قصۂ درد سناتی ہوں کہ مجبور ہوں میں!

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

 بحر روم کے کنارے شام سے مصر تک پھیلی ہوئی طویل ساحلی آبادی کوفلسطین کہاجاتاہے۔تقریبا27 ہزار مربع کلو میٹر کےرقبہ پر مشتمل یہ سرزمین عرصہ ٔدرازتک انبیاء و رسل کا مرکزومرجع اورمسکن ومدفن رہی ،اسی بابرکت خطہ ارض میں وہ مقدس شہر بھی واقع ہے جسے قدیم تاریخ میں "ایلیا”، عربی میں "القدس” اور اردو میں "بیت المقدس” کہا جاتا ہے۔

اس مقدس شہر کی تاریخ ایسی ہنگامہ آرائیوں اور معرکہ خیزیوں سے بھری پڑی ہے جس میں تین آسمانی مذاہب کے مقدس مقامات و آثار پائے جاتے ہیں ۔

اس لحاظ سےبیت المقدس تینوں ہی آسمانی مذا  ہب اسلام،عیسائیت ا ور یہودیت کے نزدیک قابل احترام اور لائق تعظیم ہے،اہل اسلام کے نزدیک اس لئے کہ یہیں مسجد اقصی ہے جو ان کا قبلہ اول اور جائے معراج ہے،عیسائیوں کے نزد یک اس وجہ سے کہ اسی میں ان کا سب سے مقدس چرچ "کنیسہ قیامہ "ہے جس میں بقول ان کے حضرت عیسی علی نبینا و علیہ السلام مصلوب و مدفون ہوئے اور جس پر قبضہ کیلئے متحدہ یورپ نے طویل خوں ریز صلیبی جنگیں لڑیں اور بالآخر بطل جلیل سلطان حضرت صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شرم ناک اور تباہ کن شکست سے دوچار ہوناپڑا۔ اور یہودیوں کے نزدیک اس بنا پر کہ یہیں پر  کبھی وہ ہیکل سلیمانی تھا جس کی تباہی کو یاد کر کے وہ آج بھی مسجد اقصی کی مغربی دیوار کے پاس گریہ و زاری کرتے ہیں اور اس کی تعمیر نو کو عظیم تر اسرائیل کی خشت اول گردانتے ہیں ۔

 اسی متبرک سرزمین کی با بت اس کے صحیح حقداروں اور اس کے جھوٹے دعویداروں کے درمیان صدیوں سے ایک مستقل آویزش اورمسلسل کشمکش جاری ہے ۔

 طاغوتی قوتیں شب و روز اسے نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے اسرائیل کو اپنا آلۂ کار بنا کر اسلام کی مقدس ترین مسجد” مسجد اقصی” کو نذر آتش کیا؛جس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ بتدریج اس مقدس سرزمین سے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا جائے ۔

یہی وہ باعظمت ارض مقدس ہے؛جس کا تعارف کرواتے ہوئے فاتح اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے سپاہیوں سے کہتے ہیں :

 اے میرے رفیقو!16ہجری کا ربیع الاول یاد کرو جب عمر و بن العاص اور ان کے ساتھیوں نے بیت المقدس کو کفار سے آزاد کرایا تھا ۔ حضرت عمر ؓ اس وقت خلیفہ تھے ، وہ بیت المقدس گئے ۔حضرت بلال ؓ ان کے ساتھ تھے ۔ حضرت بلال ؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے خاموش ہوئے تھے کہ لوگ ان کی پر سوز آواز کو ترس گئے ، انہوں نے اذان دینی چھوڑ دی تھی ۔ لیکن مسجد اقصیٰ میں آکر حضرت عمر ؓ نے انہیں کہا کہ بلا ل! مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے درودیوار نے بڑی لمبی مدت سے اذان نہیں سنی ۔ آزادی کی پہلی اذان تم نہ دو گے ؟ حضور اکرم ﷺ کی وفات کے بعد پہلی بار حضرت بلا ل ؓ نے اذان دی ، اور جب انہوں نے کہا کہ اشھد ان محمد رسول اللہ ۔تو مسجد اقصیٰ میں سب کی دھا ڑیں نکل گئی تھیں ۔

ہمارے دور میں ایک بار پھر مسجد اقصیٰ اذان کو ترس رہی ہے ۔ 90برسوں سے اس عظیم مسجد کے دوردیوار کسی مؤذن کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔

⁠⁠⁠مسجد اقصی کے دروازےکچھ تو پہلے سے ہی بند کئے جاچکے تھےاورکچھ حال ہی میں بند کئے گئے۔

پانچ دروازوں پر حالیہ الیکٹرانک انڈیکیٹرس لگائے ہیں ؛جس کا اسرائیل مجاز نہیں اور انھیں لگانے کے خلاف احتجاجاً مسلمان مسجد میں نہیں جارہے ۔

اسلامی تحریک مزاحمت ‘‘حماس ’’ اور فلسطین کی دوسری جماعتوں نے آج جمعہ کو جمعۃ الغضب کا اعلان کیاہے فلسطینی عوام سے کہا گیا کہ شہر میں کہیں بھی نماز نہ پڑھیں ؛بل کہ سب مسجد اقصی کے دروازے پرنماز جمعہ اداکریں !

اسرائیلی افواج مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے مستقل کیمیکل مواد کا استعمال کر رہی ہے؛مگر وہ  پوری غیرت وحمیت اور ہمت وپامردی سے مقابلہ کےلئے جمے ہوئے ہیں ۔

ہمارا اسلامی فریضہ ہے کہ آج کے جمعہ کو مسجد اقصی سے منسوب کرکے عوام کواس تعلق سے آگاہ کریں !

تبصرے بند ہیں۔