قلم فروش بر وزن جسم فروش

 مسعود جاوید

پہلے صحافیوں کی عموماً دو تین قسمیں ہوتی تھیں:

1- زرد صحافت  Yellow Journalism 

یعنی وہ صحافی جن کی آنکھوں پر زرد رنگ کا چشمہ لگا ہوتا ہے منفی صحافت مخصوص ذہنیت سے ہر شئی کو دیکهنے والا۔ یعنی ایسا صحافی جو کسی واقعہ یا حادثہ کو معروضی انداز میں دیکهنے کے بجائے اس اینگل سے دیکهے جس سے اس کا ذہن بہت متاثر رہا ہے۔ مثال کے طور پر اشتراکی فکر سے جنون کی حد تک متاثر لوگ  چاند کو ٹهنڈی روشنی والا ایک کرہ کے بجائے جلی ہوئی روٹی دیکھتے ہیں جو اگر نزدیک ہوتا تو کوئی غریب اسے کهاکر اپنی بهوک مٹا سکتا ۔۔۔ میں جس اخبار میں کام کرتا تها وہاں ایک اسی قسم کے میرے صحافی ساتهی تهے 1982 میں ایشین گیم ہونا تها اس کے لئے دہلی میں جگہ جگہ فلائی اوور بنائے گئے۔ میرےان صحافی دوست نے اسٹوری کی ” فلائی اوور نے ہماری روٹی چهین لی” مضمون یہ تها کہ جب فلائی اوور نہیں تهے تو بهیک مانگنے والوں کو لال بتی پر رکتی گاڑی والوں سے بهیک لینے کی سہولت ہوتی تهی اب فلائی اوور نے گاڑیوں کے رکنے کے پوائنٹس کم کر دیئے۔

2- تحقیقاتی صحافت  Investigative Journalism۔ 

جرنلسٹوں کی یہ وه قسم ہے جس میں صحافی عام طور chronic bachelor گهر بار سے بیزار یا شہرت کا جنون کی حد تک بهوکا ہوتا ہے جب ہی تو میدان جنگ میں جاکر رپورٹنگ کرتا ہے اور  cross firing میں عراق ایران حدود پر اور دیگر متخاصم ملکوں کی جنگ میں یا friendly firing میں جان دیتے ہیں جیسے  امریکہ نے جب الجزیرہ کے عراق پوسٹ پر میزائل داگا اور بعد میں کراس فائرنگ کا نام دے دیا۔ (سچی بات یہ ہے کہ ایسے صحافیوں کا میں دل و جان سے احترام کرتا ہوں اس لئے کہ یہ حق کی تلاش میں اپنی جان کی پرواہ بهی نہیں کرتے  اس قسم کی تحقیقاتی صحافت سے عملی واقفیت اس وقت ہوئی جب انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر ارون شوری کو میلہ میں عورتیں بکتی ہیں پر دامنی پر تحقیقاتی رپورٹ کے لئے  میگساسیہ ایوارڈ ملا )

3- میزی صحافت Desk Journalism  

عام طور پر اردو کے ہفتہ وار اور ماہنامے اسی قسم کی صحافت کرتے تهے ۔( استثناء کے ساتھ) Sunday, India Today,  Outlook The Week Illustrated weekly وغیرہ

اور اگر صحافی کا معیار اونچا اور بین الاقوامی سیاست سے تهوڑی واقفیت اور دلچسپی ہو تو TIME  اور NEWSWEEK اپنے آفس میں میز کے پیچهے آرام دہ کرسی پر (چیف ایڈیٹر) اور عام ٹیبل کرسی پر ایڈیٹر و سب ایڈیٹر بیٹھ کر اپنے کام کی خبریں نکالتے تهے اور ان ہی ذرائع کی بنیاد پر مضمون لکهتے تهے  لیکن فرنٹ پیج کی سرخی آگ لگانے والی ہونی چاہیئے اس لئے اس کے الگ اسپیشلسٹ ہوتے تهے۔

4- قلم فروش صحافی  Presstitute   

صحافیوں کی یہ وہ قسم ہے جس میں عموماً صحافی صحافیہ جسم، ضمیر،  ایمان اور قلم سب کچھ بیچ کر وہی خبریں لکهتا ہے یا لکهتی ہے جسے لکهنے نیوز آئٹم بنانے یا اسٹوری کرنے کے عوض خطیر رقم ملتی ہے in terms of cash kind or favour یعنی خواہ نقد یا سامان یا جائز ناجائز کام آنے کی شکل میں۔  یا ان خبروں کو روکتا ہے یا روکتی ہے جس سے اس سیاسی سماجی شخصیت یا بیوروکریٹ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔  ۔۔۔۔  لیکن ان دنوں اس کی ایک نئی قسم سامنے آئی ہے اور اسے الیکشن کیمپین اور  انتخاب جیتنے کی اسٹریٹجی اور حکومت کرنے کا ہائی ٹیک فارمولہ کہا جاتا ہے۔کہ حکومت کے اشارے پر کس خبر کو چلانا ہے اور کسے نظر انداز کرنا ہے یہ وہ مینجمنٹ صحافی طے کرکے اینکر کو ہدایت کرتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