فرعون کے مکان میں موسیٰ ؑکی پرورش

حفیظ نعمانی

پرسوں سے ایک چھوٹی سی خبر گشت کررہی ہے جو ہمارے لیے 52برس کی سب سے بڑی خبر ہے کہ فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کے الزام میں سدرشن نیوز چینل کا ایڈیٹر اور چیف منیجنگ ڈائریکٹر سریش چوہان کو گرفتار کرلیا گیا۔ سریش پر الزام ہے کہ اپنے سدرشن نیوز چینل کے ذریعہ انھوں نے سنبھل میں مذہبی مقام کی جھوٹی خبریں نشر کرکے فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی۔ سریش نے ایک مشتعل بھیڑ کی قیادت بھی کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ وہ 13؍اپریل کو سنبھل کی ایک مسجد میں ماتھا ٹیکنے جانے والے تھے (یہ مسجد سنبھل کی جامع مسجد ہے، جس کے بارے میں شرارت پسند ہندئوں کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلے مندر تھا) اور سریش اسے مندر مان کر ہی ماتھا ٹیکنے جارہے تھے۔

وزیر اعلیٰ کے اشارہ پر ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی اور لاکر 153دفعہ کے تحت نہیں گرفتار بھی کرلیا گیا۔ 31؍ جولائی 1959کی رات میں ہمارے ندائے ملت کے مسلم یونیورسٹی نمبر کو حکومت نے بغیر پڑھے ہی اس خیال سے ضبط کرلیا تھا کہ ہو نہ ہو اس میں حکومت کے خلاف بہت کچھ ہوگا؟ اور ہمیں جیل میں پہنچادیا۔ پھر نومہینے تک ہر قسم کے چشمے سے اسے پڑھا مگر اس میں ناکامی ہوئی تو مقدمہ واپس لے لیا اور ہمیں رہا کردیا۔ اس زمانہ میں بھی اور اس کے بعد بھی بعض ہندی اخباروں نے مسلم یونیورسٹی کے لیے اور مسلم مجلس مشاورت کے لیے اور مسلمانوں کے لیے کیا کیا کہا؟ ان کا ہر شمارہ ایسا تھا کہ ان پر  مقدمہ چلایا جاتا، لیکن حکومت کانگریس کی ہو یا جنتا پارٹی کی ہر کسی نے یہ سمجھ لیا کہ وہ ہندو ہیں اورا نہیں حق ہے کہ جو چاہیں لکھیں ۔

سدرشن چینل کے با رے میں نہ جانے کتنے لوگوں نے کہا کہ وہ ہر دن فساد کرانا چاہتا ہے۔ لیکن اکھلیش کی حکومت کی جو پوزیشن سب کے  اوپر تھی وہی کہ کام بولتا ہے کے اشتہار اور دوسرے اشتہار اس کو بھی برابر دے رہے تھے، لیکن جس وزیر ا علیٰ کے بارے میں یہ خیال تھا کہ اب تو مسلمانوں کے اخبار فریاد بھی کریں گے تو وہ بھی/A 153ہوجائے گی، لیکن جو ہوا اور وزیر اعلیٰ نے جو کردیا اس پر راقم سطور حفیظ نعمانی سے زیادہ خوش ہونے، جشن منانے، یوگی مہاراج کو مبارک دینے اور ان کا شکریہ ادا کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جو شکریہ کے لیے میرے جذبات کی ترجما نی کرسکیں ۔

پورے ملک کے ہزاروں مسلمان صحافیوں میں یہ اعزاز ہمیں حاصل ہے کہ حکومت نے/A 153کے جتنے مقدمے ہمارے اوپر چلائے اس کے آدھے بھی کسی کے خلاف نہیں چلائے۔ کانگریس حکومت نے جب 9 مہینے کے بعد یعنی 26؍ مارچ 1966کو عاجز آکر رہا کیا۔ تو پرے ملک میں تھو تھو ہوئی، اس سے چڑ کر مسلم یونیورسٹی نمبر سے پہلے نکلے ہوئے ندائے ملت کے پرچوں کو چھانا گیا اور 20مقدمے اور قائم کردئے۔ وہ تو خدا کا کرم ہے کہ اس وقت بھی ا ردو پڑھے ہوئے جج موجود تھے۔ انھوں نے ہمارے وکیل کو اس کا موقع ہی نہیں دیا کہ وہ ہماری بات کہہ سکیں ، بلکہ خود ہی جرح کی اور ایسی جرح کی کہ سرکاری وکیل رو رو دیا۔

ایک مقدمہ ایک مضمون کے خلاف قائم کیا گیا، وہ مضمون مسز سبھدراجوشی کا تھا جو ہفتہ وار اخبار ……نکال رہی تھیں اس میں انھوں نے کانگریس کے فیصلوں کی سخت تنقید کی تھی۔ ہم نے اس کا ترجمہ کرکے چھاپ دیا۔ جب وہ پیش ہوا تو جج صاحب نے وکیل سے کہا کہ اس مضمون سے سرکار کو کیا تکلیف ہے؟ انھوں نے بتایا جو الزام لگائے ہیں وہ جھوٹ ہیں جج نے معلوم کیا الزام کس نے لگائے ہیں جواب دیا انھوں نے۔ اشارہ ہماری طرف تھا۔ جج صاحب نے کہا اس مضمون کو تو سبھدار جوشی نے لکھا ہے۔ وکیل کا جواب تھا کہا کہ ا نھوں نے کیوں چھاپا؟ جج صاحب نے معلوم کیا ۔اس پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟ وکیل صاحب نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے۔ تو جج صاحب نے کہا کہ ان کے خلاف جھوٹ لکھنے کا مقدمہ چلائیے۔ دو فرقوں میں دشمنی پیدا کرانے کا کیوں چلارہے ہیں ؟ غرض کہ ہر مقدمہ اتنا ہی کمزور تھا اور مقصد صرف یہ تھا کہ جب ہر دن کچہری میں گذارے گا  اور سیکڑوں روپے روز وکیل کو دیں گے تو اخبار بند کردیں گے۔ ان گدھوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ کم از کم دس مسلمان وکیل ہر وقت تیار رہتے تھے کہ آج ہم بحث کریں گے اور لیتے توکیا کہتے اپنے پاس سے چائے پلاتے تھے۔

