فقہ حنفی کا ایک نایاب تحفہ۔ فتاویٰ عالمگیری

ہندوستان مختلف تہذیبوں کی آماجگاہ ہے یہاں مختلف علوم و فنون اور مختلف عقاید و نظریات کے علم بردار سکونت پذیر ہیں۔ جنھوں نے اپنے افکار و خیالات کے مطابق علم و فن اور عقیدہ و مذہب کی ترویج کی ذمہ داری نبھائی ہے اور نبھارہے ہیں علاوہ ازیں اس سرزمین پر ایک طبقہ علماء کا ایسا پیدا ہوا کہ جس نے اسلامی علوم و معارف کے تعلق سے بڑی دقت طلبی سے محنت و کاوش کرکے اسلامی علوم کی ترویج کی اہم ذمہ داری ادا کی ہے۔ اسلامی علوم میں جو اہمیت و افادیت فقہ حنفی کو حاصل ہے وہ محتاج تعارف نہیں ہے، ہر زمانہ میں ہمارے علماء و فضلاء نے اس علم کو سیکھنے سکھانے کا سلسلہ دراز کیا ہے یہی وجہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں سبھی مکاتب فکر فقہ اسلامی کو لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھاتے ہیں حتیٰ کہ فراغت کے لیے ضروری ہے کہ وہ فقہ اسلامی میں خاص دلچسپی رکھتا ہو۔ اسلامی فقہ کے تعلق سے کافی کتابیں لکھی جاچکی ہیں مگر فقہ حنفی میں جو مقام و مرتبہ مرغینانی کی بدایہ اور اورنگ زیبؒ کے عہد حکومت کی تیار کی ہوئی فتاویٰ عالمگری کو حاصل ہے شاید وہ کسی اور کو نہیں ہے۔ سطور ذیل میں فتاویٰ عالمگیری کے تعلق سے کچھ باتیں صفحۂ قرطاس پر ثبت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اورنگ زیب عالم گیرؒ کے مختصر حالات زندگی کو پیش کردیا جائے۔
ولادت:
سلطنت مغلیہ کے اس چشم و چراغ کا اصل نام ابوالمظفر محی الدین اورنگ زیب عالم گیر ہے، پیدائش گجرات کے شہر دوحہ میں 24؍ اکتوبر 1618ء بمطابق 10؍ ذیقعدہ 1027ھ کو ہوئی۔
شاہ جہاں اور ممتاز محل کی ساتویں اولاد تھے۔ نائب حاکم صوبہ داروغہ کی حیثیت سے دس سال اور حکمراں کی حیثیت سے پچاس برس حکومت کرنے کی سعادت آپ کو حاصل ہے۔ زمانہ حکومت 1658ء تا 1707ء ہے ۔ آپ کی انداز حکمرانی شعور، کردار اور حوصلہ میں ایشیا کے سب سے بڑے حکمرانوں میں شمار کیا ہے۔ 1؂
تعلیم و تربیت:
اورنگ زیب عالم گیرؒ کی تعلیم و تربیت انتہائی اچھے ڈھنگ میں ہوئی ماہر فن اساتذہ کرام کے زیر سایہ آپ نے تربیت پائی اور مختلف علوم و فنون میں غیر معمولی مہارت حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مندرجہ ذیل اساتذہ کا نام ذکر کیا جاتا ہے: (1) میر محمد ہاشم گیلانی (2) ملا موہن بہاری ((3) علامہ سعداللہ (وزیر دور شاہجہاں) (4) مولانا سید محمد قنوجی (5) شیخ احمد معروف بہ ملا جیون امیٹھوی (6) دانشمندخاں ۔ 2؂
ذہانت:
ذہانت و فطانت کا عالم یہ تھا کہ 3؍ ذی الحجہ 1045ھ کو عالم گیر تمام دکنی صوبوں کا گورنر منتخب کردیا گیا، جب کہ آپ ابھی عنفوان شباب میں ہی تھے یعنی 18؍ برس کی عمر تھی۔ اسی اٹھارہ سالہ نوجوان کے متعلق عالم گیر نامہ کے الفاظ اسطرح ہیں جن سے ذکاوت و ذہانت اور شعوری پختگی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے:
’’از علام مکتبہ و فنون معارفہ نام نصیب کامل التحصیل و از مبداء فیاض بمحامد صوری و محامد معنوی ہند و کامیاب‘‘۔
’’خانہ معنیٰ نگار آنحضرت حرف نسخ و نستعلیق بکرسی تحصیل و تزئین شاندہ‘‘۔ 3؂
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ عالم گیر حفظ قرآن کی دولت سے سرفراز تھے، مگر خاص بات یہ ہے کہ آپ کو یہ سعادت بچپن میں حاصل نہیں ہوئی بلکہ عمر عزیز کی سینتالیس بہاریں گزرجانے کے بعد آپ اس نعمت غیرمترقبہ سے بہرہ مند ہوئے۔ اور یہ اس وقت کی بات ہے جب بلاشرکت غیر پورے ہندوستان کے بادشاہ ہوچکے تھے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا شکریہ تھا جو اس نے معبود تاج بخش کی بارگاہ میں پیش کیا۔ اورنگ زیب کے متعلق ایک شاعر نے کہاتھا:
تو جامی شروع و حامی شارع تو حافظ قرآں و خدا حافظ تو 4؂
اورنگ زیب کی علمی برتری:
عالم گیر کے کمالات کسبیہ کا عظیم الشان کارنامہ علوم دینیہ یعنی فقہ، تفسیر و حدیث کا تحصیل ہے۔ آنجناب امام غزالی کی تصنیفات اور شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کے مکتوب اور شیخ زین و قطب الدین محی الدین شیرازی کے رسائل سے خاصا شوق رکھتے اور یہ کتابیں اکثر مطالعے میں رہتی تھیں۔ 5؂
یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ عالمگیر مختلف علوم و فنون میں دستگاہ رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ ان رقعات سے ہوتا ہے جو زمانہ شہزادگی اور بادشاہت کے دور میں لکھے گئے تھے۔ وہ رقعات پختگی، برجستگی، دل نشینی اور حسن تحریر کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔ زمانۂ بادشاہت کے دفعات یقیناً کافی اہمیت کے حامل ہیں، جس میں چھوٹے چھوٹے فقرے، ہر جملہ حکیمانہ اور پند آموز و بصیرت افروز، حسن بیان دلکش، تحریر میں قرآنی آیات، احادیث اور اشعار کا کافی اہتمام کیا گیا ہے۔ عالم گیرؒ نے درس و تدریس کی بھی خاصی سرپرستی کی ، اس زمانہ میں دو قسم کے مدرسے قائم تھے ایک سرکاری جن کا پورا انتظام و انصرام حکومت کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ دوسرے وہ مدرسے جو علماء دین نے خود قائم کیے تھے۔ عالم گیرؒ غیر سرکاری مدرسوں کی وقتاً فوقتاً سرکاری خزانہ سے مدد کیا کرتے تھے ۔ مرأت احمدی میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔ ایک دفعہ مدرسہ سیف خاں کو 1580 روپے بھیجنے کا ذکر موجود ہے۔ اسی طرح مدرسہ ہدایت بخش و مسجد تعمیر کردۂ شیخ محمد اکرام الدین کی تعمیر کے لیے انھوں نے ایک لاکھ چوبیس ہزار روپے منظور کیے، اسی طرح موضع سوندرہ پرگنہ ساندی اور موضع سلیمہ پرگنہ کڑاکے مدرسوں کے لیے یومیہ مقرر کیاتھا۔ 6؂
مسلمانوں کی علمی ، ادبی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز دہلی تھا، علاوہ ازیں سیالکوٹ، برہان پور، لکھنؤ اور اکبر آباد درس و تدریس کے دوسرے اہم مراکز تھے۔ مدرسہ رحیمیہ دہلی جس نے آگے چل کر بہت شہرت حاصل کی اسی زمانہ میں قائم ہوا۔ فرنگی محل لکھنؤ کا مدرسہ بھی اسی زمانہ میں قائم ہوا تھا۔ اس محل کی عالیشان عمارت مدرسہ کے لیے عالم گیر ہی نے عطا کی تھی۔ درس نظامیہ نے آگے چل کر برصغیر کے اسلامی مدرسوں میں بڑا رواج پایا اور اس سے متعلق کتابیں بھی عالم گیر کے زمانہ میں مدوّن ہوئیں۔
عالم گیرؒ کے زمانہ میں تین اہم کتابیں تالیف ہوئی: (1)ملا محسن کی (1707ء) رد شیعہ تھی جس میں شیعوں کے اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ دوسری نجم القرآن، جسے مولانا محمد مصطفے بن سعید نے تالیف کیا۔ یہ کتاب قرآن مجید کا انڈکس تھی۔ مصنف نے اسے اورنگ زیب سے منسوب کیا ۔ تیسری مشہور اور متداول کتاب فتاویٰ عالم گیری تھی، جسے فتاویٰ ہندیہ بھی کہا جاتا ہے۔ 7؂
فتاویٰ عالمگیری کی ضرورت:
