فتنۂ ارتداد: اسباب اورذمہ داریاں

اختر جلیلی ندوی

 روئے زمین پرجتنے بھی ادیان ہیں ومذاہب اوراقوام وملل ہیں ، ان سب کاسررشتہ اصلاً اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سے ہے؛ لیکن گردشِ لیل ونہارکی کروٹوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے ازلی دشمن’’ابلیس‘‘ نے اپنے پیروکاروں کی مددسے ان ادیان ومذاہب اوراقوام وملل کے اندرایسی تحریفات کردیں کہ اگر ان کے اجدادواپس آجاتے تواپنے دین کوپہچان ہی نہیں سکتے اوراس طرح خالق ِکائنات سے ان کارشتہ کاٹ کررکھ دیا کہ لوگ بھولے سے بھی اپنے پرانے حقیقی دین کاخیال تک نہیں لاتے۔

 اس وقت جودین سطح ِزمین پر اپنی اصل شکل وصورت اورہیئت وہیولیٰ کے ساتھ موجودہے، وہ ’’اسلام‘‘ کے نام سے معروف ہے، جس کی صحت وحقانیت پردلیل خود خالقِ ارض وسمانے قائم فرمائی ہے، ارشادہے: بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین تواسلام ہی ہے‘‘ (آل عمران: 19)، پھراس دین کی تکمیل کااعلان بھی فرمایا:’’آج ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کومکمل کردیاہے‘‘(المائدۃ: ۳)، نیز اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خودہی اپنے سرلی ہے، ارشادہے: ہم نے ہی اس کواتاراہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ‘‘(الحجر:9)۔

دین ِاسلام کی تکمیل وحفاظت کے بعدتمام لوگوں کومخاطب کرکے بتلایاکہ:’’میرایہ راستہ بالکل سیدھاہے، لہٰذاتم سب اس کی پیروی کرو‘‘(الأنعام: 153)، اس کی پیروی کے بغیر چارۂ کارنہیں ، دنیاکاکوئی بھی انسان ہو، ابدی زندگی کاسکون حاصل کرنے کے لئے اسے اسی دین کی پیروی کرنی ہوگی؛ کیوں کہ صنّاعِ عالم کے نزدیک اس کے علاوہ کوئی دوسرادین قابلِ قبول ہی نہیں ، ارشادہے: ’’اورجوشخص اسلام کے علاوہ دین چاہتاہے تووہ اس سے قبول نہ کیاجائے گا اوروہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا‘‘(آل عمران: 85)۔

 اب دنیاکاکوئی بھی فردہو، امیرہویاغریب، فقیرہویاغنی، بادشاہ ہویارعایا، خواہ اس شخص کی طوطی چہاردانگِ عالم میں بولتی ہو، یا اس کی حکومت کی وسعت افلاک کے کناروں تک ہو، خواہ بحروبراس کے زیرنگیں ہو، وہ ستاروں سے آگے جاکرپرچم لہرائے یاسمندرکی تہوں میں آبادیاں بسائے، ایٹمی طاقتوں کاکتناہی بڑامالک کیوں نہ ہو؟ دین اسلام کو اپنائے بغیراس کی کشتیٔ نجات ساحل تک نہیں پہنچ سکتی۔

 لہٰذا جولوگ دین اسلام کے پیروکارہیں ، انھیں ہرگزہرگز کوئی دوسرادین اختیارنہیں کرناچاہئے، جولوگ ایساکرتے ہیں ، وہ دراصل دین سے ناواقف اوراسلامی تعلیمات سے ناآشناہیں ، انھیں اسلامی تعلیمات کے حصول کے لئے اسی طرح فکرمندہوناچاہئے، جس طرح دانہ دُنکاکے لئے فکرمندہوتے ہیں ، اسلا م کے علاوہ جتنے بھی ادیان ہیں ، ان کے اندرخواہ کتنی ہی خوبیاں نظرآئیں ؛ لیکن حقیقت میں وہ جہنم کی طرف لے جانے والے راستے ہیں ؛ اس لئے اسلام کے علاوہ دین اختیارکرنے سے بچناچاہئے۔

