ودانائی اور سوجھ بوجھ کی اعلی مثالیں ہیں، جن سے عرب ہی نہیں بلکہ ایک عظیم خطہ نے راحت و سکون کی سانس لی ہے، آپﷺ کی سپہ سالاری میں مسلم فوج نے صرف دس سالوں کے اندر ۲۷۴ میل مربع روزانہ زیر نگیں آیا کرتا تھا، اور اس طرح مخلوقات الہی پر رحمت ومودت کی چار درازہوتی گئی،  یہ آپ ہی کا تدبر اور پائے ثبات تھا کہ اضعافا مضاعفہ فوجوں سے مقابلہ کیا گیا، اور مسلم فوج کا میاب وکامران رہی،نہ صرف میدان فتح کیااور مال غنیمت بٹورے بلکہ دلوں کو فتح کیا، کیونکہ انہیں درس دیا گیا تھا’’جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ‘‘۔ آں حضرت ﷺ کی عبقریت اور دانائی کا کوئی جوڑ نہ تھا،آپ کی حکمت عملی اور جنگی لائحہ عمل بے مثال تھی، بدر وخندق ہو یا بیرونی مقابلے ان سب میں آپ کا جو ہر وہ رنگ دکھاتا؛ کہ مخالف حیران و ششدر رہ جاتا تھا، وہ مبہوت ہوجاتا اور بسااوقات مقابلہ کی طاقت بھی نہ پاتا تھا۔

حضور اکرم ﷺ نے بذات خود کل ستائیس جگیں لڑیں، بقیہ وہ جنگیں اور جھڑپیں جن میں کبھی قتال کی نوبت آئی اور کبھی نہ آئی،بلکہ عموماان کے ذریعہ دشمن کو ہیبت میں ڈالنا اور طاقت کا مظاہرہ ہوتا تھا، ان کی تعداد ساٹھ بتائی جاتی ہے،استعجاب و حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان سب میں دونوں فریق کے صرف ایک ہزار اٹھارہ سو سے زائد افراد بھی نہیں مارے گئے،اورانہیں چند ناگہانی نعشوں کی بدولت قلیل مدت میں وہ جزیرہ عرب جس کے اندر قتل و غارتگری، لوٹ مار اور خانہ جنگیوں کا دور دورہ رہتا تھا، ایک ایک جنگ چالیس سال تک چلتی تھی اور پوراکا پورا قبیلہ و کنبہ تباہ ہوجاتا تھا، وہاں کی حالت یہ ہوگئی کہ پورے عرب میں امن و امان کی لہر دوڑ گئی، جانوں کی قیمت اور حرمت بحال ہوگئی، ڈاکہ زنی اور لوٹ مار ختم ہوگیا، بلکہ یہاں تک ممکن ہوگیا کہ ایک مسافر خاتون جب حیرہ سے چلتی اور کعبہ کا طواف کر کے واپس جاتی اور اللہ کے سوا اسے کسی کابھی ڈر وخوف نہ ہوتا تھا(بخاری:علامات النبوۃ)،ایک عورت قادسیہ سے اپنے اونٹ پر چلتی اور بیت اللہ کی زیارت کرتی اور اس کو کسی کس خوف نہ ہوتا(ابن ہشام:۲؍۵۸۱)۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے جنگ وجدال کو پسند نہیں کیا، بلکہ اسے فتنہ کے ازالہ اور امن کی خاطر روا رکھا ہے(بقرۃ:۱۹۱)، وہ کسی کو انصاف دلانے اور کسی کے حق میں ہوئے ظلم کو رفع کرنے اور معاشرہ کو اس کے صحیح رخ پر لگانے کیلئے ہی جنگ کا حکم دیتا ہے یا کسی کا خون بہانے (جب کہ اس کے علاوہ کوئی اور صورت نہ بچے) کی اجازت دیتا ہے(بقرۃ:۱۷۹)، جنگ کسی تفریح و لطف کا سامان نہیں،  یہ بچوں کے کھیلنے اور اپنا ہنر دکھانے کا میدان نہیں، یہ بات سچ ہے کہ اہل عرب جنگ پسند لوگ تھے،بہادری و شجاعت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، تلوار وتفنگ اور گھوڑ سواری ان کیلئے بازیچہ اطفال تھی،وہ پل دو پل میں صفیں کی صفیں الٹ دینے کا حوصلہ اور بہتے دھارے کو موڑدینے کا جذبہ رکھتے تھے؛ لیکن اسلام نے ان کے جذبہ پر روک لگائی ہے، انہیں شتر بے مہار نہیں چھوڑا،  اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلام میں ممکن تھا کہ جہاد کا حکم ابتدائی نبوت ہی میں دے دیا جاتا،  اور اپنے اوپر ہورہے مظالم کا بالمابل مقابلہ کیا جاتا، مگر ایسا نہیںہے؛ بلکہ جہاد کی فرضیت چودہ سالہ مشقت اور ہجرت مدینہ کے بعد ہوئی،  جس وقت مسلمانوں کو خوب آزما لیا گیا اور ان کے ایمان کو مضبوط کردیا،  یہ بھی صرف اس لئے تھا تا کہ خود کی حفاظت اور اسلام دشمن و جان دشمن افراد کو سبق سکھا سکیں،اور دنیا کو فتنہ سے خالی کراسکیں۔

