غزوۂ احد: ایک عظیم آزمائش

محمد صابر حسین ندوی

عرب کی جاہلی حمیت و غیرت کا یہ عالم تھا کہ ایک آدمی کا خون سینکڑوں سالہ لڑائی کا سلسلہ چھیڑ دیتا، اور جب تک مد مقابل کو شکست نہ ہو جائے ؛انتقام کو فرض مؤبد جانا جاتا تھا، بدر میں قریش مارے گئے تھے جن میں بڑے بڑے سردار اور سالار و افسرتھے، اس بنا پر تمام مکہ جوش انتقام سے لبریز تھا، قریش کا عظیم تجارتی سامان جو کہ ابھی ابھی مکہ پہونچا تھا، جس میں اکثر اہل مکہ کا بڑا حصہ تھا ؛باہمی اتفاق و مشورہ کے ساتھ ابو سفیان کے پاس گئے، ان میں ابو جہل کا بیٹا عکرمہ، صفوان بن امیہ اور عبداللہ بن ربیعہ سب سے زیادہ پیش پیش تھے، انہوں نے کہا : محمد نے ہماری قوم کا خاتمہ کردیا، اب بدلہ کا وقت ہے، یہ (اہل مکہ) چاہتے ہیں کہ مال تجارت کا سارا نفع انتقام میں جھونک دیا جائے، جس کی مقدار ایک ہزار اونٹ اور پچاس ہزار دینار تھی، اس درخواست پر عرب کے شعراء نے بھی گھی میں آگ کا کام کیا، اور مشہور جاہلی شاعرابو عزہ اورمسافع بن عبد مناف نے لوگوں میں آتش بیانی سے آگ لگا دی، یہاں تک کہ لڑائی میں پاؤں نہ اکھڑ نے اور پیچھے نہ ہٹنے کے لئے عورتوں اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا گیا، ان میں عتبہ کی بیٹی اور امیر معاویہ کی ماں ہندہ خواتین کی سردار بنیں۔

اب پوری تیاری اور جاہ و جلال کے ساتھ ہجرت کے تیسرے سال ماہ شوال کے وسط میں قافلہ روانہ ہوا، حضرت عباس ابھی تک بھلے ہی اسلام نہ لائے تھے، لیکن اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت سینے میں ضرورتھی، انہوں نے تمام حالات لکھ کر ایک تیز رو قاصد کے ذریعہ حضورﷺ تک بھیجا، آپ ﷺ نے اس خبر کی تحقیق انس اور مونس نامی اشخاص سے کروائی، جس میں آپ ﷺ کو یہ بھی خبر دی گئی تھی؛ کہ لشکر مدینہ کے قریب آگیا اور مدینہ کی چراہ گاہ ان کے گھوڑوں نے صاف کردئے ہیں، آپ ﷺ نے خباب بن الارت کو بھیجا ؛کہ فوج کی تعداد کی خبر لائیں، معلوم ہوا کہ کل تین ہزار کی فوج ہے، جن میں پندرہ عورتیں بھی شامل تھیں، سواری و بار برداری کیلئے تین ہزار اونٹ تھے، اور رسالے کیلئے دو سو گھوڑے، اور حفاظتی ہتھیاروں میں سات سو زرہیں تھیں۔ چونکہ شہرمدینہ پر حملہ کا اندیشہ تھا، اس لئے ہر طرف پہرے بٹھادئیے گئے، سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ۔ رات بھر مسجد نبوی کے دروازے پر پہرادیتے رہے۔

صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے تمام صحابہ کرام ؓ یہاں تک کہ رأس المنافقین عبداللہ بن ابی کو بھی جمع فرما کر جنگی حکمت عملی کے بارے میں مشورہ کیا، حضور ﷺ اور اکا برین صحابہ کی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر اسکی حفاظت کی جائے اور دشمنوں کا جواب دیا جائے، یہی رائے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی بھی تھی، لیکن نوخیز مسلمان جو بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے ؛جوش جوانی و ایمانی میں مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کر نے کا مشورہ دیا، حضورﷺ  نے ان نوجوانوں کے ولولوں کو دیکھتے ہوئے انہیں کے مشورے کو ترجیح دی اور گھر میں داخل ہو ئے، اور ذراع پہن کر باہر نکلے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو احساس ہوا ؛کہ انہوں نے آپﷺ کو مجبور کیا، چنانچہ سب نے عرض کی کہ :ہم اپنی رائے سے باز آتے ہیں، اور آپ کے مشورہ کی اطاعت بجا لاتے ہیں؛لیکن دربار رسالت سے ارشاد ہوا: پیغمبر کو زیبا نہیں کہ ہتھیار پہن کر اتار دے۔