یہ حقیقت ہے کہ عالم گیر کے عہد حکومت سے قبل اسلامی دنیا میں فقہ کی کئی مستند کتابیں رائج تھیں، لیکن پاکستان و ہند تو درکنار پوری اسلامی دنیا میں فقہ حنفی میں کوئی ایسی کتاب موجود نہ تھی جس سے ایک عام مسلمان آسانی کے ساتھ کسی مفتیٰ بہ مسئلہ کو اخذ کرسکے اوراحکام شرعیہ سے بخوبی واقف ہوسکے ، خود اورنگ زیب کو اس کا خاص خیال تھا کہ تمام مسلمان ان دینی مسائل پر عمل کیسے کریں جنہیں حنفی مذہب کے علماء و اکابر واجب العمل سمجھتے ہیں، لیکن مشکل یہ تھی کہ علماء فقہاء کے اختلافا رائے کے سبب یہ مسائل فقہی کتابوں اورفتاویٰ کے مجموعوں میں کچھ اس طرح مل گئے تھے کہ جب تک کسی شخص کو فقہ میں مہارت تامہ حاصل نہ ہو اور بہت سی مبسوط کتابیں اسے میسر نہ ہو۔ حق صریح اور مفتیٰ بہ مسائل، نیز حکم صحیح کا معلوم کرنااس کے لیے ناممکن تھا۔ اس خیال کے پیش نظر عالم گیرؒ نے علماء دہلی کے علاوہ سلطنت کے اطراف سے ایسے علماء جمع کیے جنھیں علم فقہ میں کافی دستگاہ تھی اورانھیں حکم دیا کہ مختلف کتابوں کی مدد سے ایک ایسی جارح اور مستند کتاب تیار کریں جس میں نہایت تحقیق و تدقیق کے ساتھ یہ تمام مسائل جمع کیے جائیں تاکہ قاضی اور مفتی نیز دیگر تمام مسلمان علم فقہ کی بہت سی کتابیں جمع کرنے اور ان کی ورق گردانی سے بے نیاز ہوجائیں۔8؂
فتاویٰ کے مدوّنین:
جب اورنگ زیب نے اس امر کا عزم کرلیا اور فقہ حنفی کی ایک جامع کتاب کی شدید ضرورت محسوس کی تو پہلے انھوں نے ملک کے کہنہ مشق علماء فقہاء کو فرمان کے ذریعہ شاہی دربار میں طلب کیا۔ گفتگو کے بعد اس عظیم الشان کام کی انجام دہی کے لیے باقاعدہ کمیٹی تشکیل دی گئی، اسے چار حصوں میں تقسیم کیاگیا، اس علمی و تحقیقی کمٹی کے صدر شیخ نظام برہان پوری (م1092ھ/ 1681ء) منتخب ہوئے اور بنفس نفیس بادشاہ نے کمیٹی کی سرپرستی قبول کی۔ جن افراد کے ذمے یہ کام سپرد کیا گیا ان کے اسماء گرامی کی طویل فہرست ہے اور باضابطہ فتاویٰ کے مدوّنین پر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ان کے احوال و کوائف کا علم ہوسکے۔ ہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ جن چار افراد کو یہ کام ذمہ کیا گیا تھا ان کے ساتھ ساتھ دس دس افراد کو اور متعین کیا گیا تھا تاکہ یہ کام انتہائی دلجمعی اور حسن خوبی سے اختتام پذیرہو۔
’’ملا نظام صدر ۔۔۔ ایک چوتھائی کام قاضی محمد حسین جونپوریؒ محتسب فوج کے سپرد کیا گیا اورایک چوتھائی سید علی اکبر سعد اللہؒ کے اورایک چوتھائی مرزا زاہد کے جو ملا حامد جونپوری کے شاگر د تھے اور ایک چوتھائی محمد اکرام لاہوری کے حوالہ کیا جو شہزادہ کام بخش کے استاد تھے‘‘۔ 9؂
جس وقت فتاویٰ کو مدون کیا جا رہا تھا اس وقت یہ مسئلہ بھی زیر غور آیا کہ فتاویٰ کے ابواب کی ترتیب کس طرح ہو کس نہج پر ابواب کو مرتب کیا جائے کس طرح کے مسائل زیر بحث لائے جائیں اور اس کے لیے فقہ و فتاویٰ کی کن کتابوں کو مصادر و بنیاد قرار دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ جب فتاویٰ کا مطالعہ کرتے ہیں تو بعض ایسے مسائل زیر مطالعہ آتے ہیں جن کا تعلق عصر حاضر کے بعض پیچیدہ مسائل سے ہے، نیز جو چیز دوسری فقہی کتابوں میں نہیں ملتی وہ اس میں موجود ہے۔
فتاویٰ عالم گیری کے مراجع:
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ زیر تذکرہ کتاب میں جن مراجع و مصادر کا استعمال کیا گیا اور جنھیں اس کتاب کے لکھنے کا ذریعہ بنایا وہ کون کون کتابیں ہیں، جن کتابوں سے اس میں مدد لی گئی ہے ان کی فہرست کافی طویل ہے یہاں چند اہم اور خاص کتابوں کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
