فتوی پر بلا استشنی پابندی: اتراکھنڈ ہائی کورٹ کا عاجلانہ حکم

سیدمنصورآغا

ملک کے موجودہ سیاسی ماحول کا ایک بڑاتضاد یہ ہے کہ ایک طرف توغیرہندواقلیتوں کو نشانہ بنایا جا تاہے اوردوسری طرف ان سے ہمدردی کا اظہارکیاجاتا ہے۔مسلم اقلیت اس روش کا خاص طور سے نشانہ بنتی ہے۔ہجومی تشدد میں جو مارا گیا، اس کے بیوی بچوں کی فکرنہیں، کہیں طلاق کی خبرآجائے تو ’مظلوم‘ خاتون کے حق میں بلبلااٹھتے ہیں۔ ایسے معاملات کو بھی جن کا تعلق صرف ہمارے ذاتی یا خاندانی امورسے ہے،جیسے دارالقضاء وغیرہ غیرمتعلق لوگ عدالتوں میں لے دوڑتے ہیں۔ بہانا قانون  اور انصاف کی پاسداری کاہوتا ہے حالانکہ روز قانون کی ہزاروں خلاف ورزیوں کو اپنے رویہ سے تقویت پہنچاتے رہتے ہیں۔

ایسا ہی ایک معاملہ گزشتہ جمعرات، (30اگست) نینی تال میں پیش آیا جہاں معاملہ سے ایک قطعی غیرمتعلق شخص راجیو شکلا ایڈوکیٹ، اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں اخبار کی خبرکا ایک تراشہ لے کر پہنچ گئے۔ خبر میں دعواکیا گیا ہے کہ لکسرمیں مقامی باشندوں کی ایک پنچائت میں مبینہ طور سے عصمت دری کی شکار ایک 15سالہ مسلم لڑکی کا معاملہ زیرغورآیا۔ نوبھارت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس  لڑکی کے والد مطالبہ کررہے تھے کہ اس شخص کے خلاف کاروائی کی جائے، جس کی حرکت سے لڑکی ماں بننے والی ہے۔ گاؤں کے 20 25- لوگوں نے چاہا کہ معاملہ پولیس میں نہ جائے اور اسقاط کرادیا جائے۔ انہوں نے اس ’مظلوم‘ لڑکی اوراس کے گھروالوں پردباؤ ڈالا اور دھمکی دی کہ نہ مانیں گے تو گاؤں چھوڑ کرجانا ہوگا۔

یہ فتوٰی نہیں

 اخباروں نے حسب معمول اس رویہ کو تغلقی فرمان اور ’فتوٰی ‘ کا نام دیا۔ حالانکہ فتویٰ کہنا قطعی غلط ہے۔ہائی کورٹ نے اس کیس کا فوری نوٹس لیا۔ پی ٹی آئی کے حوالہ سے شائع خبر وں کے مطابق کار گزار چیف جسٹس راجیو شرما اور جسٹس شرد کمار شرما پر مشتمل دو رکنی بنچ نے پولیس کوفوری کاروائی کرنے، لڑکی اوراس کے اہل خاندان کو تحفظ فراہم کرنے حکم دیا اورمزید سماعت کیلئے معاملہ کو ایک پی آئی ایل کے طور پر درج کرنے کاآرڈر دیا۔ ساتھ ہی شکایت کنندہ وکیل شکلا جی کو، حالانکہ وہ خود فریق بن کر آئے تھے، عدالت کا مددگار (amicus curiae) مقرر کردیا، جس کا ان کو معقول معاوضہ حسب ضابطہ ملے گا۔ خبریہ ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد پولیس نے ایک شخص عارف عرف شمیم کو گرفتارکرکے جیل بھیج دیا ہے۔

