قلب اور کیفیاتِ قلب

سیدجلال الدین عمری

قلب کے لیے اردو زبان میں دل کالفظ بولا جاتا ہے۔ دل غلط اور صحیح افکار وجذبات کی آماجگاہ ہے۔ اس سے انسان کی حیاتِ جسمانی ہی نہیں حیاتِ روحانی بھی وابستہ ہے۔ قرآنِ مجید دل کا اسی رخ سے ذکر کرتا ہے۔ اس نے اس روییّ پر تنقید کی ہے کہ آدمی دل سے صحیح کام نہ لے اور اندھا بہرا بن کر غلط راستے پر چل پڑے۔ خدا کے منکرین و مشرکین یہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ غفلت کی یہ زندگی جانوروں سے بدتر زندگی ہے اور آخرت کو تباہ کرنے والی ہے:

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مِّنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَا أُوْلٰـئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلٰـئِکَ ہُمُ الْغَافِلُوْنَ (  الاعراف: 179)

’’جنوں اور انسانوں میں سے بہت سے وہ ہیں، جن کو ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے دل ہیں، لیکن وہ ان سے نہیں سمجھتے۔ ان کی آنکھیں ہیں، لیکن وہ ان سے نہیں دیکھتے اور ان کے کان ہیں، لیکن ان سے وہ نہیں سنتے۔ یہ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے زیادہ بھٹکے ہوئے۔ یہ وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہیں۔ ‘‘

دل اور انسانی زندگی

دل انسان کے فکر وعمل کا رخ متعین کرتا ہے۔ اسی بِنا پر وہ جنت یا جہنم کا مستحق ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ جہنم میں اس وجہ سے جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے سوچنے سمجھنے کی جو صلاحیت دی، انھوں نے اس کا صحیح استعمال نہیں کیا۔ اسی لیے فرمایا: ’’ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ بیان کی: لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا۔ (اللہ نے ان کو دل دیے، لیکن اس سے وہ غوروفکر اور سوجھ بوجھ کا کام نہیں لے رہے ہیں )۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کو کس نے پیدا کیا؟ اگر اللہ نے پیدا کیا ہے تو وہ ان سے کیا چاہتا ہے؟ انھیں دنیا میں کیسی زندگی گزارنی چاہیے؟ کیا یہ زندگی یوں ہی ختم ہوجائے گی یا اس کے بعد بھی کوئی زندگی ہے؟ جہاں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے؟ انھوں نے یہ سوچ کر زندگی گزاردی کہ اس دنیا سے آگے کچھ نہیں ہے  ع

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

قرآن کہتا ہے: وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا۔ (وہ آنکھیں رکھتے ہیں، لیکن ان سے دیکھتے نہیں ہیں )۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی آنکھیں پھوٹ گئی ہیں اور وہ اندھے ہوگئے ہیں، بلکہ وہ نگاہِ حقیقت بیں سے محروم ہیں۔ وہ دنیا کو مادّی راحت و آسائش کا ذریعہ تصور کرتے ہیں، اس سے فائدہ اٹھانے، لذت یاب ہونے اور جذبات کو تسکین دینے کی تدبیریں کرتے ہیں۔ ان کی علم و تحقیق اور تگ و دو اسی کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے قدرت کی کارفرمائی انھیں نظر نہیں آتی۔ وہ دیکھنے کے باوجود حقیقت میں نہیں دیکھتے۔ ان کے بارے میں کہا گیا:

وَکَأَیِّن مِّنْ آیَۃٍ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَ (یوسف:105)

’’کتنی ہی نشانیاں ہیں آسمانوں اور زمین میں، ان پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے، لیکن وہ ان سے بے رخی کے ساتھ گزرجاتے ہیں۔ ‘‘

جو لوگ دل و دماغ سے کام نہیں لیتے، دیکھنے میں تو جانوروں سے وہ مختلف نظر آتے ہیں۔ ان کا قد سیدھا ہے، چار پیر کی جگہ دو پیر سے چلتے ہیں، ہاتھوں سے چیزوں کو پکڑتے اور استعمال کرتے ہیں۔ بے زبان نہیں، منہ میں زبان رکھتے ہیں، لیکن ذہن و مزاج اور رویہ کے لحاظ سے جانور ہی ہیں۔ جانور کو زندہ رہنے، کھانے پینے اور جنسی خواہش کی تکمیل اور نسل کَشی سے آگے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ یہ بھی ان ہی امور کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: بل ہم اضل، (بلکہ وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں )۔ اس لیے کہ جانور کوعقل نہیں ہے، لیکن یہ باعقل و باخرد جانور ہیں۔ جانور سے قیامت میں باز پرس نہ ہوگی کہ اس نے کیا دیکھا، کیا نہیں دیکھا، قلب و دماغ سے کام لیا یا نہیں لیا، لیکن انسان کو ان سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وجہ سے کہا گیا کہ یہ غفلت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

