غفلت میں جینے والو

احساس نایاب

غفلت میں جینے والو دیکھو تو ایک نظر

قبر بلائیگی نہ عمر اور حیثیت دیکھ کر

وہ عید کی نورانی صبح تھی جو رات بھر کے لمبے انتظار کے بعد سورج کی پہلی کرن، چڑیوں کی حمدوثنا اور ہواؤں میں تازگی لئے ہرسو رحمت بکھیر رہی تھی۔ ہم بھی نیم خم آنکھیں ملتے ہوئے خوشی خوشی بستراستراحت کو الوداع کہہ کر اپنے کاموں میں لگ گئے، کیونکہ عید کا دن ہوتا ہی مصروفیت سے بھراہوا، ڈھیر سارے کاموں کے بیچ مہمانوں کا آنا جانا، طرح طرح کے پکوان تیار کرنا، عزیزواقارب،دوست احباب کاآنااورپھر سب سے فارغ ہوکر کچھ خاص دوست احباب سے ملاقات کے لئے جانا،یہ سب عیدکے دن کاعمومی معمول ہوتاہے۔ اور ان سب سے بڑھ کریہ کہ گھر کے تمام مرد حضرات کو صبح عید کی نماز کے لئے عیدگاہ بھی جاناہوتاہےجسکی وجہ سے گھڑی کی سوئی چلتی نہیں دوڑنے لگتی ہے۔

اسی بات کو ذہن میں رکھ کر ہم بھی جلدی جلدی تیار ہوگئے اور فجر کی نماز کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں شکرانہ ادا کیا، رمضان کے ساتھ عید کا دن جو ہمیں نصیب ہوا تھا اور آج کے دن ہر مسلمان کی طرح ہم بھی بہت پرجوش تھے۔ خوشی خوشی ایک کے بعد ایک اپنے کاموں سے فارغ ہورہے تھے۔ گھر کی صاف صفائی کرنے کے بعد ہم نے کچن کا رخ کیا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سب سے پہلے میٹھی سوئیاں بنائی، پھر ناشتہ کی تیاری کرہی رہے تھے کہ گھر کے باقی افراد بھی جاگ گئے اور وہ بھی عیدگاہ جانے کے لئے تیار ہونے لگے۔ سبھی نے ساتھ بیٹھ کرہلکاپھلکا ناشتہ کیا اور سوئیاں کھا کر تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ کے لئے نکل گئے۔ سبھی کو سفید لباس میں نماز کو جاتا دیکھ کر ہمیں روحانی خوشی محسوس ہورہی تھی، آخر یہ منظر ہوتا ہی کچھ ایساخوشنماہےکہ ہرطرف روحانیت اورنورانیت بکھرجاتی ہے۔ چاروں طرف مساجد میں اللہ اکبر کی سدا گونجتی ہے، جسے سنکر ہر مسلمان کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے،خود پہ فخر محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں مسلمان کے گھر پیدا کیا اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بناکر بھیجا۔سبھی کے رخصت ہونے کے بعد ہم واپس گھر میں داخل ہوہی رہے تھے کہ پڑوس سے زوردار چیخنے کی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی جسے سنکر ہم گھبرا گئے، دل دہل گیا،فورا بالکنی سے جھانک کر چیخ کی وجہ جاننی چاہی تو نیچے کے منزل والی حسینہ خالا نے کہا کہ کچھ نہیں یہ آواز تو مہک کے گھر سے آئی ہے، شاید بچے ادھم کود مچارہے ہونگے، انہیں نہ رمضان کا لحاظ تھا نہ عید کے دن کا، جب دیکھو اسی طرح کا شور وغل ان کے گھرکامعمول ہے، یہ کہتے ہوئے حسینہ خالا طنزیہ لہجے میں چڑچڑاتے ہوئے اورہمیں کچھ نہ ہونے کا یقین دلاتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہوگئیں اور ہم بھی دروازہ بند کر کے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔

لیکن پتہ نہیں کیوں عجیب سی بے چینی اور گھبراہٹ ہورہی تھی، دل ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ کچھ ہوا نہیں ہے، بس رہ رہ کر مہک کی یاد آرہی تھی، کیونکہ چیخ بچوں کی نہیں بلکہ مہک کی آواز میں تھی، مگر عید کا دن ہونے کی وجہ سے ہم جا بھی نہیں سکتے تھے،آخر لوگ کیا سمجھیں گے کہ اس عورت کو عید کے دن بھی ادھر ادھر گھومنے کے سوا کوئی کام نہیں ہے، یہی سوچ کر ہم نے جانا بہتر نہیں سمجھا ویسے بھی حسینہ خالا کا گھر مہک کے گھر سے زیادہ قریب ہے،خیر خود کو دلاسہ دیتے ہوئے ہم  دوبارہ اپنے کاموں میں مگن ہوگئے۔ کاموں میں مصروف ہونے کہ باوجود بھی رہ رہ کر وہ چیخ ہمارے کانوں میں گونج رہی تھی، جیسے وہ ہمیں کچھ کہنا چاہتی ہے، ہمیں بلارہی ہے،آخر کار ہم سے رہا نہیں گیا، جی بہت گھبرارہا تھا، اسلئے ہم نے فون کرنے کا فیصلہ کیا، جلدی جلدی مہک کے نمبر پہ کال کیا، لیکن کافی دیر تک گھنٹی بجنے کے بعد بھی دوسری طرف سے کال ریسیونہیں ہواتو ہمیں خود کی بیوقوفی پہ ہنسی آنے لگی، کیونکہ عید کے دن تمام عورتیں اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتی ہیں اور ہمارا اسطرح بار بار کال کرنا کہیں مہک کو برا نہ لگ جائے یہ سوچ کر ہم نے اپنے دل کو منالیا کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور ہم دوبارہ کچن میں چلے گئے، انہیں کاموں کے بیچ وقت کیسے گذرا پتہ ہی نہیں چلا۔ جب کاموں سے فراغت ہوئی تو دیوار پہ لگی گھڑی پہ نظر پڑی، دوپہر کا ایک بج رہا تھا، اتنا وقت ہوتا دیکھ کر ہم پھر سے پریشان ہوگئے کیونکہ عیدگاہ سے مردحضرات ابھی تک لوٹے نہیں تھے۔ عیدگاہ سے لوٹنے میںاتنی دیر توکبھی نہیں ہوتی تھی، نماز کے فوراً بعد دوستوں سے مصافحہ کرکے لوٹ آتے ہیں، لیکن آج اتنی دیر، پتہ نہیں کیوں ؟

آج صبح سے سب کچھ عجیب ہورہا تھا ایک تو صبح کی چیخ اور ابھی عیدگاہ سےمرد حضرات کا نہ لوٹنا دل بے چین ہو اٹھا، جیسے کہیں کچھ ہونے والا ہے۔ ہم نے اپنا موبائل اٹھایا اور اپنے کزن بھائی کو کال کرنا چاہا لیکن ان کا موبائل بھی سوئچ آف بتارہا تھا، ایک تو ٹینشن اوپر سے موبائل کا سوئچ آف ہونابہت جان لیوا تھا، دوسرے نمبر پہ کال کرنا چاہا تو سبھی کے موبائل گھر پہ ہی تھے، ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہم کیا کریں؟ کس سے دریافت کریں؟ آخر اتنی تاخیر کیوں ہوگئی؟ ایک تو ٹینشن اور اس سے بڑھ کریہ دل بہت گھبرارہاتھا جسکی وجہ سے ہمیں شدید غصہ بھی آرہا تھا، ہرسال تو جلد ہی لوٹ آتے ہیں، لیکن آج اتنی دیرکیوں؟ اگر دیرکرنی ہی تھی تو اطلاع تو کردیتے، یہی بڑبڑاتے ہوئے باہر کا جائزہ لینے کے لئے ہم بالکنی میں واپس آئے اور ادھر اُدھر کا جائزہ لے ہی رہے تھے کہ مہک کے گھر میں لوگوں کی بھیڑ جمع نظر آئی، ہم نے جلدی سے حسینہ خالا کو کال کیا اور باہر آنے کے لئے کہا، ہمارے کہنے پہ حسینہ خالا بھی باہر آگئیں اور وہ بھی مہک کے گھر میں جمع بھیڑ دیکھ کر پریشان ہوگئیں، ہم اور حسینہ خالا کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے کہ اس سے پہلے دروازہ پہ دستک ہونے لگی، ہم نے دھڑکتے دل اورلرزتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا تو دروازہ پہ ہمارے چچازاد بھائی سلیم تھے، انہیں دیکھ کر ہماری جان میں جان آئی لیکن ان کے چہرے پہ غم اور اداسی کے بادل چھائے ہوئے تھے، انہوں نےبڑے پریشان لہجہ میں مہک کے بارے میں بتایا کہ باجی پڑوس کی مہک آپا صبح فرش پر پیر پھسلنے سے گرگئیں، سرمیں شدید چوٹ لگنے کی وجہ سے کان ناک سے خون لگاتار بہہ رہا ہے، یہاں تک کہ ڈاکٹر نے بھی جواب دیدیا ہے۔