اب مسلمان بھی پوری تیاری کے ساتھ ایک ہزار لشکر اور آپ ﷺ کی معیت میں مدینہ سے تشریف لے چلے، اور مدینہ منورہ پر حضرت ابن ام مکتوم کو امامت کی ذمہ سپرد کردی، مگر مدینہ سے کچھ ہی دور پہونچے تھے؛ کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی یہ کہتے ہوئے کہ میری رائے ٹھکرادی اور نوجوانوں کی رائے مانی لی گئی، تین سو آدمیوں کو لے کر واپس لوٹ گیا، آپ ﷺ اب سات سو صحابہ کرام جن میں سو؍۱۰۰؍ذراع پوش تھے لیکر آگے بڑھے، مدینہ سے باہر نکل کر فوج کا جائزہ لیا اور جو کم سن تھے ان کو واپس لوٹا دیا، مگو شوق جہاد کا یہ جذبہ تھا ؛کہ دو کم سن لڑکے(سمرہ بن جندب اور رافع بن خدیج) آپس میں مقابلہ کرواکر فوج میں شریک ہو گئے، فوج کے جائزہ کے بعدجنگی حکمت عملی شروع کی گئی، اور احد پہاڑ کو پشت پر رکھ کر صف آرائی کی، اس طور پر کہ سامنے مدینہ تھا اور پیچھے احد پہاڑ کا بلند وبالا پہاڑ، اس طرح دشمن کا لشکر مسلمانوں اور مدینہ کے درمیان حد فاصل بن گیا، چنانچہ حضرت مصعب بن عمیر کو فوج کا امیر بنایا اور حضرت زبیر بن عوام فوج کے افسر مقرر ہوئے، ذراع پوش فوج کی کمان حضرت حمزہ کو دی، تو وہیں عبداللہ بن جبیر کو پچاس تیراندازوں کے ساتھ احد پہاڑ کے پشت کی جانب مقررکیا یہ حکم دیتے ہوئے کہ: اگر جنگ فتح بھی ہوجائے تب بھی جگہ سے نہ ہٹنا۔

دوسری طرف قریش کو جنگ بدر میں تلخ تجربہ ہو چکا تھا، اس لئے انہوں نے بھی بڑی حکمت کے ساتھ صف آرائی کی، ان کا سپہ سالار ابوسفیان تھا، جس نے قلب لشکر میں اپنا مرکز بنایا، میمنہ پرخالدبن ولید تھے، میسرہ پر عکرمہ بن ابی جہل تھا، سواروں کے دستے پر صفوان بن امیہ اور تیر اندازوں پر عبد اللہ بن ربیعہ  متعین ہوئے، نیزدوسو گھوڑے تیار تھے کہ ضرورت کے وقت کام آئیں، تو وہیں خاتونان قریش دف پر اشعار پڑھی جا رہی تھیں جن میں بدر کے مقتولین کاماتم اور انتقام خون کے رجز تھے۔ لڑائی کے آغاز سے پہلے قریش نے جنگی چال چلی اور اپنے باہمی حرارت کیلئے عبد عمرو بن صیفی کو میدان میں اتارا، جس نے اہل مدینہ اور کا اعتبار حاصل کیا تھا؛ لیکن وہ دراصل خبیث الفطرت شخص تھا، اسی لئے آپ ﷺ نے اسے فاسق کہہ کر پکارا، وہ میدان جنگ میں مسلمانوں کے خلاف تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتا رہا لیکن کامیاب نہ ہوسکا، چونکہ اس پاکدامنی پہلے بہت مشہور تھی اس لئے اس نے آتے ہی میدان میں پکارا :مجھکو پہچانتے ہو!، انصار نے کہا:او بد کار ہم تمہے پہچانتے ہیں، پھر قریش کا علمبردارطلحہ بن ابی طلحہ عبدری صف سے نکل کر پکارا اور دعوت مبارزت دی، حضرت زبیر نکلے اور اس کا کام تمام کر دیا، پھر اس کا بھائی اشعار پڑھتا ہوا آگے بڑھا تو حضرت حمزہ نے اسے ختم کر دیا۔