دنیا میں بڑی بڑی زور آور اور طاقت ور قومیں پائی گئیں۔ جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی مخالفت کی اور ان کی تعلیمات کو ٹھکرا دیا وہ تباہ ہوگئیں۔ ان کی مادّی ترقی اور شان و شوکت انھیں بچا نہ سکی۔ قرآن کہتا ہے: جو لوگ دل و دماغ سے محروم ہیں وہ اللہ کی پکڑ کو گردشِ دوراں یا تاریخ کے لازمی تقاضوں کے طور پر دیکھتے ہیں، اس سے جو نصیحت حاصل کرنا چاہیے نہیں حاصل کرتے:

فَکَأَیِّن مِّنْ قَرْیَۃٍ أَہْلَکْنَاہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَقَصْرٍ مَّشِیْدٍ۔ أَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِیْ الْأَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَعْقِلُْونَ بِہَا أَوْ آذَانٌ یَسْمَعُوْنَ بِہَا فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُوْرِ o(الحج: 45،46)

’’کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کردیا، اس لیے کہ انھوں نے ظلم کا راستہ اختیار کیا۔ یہ اپنی چھتوں کے ساتھ الٹی پڑی ہیں، کنویں بیکار ہیں (کوئی ان کا استعمال کرنے والا نہیں ) اور مضبوط قلعے ہیں، جو کھنڈر بن گئے ہیں۔ کیا یہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ہوتے جس سے وہ سوچتے یا کان ہوتے، جن سے سنتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں، جو سینوں میں ہیں۔ ‘‘

کفر و شرک اورطبعِ قلب

قرآن مجید نے کفر وشرک کے رویہ اور اس کے اسباب و محرکات پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ سورئہ بقرہ کے شروع میں کہا گیا کہ یہ کتابِ ہدایت ہے، البتہ جن لوگوں نے کفر ہی پر قائم رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے، ان کے حق میں اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے انذار کی سعی و جہد اور کفر کے نتائج سے آگاہ کرنا کارگر نہ ہوگا۔ وہ کسی حال میں ایمان نہیں لائیں گے:

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ وَعَلٰی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیْمٌ o (البقرۃ:7)

’’اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہیں، ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘

دل پر جب مہر لگ جاتی ہے تو آدمی حق کو سننے اور اسے سمجھنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا اور کائنات میں موجود دلائل پر غور نہیں کرتا۔ اس سے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں قلب کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس آیت کے ذیل میں علامہ قرطبی نے لکھا ہے:

’’اس میں تمام اعضاء پر قلب کی برتری کی دلیل ہے …… قلب غوروفکر کی جگہ اور محل ہے۔‘‘ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، جلد1، جزء 1، ص131)

طبعِ قلب کا مفہوم

قرآن مجید میں ’طبعِ قلب‘ (دل پر مہر لگانے) کا ذکر مختلف مناسبتوں سے آیاہے۔ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے کہ اس نے دل پر مہرلگادی۔ اس میں اللہ کا قانون بیان ہوا ہے کہ آدمی کفر و شرک پر اصرار کرے، غلط روی سے باز نہ آئے اور اصلاحِ حال کے لیے آمادہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، زبردستی اس کے دل کی دنیا نہیں بدلتا اور اپنی قوتِ قاہرہ سے کھینچ کر اسے سیدھے راستے پر نہیں لگاتا۔

قرآنِ مجید میں یہ بات اچھی طرح واضح کی گئی ہے کہ دل پر کب مہر لگ جاتی ہے؟ یہود کے متعلق کہا گیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا رسول ماننے کے باوجود وہ انھیں اذیت دینے لگے۔ ان کی اس غلط روش کے نتیجے میں ان کے دل راہِ راست سے پھیر دیے گئے:

فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبِہِمْ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی القَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ۔(الصف:5)

’’جب انھوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘

یعنی یہود کی کج روی کی وجہ سے اللہ نے ان کے دل راہِ راست سے پھیر دیے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قانون بھی بیان کردیا گیا کہ جو لوگ فسق و فجور ہی کی راہ پر چلنا چاہیں اللہ انھیں ہدایت سے نہیں نوازتا۔

آدمی اگر سب کچھ جاننے کے باوجود خواہشِ نفس کو خدا بنا بیٹھے اور اس کے پیچھے سرپٹ دوڑنے لگے تو حق بات سننے کے لیے کان اور اسے قبول کرنے کے لیے دل آمادہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنیاد پر اس کی سماعت پر اور دل و دماغ پر مہر لگادیتا ہے اور اس کی آنکھوں پر پردے پڑجاتے ہیں۔ کوئی اسے راہِ ہدایت نہیں دکھا سکتا:

أَفَرَأَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰـہَہُ ہَوَاہُ وَأَضَلَّہُ اللّٰـہُ عَلٰی عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَی سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلَی بَصَرِہٖ غِشَاوَۃً فَمَن یَہْدِیْہِ مِن بَعْدِ اللّٰہِ أَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ (الجاثیۃ: 23)

