فوجی بغاوت اور ترکی کی شب بیدار!

ڈاکٹر صلاح الدین ایوب

آج ترکی کی اسلام پسند عوام نے باغی فوجی دستے کے ناپاک ارادوں کو پاش پاش کردیا۔ فوج کا یہ دستہ جس میں بری و بحری فوج کے کچھ اعلی افسران بھی شامل تھے خارجی اشاروں پر اسلام پسند حکومت کاتختہ پلٹنا چاہتا تھا۔ رات کی تاریکی میں فوج کے اس دستے نے پہلے ٹیوی چینلز کے آفسوں پر قبضہ کیا تاکہ حکومت اور عوام کے بیچ میں حائل ہوجائے اور ملک کی عوام کو وہی خبریں حاصل ہوں جو باغی گروپ ان تک پہنچانا چاہے۔ پھر ائیرپورٹ اور دوسری سرکاری عمارتوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کی۔ رکاوٹ بننے والے پولیس افسران اور عوام کا قتل شروع کردیا۔ آرمی چیف کو نظر بند کردیا، صدر جمہوریہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ پارلیمنٹ اور صدر جمہوریہ کے مسکن پر ہوائی حملے کیے۔ گویا یہ ایک مکمل منصوبہ بند سازش تھی جس کا مقصد اسلام پسند حکومت کا تختہ پلٹنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اور خارجی مدد کے بغیر اتنی بڑی جرات چند فوجی افسران کیسے کرسکتے ہیں؟

بہرحال صدر اردوغان کے فوری قائدانہ فیصلوں نے اس سازش کو ناکام کردیا۔ اردوغان نے عوام کو سوشل میڈیا کے ذریعہ حالات سے باخبر کیا کیونکہ اردوغان باغیوں کی اس چال کو پوری طرح سمجھ چکا تھا کہ انہوں نے ٹیوی چینلز سے بغاوت کی شروعات کیوں کی ہے اور عوامی حکومت کی طاقت کا حصول و بقا صرف عوام ہی کے ہاتھ میں موجود ہے۔ اس نے عوام سے اپیل کی کہ وہ جمہوری حکومت کے دفاع میں گھروں سے باہر نکل آئیں۔ حکومت اور سربراہ سےعوام کی ایسی محبت دیکھنے کو ملی کہ آدھی رات میں پیغام ملتے ہی جوق در جوق عوام نے شہر کے مرکزی علاقوں کو اپنی وجود سے ڈھانپ لیا۔ فوجی گاڑیوں کو پیش قدمی کرنے سے پوری طرح روک دیا۔ ایسا منظر تھا کہ ترکی نوجوان فوجی ٹینکوں کے سامنے یا تو سینہ تانے کھڑے تھے یا اس کے راستے میں رکاوٹ بن کر لیٹ گئےتھے، مرد تو مرد نقاب پوش خواتین اس خبر کو سننے کے بعد خود کو گھروں میں روک نہیں سکیں۔ اردوغان نے دوسرا اہم فیصلہ یہ کیا کہ فوراً انقرہ سے استنبول کا رخ کیا۔ اسے معلوم تھا کہ ایسے حالات میں عوام کی کثرتِ تعداد کا اہم ترین کردار ہوتا ہے لہذا بڑی آبادی والے شہر سے عوامی دفاع کی شروعات کی۔ البتہ یہ اس مرد آہن کی جرات تھی کہ یہ جانتے ہوئے کہ استنبول کے ہوائی اڈے پر باغی فوج قبضہ کرچکی ہے، استنبول ائیرپورٹ پہنچا۔ بہت بڑی تعداد میں استنبول کی عوام استقبال کے لیے پہنچ گئی اور باغی فوجیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور پھر وہاں سے اردوغان نے عوام کو خطاب کیا۔ لمبی تقریر کے دوران اپنے وفادار فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان باغی افسران کا بالکل ساتھ نہ دیں کیونکہ ان کے ارادے ناپاک ہیں اور آپ لوگ جیش محمد (محمد کی فوج ) ہو۔ ایک سیکولر جمہوری ملک کے صدر کا یہ واحد جملہ سب کچھ بیان کرتا ہے۔
اردوغان کے فوری بردبار اقدامات اور عوام کے جرات مندانہ ردعمل نے اس بغاوت کو سر اٹھاتے ہی کچل دیا۔ فوجی گرفتار ہوئے، مقبوضہ آفسوں کو آزاد کروالیا گیا اور پوری ملک میں جشن منایا جانے لگا۔