گزشتہ دنوں کئی علاقوں سے ارتدادکی خبریں (بالخصوص لڑکیوں کے سلسلہ میں )آئیں ، جویقیناً تشویش ناک ہیں ؛ لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہماری بچیاں ارتداد کا راستہ اختیارکیوں کررہی ہیں ؟ بہت ہی غوروخوض کے بعد راقم کے سامنے درج ذیل جوابات آئے:

 1-  اصل دین سے ناواقفیت:  ارتدادکاراستہ اختیارکرنے والیاں نام کے اعتبارسے اورموروثی طورپرمسلمان ہیں ، وہ تمام امورکی انجام دہی ایک رسم کے طورپرکررہی ہیں ، انھیں معلوم نہیں کہ جواعمال کئے جارہے، ان کی حیثیت کیاہے؟ کس کے حکم سے انجام دئے جارہے ہیں ؟ اگران امورکی انجام دہی نہیں کی گئی تواس کانتیجہ کیاہوگا؟ یہ سب انھیں معلوم نہیں ، وہ توبس وہی کام کرتی ہیں ، جوانھوں نے اپنے اباء واجدادکوکرتے دیکھاہے، یہی وجہ ہے کہ جب انھیں ان کے غلط عمل پرٹوکاجاتاہے تووہ بے دھڑک کہہ دیتی ہیں کہ ہمارے باپ دادا ایسا ہی کیاکرتے تھے؛ بل کہ الٹا سوال کربیٹھتی ہیں کہ کیا وہ سب بے وقوف تھے؟ کیاان کے تمام اعمال غلط تھے؟

  2-  اسلامی تعلیمات سے بے گانگی:  کچھ بچیوں کویہ توپتہ ہوتاہے کہ مسلمان ہیں ؛ لیکن وہ اسلامی تعلیمات سے بالکل ناواقف ہوتی ہیں ، نماز، روزہ جیسے اہم ارکان سے بھی نابلد ہوتی ہیں ، چہ جائیکہ انھیں یہ معلوم ہوکہ اسلام نے عورتوں کوکیاحقوق دئے ہیں ؟ زمانۂ جاہلیت اورخودموجودہ زمانہ میں دوسرے مذاہب میں ان کے ساتھ کیاکیاناانصافیاں ہوتی رہی ہیں ، ان سے مکمل طورپرناآشناہیں ، ظاہرہے کہ ایسے میں انھیں اسلامی تعلیمات کی کیاقدرہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ جب ان کے سامنے ظاہری اعتبارسے عقل کے خلاف کسی اسلامی حکم پراعتراض کیاجاتاہے توخاموش ہوجاتی ہیں اورمعترض کی معترف ہوجاتی ہیں۔

 3-  مخلوط تعلیم:  ارتدادکاایک بڑاسبب مخلوط تعلیمی نظام بھی ہے؛ کیوں کہ صرف لڑکے لڑکے لڑکیوں کاہی اختلاط نہیں ہوتا؛ بل کہ مسلم وغیرمسلم کے درمیان بھی ایسا اختلاط پایاجاتاہے کہ دینی فرق ہی باقی نہیں رہتا، جس کے نتیجہ میں ’’عبادت‘‘ اور’’پوجا‘‘ کے مابین کوئی امتیاز نہیں ہوتا، ہرایک دوسرے کی عبادت اورپوجامیں شریک ہوتاہے، بالخصوص مسلمان غیر مسلم کے تمام مذہبی امورمیں شریک ہوتاہے، جب کہ غیرمسلم عام طورپرمسلمان کے دینی اعمال میں شریک نہیں ہوتا(البتہ اکل وشرب کے بعض پروگراموں میں شریک ہوتاہے)؛ اس لئے مسلمان کے ذہن میں غیراسلامی امور بھی ناپسندیدہ نہیں لگتے ،پھر اکثراسکولوں کانصاب ہی ایساہے، جوذہنی شکوک وشبہات میں مبتلاکردے، اسی طرح بے حیائی اتنی عام ہے کہ ایک دوسرے سے کسی اعتبارسے کسی قسم کافاصلہ نہیں رکھاجاتا، ان چیزوں کی وجہ سے لڑکیاں اسلام اورغیراسلام دونوں کوایک ہی خانہ میں رکھ دیتی ہیں اور ارتداد کاراستہ چن لیتی ہیں ۔

