قول و فعل میں مطابقت پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

جو شخص نفس پرستی، ہواپرستی، دنیا پرستی اور مادہ پرستی کا شکار ہوتا ہے اس کے قول و فعل میں تضاد لازمی طور پر ہوتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ صدق دل اور حسن نیت کے ساتھ خدا اور اس کے رسولﷺ کی بندگی اور اطاعت کو قبول کرلیتے ہیں قول و فعل میں ہم آہنگی ان کی زندگی کا جزو لا ینفک ہوتا ہے۔ صاحب ایمان اچھی طرح جانتا ہے کہ قول و فعل کا تضاد ایک قسم کا جھوٹ ہے جس سے بچنے کی تلقین دین اسلام نے کی ہے۔ علاوہ ازیں ایسے ایمان والے جن کے گفتار و کردار میں ہم آہنگی نہیں ہوتی ان کی سرزنش و ملامت کرتے ہوئے رب کائنات ارشاد فرما تاہے ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! تم کیوں ایسی بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو بڑی ناراضگی کا باعث ہے اللہ کے نزدیک کہ تم ایسی بات کہو جو کرتے نہیں ہو‘‘ (سورۃ الصف آیات 2-3)

 تاریخ انسانی شاہد ہے جو قوم زبانی دعوئوں کے سہارے زندگی گزارنے کی عادی تھی وہ زندگی کے کسی میدان میں کوئی نمایاں کارکردگی انجام نہیں دے سکی۔ ہمارے اسلاف کے قول و عمل میں ہم آہنگی تھی جس کے باعث ان لوگوں نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جس کا اعتراف اغیار آج بھی کرتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ سے قول و فعل کا تضاد مسلم معاشرے میں معاشرتی بیماری بن کر ابھر رہی ہے جس کے باعث ہم مذہبی، معاشی، سیاسی، تعلیمی، معاشرتی میدان میں کوئی نمایاں کارنامہ انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔ قول و فعل کے تضاد کا وبال ساری امت پر آرہا ہے اسی لیے قول و فعل میں ہم آہنگی پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں علماء و مشائخ کا لبادہ اوڑھ کر معصوم لوگو ں کو دھوکہ دینے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہر وہ کام کررہے ہیں جس کا شریعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے باوجود وہ لوگ اپنے ظاہری لبادے سے معصوم لوگوں کو ٹھگنے میں بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ مسلم معاشرے کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے ہمیں ایسے جعل ساز مولویوں اور صوفیوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہوں گے جن کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔ دورخی نہ صرف منافقت کی علامت اور کردار کی پاکیزگی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے بلکہ اس سے معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا ہوتا ہے۔

 مسلم معاشرے میں پائے جانے والے خرافات اسی کا نتیجہ ہیں۔ قول و فعل میں نمایاں اور قابل گرفت تضاد کا بڑا اور انتہائی صریح الاثر نقصان یہ ہورہا ہے کہ مختلف شعبہ ہائے حیات میں انسانیت سسک رہی ہے اور دم توڑ رہی ہے۔ ایسے حال اور ماحول میں مسلمانوں پر بڑی ذمہد اری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے قول و فعل کی ہم آہنگی سے گرتی ہوئی انسانی قدروں کو بام عروج تک پہنچائیں۔ تاریخ انسانیت شاہد ہے جو قوم قول و فعل کے تضاد کا شکار ہوجاتی ہے وہ اپنے تمام تر تضادات کے ساتھ ذلت و پستی، انحطاط و رسوائی کا شکار ہوجاتی ہے۔ انسان اپنے اقوال و افکار سے زیادہ افعال و اعمال اور کردار سے پہچانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نہ ہونے کے باوجود اسلام قرون اولی میں بہت تیزی سے پھیلا چونکہ صحابہ کرام،  تابعین، تبع تابعین اوربزرگان دین نے قول سے کہیں زیادہ عمل کے ذریعہ تبلیغ اسلام کا کام بحسن و خوبی انجام دیا تھا لیکن صدحیف کہ ہمارا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ہم عملی تبلیغ سے زیادہ قولی تبلیغ پر انحصار کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے پاس اپنے نفس کا محاسبہ کرنے اور اس کی اصلاح کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن غیروں کے عیوب تلاش کرنے میں گھنٹوں بلکہ ایام ضائع کردیتے ہیں اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب انسان کے دل سے خوف خدا نکل جاتا ہے۔ شیخ سعدیؒ نے فرمایا میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور ان لوگوں سے ڈرتا ہوں جو اللہ سے نہیں ڈرتے۔ ہماری تو پوری زندگی ایسے لوگوں کے ساتھ گزرر ہی ہے جن کے قلوب خوف و خشیت الٰہی سے خالی ہیں اب بتایئے معاشرے میں سدھار کیسے آئے گا۔