اب عام جنگ شروع ہوئی، دونوں فریق ایک دوسرے سے گتھ گئے، حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت مصعب بن عمیر فوجوں کی جھنڈ میں گھسے اور بہادری وشجاعت کے ساتھ صف کی صفیں صاف کر دی، حضرت ابو دجانہ آپؐﷺ کی بابرکت تلوار لئے صفوں کو چیرتے جارہے تھے اور لاشوں پر لاشیں گراتے جارہے تھے کہ ہند سامنے آگئی، اس کی گردن تلوار کی نوک سے اٹھائی اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا :کہ حضورﷺ کی تلوار اس قابل نہیںکہ عورت پر آزمائی جائے، حضرت حمزہ دو دستی تلوار مارے جاتے تھے، اور صفوں کو درہم برہم کئے جاتے تھے، لیکن ایک وحشی بن حرب نامی حبشی غلام جس سے جبیر بن مطعم نے وعدہ لیاتھا ؛کہ اگر وہ حمزہ کوقتل کردے تو آزاد کر دیا جائے گا، حبشی نیزہ پھینکنے میںماہر تھا، اور بہت کم ہی اس کا نشانہ چوکتا تھا، وہ حضرت حمزہ کی تاک میں تھا، سامنے آنے پر ایک چھوٹا حبشی نیزہ جسے’’حربہ‘‘ کہتے تھے پھینک کر مارا جو ناف میں لگا اور حضرت حمزہ لڑھک کر گر پڑے، لیکن جنگ ابھی مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں تھی ؛کیونکہ حضرت حنظلہ، علی اور ابو دجانہ حملوں پر حملے کئے جارہے تھے، جس سے مشرکین واپس پیچھے ہٹنے لگے اور مطلع صاف ہونے لگا۔

مگر مسلمانوں نے مال غنیمت اکٹھا کرنے میں جلدی کی اور یہ دیکھ کرتیر انداز جو احد پہاڑ کے پشت پرمققر کئے گئے تھے، حضرت عبداللہ بن جبیر کی فہمائش کے باوجودوہ بھی مال غنیمت کے لئے ٹوٹ پڑے، اس موقع کو خالد بن ولیدنے غنیمت جانا اور پہاڑ کے پیچھے کی طرف سے حملہ بول دیا، عبداللہ بن جبیر چند ساتھیوں کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے ؛لیکن انہیں روکنے کی تاب نہ لا سکے اور سبھی شہید ہوگئے، خالد بن ولیدنے سواروں کے دستے کے ساتھ بے جگری سے حملہ کیا، لوگ مال غنیمت لوٹنے میںمصروف تھے، پلٹ کر دیکھا تو تلواریں برس رہی ہیں، بد حواسی میں دونوں فوجیں اس طرح مل گئی کہ مسلمان ایک دوسرے کو مارنے لگے، اسی حادثہ میں حضرت حذیفہ کیوالد محترم حضرت یمان کو ان کے لاکھ چلانے کے باوجود مسلمانوں ہی نے قتل کر دیا، جس پر انہوں نے صبر کرتے ہوئے ایثار کے جذبہ کے ساتھ صرف اتنا کہا: مسلمانوں خدا تم کوبخش دے۔