سلیم کی باتیں سنکر ہمارے ہوش اڑگئے،کانوں میں صبح کی چیخ دوبارہ گونجنے لگی، مہک کا ہنستا کھلکھلاتا چہرہ آنکھوں کے سامنے آگیا اور ہم خود پہ قابو نہ پاسکے، فورا حجاب پہنا اورلرزتے قدموں سے مہک کے گھر کی طرف چل پڑے، جیسے جیسے ہم قدم بڑھارہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ شدت غم سے ہمارے قدم بوجھل ہوگئے ہیں، پیروں میں کسی نے بھاری بھاری پتھرباندھ دئے ہیں،بڑی مشکل سے جیسے تیسے بھاگتے، گرتے پڑتےمہک کے گھرتک پہونچےاور بے خودی کے عالم میں لوگوں کی بھیڑمیں راستہ بناتے ہوئے جب ہم گھر کے اندر داخل ہوئے تو سامنے کا منظر دیکھ کر ہمارے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی، مہک جو آدھی رات تک ہمارے ساتھ تھی، ہم دونوں ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے ہوئے دیر رات تک ہاتھوں میں مہندی لگاتے رہے، عید کی تیاریوں کے سلسلے میں ڈھیر ساری باتیں کی، ہنسی مذاق کرتے ہوئے ایک دوسرے کو چھیڑ رہے تھے، آج وہی مہک خون سے تربتر ہماری نظروں کے سامنے اپنی بے جان پڑی تھی،اس کی ابترحالت دیکھنے کے بعد ہمارا جسم تھرتھر کانپنے لگا، آنکھیں پتھراگئیں اور آنسوؤں نے سیلاب کی شکل اختیار کرلی، ہمارا درد، ہمارا خوف، ہماری گھٹن ہمارے ہی اندر چیخ وپکار کرنے لگی، ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ابھی ایک ہی پل میں ہماری بھی سانسیں دب جائیں گی، ہم لڑکھڑاکر گرنے ہی والے تھے کہ پاس میں کھڑی حسینہ خالا نے ہمیں تھام لیا اور دیوار کا سہارا دیکر ہمیں ایک کونے میں بٹھادیا۔ہم مہک کے بےجان جسم کو لگاتار گھور رہے تھے، آخر مہک ہماری خاص سہیلی جو تھی، اور ہم دونوں اکثر ہر جگہ ساتھ رہا کرتے تھے، بہت پیاری اور زندہ دل تھی مہک، پہننے، اوڑھنے اور کھانے پینے کا بہت شوق تھا، ہمیشہ ہم سے یہی کہتی کہ فوزیہ جب تک اللہ نے زندگی دی ہے زندہ دلی سے جی لو، گھومو، پھرو،کھاؤ، اچھے لباس پہنو، تاکہ مرتے وقت کوئی خواہش باقی نہ رہ جائے۔ کل کا کیا پتہ کہ کب موت آجائیگی؟ تو ہم مہک کی اس بات پہ مسکراتے ہوئے ان سے یہ کہتے کہ اللہ کی بندی!