4-  غیرمسلموں کے ساتھ یارانہ:  آج کے ’’فرینڈشپ‘‘ کلچرمیں غیرمسلموں کے ساتھ دوستی گانٹھنے کوبرانہیں سمجھاجاتا؛ حالاں کہ اسلامی حکم یہ ہے کہ ’’ مؤمنین کوچاہئے کہ وہ مؤمنین کوچھوڑکرکافروں کودوست نہ بنائیں ‘‘(آل عمران: 28)، انسانیت کی بنیاد پر تعلق رکھناکوئی بری بات نہیں ؛ لیکن ایسی ’’دوستی‘‘ کرنانادرست ہے،جس میں رازہائے سربستہ دوست کے سامنے کھول کررکھ دیاجاتاہے اورمحرموں کی طرح گھرکے اندرآناجانا جائزسمجھاجاتاہے؛ کیوں کہ عموماً یہ دوستی شیطانی چال کاشکارہوکر’’پیار‘‘ کا روپ دھارلیتی ہے، جو ارتدادکاراستہ دکھاتی ہے۔

5-  حرص ولالچ:   مادیت کے اس دورمیں دولت کی حرص انسان سے نہ جانے کیاکیاکرالیتی ہے! چنانچہ کچھ لوگ(جن میں غربت کی ماری لڑکیاں بھی ہیں ) ہم میں سے ایسے ہیں ، جوحرص ولالچ کی خاطر’’باقی رہنے والی زندگی‘‘ کو ’’ختم ہونے والی زندگی‘‘ سے بیچ دیتے ہیں اوردنیاکے چندسکوں کے بدلہ ارتدادکاراستہ اپنالیتے ہیں ۔

 6-  غیرمسلم شدت پسندتنظیموں کاخوف ودباؤ:  جن علاقوں میں مسلمانوں کی تعدادبہت ہی کم ہیں ، ان میں سے بعض علاقوں میں غیرمسلم شدت پسندتنظیمیں مسلمانوں کوڈراتے دھمکاتے ہیں ، جس کے دباؤ میں آکربسااوقات ان علاقوں کے مسلمان ارتدادکا راستہ اختیارکرلیتے ہیں ۔

 7-  سلیبریٹیز کی غیرتفریق شادیاں :   آج کل چوں کہ ہرلڑکی(بالخصوص اسکول وکالج میں زیرتعلیم ) کے ہاتھ میں انرائیڈموبائل ہوتاہے، جس میں زیادہ ترالّم غلّم چیزیں مشاہدہ کی جاتی ہیں ، انھیں میں بعض ایسی فلموں کابھی مشاہدہ ہوتاہے، جن کے اسکرپٹ میں مسلم وغیرمسلم کے درمیان شادیاں دھوم دھام سے رچائی جاتی ہیں ، اسی طرح ان فلموں کے ہیروز اورہیروائنس کی ریل لائف میں مسلم وغیرمسلم کے فرق کے بناشادیاں رچائی ہوئی ہیں ، بعض لڑکیاں ان چیزوں سے متاثرہوکرارتداداختیارکرنے میں حرج نہیں سمجھتیں ۔

