قربانی میں حصہ لینا

رضی الہندی

اونٹ و گائے کی قربانی میں حصہ لینا جائز ہے کیونکہ زمانہ خیرالقرون سے اسکی دلیل ملتی ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں۔

عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، مَعَنَا النِّسَاءُ وَالْوِلْدَانُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ طُفْنَا بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ» قَالَ قُلْنَا: أَيُّ الْحِلِّ؟ قَالَ: «الْحِلُّ كُلُّهُ» قَالَ: فَأَتَيْنَا النِّسَاءَ، وَلَبِسْنَا الثِّيَابَ، وَمَسِسْنَا الطِّيبَ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ، وَكَفَانَا الطَّوَافُ الْأَوَّلُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْتَرِكَ فِي الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ، كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِي بَدَنَةٍ(صحیح مسلم)

 حضرت جا بر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:  ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ حج کا تلبیہ پکا رتے ہو ئے نکلے ، ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے ۔ جب ہم مکہ پہنچے تو ہم نے بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف  کیا ۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں ارشاد فر ما یا  :  ”  جس کے ہمرا ہ قر با نی کے جا نور نہیں ہیں وہ  (احرام سے)  آزاد ہو جا ئے ۔  ”  ہم نے دریا فت کیا  :  کون سی آزادی  ( حلت ) ؟ آپ نے فر ما یا :  ”   (احرا مکی پابندیوں سے)  پوری آزادی ۔  ”  (حضرت جا بر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے )  کہا  :  ہم نے اپنی بیویوں کے پاس(بغرض صحبت) آئے، اپنے  ( معمول کے )  لباس پہنے اور خوشبو  ( کا بھی)  استعمال کیا۔  جب ترویہ  ( آٹھ ذوالحجہ)  کا دن آیا ہم نے حج کا  (احرا م باندھ کر)  تلبیہ پکارنا شروع کیا اور ہمیں  ( حج قران کرنے والوں کو)  صفا مروہ کے در میان پہلا طواف  ( سعی مراد ہے )  ہی کا فی ہو گیا۔  ( ہمیں  ) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے (یہ بھی)  حکم دیا کہ گائے اور اونٹ کی قربانی میں ہم سات سات افراد شریک ہو جا ئیں۔(صحیح مسلم )

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ،‏‏‏‏ فَحَضَرَ الْأَضْحَى،‏‏‏‏ فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً،‏‏‏‏ وَفِي الْبَعِيرِ عَشَرَةً (رواہ الترمذی)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی کا دن آ گیا، چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں کواور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کو شریک کیا۔

(ترمذی البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے مزید امام ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے)

 ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ مِنْ تِهَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصَبْنَا إِبِلًا وَغَنَمًا فَعَجِلَ الْقَوْمُ فَأَغْلَيْنَا الْقُدُورَ، ‏‏‏‏‏‏قَبْلَ أَنْ تُقْسَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأُكْفِئَتْ ثُمَّ عَدَلَ الْجَزُورَ بِعَشَرَةٍ مِنَ الْغَنَمِ .(رواہ ابن ماجہ)

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہامہ کے ذوالحلیفہ نامی جگہ میں تھے، ہم نے اونٹ اور بکریاں مال غنیمت میں پائیں، پھر لوگوں نے    عجلت سے کام لیا، اور ہم نے  ( مال غنیمت )  کی تقسیم سے پہلے ہی ہانڈیاں چڑھا دیں، پھر ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا، تو وہ الٹ دی گئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر ٹھہرایا _

(ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اس حدیث کی دو سندیں ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث صحیح ہے مزید البانی رحمہ اللہ کے مطابق حدیث صحیح ہے اورمزید اس معنی کی حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر قربانی کرنے والے دس افرا ہوں تو ایک اونٹ ذبح کر سکتے ہیں جبکہ اگر حج کے لئے گئے ہیں اور وہاں پر قربانی میں اونٹ میں حصہ لینا ہے تو سات آدمی شریک ہونگے اور دوسرے سفر اور حضر میں دس آدمی بھی ایک اونٹ میں حصہ لے سکتے ہیں اور سات بھی، یاد رہے گائے میں سات افراد ہی حصہ لے سکتے ہیں حج کے دوران ہوں یا مقیم وطن ہوں۔

تیسرے ان دونوں میں سے کسی بھی جانور کی قربانی اکیلا آدمی پیش کرنا چاہے یا اپنے و اہل خانہ کی طرف سے قربان کرنا چاہے تو اس پر بھی دلیل واضحہ ہیں۔ خاص کر روایت عائشہ رضی اللہ عنہا۔

تبصرے بند ہیں۔