فتوٰی پر پابندی

عدالت نے اتنا ہی نہیں کیا بلکہ ریاست میں فتوی پر کلی پابندی عائد کردی۔ عدالت نے کہا کہ فتوٰی چاہے کسی مذہبی ادارے سے جاری ہو یا پنچائت سے یا کھاپ پنچائت سے، سب غیرآئینی ہیں۔  ’’ فتوٰی کچھ نہیں بلکہ- extra constitutional adventurism-  ہے۔ یعنی ـ’ایسی ڈھٹائی اور آزارپہنچانے کی گستاخی، جس کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ ‘‘ عدالت نے مزیدکہا متاثرہ افراد پر فتوٰی کا تباہ کن اثر پڑتا ہے اوران کیلئے شدیدآزاربن جاتا ہے۔ چنانچہ  حکم دیا کہ ’’ریاست اتراکھنڈ میں ’ کوئی مذہبی ادارہ، پنچائت یا لوگوں کاکوئی اجتماع فتوٰی‘‘ جاری نہیں کریگا۔

عجلت میں جاری کئے گئے اس حکم میں مذہبی اداروں کو شامل کرلینا بیشک غلط ہے۔ یادرہے کہ جسٹس سی کے پرساد اورجسٹس پناکی چندر ا پر مشتمل سپریم کورٹ کی ایک دورکنی بنچ ایڈوکیٹ وشوکرما مدان کی دائرکردہ پٹیشن پر 7جولائی 2014کو ایک تفصیلی فیصلہ صادرکرچکی ہے جس میں دینی اداروں کے جاری کردہ فتووں کے آئینی جواز کوتسلیم کیا گیاہے۔ ہائی کورٹ نے کیونکہ اس معاملہ کو ایک پی آئی ایل (عوامی دلچسپی کا کیس) کے طوردرج کرلیا ہے، اس لئے امید کی جانی چاہئے کہ آئندہ تفصیلی سماعت میں جب یہ پہلوعدالت کے سامنے آئیگاتووہ اپنے حکم میں مناسب ترمیم کرلے گی۔اس کیلئے سپریم کورٹ جانے کی ضرورت نہیں۔

دینی اداروں کاحق

کیونکہ حکم میں بلاجوا ز ونوٹس دینی اداروں کو شامل کرلیا گیا ہے، اس لئے ان کو  حق ہے کہ کیس میں مداخلت کرکے اپنا موقف پیش کریں۔ ریاستی جمعیۃ علماء ہند نے عدالتی کاروائی میں مداخلت کا فیصلہ کرلیا ہے، جس کی منظوری مرکزی جنرل سیکریٹری محمود مدنی صاحب نے دیدی ہے۔ امید ہے جب ہائی کورٹ کو بتایا جائے گا کہ سوائے مفتی کسی کو فتویٰ جاری کرنے کااختیارنہیں، اور پنچائت کے فیصلے کو فتویٰ کہنا غلط ہے، تو عدالت اپنے عبوری حکم میں مناسب اصلاح کرلے گی۔

متاثرہ لڑکی

 جہاں تک معاملہ متاثرہ لڑکی کے بارے میں پنچائتی فیصلے کا ہے، بیشک اس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں، البتہ سماجی اہمیت ہے۔ ایسی پنچائتوں میں قانونی پہلوؤں پر نہیں سماجی نظریہ سے رائے بنائی جاتی ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ متاثرہ لڑکی اوراس کے اہل خاندان کے خلافسماج کی یہ رائے کیوں بنی؟ عام طورسے ہمارے سماج میں، وہ ہندو ہو یامسلمان، بدچلنی اور عصمت دری کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ بعض حالات میں غصہ گناہ میں شریک عورت پر بھی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ زیادہ تراس کی غیرمحتاط روش ہوتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ لڑکی کے رویہ میں جھول نہ ہوتو زورزبردستی کا موقع کم ہی ہوتا ہے۔ امید ہے کہ عدالت نے تفتیش کا جو حکم دیا ہے اس سے صاف ہوجائیگا کہ معاملہ واقعی جبری عصمت دری کا ہے یا کچھ بے احتیاطی لڑکی سے بھی ہوئی، جس پر پنچائت نے اس کو سرزنش کا مستحق جانا۔ ایک پیچیدگی یہ ہے کہ لڑکی نابالغ ہے۔ اگرلغزش اس سے بھی ہوئی ہے تب بھی مرد خطاکار قرار پائیگا اورموجودہ قانون کے تحت سخت سزاسے بچ نہیں سکے گا۔ جبکہ سماج کی نظر میں لڑکی اور اس کے اہل خاندان پر بھی لعن طعن ہوگی۔ ہمارامشورہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اپنے طورپراس معاملہ کی جانچ کرائے تاکہ مقدمہ کی پیروی کے دوران مختلف پہلوؤں پر بھی نظررہے اورسزاخطاکارکوہی ملے، ایسا نہ ہوکہ وہ بچ جائے اور کوئی دوسراپھنس جائے۔ جمعیۃ علماء نے کیونکہ ایک پہل کردی ہے، اس لئے دوسری ملی تنظیمیں خود نہ کود پڑیں بلکہ جمعیۃ کی ہی تائید ومدد کریں توبہترہوگا۔