’’کیا تو نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش (نفس) کو اپنا خدا بنالیا اور اللہ نے اپنے علم کی بنیاد پر اسے گم راہی میں ڈال دیااور اس کے دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ پھر کون ہے اللہ کے بعد جو اسے راستہ دکھائے۔ تو کیا تم نصیحت نہیں حاصل کرتے۔‘‘

فرعون اور آلِ فرعون کے درمیان ایک مردِ مومن کی تقریر قرآن میں تفصیل سے نقل ہوئی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب کبرو غرور  کے نشے میں بے دلیل خدا کی ہدایت کا انکار کیا جانے لگتا ہے تو خدا کا غضب بھڑک اٹھتا ہے اور دل پر مہر لگ جاتی ہے:

الَّذِیْنَ یُجَادِلُونَ فِیْ آیَاتِ اللّٰہِ بِغَیْْرِ سُلْطَانٍ أَتَاہُمْ کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللّٰہِ وَعِندَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلَی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ   (المؤمن: 35)

’’بے شک جو لوگ اللہ کی آیتوں میں بغیر کسی دلیل اور سند کے جو ان کے پاس موجود ہو، جھگڑا کرتے ہیں، وہ اللہ کے نزدیک اور ایمان والوں کے نزدیک سخت غصہ کے مستحق ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر اور سرکش کے دل پر مہرلگادیتا ہے۔‘‘

یہود کی پوری تاریخ ان کی غلط کاریوں کی تاریخ ہے۔ اس کا ایک ورق اس طرح کھولا گیا ہے:

 فَبِمَا نَقْضِہِم مِّیْثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِم بَآیَاتِ اللّٰہِ وَقَتْلِہِمُ الأَنْبِیَائَ بِغَیْْرِ حَقٍّ وَقَوْلِہِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُوْنَ إِلاَّ قَلِیْلًا  (النساء: 155)

’’انھوں نے جو عہدوپیمان کیا تھا، اس کو توڑنے، اللہ کی آیات کا انکار کرنے، انبیاء کو ناحق قتل کرنے اور اس وجہ سے کہ انھوں نے کہا کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں (ان پر اللہ کا عتاب ہوا) حقیقت یہ کہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ وہ کم ہی ایمان لائیں گے۔‘‘

قرآن مجید میں دل پر مہر لگنے کے لیے یہ تعبیر بھی اختیار کی گئی ہے کہ دل پر پردے پڑ گئے ہیں۔ سورئہ انعام میں مشرکین کے متعلق کہا گیا کہ وہ بہ ظاہر تمہاری باتیں سننے پر کبھی کان لگاتے ہیں، لیکن حقیقتاً وہ نہیں سنتے، ان کے دلوں پر پردے پڑے ہیں۔ وہ دعوتِ حق کو داستان سرائی کہہ کر رد کردیں گے:

وَمِنْہُم مَّن یَسْتَمِعُ إِلَیْْکَ وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوبِہِمْ أَکِنَّۃً أَنْ یَفْقَہُوہُ وَفِیْ آذَانِہِمْ وَقْراً وَإِنْ یَرَوْاْ کُلَّ آیَۃٍ لاَّ یُؤْمِنُوْا بِہَا حَتّٰی إِذَا جَآؤُوکَ یُجَادِلُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا إِنْ ہٰذَا إِلاَّ أَسَاطِیْرُ الأَوَّلِیْنَ  (الانعام: 25)

’’ان میں سے بعض تمہاری بات کان لگا کر سنتے ہیں (لیکن حق کو قبول کرنے کے ارادے سے نہیں ) ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال رکھی ہے۔ وہ ہر ایک نشانی دیکھ لیں، تب بھی اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔ یہاں تک کہ جب جھگڑا کرنے کے لیے تمہارے پاس آئیں گے تو جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، وہ کہیں گے کہ یہ تو اگلوں کی داستانیں ہیں۔ ‘‘

حق کے دلائل واضح ہونے اور تذکیر و نصیحت کے بعد بھی آدمی انکار کی روش اختیار کرے تو دل کے دروازے بند ہوجاتے ہیں او رکان صدائے حق سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے ظالموں کے متعلق کہا گیا:

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُکِّرَ بِآیَاتِ رَبِّہٖ فَأَعْرَضَ عَنْہَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ إِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ أَکِنَّۃً أَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْ آذَانِہِمْ وَقْراً وَإِن تَدْعُہُمْ إِلَی الْہُدٰی فَلَنْ یَّہْتَدُوْا إِذاً أَبَداً  (الکہف:57)

’’اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی اور اس نے ان سے اعراض کیا اور اس کے دونوں ہاتھوں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے اسے بھول گیا، ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے۔ اگر تو ان کو راہِ راست کی طرف بلائے تو وہ کبھی راہ نہیں پائیں گے۔‘‘