’’ہدایہ، قدوری ، عنایہ ، مبسوط، محیط، الجامع الکبیر، محیط سرخسی، مختصر المعانی، فتح القدیر، بدائع الصنائع، البحر الرائق، عنایۃ البیان، السراج الوہاد، الدر المختار، کافی قتیۃ المنیہ، برجندی، فتاویٰ قاضی خاں، فتاویٰ تاتارخانیہ، التجنیس والمزید۔‘‘
فتاویٰ عالم گیری کے کتب وابواب کی ترتیب:
جب یہ فقہ حنفی کا عظیم الشان اہم ذخیرہ ترتیب و تالیف کے مراحل سے گزر کر پایۂ تکمیل کو پہنچا تو اس کو چھ جلدوں میں تقسیم کیا گیا۔ اب مناسب ہے کہ تمام جلدوں کے ابواب کی ترتیب کی نشاندہی الگ الگ کی جائے۔
پہلی جلد کے ابواب کی ترتیب:
(1) کتاب الطہارۃ، (2) کتاب الصلاۃ (3) کتاب الزکاۃ (4) کتاب الصوم (5) کتاب الحج (6) کتاب النکاح (7) کتاب الرضاع (8) کتاب الطلاق۔
دوسری جلد کے ابواب کی ترتیب:
(1) کتاب العتاق (2) کتاب الایمان (3) کتاب الحدود (4) کتاب السرقہ (5) کتاب السر (6) کتاب اللقیط (7) کتاب الاباقہ (8) کتاب المفقود (9) کتاب الشرکہ (10) کتاب الوقف۔
جلد سوئم کی ترتیب:
(1) کتاب البیوع (2) کتاب الصرف (3) کتاب الکفالہ (4) کتاب الحوالہ (5) کتاب ادب القاضی (6) کتاب الشہادات (7) کتاب الرجوع من الشہادۃ (8) کتاب الوکالہ۔
جلد چہارم کی ترتیب:
(1) کتاب الدعویٰ (2) کتاب الاقرار (3) کتاب الصلح (4) کتاب المضاربہ (5) کتاب الودیعہ (6) کتاب العاریہ (7) کتاب الہبہ (8) کتاب الاجارہ ۔
جلد پنجم کی ترتیب:
(1) کتاب المکاتب (2) کتاب الدلالہ (3) کتاب الاکراہ (4) کتاب الحجر (5) کتاب المازون (6) کتاب الغصب (7) کتاب الشفعہ (8) کتاب القسمہ (9) کتا ب المزارعہ (10) کتاب المعاملہ (11) کتاب الذبائح (12) کتاب الاضحیہ (13) کتاب الکراہیہ (14) کتاب التحری (15) کتاب احیاء احمدان (16) کتاب الاشربہ (17) کتاب الصید (19) کتاب الرہن۔
جلد شمم کی ترتیب:
(1) کتاب الجنایات (2) کتاب الوصایا (3) کتاب المحاضر والسجلاتہ (4) کتاب الشروط (5) کتاب الحیل (6) کتاب الخنثیٰ (7) کتاب الفرائض۔
فتاویٰ عالم گیری کی تدوین پر خرچ ہونے والی رقم:
جن علماء نے تدوین و تالیف فتاویٰ کا کام انجام دیا، انھیں تمام طرح کی ضروریات سے بے نیاز کردیا گیا۔ ان کے رہن سہن اور طعام کا انتظام وانصرام بھی دارالسلطنت کے قریب ہی کیا گیا، تاکہ سارے لوگ یکجا رہیں گے تو انھیں علمی تبادلہ اور باہم استفادہ کا موقع زیادہ فراہم ہوگا۔ چنانچہ شاہی کتب خانہ کی جملہ کتابیں اور دوسری کتابیں جن کی ضرورت یہاں محسوس کی گئی انھیں دور دراز مقامات سے منگواکر بادشاہ نے مہیا کرادیں نیز مدونین فتاویٰ کے آمد و رفت کے اخراجات شاہی خزانے سے دیے جاتے تھے۔10؂ پھر ان کا یومہ طے کیا گیا۔ مآثر المراء میں لکھا ہے کہ ان میں سے کسی بھی عالم دین کا یومیہ تین روپیہ سے زیادہ نہیں تھا ۔ 11؂ اس کے باوجود بھی تدوین کتاب پر دولاکھ روپیہ صرف ہوئے۔ 12؂ بہرحال کتاب کی تدوین کے وجود میں آنے تک ایک بڑی خطیر رقم صرف ہوئی۔ یہ بات بڑے وثوق و اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے جس پر اتنی بھاری مقدار میں رقم خرچ ہوئی۔ 13؂ اس سے شہنشاہ کی کتاب سے دلچسپی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
فتاویٰ کی تدوین سے عالم گیر کو خاص دلچسپی تھی:
یہ سچ ہے کہ اورنگ زیب سے قبل اور اس کے بعد بھی فتاویٰ کی کئی اہم کتابیں ترتیب و تالیف کے مرحلے سے گزریں، جو شخص واحد یا دوچند لوگوں کی کاوش کہی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس فتاویٰ عالمگیر کا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ کسی فرد واحد کی کاوش کے نتیجے میں معرض وجود میں نہیں آئی، بلکہ اسے کم از کم چار افراد کے ذمہ کیا گیا تھا۔ اور معاونین کی تعداد تقریباً پچاس تھی، اس کے باوجود بادشاہ تمام امور سے فارغ ہوکر صدر مجلس کی زبانی سنتے اور حسب ضرورت اصلاح بھی کرتے۔ اس سلسلے میں مولانا مناظر احسن گیلانی نے لکھا ہے:
’’بادشاہ بنفس نفیس جو اس کتاب کی تدوین میں عملاً شریک تھے یومیہ جتنا کام ہوچکتا تھا اسے لفظاً لفظاً غور سے سنتے تھے۔ ضرورت کے پیش نظر اصلاح و ترمیم بھی بادشاہ کی طرف سے ہوتی تھی۔ شاید یہ امتیاز ہندوستان کی اسی کتاب کو حاصل ہے کہ عالم گیر جیسا بادشاہ اس کے اراکین تدوین میں خود شریک تھا۔ جس طرح اکبر ایک ایک کتاب کو بجائے شخص واحد کے چند آدمیوں سے مرتب کراتا تھا، عالم گیر نے بھی اس فتاویٰ کی تدوین کاکام کہنہ مشق علماء کی ایک کمیٹی کے سپرد کیا تھا‘‘ ۔ 14؂
عالم گیر کو فقہ سے خاص نسبت تھی:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنے والد ملا عبدالرحیم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’والد صاحب نے ایک روز فرمایا کہ میں فتاویٰ عالم گیری پر نظر ثانی کررہا تھا ، ایک جگہ عبارت پیچیدہ تھی، سمجھ میں نہیں آئی میں نے اصل ماخذ کی طرف رجوع کیا، تو معلوم ہوا کہ اس باب کے جامع نے دو عبارتوں کوایک جگہ جمع کردیا ہے جس کی وجہ سے مسئلہ پیچیدہ ہوگیا ہے میں نے اس کے حاشیہ پر لکھ دیا من لم یتفقہ فی الدین فاحنف فیہ، ہذا غلط و صوابہ ہکذا (جس نے دین میں تفقہ حاصل نہیں کیا اس نے دین میں کجروی کی، یہ غلط ہے اور صحیح یوں ہے) خود ملا نظام دو چار صفحات روزانہ بادشاہ کو لے جاکر سناتے تھے۔ ایک دن حسب معمول انھوں نے ان صفحات کو عالم گیر کے سامنے پڑھا تو جلدی میں اس حاشیہ کی عبارت کو متن سے ملادیا جس سے مطلب بالکل ضبط ہوگیا۔بادشاہ نے اس پر ٹوکا اور پوچھا کہ یہ عبارت کیسی ہے، ملا نظام اس وقت کوئی جواب نہیں دے سکے اوریہ کہہ کرٹال دیا کہ میں نے اس عبارت کا مطالعہ نہیں کیا تھا، جواب کل دوں گا، گھر آئے تو ملا حامد سے شکایت کی کہ میں نے یہ حصہ تمہارے اعتماد پر چھوڑ دیا تھا، تمہاری وجہ سے مجھے بادشاہ کے سامنے خفت اٹھانی پڑی‘‘۔ 15؂
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بادشاہ کو علم فقہ سے کافی دلچسپی تھی، یعنی آپ اچھے بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین فقیہ بھی تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس کی سرپرستی قبول فرماکر اس اہم علمی شاہ کار کو معائب سے پاک کرا دیا۔
فتاویٰ عالم گیری کی اشاعتیں اورتراجم:
یہ بات ابھی تشنہ ہے کہ فتاویٰ عالم گیری کی جب تدوین مکمل ہوئی تو پہلی بار کس پریس اور کہاں سے شائع ہوئی، مگر بعد میں اس کے ایڈیشن مختلف ممالک سے شائع ہوئے 1283ھ میں شیخ عبدالرحمن کی نصیح اور ان کے مفید مقدمے کے ساتھ چھ جلدوں میں شائع ہوئی۔اس کا عکس لے کر مکتبہ حقانیہ پشاور پاکستان نے شائع کیا ہے۔اسی طرح مکتبہ رحیمیہ دیوبند سے خط نسخ میں بڑی تقطیع میں چار جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ کچھ سال قبل دیوبند کے مختلف کتب خانوں نے فتاویٰ کا نیاایڈیشن خوب صورت طباعت کے ساتھ چھ جلدوں میں شائع کیا ہے۔ بعد از تحقیق پتہ چلا ہے کہ یہ ایڈیشن پہلے کوئٹہ پاکستان کے کسی مکتبہ سے شائع ہوا تھا۔ اس کے قلمی نسخے ہند و بیرون ہند کے مختلف کتب خانوں میں پائے جاتے ہیں، کسی ایک جلد کا قلمی نسخہ جو عربی زبان میں ہے، مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں موجود ہے ۔ ایک قلمی نسخہ جو 1109ھ کا لکھا ہوا ہے بھیرہ پنجاب کے ایک کتب خانہ میں پایا جاتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں بھی اس کا ایک قلمی نسخہ ہے۔
