فرقہ پرست تنظیمیں علی گڑھ میں ایک تیر سے کئی شکار کرناچاہتی ہیں

تبسم فاطمہ

ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے جناح پر کتاب لکھتے ہوئے یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ انہیں بی جے پی حکومت حاشیہ پر ڈال دے گی۔ جسونت سنگھ نے متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار سردار پٹیل اور جواہر لال نہرو کو مانا تھا اور اس معاملے میں جناح کو سیکولر اور لبرل قرار دیا تھا۔ پاکستان جاکر جناح کے مزار پر حاضری دینے اور جناح کو سیکولر قرار دینے کا بیان ایل کے اڈوانی کو اتنا مہنگا پڑاکہ وہ نہ صرف عملی سیاست سے برطرف کئے گئے بلکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی سیاست نے انہیں مذاق بناکر رکھ دیا۔ دہلی یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر اجیت جاویدنے سیکولر اینڈ نیشنلسٹ جناح کے نام سے کتاب لکھ اس بات کا اعتراف کیا کہ جناح در اصل پاکستان چاہتے ہی نہیں تھے۔ قیام پاکستان کا مطالبہ صرف کانگریس پر دبائو بنانے کے لئے کیا گیا تھا۔

 جسونت سنگھ کی کتاب شائع ہونے کے فوراً بعد ہی اس وقت گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے کتاب پر پابندی عائد کردی۔ گجرات ہائی کورٹ نے کچھ دنوں بعد کتاب پر لگی پابندی کو ختم کردیا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکومت نے کتاب کا مطالعہ کئے بغیر ہی اس پر پابندی عاید کردی تھی۔ گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد جسونت سنکھ کا بیان آیا کہ وہ بہت خوش ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا موقف درست ہے۔ اپنی کتاب میں جسونت سنگھ نے صاف طور پر اس بات کی وضاحت کی تھی کہ جناح نے پاکستان کو جیتا نہیں تھا۔ بلکہ نہرو اور پٹیل نے ہار مانی تھی۔ گوپال کرشن گوکھلے نے جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا دوت (پیغمبر )کہا تھا۔ بیشتر محقق اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تقسیم وطن کے ذمہ دار جنا ح نہیں تھے۔ ہندی کے مشہور ادیب وریندر کمار برنوال نے بھی اس بات کا خلاصہ کیا ہے کہ پاکستان بنانا جناح کی زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ 19جنوری 1940کو لندن کی ٹائم اینڈ ٹائیڈ میگزین نے جناح کا ایک بیان شائع کیا تھا کہ ہندوستان ہندو اور مسلمان دونوں کی سرزمین ہے۔ پاکستان بن جانے کے بعد جناح کی مزاج پرسی کے لئے لیاقت علی خان ایک بار جناح سے ملنے گئے تو جناح نے زور دے کر اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان بنانا میری زندگی کی سب سے بڑی بھول ہے۔

 وزیر اعظم مودی اور امت شاہ کے پکوڑا اسکیم سے لے کر گجرات اور تریپورہ کے وزیر اعلی کے بیانات تک یہ موقف صاف ہوجاتا ہے کہ اصل ایشو سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے کبھی کبھی ایسے بیانات جاری کئے جاتے ہیں ۔ اب علی گڑھ کا ہنگامہ ایسے موقع پر شروع ہوا ہے جب چین کے دبائو میں آکر ہندوستان، پاکستان کے ساتھ مل کر مشترکہ جنگی مشق کو راضی ہوا ہے۔ ایسے جنگی مشق دوست ملکوں کے ساتھ کئے جاتے ہیں ۔ ابھی حال میں برطانیہ کے دورے پر وزیر اعظم مودی سرجیکل اسٹرائیک کی بات کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنی طاقت کا اظہار کررہے تھے۔ چین کے صدر سے ملتے ہی سیاسی صورتحال اس حد تک تبدیل ہوگئی کہ وزیر اعظم کا نظریہ تک بدل گیا۔ چین کبھی ہندوستان کا دوست نہیں رہا بلکہ ہمیشہ پاکستان کی حمایت میں کھڑا رہا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی نئی تصویر ہے، جہاں امبانی کے ٹی وی چینل پر ایک نیوز اینکر اپنے شو میں کانگریسی لیڈر پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔ غور کریں تو یہ سب بھی بڑے ایشو سے دھیان بھٹکانے کے لئے کیا جارہا ہے۔