نفاق کا مرض:

نفاق ایک خطرناک مرض ہے۔ یہ ایمان کی ضد ہے۔ دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ جس دل میں نفاق ہوگا، وہ ایمان سے خالی ہوگا اور جہاں ایمانِ خالص ہوگا وہ دل نفاق سے پاک ہوگا۔ سورئہ بقرہ کے شروع میں منافقین کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں، لیکن اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔ وہ اپنی چرب زبانی سے اہلِ ایمان کو دھوکا دینا چاہتے ہیں، حالاں کہ وہ خود فریب خوردہ ہیں۔ اہلِ ایمان کے درمیان اپنے ایمان کا چرچا کرتے ہیں، لیکن اپنے حلقے میں پہنچتے ہیں تو انھیں اپنی دوستی کا یقین دلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان والوں سے مذاق کرتے ہیں۔ اس پستیِ کردار کی وجہ ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:

فِیْ قُلُوْبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضاً وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ (البقرۃ:10)

’’ان کے دلوں میں روگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس روگ میں اضافہ کردیا ہے۔ ان کے لیے دردناک عذاب ہے، اس جھوٹ کی بنا پر جو وہ بولتے ہیں۔ ‘‘

ان کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے اور اسے چھپانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مرض کو اور بڑھا دیا۔

حقیقی ایمان:

اس کے برخلاف حقیقی ایمان خدا اور رسول پر یقینِ کامل کا نام ہے، جو ہر شائبہ شک و تردد سے پاک ہوتا ہے۔ اس کی پہچان ہی یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی صاحبِ ایمان کے لیے آسان ہوجاتی ہے۔ (الحجرات: 15)

منافق کو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے دین سے بیر ہوتا ہے، لیکن اہلِ ایمان اللہ تعالیٰ کی محبت دِل میں رکھتے ہیں۔ ایک جگہ اصحابِ رسول ﷺ کی تعریف کی گئی ہے:

وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ إِلَیْْکُمُ الْإِیْمَانَ وَزَیَّنَہُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ أُوْلٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَoفَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (الحجرات:7،8)

’’لیکن اللہ نے تمھیں ایمان کی محبت دی، اس سے تمہارے دلوں کو آراستہ کیا، کفر، فسق اور معصیت سے تمہارے اندر نفرت پیدا کردی۔ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ یہ سب اللہ کا فضل اور انعام ہے۔ اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘

نفاق کا نتیجہ  خوف اور ہراسانی ہے۔ جب آزمائش کا مرحلہ سامنے ہوتا ہے تو منافق اس سے بچنے کی تدبیر سوچنے لگتا ہے۔ وہ جرأت و ہمت کے مظاہرے کی جگہ اپنی بزدلی کی توجیہ کرنے لگتا ہے۔ اسے اپنی اصلاح کی فکر نہیں ہوتی، البتہ دوسروں کی کم زوریاں تلاش کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ جنگِ احد میں مسلمانوں کوبعض لوگوں کی غفلت کی وجہ سے شکست سے دوچار ہونا پڑا اور بڑا جانی نقصان بھی ہوا۔ اسے اہلِ ایمان نے اللہ کا فیصلہ سمجھا اور نئے عزم و ہمت سے پیش قدمی جاری رکھی، لیکن منافقین کہنے لگے:

ہل لنا من الامر من شیٔ… لو کان لنا من الامر شیٔ ما قتلنا ہہنا۔

’’کیا ہمارا اس معاملہ میں کوئی اختیا رہے؟ (ہماری تو کوئی نہیں سنتا)… اگر معاملات میں ہمارا بھی کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔‘‘

قرآن مجید نے اس کے جواب میں کہا کہ موت کا جو وقت طے ہے اور جہاں موت آنی ہے اسی وقت اور اسی جگہ موت آئے گی۔ تم اپنے گھروں میں بیٹھے رہو تب بھی موت تمھیں باہر کھینچ لائے گی۔ دراصل اس واقعہ میں تمہارا امتحان ہے:

وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْر (آل عمران:154)

’’ یہ اس لیے ہوا) تاکہ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اللہ اس کی آزمائش کرے اور جو کچھ تمہارے سینوں میں کھوٹ ہے اسے باہر نکال دے اور اللہ دلوں کا حال جانتا ہے۔‘‘

نازک مواقع پر اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو سکونِ قلب سے نوازتا اور ان کے ایمان و یقین میں اضافہ فرماتا ہے۔ صلحِ حدیبیہ کو قرآن نے ’فتحِ مبین‘ قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس کے بعد دین کی کامیابی کی راہیں کھل گئیں۔ یہ صلح جن حالات میں ہوئی، اس پر بعض اہلِ ایمان کو بھی تردد تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے جلد ہی انھیں سکون اور اطمینان عطا فرمایا کہ یہ صلح اللہ کے دین کے حق میں مفید ہے:

ہُوَ الَّذِیْ أَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْا إِیْمَاناً مَّعَ إِیْمَانِہِمْ وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْماً حَکِیْماًo(الفتح:4)

’’وہی ذات ہے، جس نے سکون نازل فرمایا اہلِ ایمان کے قلوب میں، تاکہ ان کے اندر جو ایمان ہے اس میں مزید اضافہ ہوجائے۔ اور اللہ کی کے لیے ہیں آسمانوں اور زمین کے لشکر۔ اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘

قساوتِ قلب:

قرآن مجید کی عظمت کا بیان سورئہ حشر میں ان الفاظ میں ہے:

لَوْ أَنزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (الحشر: 21)

’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے جھک گیا ہے اور پھٹ پڑا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غوروفکر کریں۔ ‘‘

اگر پہاڑ کو انسان کی طرح عقل و خرد ہوتی، اسے آزادیِ فکر و عمل سے نوازا جاتا، قرآن کے احکام کا مکلف بنایا جاتا اور اس کے انجامِ نیک و بد سے آگاہ کیا جاتا تووہ خوف سے جھک جاتا اور پارہ پارہ ہوجاتا، لیکن یہی قرآن انسان سے خطاب کررہا ہے اور انسان اس سے اثر نہیں قبول کررہا ہے، اس کی قساوت نہیں جاتی۔ اس میں غوروفکر کا بڑا سامان ہے۔

یہود کی قساوتِ قلب کا قرآن میں مختلف مواقع پر ذکر ہے، وہ اسباب بھی بیان کردیے گئے ہیں، جن سے یہ قساوت پیدا ہوتی ہے۔ ایک جگہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کے لیے تمہارے اندر آمادگی نہیں ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گائے ذبح کرنے کے لیے کہا تو تم نے طرح طرح کے سوالات شروع کردیے۔ اللہ تعالیٰ نے مردے کو زندہ کرکے تمہارے سامنے اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا، تاکہ تمہارے اندر زندگی بعد موت پر یقین پیدا ہو، لیکن اس کے باوجود تمھیں ایمان کی دولت نصیب نہ ہوئی اور تمہارے دل سخت سے سخت تر ہوتے چلے گئے:

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُم مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَۃً وَ إِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الأَنْہَارُ وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاء  وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (البقرۃ:74)

’’پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے۔ وہ پتھر کے مانند ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت۔ بعض پتھر تو وہ ہیں، جن سے نہریں بہتی ہیں اور بعض وہ ہیں جو شق ہوجاتے ہیں اور ان سے پانی نکلنے لگتا ہے اور بعض وہ ہیں جو اللہ کی خشیت سے گر پڑتے ہیں اور جو کچھ تم کررہے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘

یہاں تین طرح کے پتھروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض پتھر وہ ہوتے ہیں، جن سے نہریں رواں ہوتی ہیں اور دنیا ان سے سیراب ہوتی ہے۔ بعض پتھروں سے تھوڑا بہت پانی نکلتا ہے اور اس سے اسی قدر فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ بعض پتھر اس طرح کارآمد نہیں ہوتے، لیکن ان میں اللہ کاخوف ہوتا ہے اس سے وہ گرپڑتے ہیں۔ اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ تم اپنی افادیت کھوچکے ہو، تم سے کسی بڑے فائدے کی کیا توقع کی جائے، تھوڑاسا فائدہ بھی نہیں پہنچ رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ تمہارے قلوب اللہ کے خوف اور خشیت سے بھی خالی ہوچکے ہیں۔

یہود نے اللہ تعالیٰ سے جو عہدوفا باندھا تھا اسے توڑ دیا، اس وجہ سے وہ اللہ کی رحمت سے دور کردیے گئے، ان کے دل سخت ہوگئے، ان کے لیے ہر غلط کام کا کرنا آسان ہوگیا۔ اپنے حقیر مفادات کے لیے وہ اللہ کی کتاب میں تحریف کرنے لگے اور اس کی تعلیمات کو فراموش کربیٹھے :

 فَبِمَا نَقْضِہِم مِّیْثَاقَہُمْ لَعنَّاہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قَاسِیَۃً یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہِ وَنَسُوْا حَظّاً مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہِ  (المائدۃ:13)

’’ان کے نقضِ میثاق کی وجہ سے ان پر ہم نے لعنت کردی (اپنی رحمت سے دور کردیا) اور ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ وہ کلام کو اپنے موقع محل سے پھیر دیتے ہیں اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ فراموش کرچکے ہیں۔ ‘‘

 اللہ کی کتاب یہود کے پاس تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اسے انھوں نے پسِ پشت ڈال دیا، اس کی وجہ سے دل سخت ہوگئے۔ اللہ کی کتاب دل میں نرمی اور گداز پیدا کرتی ہے۔ اس کو چھوڑنے کے بعد قساوتِ قلب کیسے دور ہوسکتی ہے؟ اور آدمی فسق و فجور سے کیسے باز رہ سکتا ہے؟ مسلمانوں کو یہ روش اختیار کرنے سے منع کیا گیا:

أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ أُوتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فَاسِقُوْنَ (الحدید:16)

’’کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دلوں میں اللہ کے ذکر سے اور جو حق نازل ہوا ہے اس سے خشوع پیدا ہو اور وہ ان لوگوں کی روش نہ اختیار کریں، جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی اور ان پر ایک مدت گزرگئی (ان میں خشوع نہیں پیدا ہوا) اور ان کے دل سخت ہوگئے۔ ان میں سے بیشتر فاسق ہیں۔ ‘‘

جب قومیں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو فراموش کردیتی ہیں تو ان پر اللہ کا عذاب آتا ہے۔ وہ معیشت کی تنگی، فقر و فاقہ اور طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ آزمائش  کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف پلٹیں اور اپنی روش پر نادم اور شرمسار ہوں، لیکن قساوتِ قلب کی وجہ سے انھیں رجوع الی اللہ نصیب نہیں ہوتا اور شیطان انھیں یہ باور کرادیتا ہے کہ یہ سب گردش ایام ہے، ورنہ جس روش پر وہ گامزن ہیں، وہ صحیح ہے:

وَلَقَدْ أَرْسَلنَا إِلٰی أُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَأَخَذْنَاہُمْ بِالْبَأْسَآئِ  وَالضَّرَّآئِ  لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَo فَلَوْلاَ إِذْ جَائَ ہُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰـکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo(الانعام 42،43)

’’ ہم نے تم سے پہلے دوسری قوموں میں بھی رسول بھیجے (جب انھوں نے ان کی بات نہ مانی تو) ہم نے ان کو فقر و فاقے اور بیماریوں میں پکڑ لیا تاکہ وہ عاجزی اختیار کریں۔ ہم نے ان کی گرفت کی تو انھوں نے کیوں نہیں عاجزی اختیار کی؟ لیکن ان کے دل سخت ہوگئے اور جو کچھ وہ کررہے تھے، شیطان نے اسے انھیں آراستہ کرکے دکھا دیا تھا۔‘‘

یہ سب قساوتِ قلب کا نتیجہ ہے۔ لیکن مومن کا قلب اس قساوت سے پاک ہوتا ہے۔ اللہ کے منکرین اور منافقین کے سامنے اس کا کلام پیش کیا جاتا ہے تو اسے وہ اندھے اور بہرے بن کر سنتے ہیں، ان کی نخوت اسے قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، لیکن اہلِ ایمان کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے:

وَالَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوْا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّْوا عَلَیْْہَا صُمّاً وَعُمْیَاناًo  (الفرقان: 73)

’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو ان کے رب کی آیات کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے تو اس پر بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرپڑتےo‘‘

اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں پر اس کا خاص انعام ہوتا ہے، وہ ان کو ہدایت سے نوازتا اور کارِ نبوت کے لیے ان کا انتخاب فرماتا ہے۔ سورئہ مریم میں بعض پیغمبروں کے ذکر کے بعد ان کے جذبات اور قلبی کیفیت کی تصویر کشی کی گئی ہے:

اأوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَمِنْ ذُرِّیَّۃِ إِبْرٰہِیْمَ وَإِسْرَآئِیْلَ وَمِمَّنْ ہَدَیْْنَا وَاجْتَبَیا إِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ آیَاتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّداً وَّبُکِیّاo   (مریم: 58)

’’یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا۔ آدم کی ذریت میں سے اور ان میں سے جن کو نوح کے ساتھ ہم نے کشتی میں سوار کیا اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد میں سے۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے، جن کو ہم نے ہدایت دی اور رسالت کے لیے منتخب کیا۔ جب ان کو رحمان کی آیتیں سنائی جاتیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گرپڑتے۔‘‘

قرآنِ مجید نے منکرینِ اہلِ کتاب ور مشرکین سے کہا کہ تم اللہ کی کتاب کا انکار کررہے ہو اور  اس پر اڑے ہوئے ہو۔ دوسری طرف اہلِ کتاب کے اہلِ علم ہیں کہ وہ اس کتاب کو سنتے ہیں تو اللہ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے سجدے میں گرپڑتے ہیں اور ان کے خشوع و خضوع میں اضافہ ہوجاتا ہے:

قُلْ آمِنُوْا بِہٖ أَوْ لاَ تُؤْمِنُوْا إِنَّ الَّذِیْنَ أُوتُوْا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖ إِذَا یُتْلٰی عَلَیْْہِمْ یَخِرُّوْنَ لِلأَذْقَانِ سُجَّداًoوَیَقُولُوْنَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلاًo وَیَخِرُّوْنَ لِلأَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَیَزِیْدُہُمْ خُشُوْعاً (بنی اسرائیل107-109)