دلچسپ پہلو

اس کیس کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ متاثرین مسلمان ہیں، شکایت کنندہ وکیل شکلا جی ہیں اور دونوں جج صاحبان شرما جی ہیں۔ شکلا جی توظاہر ہے اپنے موقف کی تائید ہی کریں گے، حقائق چاہے جو بھی ہوں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جج صاحبان کیا کرتے ہیں ؟ کیس کو ٹرائل کورٹ بھیجا جاسکتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں کئی معاملوں میں عدالتوں نے فیصلے اپنے ذاتی رجحان پر سنا دئے ہیں لیکن اتراکھنڈہائی کورٹ کے محترم ججوں سے امید کی جانی چاہئے کہ فیصلہ آئین اورقانون کے مطابق صادر ہوگا۔ہماری گزارش یہ ہے کہ پنچائت سے متعلق  معاملہ میں، جس کا کوئی تعلق کسی دینی ادارے سے نہیں، ان پرحکم لگانا درست نہیں ہے۔تمام مذاہب کے پیروکاروں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے علماء سے کسی معاملہ میں اپنے مذہب کا حکم معلوم کریں اوران کوبتایا جائے۔ البتہ ملکی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان پر عمل کریں۔

 غیرمحتاط فتو ے

البتہ یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ بعض فتاوے سے فساد پیداہوا ہے اس لئے مفتی صاحبان کی نظر فریقین کے رویہ میں اصلاح پر ہونی چاہئے۔ اسلامی تعزیری قانون  سزانافذ کرنے سے زیادہ خطا کار کی اصلاح سے غرض رکھتاہے۔ اس لئے توبہ واستغفار کا اورمعافی کا دروازہ کھلا ہے اوران کی بڑی فضیلت ہے۔ بعض معاملات میں سائل کا ذاتی مفاد ہوتاہے، پوچھا توجاتا ہے فتوٰی مگراصل نیت کچھ اور ہوتی ہے یا معاملہ فتوے کا نہیں قضاۃ کا ہوتا ہے۔ اسلئے اگر کسی دوسرے فریق کا معاملہ بھی شامل ہو تو مفتی صاحب کے لئے مناسب ہوگا کہ احتیاط سے کام لیں۔ بہتر ہوگا کہ قاضی صاحب سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا جائے تاکہ انصاف کا تقاضا پوراہو اورکوئی فساد نہ پھیلے۔

