قدس کو مرکز ٹھہرایا فطرت کے بیماروں نے!

نازش ہما قاسمی

جھوٹی تسلی اور دوغلی پالیسی کے ذریعے مسلم حکمرانوں نے ہمیشہ فلسطینی شہیدوں کا لہو بیچا ہے۔۔۔!۔۔منکووووووول۔۔۔

ٹرمپ کا وہائٹ ہاوس میں دجالی وابلیسی ذہنیت کو عیاں کرتا بیان کہ یروشلم القدس اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا عالم اسلام میں ایک کہرام برپا کرچکا ہے ہرطرف سے صدائے احتجاج بلند ہورہی ہے فلسطینی مجاہدوں نے صہیونیوں کے لیے القدس کو خط احمر قرار دیا ہے خط احمر مطلب سرخ لکیر یعنی القدس کو حاصل کرنے کیلیے صہیونیوں کو خون سے نہانا ہوگا، حماس رہنما اسماعیل ہنیہ، خالد مشعل اور رابطہ عالم اسلامی کے ڈاکٹر یوسف القرضاوی، مولانا سید سلمان حسینی ندوی سمیت دیگر علمائے ہند، و فلسطین و علمائے عرب نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے امت مسلمہ سے اقصی کی بازیابی کیلیے کمر بستہ ہونے کو کہا ہے۔ فلسطینی خبررساں ادارے مرکز اطلاعات کے مطابق ’’ٹرمپ کے بیان کے بعد فلسطین میں ایک نئی تحریک انتفاضہ شروع ہوگئی ہے۔

 جمعرات کو ملک گیرعوامی احتجاجی مظاہروں کےدوران کئی مقامات پر اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں میں تصادم ہوا۔ پرتشدد مظاہروں میں کم سے کم162 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔فلسطین میں انتفاضہ ’آزادی القدس‘ کے پہلے روز ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں امریکا اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ مقبوضہ غرب اردن، بیت المقدس اور غزہ کی پٹی کے علاوہ دوسرے فلسطینی شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین سخت مشتعل اور غصے میں تھے۔ انہوں نے اسرائیلی فورسز پر سنگ باری کی جب کہ قابض فوج نے فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے روایتی طریقے اپناتے ہوئے ان پر زہریلی آنسوگیس کی شیلنگ کی، ربڑ کی گولیاں چلائیں جب کہ براہ راست فائرنگ بھی کی گئی۔غرب اردن کے شہروں الخلیل، نابلس، بیت لحم، مشرقی بیت القدس اور رام اللہ میں جگہ جگہ اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کےدرمیان تصادم ہوا۔ جھڑپیں رات گئے تک جاری ہیں۔اسرائیلی فوج کی آنسوگیس کی شیلنگ سے 75 مظاہرین زخمی ہوئے۔

غزہ کی پٹی میں 116 مظاہرین زخمی ہوئے۔ ان میں 18 فلسطینی ربڑ کی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔قلقیلیہ کے عزون قصبے میں 46 فلسطینی زخمی ہوئے جب کہ فلسطین کے دوسرے شہروں میں بھی بڑی تعداد میں صہیونی فوج نہتے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا‘‘۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ’’غرب اردن کے شمالی شہروں طولکرم اور قلقیلیہ میں  اسرائیلی فوج اور فلسطینی مظاہرین میں دن بھر آنکھ مچولی جاری رہی۔ جنوبی شہر بیت لحم اور وسطی علاقے رام اللہ میں بھی اسرائیلی فوج اور فلسطینی مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں دسیوں افراد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس کی  شیلنگ کی، دھاتی گولیاں، صوتی بم اور براہ راست فائرنگ بھی کی۔

 جمعرات کو امریکی اقدام کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے ساتھ نظام زندگی مفلوج رہا، تعلیمی ادارے اور کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں۔ خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے القدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کے متنازع اعلان کے بعد اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے ملک گیر احتجاج کی کال دی تھی۔ حماس نے جمعہ کو بھی یوم الغصب کا اعلان کیا تھا۔ حماس کی جانب سے یوم الغضب منایا گیا جس میں فلسطینوں کی شرکت اور ان کے قدس کے تئیں والہانہ جوش و  عقیدت نے یہ ثابت کردیا کہ صلاح الدین کو جننے والی مائیں بانجھ نہیں ہوئی ہیں۔ خیر ایک ایسے وقت میں ٹرمپ کا یہ بیان آنا جس وقت اکثر مسلم ممالک ٹرمپ کے ہم نوا و ہم خیال ہیں کسی خطرناک مہم اور سازش کی جانب اشارہ کرتا ہے چونکہ ٹرمپ کی شخصیت ایک متعصب اور شدت پسند یہودی آلہ کلار کی ہے اس سے کار خیر کی امید رکھنا دھوکہ ہے لیکن اس کے باوجود عرب حکمرانوں کا ان کے تئیں نرم رویہ رکھنا اسے اعزاز سے نوازنا اس کی پالیسیوں کو درست قرار دینا ان یہودیوں کے خلاف بولنے پر علمائے حق کو پابند سلاسل کرنا یہ القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت بنانے پر ہی ابھارنا تھا اب جبکہ ٹرمپ نے اپنے ابلیسی فرمان کی وجہ سے یہ بات ظاہر کردی ہے تو اس کے خلاف عالم اسلام میں بحث جاری ہے۔