قدیم زمانے کی جنگی تاریخوں کا مطالعہ کیجئے! تو آپ منتشرصفحات پر ایسی خونزیزی پائیں گے؛ کہ آپ کی روح کانپ جائے گی،جنگوں کی بد عنوانیاں اس حد تک پہونچی ہوئی تھیں کہ نہ صرف انسانی جان سے دشمنی نکالی جاتی، بلکہ ان کی نعش کے ساتھ بھی دشمنی نہیں، درندگی کا سا سلوک کیا جاتا تھا، ان کے ناک کان کا ٹ لئے جاتے تھے، ان کا جگر نکال لیا جاتا تھا،عورتوں اور بچوں کے ساتھ حیوانگی کا رویہ اپنایا جاتا تھا، بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا جاتا، غلام بناتے، خادم بناتے اور ان کے ساتھ ایسا برتاو کرتے تھے، کہ بعض مسخ دماغ بادشاہ اور جلاد فطرت کے پروردہ کا حال یہ تھا؛ کہ وہ اپنے غلاموں اور قیدیوں کو مشعل بنا لیتے اور ان کی روشنی میں عشائیہ کا لطف لیتے تھے،  یہ ان کی محفل کا سامان ہوتے تھے اور یہی ان کی مجلس کا چراغ ہوجاتے تھے، انہیں جنگوں میں بطور فال و تیر اور بھالے کے استعمال کیا جاتا تھا، وہی ان کیلئے ڈھال کا کام کرتے اور آقاؤوں کی حفاظت میں اپنی جان ہار جاتے۔ یہ اور اس جیسے نہ جانے کتنے واقعات ہیں،جن سے انسانی تاریخ شرمسار ہے،اور ہرپڑھنے والے کی پر نم آنکھیں اسے حیوانگی ودرندگی کے زمانے سے تعبیر کرتی ہیں۔

اسلامی جنگوں سے صرف جنگیں ہی مقصود نہ تھیں بلکہ حضور ﷺ نے اسے ایک تربیت اور تعلیم گاہ بنا دیا تھا، ہر قدم آپ ﷺ کی اجازت اور آپ کی تعلیمات کی روشنی میں اٹھایا جاتا تھا، پورے نبوی دور میں ایسا کوئی موقع نہیں ملتا، جب حضور اکرم ﷺ کے کسی فرمان کے بغیر کوئی تحریک انجام دی گئی ہو، اور جب جب ایسا کیا گیا تو خدا عز وجل کی جانب سے فورا تنبیہ کردی گئی تھی، جیسا کہ احد اور حنین کا معاملہ تھا، خود جناب رسول ﷺ جب مدینہ منورہ سے فوج روانہ کرتے تھے یا آپ ساتھ سفر فرماتے، تو اپنے اصحاب کو تلقین کرتے تھے، جیسا کہ حضرت سلیمان بن بریدہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو کسی لشکر یا کسی سریہ کا امیر مقرر فرماتے تواسے خاص اس کے اپنے نفس کے بارے میں اللہ عزوجل کے تقوی کی اور اس کے بعدمسلمان ساتھیوں کے بارے میں خیر کی وصیت فرماتے۔ پھر فرماتے: اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں جنگ کرو،جس نے اللہ کے ساتھ کفر کیاان سے لڑائی کرو۔ غزوہ کرو،خیانت نہ کرو،بد عہدی نہ کرو، ناک، کان وغیرہ نہ کاٹو، کسی بچے کو قتل نہ کرو۔۔۔ (مسلم:۲؍۸۲۔۸۳)

اسی طرح آپ ﷺ آسانی برتنے کا حکم کرتے ہوئے فرماتے، آسانی کرو،سختی نہ کرو۔ لوگوں کو سکون دلاؤ، متنفر نہ کرو۔ اور جب رات میں آپ کسی قوم کے پاس پہونچتے تو صبح ہونے سے پہلے چھاپہ نہ مارتے، نیز آپﷺ نے کسی کو آگ میں جلانے سے نہایت سختی کے ساتھ منع کیا۔ اسی طرح باندھ کر قتل کرنے اور عورتوں کو مارنے اورانہیں قتل کرنے سے بھی منع کیا،لوٹ پاٹ سے روکا؛حتی کہ آپﷺ نے فرمایا:لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں۔ اسی طرح آپ ﷺنے کھیتی باڑی تباہ کرنے، جانور ہلاک کرنے اور درخت کاٹنے سے منع فرمایا،سوائے اس صورت میں کہ اس کی سخت ضرورت آن پڑے،  اور درخت کاٹے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو۔ فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے یہ بھی فرمایا: کسی زخمی پر حملہ نہ کرو، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرو،اور کسی قیدی کو قتل نہ کرو۔ نبی اکرم ﷺ نے یہ سنت بھی جاری فرمادی کہ سفیر کو قتل نہ کیا جائے؛ نیز آپﷺ نے معاہدین (غیر شہری) کے قتل سے بھی نہایت سختی سے روکا،یہاں تک فرمایا:جو شخص کسی معاہد کو قتل کرے گا،وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا،حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلے سے پائی جاتی ہے۔(دیکھئے:الرحیق المختوم:۶۷۸ ومابعدہا۔ نبی رحمت:۳۳۳)۔