 اصلاح معاشرہ کے نام پر جتنے چاہیں جلسے، سیمینار، ورکشاپ اور کانفرنس منعقد کرلیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں تاوقتیکہ انسان اپنے قول و فعل کے تضاد کو نہ مٹا دے۔ یہ قول وفعل کا تضاد نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن ہمارے اخلاق اور معاملات تقریباً غیر اسلامی ہوچکے ہیں۔ اس بات سے کون واقف نہیں ہے کہ رحمت عالمیاں ﷺ نے فرمایا کہ نکاح میں دینداری کو ترجیح دو۔ ہماری ترجیحات میں مالی خوشحالی کو فوقیت حاصل ہے۔ ہم سب اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ انسان پیسوں سے غذا تو خرید سکتا ہے لیکن اس کے استعمال کے لیے رب کی توفیق چاہیے، انسان پیسوں سے گھر تو تعمیر کرسکتا ہے لیکن اس میں رہائش پذیر ہونے کے لیے رب کی عطا چاہیے،انسان پیسوں سے عمدہ و آرام دہ مخملی بستر تو خریدسکتا ہے لیکن نیند کے لیے خلاق دو جہاں کا لطف و کرم چاہیے،  انسان پیسوں سے نئی اور چمچاتی کاریں تو خرید سکتا ہے لیکن حوادثات سے محفوظ رہنے کے لیے رب کی رحمت چاہیے،  انسان پیسوں سے کسی اسکول، کالج، یونیورسٹی میں داخلہ تو لے سکتا ہے لیکن فہم و فراست کے لیے رب کی نظر کرم چاہیے،  انسان پیسوں سے شہرت کی بلندی تک تو پہنچ سکتا ہے لیکن انسان کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے رحمان و رحیم مولا کا فضل چاہیے۔

 ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود لڑکا اور لڑکی کے انتخاب میں ہماری پوری توجہات مالی حیثیت پر ہوتی ہے اسی کا خمیازہ ہے کہ ہماری نئی نسل اسلام سے دور ہورہی ہے،  ایمانی حرارت میں تیزی سے گراوٹ آرہی ہے چونکہ وہ مال و متاع ہی کو زندگی کا سرمایہ سمجھ رہی ہیں۔ کاش ہم قول و فعل کے اس تضاد کو سمجھ جائیں اور خلوص و للہیت کے ساتھ ان میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں تو دنیا کی کوئی طاقت ہماری عظمت رفتہ کی بحالی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ نکاح میں دینداری سے زیادہ مالی حیثیت کو ترجیح دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ طلاق اور خلع کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے آج اغیار اسلام اور اس کی انسانیت نواز تعلیمات پر حملہ آور ہیں۔

 حضورﷺ نے فرمایا اس نکاح میں برکت ہے جو انتہائی سادگی اور کم خرچ والا ہو۔ ہم اس فرمان اقدس ﷺ کو دل و جان سے مانتے ہیں لیکن ہمارا عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ مسلم معاشرے میں کونسی ایسی عقد کی محفل ہے جو آقائے نامدار رسول عربیﷺ کے اس قول کے مطابق منعقد ہورہی ہے۔ ہم لوگ ایک محفل عقد پر اس قدر خرچ کررہے ہیں اگر وہی محفل رسول رحمت ﷺکے فرمان کے مطابق منعقد کی جائے تو کم از کم 10 تا 15 محافل عقد منعقد ہوسکتی ہیں جو ایک طرف ان بن بیاہی بچیوں کے حق میں نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگی جن کے والدین معاشی تنگدستی کی وجہ سے نکاح کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے جس کے باعث ان کی عمریں دراز ہورہی ہیں تو دوسری طرف غریب و نادار اور مفلوک الحال بچیوں کا نکاح کرانے سے ہماری دنیا و آخرت سنورسکتی ہے۔ چونکہ جب بندہ دنیا میں لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرتا ہے تو خالق کونین میدان حشر میں اس کی حاجتوں کو پورا کرتا ہے اور جس کی حاجت رب کائنات پوری کرے اسے جہنم کا کیا ڈر ہوگا!۔ ان دنیوی و اخروی نعمتوں سے ہم صرف اور صرف اس لیے محروم ہیں چونکہ ہمارے قول و فعل میں بہت بڑا تضاد ہے۔ تاجدارِ کائناتﷺ نے فرمایا زندگی مسافر کی طرح گزارو۔ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ جب انسان سفر پر جاتا ہے تو رہائش کے لیے ایک کمرہ کی تلاش کرتا ہے جو اس کے موقتی قیام کے لیے کافی ہو محل نما مکان کی تلاش نہیں کرتا چونکہ اسے وہاں ہمیشہ نہیں رہنا ہے لیکن یہ ہماری کس قدر بدقسمتی ہے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ دنیا موقتی اور ناپیدار ہے کسی بھی وقت ہمارا سفر ختم ہوسکتا ہے اس کے باوجود ہم اس ناپائیدار دنیا میں قیام کرنے کے لیے ایسے مکانات تعمیر کررہے ہیں جس پر کروڑہا روپیہ کے مصارف عائد ہوتے ہیں۔