جناح کی تصویر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 1936سے لگی ہوئی ہے۔ ساور کر کی پوجا کرنے والے سنگھیوں کی آنکھیں آخر اتنی دیر میں کیوں کھلیں ؟ گوڈسے کا مندر بنوانے والوں کو کیا اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ قومی نظریے اور حب الوطنی پر گفتگو کر سکیں ۔ ؟ دوباتیں صاف ہیں ۔ کرنا ٹک کے انتخاب میں اب تک بی جے پی کی پوزیشن اچھی نہیں ہے۔ 2019کے انتخاب کو لے کر بھی بی جے پی کے حوصلے پست ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جوابی حملوں میں ان دنوں کانگریس، مودی سے آگے نکل گئی ہے۔ کانگریس کو زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مودی کے وزیر اعظم بننے سے قبل کے تمام آڈیو اور وی ڈی او مودی کے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں اور ان دنوں کانگریس یہی کررہی ہے۔ اب سوال ہے، کیا صرف جناح کی تصویر کو لے کر ہنگامہ ہوا تو یہ بات قابل قبول نہیں لگتی۔ یونین ہال میں محمد علی جناح کی تصویر کو لے کر ہندوواہنی اور بھگٖوادہشت گردوں نے اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے، تو ڑ پھوڑ بھی کیا اور طلبہ کو زخمی بھی کیا۔ اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی کی پولیس دہشت بھری کارروائی کو انجام دینے میں پیش پیش رہی۔ لیکن اصل معاملہ سابق نائب صدر جمہوریہ جناب حامدانصاری کی آمد اور ان کے قافلے کو لے کر جڑاہے۔ اپنی دوسری معیادکے آخری دن جناب حامد انصاری نے ذمہ داری کے ساتھ یہ کہا تھا ملک کے اقلیتوں میں احساس عدم تحفظ اور بے چینی پیدا ہورہی ہے۔ اس بیان کے بعد ہی حامد انصاری بھگوا خیمے کے نشانے پر آگئے تھے اور انہیں پاکستان جانے کی صلاح بھی دی گئی تھی۔ کچھ برسوں سے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر بھی مسلسل حملے کئے جارہے ہیں ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آر ایس ایس مسلسل اپنی شاخ قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے کردار کو پامال کرنے کے لئے جس طرح فسطائی طاقتیں وہاں اپنا کردار ادا کررہی ہیں ، یہی کردار اب جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ بھی اداکرنا چاہتی ہیں ۔ ان حالات میں حامد انصاری کا خاموش رہنا ہی بہترہے۔ یہ طاقتیں در اصل ٹکرائو چاہتی ہیں ۔ سر سید نے اپنی ایک تقریر میں دوباتوں کی طرف اشارہ کیاتھا۔

ایک تقریر میں کہا تھا کہ انگریز، فیاض، منصف اور نیک دل ہیں ۔ دو سری تقری میں کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں بہتر یہ ہے کہ وہ انگریزوں سے دشمنی نہ رکھیں ۔ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہیں رکھا جاسکتا۔

جب انگریزی حکومت تھی، آر ایس ایس اور گوڈسے  جیسے لوگ انگریزوں کے قریبی تھے۔ سرسید یہ محسوس کررہے تھے کہ مسلمانوں کی ترقی اور فروغ کے لئے ضر وری ہے کہ وہ براہ راست انگریزوں کی مخالفت نہ کریں اور اپنا کام نکالیں ۔ سرسید کی تقریر کو اگر آج کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو یہ بات مودی حکومت اور آر ایس ایس پر فٹ نہیں بیٹھتی۔ یہ لوگ منصف ہیں ، نہ فیاض نہ نیک دل۔ پہلے دن سے ان کا ٹارگٹ مسلمان اور حامد انصاری جیسے سیاستداں ہیں اور اسی لئے حامد انصاری کا درد میں ڈوبا ہوا بیان آر ایس ایس کی تلخی میں اضافہ کرگیا۔ اس طرح آر ایس ایس اور ہندو واہنی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر حملہ کرکے ایک تیر سے کئی شکار کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دہشت گردوں کا گڑھ بتایا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی وجہ بتائی کہ یہاں آج بھی پاکستان اور جناح کی حمایت کی جاتی ہے۔ جناب حامد انصاری کے قافلے کو روک کر انہیں پنچا دکھانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کے صبرو تحمل کے مظاہرے نے آر ایس ایس اور مودی بھکتوں کی نیند اڑادی ہے۔ انہوں نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ لگاتار ہونے والے حملوں کے باوجود ہندوستان کا مسلمان امن پسندی کا ساتھ دے گااورکوئی بھی ایسی حرکت نہیں کرے گاجو آر ایس ایس کو ان کے ارادوں میں کامیاب کرسکے۔

علی گڑھ کا ترانہ یاد کیجئے جو مشہور شاعر اسرار الحق مجاز نے نوجوانان علی گڑھ کوسامنے رکھ کر لکھاتھا…’یہ میرا چمن ہے میرا چمن میں اپنے چمن کا بلبل ہوں ۔ ‘ اس چمن میں آگ لگانے کی کوشش ہوری ہے۔ بلبلوں کو چمن چھوڑنے کے لئے مجبور کیا جارہاہے۔ ’یہ شہر طرب رومانوں کا۔ یہ خلد بریں ارمانوں کی۔ ‘ ارمانوں کی خلد بریں کو نفرت کے شعلوں سے جھلسانے کا کام کیاجارہے۔ ’اس بزم میں آنکھ بچھائی ہے، اس بزم میں دل تک جوڑے ہیں … ‘ اور آخر میں مجاز کہتے ہیں …

جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سار جہاں پر برسے گا

ہر جوئے رواں پر برسے گا، ہر کوہ گراں پر برسے گا

میں بس یہیں آکر خاموش ہوجاتی ہوں ۔ حکومت علی گڑھ کے طلبہ کے ساتھ جو مذاق کررہی ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ وہ ابر کو جوئے رواں اور کوہ گراں پر برسنے سے روک رہی ہے۔ اتحاد اور ملت کی طاقت کے ساتھ ان کے ہر قدم کو نا کام بنانا ضروری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