اس کتاب کو عربی زبان میں لکھا گیا تھا جو اس وقت کی علمی زبان تھی اس لیے اس سے لوگ کم تعداد میں استفادہ کرسکتے تھے، اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے فارسی تراجم بھی کرائے گئے، چنانچہ فارسی زبان میں ترجمہ کرنے کا حکم مولانا عبداللہ رومی چلپی کو دیا اور ان کے ساتھ کچھ معاونین بھی کردیے ۔ مولانا رومی کے ترجمہ کے سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ ترجمہ مکمل ہوا کہ نہیں اس کا علم نہیں ہے اور اگر مکمل ہوا بھی تو مقبول نہیں ہوا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ترجمہ شہزادی زیب النساء کے حکم سے عبداللہ رومی نے کیا تھا۔ 16؂
فتاویٰ عالم گیری کا دوسرا ترجمہ نجم الدین ثاقب کا کوری قاضی القضاۃ (1229ھ) نے کیا، جو کلکتہ اور لکھنؤ سے کئی بار چھپ چکا ہے، اس کے قلمی نسخے کتب خانہ آصفیہ اور خدا بخش لائبریری پٹنہ میں کتاب الحدود والسرقہ کے نام سے موجود ہیں۔ پٹنہ میں جو نسخہ ہے اس کے متعلق فہرست کے مصنف نے لکھا ہے کہ اس پر کتاب اور مصنف کا نام درج نہیں ہے، البتہ اس کی پشت پر کسی نے کتاب الحدود لکھ دیا ہے، لیکن مقابلہ سے یہ ترجمہ حرف بہ حرف مولانا نجم الدین کے ترجمہ سے مل جاتا ہے اس لیے غالب گمان یہ ہے کہ یہ ترجمہ وہی ہے۔ 17؂
جب انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا اقتدار قائم کیا تو مسلمانوں کے شرعی فیصلے کے حل کے لیے جن کتابوں سے استفادہ کیا ان میں ایک فتاویٰ عالم گیری بھی شامل تھی ، اسی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے 1850ء میں پہلی بار اس کے اہم ابواب کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ مترجم این۔بی۔اے بیلی نے Adlgest Mohammad Haneefea and islameaelalelnd کے نام سے شائع کیا، شواہد کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان کی انگریزی عدالتوں میں مسلمانوں کے شرعی مقدمات کا حل ایک مدت تک مذکورہ کتاب سے کیا جاتا رہاہے۔ 18؂
ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ جب اس کی طرف لوگوں کا التفات بڑھنے لگا تو ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کا اردو ترجمہ بھی کیا جائے۔ چنانچہ اس کا پہلا اردو ترجمہ مطبع نول کشور کی اعانت سے مولانا احتشام الدین مراد آبادی نے کیا۔ سید امیر علی نے لکھا ہے کہ مولانا احتشام سے پہلے ہی اس کا ترجمہ ہوچکا تھا۔ جس میں اغلاط کثیرہ کی وجہ سے مسئلہ کی اصل روح بدل گئی تھی، اسی خامی کو دور کرنے کے لیے منشی نول کشور کے ایماء پر مولوی احتشام الدین نے ترجمہ کیاتھا۔19؂تھوڑا حصہ ترجمہ کرنے کے بعد مولانا اس سے علیٰحدہ ہوگئے تھے۔ پھر اس کی تکمیل کا سہرا سید امیر علی کے سر بندھتا ہے اس پر مترجم نے 212 صفحے کا مقدمہ لکھ کر شائع کردیا ہے۔ جس سے کتاب و ترجمہ کی عظمت دوبالا ہوگئی ہے۔ مطبع نول کشور نے اسے دس جلدوں میں فتاویٰ ہندیہ کے نام سے 1292ھ میں شائع کیا ہے۔ اب تک یہی ترجمہ اہل علم کی نظر میں مقبول ہے اس کا عکس لے کر حامد اینڈ کمپنی دہلی نے 1988ء میں شائع کیا ہے۔ یہی ترجمہ پاکستان کے کسی ایک مکتبہ سے بھی شائع ہوا ہے۔ اس کے بعد اس کا آسان اور مفید ترجمہ دیوبند سے قسط وار شائع ہوا تھأ ۔ ترجمہ کا کام متعدد لوگوں نے انجام دیا۔ یہ ترجمہ قسط وار شائع ہوا تھا اس لیے محفوظ نہ رہ سکا۔ 20؂