ہماری جان جب مرنے کا اتنا یقین ہے، تو رمضان کے روزے بھی رکھ لو، گھومنے، کھانے، شاپنگ کے ساتھ ساتھ تھوڑا اللہ کو بھی تو یاد کرلو، ہماری اس بات پہ وہ ہنستے ہوئے کہتی کہ فوزیہ میری جان اگلا رمضان آئے گا، نہ اُس وقت پورا رمضان، عبادت اور روزوں میں گذارونگی ابھی عمر ہی کیا ہے، ہم مہک کی ان باتوں پہ تعجب ہوکر انہیں دیکھتے رہے، تھوڑی دیر پہلے موت کو یاد کرنے والی ابھی اگلے رمضان میں عبادت کی بات کررہی تھی، خیر مہک سے باتوں میں جیتنا ہمارے بس کی بات نہیں تھی، اسلئے ہم اکثر ایک دو بار کہہ کر خاموش ہوجاتے،لیکن آج نظروں کے آگے مہک کی لاش کو دیکھ کر ہمیں انکی ایک ایک بات یاد آرہی ہے، وہ عید کو لیکر کتنی خوش تھی، شعبان سے انہوں نے عید کی تیاریاں شروع کردی تھی اور رات میں ہم دونوں نے ساتھ بیٹھ کر مہندی بھی لگوائی تھی، اسی دوران عید کو لیکر ان کے اتاولے پن کو دیکھ کر ہم نے انہیں چڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ عید تو روزہ داروں کے لئےہے، آپ کیوں اتنے انتظار میں ہو ؟

ہماری اس بات کا جواب مہک نے کچھ ایسا دیا کہ فوزیہ جان عید تو انہیں کی ہے جنہوں نے اسکی تیاری میں اسکے انتظار میں پورا بازار خریدا ہو، مہک کی باتیں سنکر ہم ہنسنے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکے اور اسی طرح ہم دونوں ہمیشہ کسی نہ کسی بات کو لیکر ہنستے رہتے، لیکن اُس وقت ہم نے یہ بالکل بھی نہیں سوچا تھا کہ اس قدر ہنس مکھ، ہماری اتنی پیاری سہیلی آج ہماری ہی نظروں کے سامنے اپنی زندگی کی آخری سانس لے گی، وہ بھی صرف پیر پھسلنے کی وجہ سے، جو جسم نہ کبھی بیمار ہوا اور نہ ہی کبھی بخار تک آیا ایسے جسم کو بھی ایک دن بےجان ہونا ہے، اس حقیقت کو دل ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھا، دل تو کررہا تھا کہ مہک کو آواز دیکر اٹھائیں، یا وہ خود تھوڑی ہی دیر میں اُٹھ کر ہمیں پکاریں گی، لیکن نہیں ہم خود کو جھوٹی امید دلارہے تھے، آج ہماری مہک ہم سے ہمیشہ کے لئے دور ہوگئی ہے وہ اب کبھی ہمارے پاس نہیں آئیگی نہ ہی کبھی ہمیں چڑھائیگی، اب ہمارے درد کا باندھ ٹوٹنے لگا، ہماری گھٹن ہچکیاں بن کے نکلنے لگیں، جب ہم نے مہک کے مہندی سے رچے سرخ ہاتھوں پہ خون کی سرخی کو بکھرے ہوئے دیکھا،جب ان کے جسم کو نہلانے کے لئے اٹھایا جارہا تھا تو چہرے پہ پڑا کپڑا کھسکنے سے انکا چہرہ نظر آیا، وہ چہرہ جو دو دن پہلے عید کے لئے ہزاروں روپیہ خرچ کرکے مہنگے پارلر میں مساج فیشیل بلیچ وغیرہ کروایا ہوا تھا، جسکی وجہ سے چہرہ چاند کی مانند چمک رہا تھا وہ ایک ہی پل میں بے نور ہوچکا تھا، سر پہ چوٹ لگنے کی وجہ سے پورا چہرہ نیلا پڑچکا تھا، سارا حسن آخری سانس کے ساتھ ختم ہوچکا تھا، اس مٹی کے جسم نے آج اپنی پہچان تک کھودی تھی جو کچھ دیر پہلے سب کے لئے ہر دل عزیز تھا، ماں باپ کی لاڈلی بیٹی، شوہر کی زندگی، بچوں کی ماں تھی وہ آج اپنے ہر رشتے کی پہچان کھوچکی تھی، یہاں تک کہ پیدائش کے فورا بعد کان میں اذان پکار کے جو نام رکھا گیا تھا، جو ساری زندگی انکے وجود کی پہچان تھا آج وہ بھی ختم ہوچکا تھا اور مہک آج مہک سے صرف ایک میت بن کر رہ گئی تھی۔ مہک کہلانے والی ہنستی کھلکھلاتی سہیلی جو حقیقت میں مہک ہی تھی جہاں بھی جاتی اپنے حسن، اپنی گفتگو اور اپنی زندہ دلی سے ہر محفل ہر ویرانے کو مہکادیتی۔