’’کہو تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ۔ بے شک وہ لوگ جن کو اس سے پہلے (توریت) کا علم دیا گیا ہے جب ان کے سامنے اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ اپنی ٹھوڑیوں (چہرے) کے بل سجدے میں گرپڑتے ہیں، اور کہتے ہیں : پاک ہے ہمارا رب۔ بے شک ہمارے رب کا وعدہ (آخری کتاب نازل کرنے کا) پورا ہونا ہی تھا۔ اور وہ روتے ہوئے چہروں کے بل گرپڑتے ہیں اور ان کے خشوع میں اضافہ ہوتاہے۔‘‘

قساوتِ قلب انسان کو حق سے دور کرتی ہے اور قلب کا خشوع و خضوع اللہ تعالیٰ سے قریب کرتا ہے۔ یہی اللہ کے نیک بندوں کی پہچان ہے۔

شرحِ صدر:

انقباضِ قلب کی ضد ہے شرحِ صدر۔ اللہ تعالیٰ جس کسی کو سیدھا راستہ دکھانا چاہتا ہے حق  پر اسے شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے۔ اس کے اندر اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ اللہ کے ہر حکم کو بجالانے کے لیے خوشی سے آمادہ ہوتا ہے۔ لیکن جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ ضلالت اور گم راہی میں پڑا رہے تو اس کے سینے کے دروازے اطاعت کے لیے نہیں کھلتے۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ زور لگا کر آسمان کی طرف چڑھ رہا ہے اور اس کی جان نکلی جارہی ہے۔ ان دونوں کیفیات کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:

 فَمَنْ یُرِدِ اللّٰہُ أَنْ یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلإِسْلاَمِ وَمَنْ یُرِدْ أَن یُضِلَّہُ یَجْعَلْ صَدْرَہُ ضَیِّقاً حَرَجاً کَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَآئِ  کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللّٰہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَo(الانعام:125)

’’اللہ جس شخص کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے، اور جسے وہ گم راہی میں ڈالنا چاہتا ہے اس کے سینہ کو تنگ کردیتا ہے، قبولِ حق کے لیے اس میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے، جیسے وہ مشکل سے آسمان پر چڑھ رہا ہو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر گندگی ڈال دیتا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔‘‘

اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے دین پر شرحِ صدر ہونا ہدایت کی علامت ہے، جو اس نعمت سے محروم ہے، وہ ضلالت اور گم راہی کا شکار ہے۔ یہی بات دوسری جگہ ان الفاظ میں کہی گئی ہے:

 أَفَمَن شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہُ لِلْإِسْلَامِ فَہُوَ عَلَی نُورٍ مِّن رَّبِّہٖ فَوَیْْلٌ لِّلْقَاسِیَۃِ قُلُوْبُہُم مِّن ذِکْرِ اللّٰہِ أُوْلٰئِکَ فِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ  (الزمر:22)

’’پس کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی عطا کردہ روشنی پر قائم ہے (اس شخص کی طرح ہے جو قساوتِ قلب میں مبتلا ہے) پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل سخت ہیں اور اللہ کے ذکر کا اثر نہیں قبول کرتے۔ یہ لوگ کھلی گمرہی میں ہیں۔ ‘‘

قلبِ سلیم:

قرآنِ مجید میں اس قلب کی تعریف کی گئی ہے، جس میں پاکیزہ جذبات پرورش پارہے ہوں اور جو روحِ اخلاص سے معمور ہو۔ اسے ’قلبِ سلیم‘ کہا گیا ہے۔ یہی قلبِ سلیم قیامت میں انسان کو کامیابی سے ہم کنار کرے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا کے بعض کلمات یہ ہیں :

وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَoیَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُوْنَo إِلَّا مَنْ أَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍo (الشعراء:78-89)

’’اور مجھے اس دن رسوا نہ فرما، جس دن سارے انسان اٹھائے جائیں گے، جس دن مال نفع دے گا اور نہ اولاد، صرف وہی کامیاب ہوگا جو اللہ کے پاس قلبِ سلیم لے کر حاضر ہو۔‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسی ’قلبِ سلیم‘ سے نوازا تھا۔ ارشاد ہے:

وَإِنَّ مِنْ شِیْعَتِہِ لَإِبْرَاہِیْمَo إِذْ جَائَ  رَبَّہُ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍo  (الصّٰفّٰت: 83،84)

’’بے شک نوح ہی کی راہ پر چلنے والا ابراہیم تھا، جب وہ اپنے رب کے پا س’قلبِ سلیم‘ لے کر حاضر ہوا۔‘‘

’قلبِ سلیم‘سے مراد وہ قلب ہے، جو کفروشرک کی آلائشوں سے پاک ہو، جس سے ایمان و یقین کے سوتے پھوٹ رہے ہوں، جس میں کسی طرح کے شک اور ترددکا گزر نہ ہو، جس میں اللہ سے محبت واخلاص، اس کی اطاعت اور اس کے لیے قربانی کا جذبہ موجزن ہو اور جو اس کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے آمادہ ہو، جو ان تمام جذبات و احساسات کو دبادے جو معصیت کی طرف لے جاتے ہیں۔