مذکور فقہی اصطلاحات کی وضاحت:
یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ جب ہم فتاویٰ کا مطالعہ کرتے ہیں تو کچھ فقہی اصطلاحات آتی ہیں جن کی وضاحت انتہائی ضروری ہے تاکہ قارئ کتاب کے ذہن میں کوئی سوال نہ رہ جائے۔ ہاں اصطلاحات اپنا خاص معنیٰ اور مفہوم رکھتی ہیں۔ مثلاً ہو الصحیح ، ہوالاصح، علیہ الفتوی، یفتیٰ، بہ ناخذ، علیہ الاعتماد،علیہ عمل الیوم، علیہ عمل الامہ، ہوالاظہر، ہوالاشبہ، ہو الاوجہ، ہوالمختار، بہ جرالعرف، ہو المتعارف، بہ اخذ علمائنا وغیرہ۔ ان میں بعض الفاظ ایسے ہیں جنھیں دوسرے الفاظ پر فوقیت حاصل ہے۔ مثلاً ایک قول کے ساتھ صحیح اور دوسرے قول کے ساتھ اصح لگا ہوا ہے تو دوسرے کو ترجیح ہوگی۔ کسی قول کے ساتھ علیہ الفتویٰ کے الفاظ ہیں اور کسی کے ساتھ بہ یفتیٰ کے تو دوسرا قول راجح شمار کیا جائیگا۔ اسی طرح ایک قول کے ساتھ لفظ ظاہر ہے اور دوسرے کے ساتھ اظہر ہے تو دوسرا قول راجح ہوگا۔ اسی طرح بہ ناخذ، علیہ الاعتماد، علیہ عمل الیوم، علیہ الامہ کا مشترک مفہوم یہ ہے کہ فقہاء کے نزدیک یہ اقوال معمول بہا ہیں اگر کسی قول کے مقابلہ میں اوجہ کے الفاظ ہیں تو معنیٰ یہ ہوں گے یہ قول دلائل کے اعتبار سے دوسرے قول کے مقابلہ میں زیادہ معتبر ہے۔21؂
فتاویٰ عالم گیری کی خصوصیات:
فتاویٰ کی تدوین و تالیف میں بڑی دقت نظر اور تبحر علمی سے کام لیا گیا ہے، جملہ مسائل ہدایہ کی طرز پر جمع کیے گئے ہیں اوران پر بحث و تمحیص اور تشریح و توضیح میں کمال احتیاط اور ذہانت کا ثبوت دیا گیا ہے مسائل کی تکرار اور حشو وزوائد سے پرہیز کیا گیا ہے۔ ایسے مسائل کو درج نہیں کیا گیا ، لیکن جہاں بھی ان شاذ مسائل کے ذکر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے تو انھیں درج کتاب کرنے میں تامل بھی نہیں کیا گیا ہے ۔ اس کتاب کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس کے حوالے مستند کتابوں کی اصل عبارتوں پر مشتمل ہیں اور اگر کسی مسئلہ کے دو یا دو سے زیادہ حل کسی معتبر کتاب میں درج پائے گئے ہیں تو مزید دلائل اور سیر حاصل بحث کے بعد وہی حل درج کیا گیا ہے جسے دیگر فیصلوں پر ترجیح حاصل ہے، ابواب کی تقسیم اور مضامین کی تہذیب اس انداز میں کی گئی ہے کہ تلاش مسائل میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ جہاں تک انسانی معلومات اور مساعی کاتعلق ہے فتاویٰ عالم گیری غیر محتاط اور سرسری عبارات اور مندرجات سے یکسر پاک ہے۔ 22؂
مراجع و حو اشی:
1؂ ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد، اورنگ زیب ایک نیا زاویۂ نظر، مترجم فیضان رشید، ص1، مطبع خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ ، بدون سن، یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ شاہ جہاں کی اولاد کی تعداد سولہ(16) ہے اور ممتاز محل بنت آصف چودہ(14) بچوں کی ماں تھیں، اورنگ زیب کو باعتبار ترتیب چھٹا درجہ حاصل ہے۔ مولانا احسن میاں، علماء ہند کا شاندار ماضی، ج1، ص467، 1985ء/ 1405ھ)
2؂ مولانا احسن میاں، علماء ہند کا شاندار ماضی، ج1، ص70۔469