اتفاق کی بات کہ میں اسی 28؍ مارچ کو سنبھل گیا۔ مراد آباد سے نکل کر ہمیں معلوم ہوگیا کہ نیزے کے میلے میں ہندوئوں اور مسلمانوں میں کچھ تنازعہ ہوگیا ہے۔ ہم سے کہا گیا کہ سرسی سے نکل کر چند منٹ رک جائے گا ہم ایمبولنس بھیج رہے ہیں اس کے پیچھے پیچھے آجائے گا۔ اس کی وجہ سے ایک گھنٹہ تو خراب ہوا لیکن ہم لوگ آرام سے گھر آگئے۔

سدرشن چینل کا نشانہ سنبھل نہیں ہے بلکہ اس کا ایک مغربی محلہ دیپا سرائے ہے جو سو فیصدی مسلم آبادی ہے اور اس کے ہر گھر اور ہر مسجد سے خوش حالی کی تصدیق ہوتی ہے۔ میں نے بھی 12 سال کے بعد دیکھا تو دل باغ باغ ہوگیا۔ سب سے بڑی تبدیلی تعلیم اور صفائی تھی، ہر بچہ اسکول جارہا ہے اور درجنوں اسکول بھی کھل گئے ہیں ۔ سنبھل میں آر ایس ایس کا ہمیشہ زور رہا ہے اور برسوں پہلے جب شوگر ملوں کی وبا نہیں تھی تو گھر گھر دیسی شکر بنتی تھی اور وہ ہندو آڑھتیوں کے ہاتھ سے فروخت ہوتی تھی۔ اس وقت مسلمانوں اورہندوئوں کا کاروبار ایسا تھا کہ دونوں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے لیکن اب مسلمان یا تو بھٹے لگا رہے ہیں یا کاشت کررہے ہیں ۔ اس کی وجہ سے اب آپس کا وہ تعلق نہیں رہا لیکن آپس کے تعلقات اچھے ہیں ۔ مگرسدرشن جیسے چینل سے دیپا سرائے کی خوش حالی، شان سیکڑوں مسجدیں اور شاندار مکان نہیں دیکھے جاتے۔ اس کا جو علاج وزیر اعلا یوگی نے کیا ہے وہ اتنا بڑا کام ہے جس نے ان کی طرف سے یقین دلادیا کہ وہ جو اکھلیش سرکار میں لا اینڈ آرڈر پربار بار اعتراض کرتے تھے وہ ناقابل برداشت تھا۔اور انھوں نے نمونہ دکھادیا کہ وہ صودبہ میں کیسا لا اینڈ آرڈر لائیں گے۔

وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کل ایک فیصلہ سونے سے لکھنے والا کیا ہے کہ عظیم شخصیات کے نام پر اب نہیں ہوگی چھٹی۔ ہم جیسے لوگ جن کے پوتے نواسے پوتیاں نواسیاں ان اسکولوں میں پڑھ رہی ہیں جن میں ایک دن کے سیکڑوں روپے جاتے ہیں ان کے اوپر اس دن کیا گذرتی ہے جس دن بچے کہتے ہیں کہ کل چھٹی ہے؟ اور جب معلوم کرو کہ کاہے کی تو ہر بار ایک ہی جواب ملتا ہے کہ کسی کی جینتی ہے؟میں قسم کھاسکتا ہوں کہ ۵۰ چھٹیوں میں وہ دو چار کی جینتی تو جانتے ہیں باقی وہ ہوتی ہے جنھیں جانتے ہی نہیں ،یو گی جی نے دو گھنٹے اس کے لیے رکھے ہیں کہ ان کا تعارف کرایا جائے ہماری درخواست ہے کہ اگر منہ بھرائی  کرنا ہے تو ایک گھنٹہ بہت ہے۔ اور ہم تو ان میں ہیں جو مطالبہ کرتے ہیں کہ الوداع کی چھٹی، 11؍ رجب کی چھٹی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی چھٹی بھی ختم کی جائے۔ مسلمان اگر اعتراض کریں تو ان سے کہہ دیا جائے کہ جو چھٹیاں سعودی عرب میں ہوتی ہیں بس وہ دی جائیں گی۔ یعنی عید اور بقرعید اور ان کی دو دو دن کی۔ یہ میرا ذاتی مشورہ ہے نہ میں مسلمانوں کا ترجمان ہوں نہ اخبار کا پالیسی ساز۔ہماری درخواست ہے کہ وزیر اعلیٰ لا اینڈ آرڈر کے بارے میں اور چھٹیوں کے بارے میں اپنے فیصلہ میں تبدیلی نہ کریں ۔ ملائم سنگھ ا ور مایاوتی کے درمیان مقابلہ تھا کہ کس نے زیادہ چھٹیاں کیں ! اب یوگی جی کو ماں باپ اور دادا نانا کی دعا لینا ہے تواسکولوں کی چھٹی کم سے کم کردی جائے ۔بچہ کا دماغ مسلسل پڑھنے کے بجائے بار بار ناغہ کرنے سے بکھر جاتاہے۔ اور ایک مشورہ یہ ہے کہ جو فیصلہ کریں پھر اس میں کسی کے کہنے سے رعایت نہ کریں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