سیاسی پہلو 

 ہمیں اس پہلو سے بھی باخبررہناچاہئے کہ آئندہ انتخابات کے پیش نظرملک میں ماحول کو خراب کرنے اوراقلیتوں کے خلاف ہوابنانے کی کوششیں تیزہونگیں۔ (سنا ہے طارق فتح کو بلالیا گیا ہے۔ ) وکلاء برادری کا جانبدارانہ رویہ کئی بارکھل کرسامنے آچکا ہے۔ اس کی تازہ مثال کٹھوعہ کے معاملے کی ہے۔ملک بھر میں ایک خاص طرح کی فضابنادی گئی ہے، جس میں صرف سیاست کا ہی رنگ نہیں بدلا ہے، ہرمیدان میں کام کرنے والے افراد کا نظریہ بھی بدلاہے، چاہے وہ مزدوراورکسان ہوں، تاجر اوردوکاندار ہوں، یادفتراور عدالت کے کارکن یا افسران ہوں۔ ملی معاملات اوردینی امور میں اپنی حکمت عملی بناتے ہوئے ہمیں اس پہلو کو نظرانداز نہیں کردینا چاہئے۔ البتہ اس ماحول میں بھی، جو بظاہر بہت شدید ہے، حق اورانصاف کے طرفداروں کی کمی نہیں، ہمیں ان کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔

دہشت گردی کے نئے زاویہ

آزادفکرصحافی محترمہ گوری لنکیش کے قتل کی تفتیش کے دوران کرناٹک پولیس کے ہاتھ ایک شدت پسند ہندوتنظیم کے کارکنوں کے گردن تک پہنچ گئے ہیں۔ اس کی بنیاد پر مہارشٹرا اے ٹی ایس نے مذکورہ تنظیم کے کئی قریبی لوگوں کو گرفتارکرلیا اوران کے قبضے سے اسلحہ اورگولہ بارود برامد کرکے عید کے موقع پر کئی شہروں میں دھماکے کرنے کی سازش کو بے نقاب کردیا ہے۔ہم کرناٹک ایس آئی ٹی اور مہاراشٹرا اے ٹی ایس کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس کے فوراًبعد پونا پولیس نے دلتوں اورآدی واسیوں کے حقوق کیلئے سرگرم انسانی حقوق کے کئی اہم کارکنوں کو مختلف شہروں سے گرفتار کرلیا۔ یہاں مقصود وہ تفصیلات بیان کرنا نہیں جو خبروں میں آچکی ہیں۔ بلکہ اس پہلو پرتوجہ دلانی ہے کہ اردوکے اخباروں نے انگریزی اخباروں کی طرح ان گرفتاریوں کی بروقت اورکھل کر خبرلی ہے۔خبریں بھی تفصیل سے آئیں اور اداریے بھی شائع ہوئے۔ لیکن غورکیجئے مختلف مقامات پرجو احتجاجی جلسے وجلوس ہوئے ان میں ہماری حاضری کتنی رہی؟

اگرہم یہ چاہتے ہیں جب اقلیت کے کسی فرد یا ادارے کو نشانہ بنایا جائے تب برادران وطن ہماری مدد کو آگے آئیں، توہمیں بھی مشکل گھڑی میں ان کے ساتھکھڑاہونا چاہئے۔ یہ گرفتاریاں صریحاً اظہارخیال کے بنیادی حق اورآئینی نظام حکمرانی پر حملہ ہیں۔ ان کا مقصد سیاسی ہے۔ دائیں بازوکی عناصرکی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے پردہ اٹھتے ہی یہ لازم ہوگیا تھا کہ حکومت مخالف عناصرکو بھی دہشت گردقراردیکر جیلوں میں ٹھونسا جائے۔ ایسے موقع پر انسانی حقوق کے علمبرداروں اورہماری ملت کے ان محترم قائدین کو آگے آنا چاہئے جو ابھی کچھ عرصہ قبل ’’شریعت بچاؤ، آئین بچاؤ‘ کے نعرے کے ساتھ سرگرم تھے۔اب جب کبھی کہیں اس طرح کی سرکاری کاروائیوں کے خلاف مظاہرے اورجلسے ہوں توہمیں اپنے وجود کا احساس دلانا چاہئے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ صرف وہی لوگ آگے آتے ہیں جن کو عام طورسے دین بیزارسمجھا جاتا ہے اوردیندارچھپے رہ جاتے ہیں۔ اللہ ہماری مدد فرما۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