حضرت مصعب بن عمیر جو حضورﷺ کی خلقت میں بہت حد تک مشابہت رکھتے تھے، اسی ہل چل و اضطراب میں مارے گئے، اور کسی نے یہ آواز لگا دی کہ حضورﷺ شہید کر دئے گئے، مسلمانوں میں انتشار برپا ہوگیا اور نا امید و مایوس ہوکر ہتھیار پھنکنے لگے، حضرت انس کے چچا ابن نضرؓ نے عمر ؓ سے پوچھا کہ :یہاں کیا کرتے ہو ؟جوابا کہا: اب آگے بڑھ کر کیا کریں ! حضرت (ﷺ) تو شہادت پاچکے، اس پر نضر نے کہا: تو ان کے بعد ہم زندہ رہ کر کیا کرینگے ؟یہ کہہ کر فوج میں گھس گئے اور ۸۰ سے زیادہ تیر، تلوار اور نیزے کے زخم کھا کر شہادت پائی، نعش کی یہ حالت تھی کہ آپ کی بہن نے صرف انگلیوں کی پور دیکھ کر پہچانا، یہ مسلمانوں کے لئے سخت آزمائش و ابتلاء کا دن تھا، دشمنوں کی جرأت اس حد تک ہو گئی کہ :وہ حضور اکرمﷺ تک پہونچ گئے، ان میں عبداللہ بن قمئہ، عبداللہ بن شہاب زہری اور عتبہ بن ابی وقاص پیش پیش تھے، اس درمیان آپ کو ایک پتھر بھی لگا اور دائیں پہلو پر غار میں گر گئے۔ جس سے سامنے والا ایک دانت زخمی ہوا اور سرمبارک پر زخم آیا، ساتھ ہی لب مبارک خون آلود ہوگیا، اس عالم میں بھی آپﷺ خون پونچھتے جاتے اور کہتے جاتے تھے :وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جو اپنے نبی کو زخمی کرے!۔ مسلمانوں کو خبر نہ تھی کہ آپ ﷺ کس جگہ پر ہیں، حضرت علیؓ نے آپ ﷺکو سہاا دیااور حضرت طلحہ بن عبداللہ نے آپ کو اٹھایا، مالک بن سنان نے جوش محبت میں بہتا ہوا خون نوش کر لیا اور ثابت قدمی کے ساتھ پہاڑوں کی چونٹی پر چڑھ گئے، دشمن ادھر نہیں آسکتے تھے، ابو سفیان نے یہ دیکھ فوج لیکر پہاڑی پر چڑھنے کی کوشش کی توحضرت عمر اور چند صحابہ نے پتھر بر سائے، جس سے وہ آگے نہ بڑھ سکے، اس پر ابو سفیان نے پہاڑ کے سطح سے ہی بے جا باتیں کیں، جس کا صحابہ کرام نے منھ توڑ جواب دیا، کوئی راہ نا پاکر ابو سفیان یہ کہتے ہوئے واپس ہوا ’’آج کا دن بدر کے دن کا جواب ہے‘‘۔

قریش جذبۂ انتقام میں اتنے اندھے ہوگئے تھے کہ :مسلمانوں کی لاشوں سے بھی بدلہ لیا اور ان کے ناک، کان کاٹ دئے، ہند نے ان کا ہار بنایا اور گلے میں ڈال لیا، اسی طرح حضرت حمزہ کی لاش کے پاس آئی، ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکالا اور چبا نے لگی؛لیکن گلے سے اتر نہ سکا اس لئے اگلنا پڑا، جنگ کے اختتام پر مسلمانوں کی جانب سے سترآدمی شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر انصار تھے، اور افلاس کا یہ عالم تھا کہ مکمل کفن بھی ان کے پاس نہ تھا، دونوں فوجیں جب میدان سے الگ ہوئیں ؛تو آپﷺ نے جنگی حکمت عملی کے پیش نظر ایک سو ستر صحابہ کی جماعت جن میں زبیر اور ابوبکر بھی شامل تھے، ابو سفیان کے تعاقب کے لئے بھیجا ؛تاکہ وہ دوبارہ حملہ نہ کردیں، حالاںکہ ابو سفان کا یہی ارادہ تھا، لیکن آپ ﷺکی حکمت کے آگے پسپاہوگیا، بالآخر حضور ﷺ مدینہ تشریف لائے توپورے مدینہ میں ماتم پھیلا ہوا تھا، ہر طرف رونے کی آواز آرہی تھی؛ خود آپ ﷺکو حضرت حمزہ کی محبت میں رقت طاری تھی، ان سب کے باوجود صحابہ وصحابیات نے جاں نثاری وصبر و ایثار اور قربانی کی وہ مثال پیش کی؛ کہ جس سے پوری انسانی تاریخ قاصر ہے، صرف یہی زبان زد رہا:

کل مصیبۃ بعدک جلل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﷺ۔

تبصرے بند ہیں۔