 یہ اوران جیسے اسباب کی بنیادپرلڑکیاں زیادہ ترارتدادکااراستہ اختیارکررہی ہیں ، ایسے حالات میں ہرمسلم فردکی ذمہ داری ہے، خواہ وہ عالم ہویا عصری تعلیم یافتہ، دعوت وتبلیغ سے جڑاہواہویا کسی اورادارہ وتنظیم سے کہ وہ میدان میں اترے اورارتداد اختیارکرنے والی لڑکیوں کے ایمان کی حفاظت کرے، اس وقت یہ کام حمرالنعم(سرخ اونٹ) کے صدقہ کرنے سے زیادہ اہم اورضروری ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ مساجدکے مکاتب کے نظام کومستحکم کرناضروری ہے، اگرضرورت پڑے توذمہ دارانِ مساجد الگ سے معلمین کاانتظام کریں ، نیز معلمین اس کوایک اہم دینی فریضہ سمجھتے ہوئے ’’پروفیشنل‘‘ طریقہ پرنہ پڑھائیں اوربالحضوص عقائد پرزیادہ زوردیاجائے، آج کل دیکھایہ گیا ہے کہ مکاتب میں عقائد کی طرف توجہ نہ کہ برابردی جاتی ہے، جب کہ دعائیں اورسورتیں وہ بھی ترجمہ کے ساتھ یادکروائی جاتی ہیں ، یہ عمل اپنی جگہ پربالکل درست؛ لیکن ایمان کے بغیردعائیں کس کام کی؟ اس لئے عقائد کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  مسلم معاشرہ کے جوباحیثیت افرادہیں ، انھیں چاہئے کہ علماء کی نگرانی میں ایسے اسکول قائم کریں ، جہاں مخلوط تعلیم نہ دی جاتی ہو، اگرخودقائم نہیں کرسکتے توجولوگ ایسے ادارے قائم کرنے کاارادہ رکھتے ہیں ، انھیں مالی تعاون فراہم کریں ۔

 مسلم معاشرہ میں ایک رواج جلسے جلوس کا بھی ہے اوریقیناً یہ ایک مبارک کام ہے؛ لیکن دیکھایہ جاتاہے کہ جلسے کے لئے ’’پیشہ ورانہ مقررین‘‘ کاانتخاب ہوتاہے، جو صرف لچھے دارتقریریں کرکے چلے جاتے ہیں اوربس، اس کے لئے ہزاروں اورلاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں ، کیاایمان کی حفاظت کے لئے دس پندرہ ہزارروپے بھی خرچ نہیں کئے جاسکتے؟ یقیناً کئے جاسکتے ہیں ؛ لیکن اس کے لئے دردمندی اورفکرمندی پیداکرنے کی ضرورت ہے۔

 موجودہ حالات کے پس منظرمیں علماء کی ذمہ داری دوچندہوجاتی ہے کہ وہ گاؤں گاؤں جائیں اورماحول کاجائزہ لیں ، پھردینی تعلیم کورواج دینے کی کوشش اہل محلہ کے ساتھ مل کرکریں ، خواتین میں خصوصاً بیان کریں اورانھیں دین کی باتیں بتائیں ، اس سلسلہ میں اہل مدارس بھی بھرپورتوجہ دیں ، ایک ایک علاقہ میں طلبہ کو بھیجنے کی ہفتہ واری ترتیب بنائیں ، جس کے لئے پہلے طلبہ کوٹریننگ دیں ، اسی طرح درس قرآن اوردرس حدیث کے سلسلے جاری کریں ، نیز قرب وجوارکی مسجدوں میں اگرائمہ عالمنہ ہوں (صرف حافظ ہوں ) توجمعہ کے دن خطابت کی ترتیب بھی بنائیں ، جن علاقوں کے بارے میں ارتدادکی اطلاع ملے، وہاں اول وہلہ میں جانے کی کوشش کریں اورمعاشرہ کے باشعورافرادکوجمع کرکے ارتدادکی حقیقت اور اس سلسلہ میں آخرت کی سزاؤوں کا تذکرہ بھی کریں ، اگراس طرح ہلچل پیداہوجائے تواللہ کی ذات سے امیدہے کہ ارتدادکی جومسموم ہواچل پڑی ہے، وہ جلدہی تھم جائے گی؛ لیکن اگرہم نے ادنی بھی کوتاہی کی توپھرنئی نسل ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی، اللہ تعالی سے دعاہے کہ امت مسلمہ کوارتدادکے فتنہ سے بچائے، آمین!!!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