آج مغربی مفکرین اور مستشرقین کا ایک ٹولہ اسلامی جنگوں اور فوجی کاروائیوں کو ناانصافی پر محمول کرتا ہے اور ا س کے خلاف آئے دن پرو پیگنڈے کئے جاتے ہیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بھی گستاخی کی جاتی ہے، حالانکہ ضرورت ہے کہ وہ خود اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنی گندی سیاست اور پالیسی پر غور کریں، امن کے نام پر عراق، شام، فلسطین، افغانستان اور خلیجی ممالک کے علاوہ متعددممالک پر کئے گئے مظالم کو یاد کریں، ان میں فوت شدہ کی اعداد و شمار پر نظر ڈالیں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے ایٹم بم پر نسل کشی کا جواب دیں، وہاں کی آبادی و سر سبزی و شادابی میں آگ لگادینے کے جرم کا اعترف کریں،ایران،  اور سویت یونین کو لڑوانے والے اور اس خونریزی پر خوش ہونے والے سوچیں، اسرائیل کو ظالمانہ بنیاد پر وجود دینے والے بتائیں کہ فلسطین کے معصوم بچوں، عورتوں اور وہاں کی آبادیوں کے ساتھ ان کا کیا سلوک ہے،پٹرول کو ہتھیانے کے نام پر امن پسند ممالک کو ایک دوسرے سے بھڑادینے والے خود سے ہی سوال پوچھیں! کہ اس ستم ظریقی کی کس نے اجازت دی؟

یہی امن پسند کے ٹھیکیدار دنیا کو دو عالمی جنگوں کی سوغات دے چکے ہیں، اور اپنی خود غرضی و مفاد کی خاطر پوری دنیا کو جنگ کی بھٹی میں دھیکیل دینے والے اورسالہا سال اس آگ کو ہوا دینے والے، حضور اکرم ﷺ کے دس سال کی جنگی کاروائیوں کا حساب کس منہ سے مانگتے ہیں،پہلی عالمی جنگ جو ۱۹۱۴ ؁ء سے ۱۹۱۸ء؁ تک جاری رہی اور دوسری جو ۱۹۳۹ ؁ء سے لیکر ۱۹۴۵ ؁ء تک ان دونوں میں ایک اندازہ کے مطابق نو کروڑ لوگ مارے گئے، معیشت تباہ ہوئی، اخلاق و اقدار کا جنازہ نکل گیا، لوگ دانے دانے کو محتاج ہوگئے، ملکوں کا دیوالیہ نکل گیا اور اس چکر میں نہ جانے کتنوں نے خود کشی بھی کی، اور کیفیت یہ ہوگئی کہ اس نقصان سے ابھرتے ہوئے زمانہ بیت گیا؛لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ان جنگوں سے حاصل کیا ہوا؟ انسانیت کی کونسی تعمیر ہوئی اور ا س سے دنیا کو کیا بلندی اور کیا فوقیت حاصل ہوئی؟اس سوال کا جواب شاید ہی کسی کے بس میں ہو!

یہ تو وہ جنگیں ہیںجو منظر عام پر آئیں، اس کے علاوہ آئے دن امن کے نام پت ملکی سطح پر اور خارجی پیمانے پر بھی کئی کاروائیاں ہوتی رہتی ہیں، خود پاکستان میں دہشت گردی کے الزام میں سینکڑوں مہمیں انجام دی گئیں، جس کے اندر سترہزار سے زاید افراد مارے گئے، یا ڈرون حملوں کے ذریوہ دہشت کو مٹانے کی بات کی گئی ؛لیکن کوئی اندازہ ہے کہ دہشت گردی کا کیا ہوا؟ کیا آج دنیا دہشت گردی سے خالی ہوگئی ہے؟ کیا آج افغانستان کو سترہ سال تک تباہ کرنے کے بعد وہان سلامتی بحال کردی گئی ہے، عراق میں پندرہ سال سے زائد فوجی اڈے اور چھاؤنیاں بنانے کے بعد اسے دہشت سے آزاد کروا دیا گیا ہے؛ بلکہ حقیقیت یہ ہے کہ ان سب کے پیچھے عالمی طاقتوں کا جنون اور ان کا فتور پوشیدہ ہے، جو امن نہیں بلکہ جنگ کے نام پر اپنی فوقیت بحال رکھنا چاہتے ہیں اور یونہی دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونگ کر اس پر اپنی فرعونیت کی روٹی سینکنا چاہتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