اقصی سے محبت کرنے والے سرزمین انبیاء کو ہرحال میں دجالی فتنوں سے بچائے رکھیں گے۔ ہاں البتہ انہیں صلاح الدین ایوبی کی طرح دو محاذوں پر نبرد آزما ہونا ہوگا، اپنوں کی سرکوبی کرنی ہوگی اور دوسرے والضالین کے مصداق ٹھہرائے ہوئے یہود و نصاری سے ـ اور اقصی کی بازیابی اور القدس کو صہیونی پنجہ و استبداد سے بچانے والے اب تک تو ایسا ہی کرتے آرہے ہیں، ہم صرف ان کے لیے دعا گو ہیں کہ خدا انہیں اپنی غیبی نصرت سے امداد کرے۔ٹرمپ کے بیان نے تیسری عالمی جنگ کا بگل بجادیا ہے کیونکہ مسجد اقصی  فلسطینی مسلمانوں ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی عقیدتوں کی آماجگاہ ہے اور یہودیوں کا بھی مرکز آستھا ہے، لیکن یہودیوں اور مسلمانوں میں فرق ہے یہودی مسجد اقصی کو شہید کرکے ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور مسلمان ایسا نہ کرنے سے روکنے کیلیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ ان شاء اللہ مسجد اقصی کے لیے ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور وہ اپنے مشن میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

اب یہاں پر عالم اسلام کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ٹرمپ کے بیان کی مخالفت کریں، ان نہتے فلسطینیوں کا ساتھ دیں جو جدید ٹیکنالوجی سے لیس اسرائیل کے سامنے ابابیل کی کنکریوں سے مقابلہ کررہے ہیں پوری دنیا میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف سراپا احتجاج ہوجائیں اپنے حکمرانوں کو مجبور کردیں کے وہ امریکہ سے سفارتی تعلقات توڑیں، اور اسرائیل جو کہ امریکہ کی ناجائز اولاد ہے اس کا بائیکاٹ کریں پوری دنیا کے مسلمان اپنے ملک میں پر امن طور پر احتجاج کرتے ہوئے امریکن قونصلیٹ میں میمورنڈم پیش کریں امریکہ آج سپر پاور ضرور ہے لیکن اتنا یاد رکھیں خدا نہیں۔ آج ہماری زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم مادیت پرست ہوکر ان طاقتوں سے مرعوب ہوچکے ہیں، ہمیں اسلاف کے عزائم کو دہرانے کی ضرورت ہے، ہمیں جنگ قادسیہ نہیں بھولنی چاہیے، ہمیں ایوبی کی شجاعت فراموش نہیں کرنی چاہیے، ہمیں علی بن سفیان کی ذہانت نہیں کھونی چاہیے، ہمیں طارق بن زیاد کے عزائم پردہ نسیاںمیں نہیں ڈالنے تھے۔ ہم وہ قوم ہیں جو قلت و کثرت نہیں دیکھتے بلکہ ایمانی قوتوں سے باطل کا مقابلہ کرتے ہیں اور ایمانی قوتوں نے ہمیں بڑے بڑے لشکر جرار پر فتح نصیب فرمائی ہے۔

اب جب کہ ساری دنیا دجال کے دام فریب میں ابلیسی فرمان کے ذریعے مسلمان مسلمان سے نبرد آزما ہو کر اپنی طاقت کھوچکا ہے، ایسے موقع پر اب ہمیں امت واحدہ کی شکل اختیار کرنی ہوگی نہیں تو پھر اقصی و قدس پر صہیونی اپنی فتح کا پرچم لہرادیں گے ہمیں چاہیے کہ ہم ان فلسطینیوں کی امداد کریں ان کی آواز بنیں اپنے اپنے شہروں سے پرامن احتجاج کرتے ہوئے سعودی ایمبیسی، مصر ایمبیسی، اور دیگر مسلم ممالک کی ایمبیسیوں کو مجبور کریں کہ وہ یہودیوں سے تمام مراسم ختم کرکے تیسری عالم جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ آج کفر ہزار خانوں میں بٹا ہونے کے باوجودمتحد ہے جبکہ مسلمان ایک ہونے کے باوجود منتشر ہے ہمیں اس انتشار کو اتحاد میں بدلنا ہوگا اسی وقت ہم اقصی کی بازیابی کے لیے کامیاب کوشش کر سکتے ہیں۔مسلم حکمرانوں سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ رکھیں کیوں کہ انہوں نے اپنی دوغلی پالیسی سے ہمیشہ فلسطینی شہیدوں کا لہو بیچا ہے۔

آپ علمائے ربانین سے رشتہ جوڑیں ان کا ساتھ دیں انہیں کامیاب کریں۔ یاد رکھیں اقصی یہ صرف اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے ہرکلمہ گو مسلمان پر ضروری ہے کہ اقصیٰ کی حفاظت کیلئے سعی کرے، خصوصاً اہل عرب جو مکمل طور پر اسلامی ممالک کہلاتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ بحیثیت مسلم قائد ہونے کہ اہل فلسطین کو ظالموں کے شکنجہ سے بچائے اور اقصی کی حفاظت کی خاطر ایوبی کا عزم پیدا کر کے دنیائے ظلم و ستم پر حملہ آور ہو، بصورت دیگر وہ دن دور نہیں جب ہم اقصیٰ کا نام تو سنیں گے لیکن اقصیٰ کا نام ونشان ختم ہو چکا ہوگا اور اسکی جگہ ہیکل سلیمانی ہوگا اور اقصیٰ کے آنسوؤں کے سیلاب میں ہم تمام غرق ہو جائیں گے، اور گناہ گارہوں گے۔

تبصرے بند ہیں۔