آج اسی کا گلشن ویران ہوچکا تھا اور اس مہک کو میت کے نام سے بلایا جارہا تھا، سارا حسن ایک ہی پل میں فنا ہوچکا تھا، جو پورا رمضان عبادتوں کو چھوڑکے، روزوں کو ترک کرکے صحت کے نام پہ عید کی تیاریوں میں گذرا تھا وہ ساری کی ساری تیاریاں دھری کی دھری رہ گئی، جن بچوں،شوہر اور دوست احباب کی خوشیوں کی خاطر ڈھیر ساری شاپنگ کررکھی تھی وہ سارا سامان ایک کونے میں بکھرا پڑا تھا، اس سے جڑی انکی خوشی، سارے ارمان مرگئے تھے، پورے گھر میں خوشیوں کی جگہ ماتم پسرا ہوا تھا اور دنیائے فانی کی حقیقت دیکھ کر ہر آنکھ اشک بار تھی، جس حسن، دولت، شہرت والی زندگی پہ ہر کسی کو ناز ہوا کرتا ہے، آج اُس کی اوقات نظروں کے آگے تھی اور ہر انسان اس حقیقت کو ماننے پہ مجبور تھا کہ زندگی پانی کے بلبلے سے بڑھ کر کچھ نہیں، اسکو جتنی بھی محبت سے اپناؤ، یہ ایک نہ ایک دن ختم ہونی ہے، مٹی سے بنا جسم لاکھ سنواریں سجائیں، ایک دن اس کو لحدمیں سونا ہی ہے، چھوٹی سی چیونٹی اور مچھر کے کاٹنے کا درد برداشت نہ کرنے والے اس جسم کو ایک دن کیڑے مکوڑوں کی خوراک بننا ہی ہے۔

 اس لئے اس فانی دنیا کی چاہت کو اس قدر خود پہ حاوی نہ ہونے دیں کہ حقیقی زندگی کو ہی بھلادیں، کیونکہ دنیا میں ہر انسان کی آخری منزل قبر ہے، جہاں پہنچنے کے لئے اس کو مال وزر یا نام و شہرت اور حسن کام نہیں آئے گا بلکہ اسکی منزل کے لئے اسکے اعمال ہی اسکے ساتھ ہوں گے، ابھی تو ہم دنیا کی محبت میں اندھے ہوچکے ہیں، غفلت میں ڈوب چکے ہیں، لیکن وہ دن دور نہیں جب ہمیں اللہ کے حضور کھڑے رہنا ہے اور وہاں ہمارے اعمال کی ذمہ داری صرف ہم پہ ہوگی، نہ ماں باپ ساتھ آئینگے نہ دوست احباب ساتھ ہونگے، بس وہاں تو ہمیں اندھیرے لحد میں تنہا لیٹنا ہوگا اور ہماری عبادات، ہماری نیکیاں اور بدیوں کے بیچ کا ماپ تول ہوگا اور ہمارے جسم کے ہر اعضاء کو زبان دی جائیگی، جو ہمارے اعمال کی صحیح گواہی دیں گے،اس لئے وقت رہتے اپنے اعمال کو نیک بنالو تاکہ موت بھی آئے تو ہم تیار رہیں اور ہنستے ہنستے اللہ کے حضور کھڑے رہیں،جنت کے باغات کے مزے لے سکیں اور ہمیں وہاں اپنے گناہوں، اپنی غلطیوں کی وجہ سے شرمندگی، رسوائی اور جہنم کا عذاب نہ جھیلنا پڑے کیونکہ اُس وقت تک تمام مواقع ختم ہوچکے ہوں گے۔

تبصرے بند ہیں۔