اصلاحِ قلب کی اہمیت:

انسان کی صلاح و فساد میں فیصلہ کن اہمیت قلب کو حاصل ہے۔ قلب کی اصلاح پر پوری زندگی کی اصلاح کا دارومدار ہے۔ قلب میں بگاڑ ہے تو آدمی کو غلط رخ پر جانے سے کوئی چیز باز نہیں رکھ سکتی۔ رسولِ اکرم ﷺنے اپنے ایک ارشاد میں قلب کی اس اہمیت کو بہت واضح اور مؤثر طریقے سے بیان فرمایا ہے۔

حضرت نعمان بن بشیرؓ کی روایت ہے، جو بخاری، مسلم اور حدیث کی بعض دیگر کتابوں میں موجود ہے، کہتے ہیں :

’’میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے۔ ان کے درمیان مشتبہات بھی ہیں، جنھیں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ اس لیے جو شخص شبہات سے بچے وہ اپنے دین اور عزت کو بچالے جائے گااور جو شبہات میں پڑے وہ حرام میں پڑسکتا ہے۔ اس کی مثال چرواہے کی ہے، جو کسی محفوظ چراگاہ کے اطراف اپنے جانور چراتا ہے۔ اندیشہ ہے کہ جانور اس کے اندر چرنے لگے۔ سن رکھو! ہر بادشاہ کی ایک خاص چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی خاص چراگاہ اس کے محارم ہیں (اس میں داخل ہونے کی کسی کو اجازت نہیں ہے) یادرکھو! جسم میں گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے۔ وہ درست ہو تو پورا جسم درست ہوتا ہے اور اس میں خرابی آجائے تو پورے جسم میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ سن رکھو یہ قلب ہے۔‘‘

اس حدیث میں احکامِ شریعت کی نوعیت بیان کی گئی ہے۔ فرمایا گیا کہ جو چیزیں حلال یا حرام ہیں وہ واضح ہیں۔ ان کے حق میں نصوص اور واضح دلائل موجود ہیں۔ ان کے بارے میں شریعت کا موقف آسانی سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ ان کے درمیان مشتبہ امور بھی ہیں، ان کا حکم معلوم کرنا ہر ایک کے لیے آسان نہیں ہے۔ اسلامی علوم کے ماہرین ہی کوئی رائے قائم کرسکتے ہیں۔ حلت کی کوئی بنیاد ہوگی تو اسے حلال قرار دیں گے اور حرمت کے اسباب ہوں گے تو حرمت کا فیصلہ کریں گے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی بتادی گئی کہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس طرح کی چیزوں سے احتراز کیا جائے۔ اس سے آدمی کا دین محفوظ رہے گا اور اس پر یہ الزام بھی عائد نہ ہوگا کہ اس نے مادی فائدہ کی خاطر غلط کام کیا ہے۔شبہات سے بچنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس میں پڑنے کے بعدآدمی آہستہ آہستہ حرام کا ارتکاب کرنے لگتا ہے۔ اس کی مثال آپ نے یہ دی کہ اگر کوئی چرواہا اپنے جانور دوسرے کی چراگاہ کے قریب چرائے تو اس میں وہ کسی وقت گھس ہی جائیں گے۔ جس طرح ہر بادشاہ کی مخصوص چراگاہ ہوتی ہے، اسی طرح اللہ کے محارم اس کی خاص چراگاہ ہیں۔ اس میں داخل ہونے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ آدمی ان محارم سے بچنا چاہے تو اسے ان سے دور ہی رہنا ہوگا۔ اس کے بعد آپ نے اصلاحِ قلب کی طرف جن الفاظ میں توجہ دلائی انھیں ادب کا شاہکار کہا جائے گا۔ آپ نے فرمایا: جسم میں گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، لیکن اس کی اہمیت یہ ہے کہ اگر وہ درست ہے تو سارا جسم درست رہے گا، اس میں فساد آجائے تو پورا جسم مبتلائے فساد ہوجائے گا۔ یہ انسان کاقلب ہے۔

جسم میں قلب کی حیثیت حاکم کی ہے۔ اس کے حکم پر اعضاء حرکت کرتے ہیں۔ اس میں جذبۂ صلاح ہو تو پورا جسم صحیح راہ پر گامزن ہوگا۔ اس میں فاسد جذبات پرورش پارہے ہوں تو جسم اسی رخ پر چل پڑے گا۔ اگر قلب غلط جذبات سے پاک ہو تو وہ محرمات سے اور مشتبہ چیزوں سے بچے گا، ورنہ وہ حرام کا ارتکاب بھی کرسکتا ہے اور مشتبہ امور سے دور رہنا بھی اس کے لیے مشکل ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