بہت سے ممالک نے بغاوت کی خبر سنتے ہی مذمت کی لیکن کچھ ممالک اور عہدہ داران ایسے بھی تھے جنہوں نے بیان دینے سے قبل رخ واضح ہونے کا انتظار کیا۔ اور بعض ممالک ابھی تک امیدوں کے سہارے خاموش ہیں۔

اب اس حادثے کے نتیجے میں چند اہم سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان فوجی افسران کو کہاں سے شہ ملی تھی؟ آخر کن ممالک اور تنظیموں کی یہ سازش تھی؟ کیا چاہتے تھے یہ فوجی افسران؟ اس واقعے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ترکی اس وقت سخت آزمائشوں سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف شام میں زبردست خانہ جنگی کے نتیجے میں ملک کی ایک سرحد بری طرح لاقانونیت کا شکار ہے۔ جنگ سے متاثر تیس لاکھ شامی مہاجرین ترکی میں پناہ گزیں ہیں۔ کمیونسٹ علیحدگی پسند کرد تنظیم پی کے کے موقع پرستی کا ثبوت دیتے ہوئے دوبارہ بغاوت پر آمادہ ہے اور اسلحوں کے ذریعہ آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کررہی ہے۔ داعش آئے دن ملک کے اہم مقامات پر خودکش حملے کررہا ہے۔ شامی مجاہدین کی حمایت میں جنگی طیارہ مار گرانے کے نتیجے میں روس دشمن ہوچلا ہے۔ علیحدگی پسند تنظیم پی کے کے کو امریکہ کی کھلے عام تائید و مدد حاصل ہورہی ہے۔ شام میں اور عراق میں کردستان کے علاقے میں ایران سے آمنا سامنا ہے۔ مصر کی حالیہ حکومت سے اخوان المسلمون کی تائید کے نتیجے میں دشمنی ہوچکی ہے، اسرائیل سے غزہ کی مدد کے نتیجے میں ہمیشہ تکرار رہتی ہے۔ چنانچہ ترکی کی ایک ایک خارجہ پالیسی اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ وہ ایک اسلام پسند جمہوری حکومت ہے اور جمہوری راستے پر اسلام پسند طاقت کا ابھرنا اسلام دشمنوں اور موقع پرست مسلم حکمرانوں کو کیسے برداشت ہوسکتا ہے۔ چند سالوں قبل مصر میں یہی سازش ہوئی اور تیونس اور ترکی میں مسلسل اسلام پسند حکومتوں کے خلاف کوئی نہ کوئی سازش ہوتی رہی ہے۔
باغی فوجیوں کے ہاتھوں میں جس طرح ہتھیار تھے اسی طرح وہ خود بھی سازش کرنے والوں کے ہاتھوں کے ہتھیار تھے اور ظاہر ہے کہ یہ ہتھیار کوئی اسلام دشمن ہی استعمال کررہا تھا۔

البتہ بعض دفعہ جسے ہم برا واقعہ سمجھتے ہیں، دراصل وہ ایک اچھا واقعہ ہوتا ہے۔ ترکی کا یہ واقعہ بھی اسی نوعیت کا محسوس ہوتا ہے۔ یہ واقعہ اپنے اندر عرب انقلابات کی لہر کو دوبارہ طاقت بخشنے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ واقعہ مصر میں غیرجمہوری فوجی سربراہ کی نیندیں اڑا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ واقعہ مظلوم عوام کو ان کی طاقت سمجھاتا ہے۔ یہ واقعہ ترکی کی حکومت کو مزید طاقت بخشتا ہے۔ یہ واقعہ ترکی فوج سے گندے عناصر کو دور کرنے میں مدد کرے گا۔ یہ واقعہ کئی سازشی چہروں کو بے نقاب کرے گا۔ ترکی کی یہ شب بیدار پوری دنیا کے مسلمانوں کو بیدار کردینے اور اسلام دشمن طاقتوں کو خبردار کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