اگر ہمارے اندر سادگی ہوتی تو ہم اسی لاگت سے 8 تا 10 مکانات تعمیر کرتے اور ان میں سے کچھ اپنے ذاتی استعمال کے لیے رکھتے اور مابقی مکانات برائے نام کرایہ پر ایسے لوگوں کو دیتے جو زیادہ کرایہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے اس طرح ہمیں ان مفلوک الحال لوگوں کی دعائیں مل جاتیں جو ہمارے مقدر کو تبدیل کرسکتی ہیں اور کئی ایک مہلک امراض سے نجات بھی دلاسکتی ہیں تو دوسری جانب غریب و نادار لوگوں کو سکون کی زندگی میسر آجاتی۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ قارون پہلے مومن تھالیکن مال و دولت کی فراوانی کے گھمنڈ کے سبب وہ راہ راست سے منحرف ہوگیا اور کفر کی آغوش میں چلا گیا۔ قارون اور اس کی دولت کی فراوانی کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے جو ہم اکثر پڑھتے ہیں۔ اس واقعہ سے نصیحت حاصل کرنے کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ہم حرام کمائی سے بچتے اور حلال کمائی کو فروغ دیتے لیکن چونکہ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے اسی لیے ہم حرص دولت میں اس قدر غرق ہیں کہ دولت کمانے و بٹورنے میں حلال و حرام کے تمام امتیازات کو ختم کردیا ہے۔ خاتم النبیینﷺ نے ارشاد فرمایا راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی ایمان کی شاخ ہے۔ قولی طورپر ہم اس فرمان اقدسﷺ کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جب میدان عمل میں جاتے ہیں تو ہمارے قول و فعل میں زمین و آسمان کا تضاد ہے۔ یہ ہم ہی ہیں جو جوڑے گھوڑے کی رقم اور جہیز کا مطالبہ کرکے نہ جانے کتنی لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں،  جھوٹے مقدمات دائر کرکے نہ جانے کتنے لوگوں کی خوشحال زندگی آگ لگاچکے ہیں،  خوشحال گھرانوں کے خلاف سازشیں کرکے اور رشتہ داروں میں دراڑ پیدا کرکے نہ جانے کتنے گھرانوں کی خوشیوں میں حائل ہیں۔ ہمیں تو لوگوں کے لیے راحت پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا لیکن ہماری زندگی کا بڑا حصہ لوگوں کی زندگی میں مصائب پیدا کرنے کی کوششوں میں گزر رہا ہے۔

 پیغمبر اسلامﷺ ارشاد فرماتے ہیں ترجمہ : ’’ اے ابو ذر! جنازہ کے پیچھے چلتے وقت اپنی عقل کو تفکر اور خشوع میں مشغول رکھو اور یہ جان لو! کہ تم بھی اس سے ملحق ہونے والے ہو۔یعنی جنازے میں اس انداز سے شرکت کرو کہ آخرت کی یاد تازہ ہوجائے اور نفس خیرات و حسنات کی طرف مائل ہوجائے۔ کچھ سال قبل تک مسلمان جب کسی کے جنازے میں شرکت کرتا تو اس کے کم از کم دو یا تین ایام مغموم حالت میں گزرجاتے اس کا دل دنیا سے بالکل بیگانہ ہوجاتا تھا لیکن آج ہماری قساوت قلبی کا یہ عالم ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے میت کو سپرد لحد کیا جارہا ہوتا ہے اس وقت بھی ہمارے چہرے پر غم کے کوئی آثار نظر نہیں آتے جو رحمت عالمﷺ کی نصیحت کے بالکل مغائر ہے (العیاذ باللہ)۔ہمارے اسی قول و فعل کے تضاد کا وبال و عذاب ہے کہ آج ہمارے پاس عیش و عشرت کی تما م چیزیں موجودہونے کے باوجود ہم ذہنی سکون، قلبی اطمینان اور روحانی خوشی کے لیے ترس رہے ہیں جو صرف اور صرف خدا اور اس کے حبیبﷺ کے احکامات کی پیروی کرنے میں مضمر ہے جو اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے قول و فعل میں ہم آہنگی پیدا کریں۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔آمین

تبصرے بند ہیں۔