3؂ یہ متن میں مذکور فارسی کی عبارت کا ترجمہ ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جملہ علوم و فنون کو مکمل طور پر حاصل کیا، عربی ، فارسی، ترکی اور ہندی زبانوں میں پوری مہارت حاصل کی اس کے ساتھ فنون حربیہ ، ملکی آئیں، طریق جہاں بانی و دستور فرماں روائی کا وہ بہترین سلیقہ فراہم کیا کہ اتنے کم وقت میں سب سے زیادہ پر آشوب صدیوں میں دکن صوبجات میں اس کی گورنری کے بعد کہنہ مشق حکام اور افسران اس کی کامیابی کے ساتھ حکومت نہیں کرسکتے۔ (ایضاً، ص471)
4؂ ایضاً، ص472
5؂ محمد ساقی مستعد خاں، مآثر عالم گیری، مترجم مولوی محمد فدا علی طالب، ص74۔473، مطبع نفیس اکیڈمی کراچی، پاکستان
6؂ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، مادہ محمود، ج20، ص91، مطبع دانش گاہ پنجاب، لاہور
7؂ ایضاً، ص92
8؂ ایضاً، ج15، ص14
9؂ تاریخ برہان پور، ص43، بحوالہ مولانا مناظر احسن گیلانی، ہندوستان میں مسلمانوں کا تعلیم و تربیت، ج1، ص71۔ علاوہ ازیں فتاویٰ کے مدونین پر الگ سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ معاونین فتاویٰ کے کچھ نام درج کیے جارہے ہیں جن کو اردو دائرۂ معارف اسلامیہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
شیخ نظام 1092ھ میں وفات پائی، قاضی محمد حسین جونپوری 1008ھ میں وفات پائی، شیخ وجیہ الدین گوپامؤی 1005۔1082، ملا حامد جونپوری، ملا محمد اکرم لاہوری 1094ھ میں انتقال ہوا، جلال الدین محمد، سید محمد قنوجی، شیخ رضی الدین بھاگلپوری، محمد جمیل صدیقی 1055۔1123ھ، قاضی علی اکبر سعد اللہ خاں، قاضی غلام محمد، سید عنایت اللہ مونگیری، قاضی ابوالخیر ٹھٹھوی، ملا ابوالواعظ ہرگامی، ملا محمد فائق بہاری، امیر میراں علامہ ابوالفرح، قاضی محمد غوث، شیخ احمد خطیب، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، ج1، ص48۔149
10؂ مرزا کاظم شیرازی، عالم گیرنامہ ، ص1087، بحوالہ معارف، اعظم گڑھ، دسمبر 1946، ص445۔446
11؂ صمصام الدولہ شاہ نواز خاں، مآثر الامراء، (مترجم اردو پروفیسر محمد ایوب قادری) مرکزی اردو بورڈ لاہور، پاکستان 1968ء
12؂ محمد ساقی مستعد خاں، مآثر عالم گیری، (مترجم اردو: فدا علی طالب)، ص472
13؂ مناظر احسن گیلانی، ہندوستان میں مسلمانوں کا تعلیم و تربیت، ج1، ص46، مطبع ندوۃ المصنفین، 1940ء
14؂ ایضاً، ص45۔46
15؂ شاہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، انفاس العارفین، ص24، مطبع مجتبائی دہلی، 1334ھ، مترجم اردو: سید محمد فاروق القادری، مکتبہ الفلاح دیوبند، ص74۔75
16؂ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، ج15، ص47، نیز ج20، ص92 پر لکھا ہواہے کہ فارسی ترجمہ لارڈ سرجان کے مشورہ سے کیا تھا اور اس کے کئی ایڈیشن کلکتہ سے چھپے بھی تھے۔
17؂ ماہ نامہ معارف، اعظم گڑھ، نومبر 1947ء، ص19
18؂ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، ج15، ص47، 1970ء/1390ھ
19؂ فتاوی عالم گیری (مقدمہ) ، ج1، ص211، مطبع حامد اینڈ کمپنی دہلی، 1988ء
20؂ اس ترجمہ کو کئی لوگوں نے مل کر انجام دیا تھا ان کے اسماء گرامی یہ ہیں: مفتی جمیل الرحمن، مولانا لقمان الحق فاروقی، مفتی نظام الدین(مفتی دارالعلوم دیوبند)، مفتی کفیل الرحمن عثمانی وغیرہ۔ نیز اس ترجمہ کو بھی یکجا شکل میں شائع ہونے کی ضرورت ہے۔
21؂ لقمان فاروقی (مترجم اردو)، فتاویٰ عالم گیری، ص24، مطبع آفتاب ہدایت دیوبند
22؂ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، ج15، ص1390147ھ/ 1970ء

تبصرے بند ہیں۔