قوموں کا عروج و زوال

تحریر: مولانا ابو الکلام آزاد، ترتیب:عبد الرشید طلحہ نعمانیؔ

تم کرہ ارض کی کوئی قوم لے لو اور زمین کا کوئی ایک قطعہ سامنے رکھ لو،جس وقت سےاس کی تاریخ روشنی میں آئی ہے اس کے حالات کا کھوج لگاؤ تو تم دیکھو گے کہ اس کی پوری تاریخ کی حقیقت اس کے سواکچھ ہے کہ وارث و میراث کی ایک مسلسل داستان ہے یعنی ایک قوم قابض ہوئی پھر مٹ گئی  اور  دوسری وارث ہو گئی۔پھراس کے لیے بھی مٹنا ہوا اور تیسرے وارث کے لیے جگہ خالی ہو گئی۔وھلم جرا۔۔۔۔۔ قرآن کہتا ہے یہاں وارث و میراث کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اب سوچنایہ چاہیے کہ جو ورثہ چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں، کیوں ہوتے ہیں اور جو وارث ہوتے ہیں کیوں وراثت کے حقدار ہو جاتے ہیں۔ فرمایا اس لیے کہ یہاں خدا کا ایک اٹل قانون کام کر رہا ہے کہ: کہ زمین کے وارث خدا کے بندے ہوتے ہیں۔ (الانبیاء:105)

یعنی جماعتوں اورقوموں کے لیے یہاں بھی یہ قانون کام کرہا ہے کہ انہی لوگوں کے حصہ میں ملک کی فرماں پذیری آتی ہے جو نیک ہوتے ہیں، صالح ہوتے ہیں۔ صلح کے معنی سنوارنے کے ہیں۔ فساد کے معنی بگڑنے  اور  بگاڑنے کے ہیں۔ صالح انسان وہ ہے جو اپنے کوسنوارلیتا ہے اور دوسرے میں سنوارنے کے استعدادپیدا کرتا ہے اوریہی حقیقت بدعملی کی ہے پس قانون یہ ہو کہ زمین کی وراثت سنورنے اور سنوارنے والوں کے حصے میں آتی ہے، ان کے حصے میں نہیں جو اپنے اعتقادو عمل میں بگڑ جاتے ہیں اور سنوارنے کی جگہ بگاڑنے والے بن جاتے ہیں۔

تورات،انجیل اور قرآن تینوں نے وراثت ارض کی ترکیب جا بجا استعمال کی اورغور کرو یہ ترکیب صورت حال کی کتنی سچی اور قطعی تعبیر ہے۔ دنیا کے  ہر گوشے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرح کی بدلتی ہوئی میراث کاسلسلہ برابر جاری رہتا ہے یعنی ایک فرد اور ایک گروہ طاقت و اقتدار حاصل کرتا ہے۔ پھر وہ چلا جاتا ہے اور دوسرا فرد یا گروہ اس کی ساری چیزوں کا وارث ہو جاتا ہے۔ حکومتیں کیا ہیں، محض ایک ورثہ ہیں ؛ جو ایک گروہ سے نکلتا ہے اور دوسرے گروہ کے حصہ میں آ جاتا ہے۔ پس قرآن کہتا ہے ایساکیوں ہے، اس لیے کہ وراثت ارض کی شرط اصلاح و صلاحیت ہے، جو صالح نہ رہے ان سے نکل جائے گی،جو صالح ہوں گے ان کے ورثہ میں آئے گی۔ اورتم خدا کی عادت میں ہرگز تبدل نہ پاؤ گے اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے۔(فاطر:43)

بقائے انفع کا قانون :

سورۃ رعد میں فرمایاگیا : اسی نے آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہہ نکلے پھر نالے پر پھولا ہوا جھاگ آگیا۔ اور جس چیز کو زیور یا کوئی اور سامان بنانے کے لیے آگ میں تپاتے ہیں اس میں بھی ایسا ہی جھاگ ہوتا ہے۔ اس طرح خدا حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے۔ سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہو جاتا ہے۔ اور (پانی) جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے۔ اس طرح خدا (صحیح اور غلط کی) مثالیں بیان فرماتا ہے (تاکہ تم سمجھو)۔( الرعد:17)

تو یہ جو کچھ بھی ہے، حق و باطل کی آویزش ہے؛لیکن حق اور باطل کی حقیقت کیا ہے؟ کونساقانون ہے جواس کے اندر کام کر رہا ہے؟یہاں واضح کیا گیا کہ یہ بقاء انفع کا قانون ہے یعنی اللہ نے قانون ہستی کے قیام و اصلاح کے لیے یہ قانون ٹھہرایا ہے کہ یہاں وہ چیز باقی رہ سکتی ہے جس میں نفع ہو؛جس میں نفع نہیں وہ نہیں ٹھہرسکتی،اسے نابود ہو جانا ہے کیوں کہ کائنات ہستی کا یہ بناؤ،یہ حسن،یہ ارتقاء قائم نہیں رہ سکتا،اگراس میں خوبی کی بقاء اور خرابی کے ازالے کے لیے ایک اٹل قوت سرگرم کار نہ رہتی۔ یہ قوت کیا ہے، فطرت کا انتخاب ہے، فطرت ہمیشہ چھانٹتی رہتی ہے، وہ  ہر گوشہ میں صرف خوبی اور برتری ہی باقی رکھتی ہے فساد اور نقص محو کر دیتی ہے۔ ہم فطرت کے اس انتخاب سے بے خبر نہیں ہیں، قرآن کہتا ہے اس کار گاہ فیضان و جمال میں صرف وہی چیز باقی رکھی جاتی ہے جس میں نفع ہو کیوں کہ یہاں رحمت کارفرما ہے اور رحمت چاہتی ہے کہ افادہ فیضان ہو،وہ نقصان گوارا نہیں کر سکتی۔ وہ کہتا ہے: جس طرح تم مادیات میں دیکھتے ہو کہ فطرت چھانٹتی ہے؛ جو چیز نافع ہوتی ہے اسے باقی رکھتی ہے  اور  جو نافع نہیں ہوتی اسے محو کر دیتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک عمل ایساہی معنویات میں بھی جاری ہے جو عمل حق ہو گا قائم  اور  ثابت رہے گا،جو باطل ہو گا مٹ جائے گا اور جب کبھی حق و باطل کا مقابلہ ہو گا تو بقاء،حق کے لیے ہو گی نہ کہ باطل کے لیے۔ وہ اسی کو قضاء بالحق سے تعبیر کرتا ہے یعنی فطرت کا فیصلہ حق جو باطل کے لیے نہیں ہوسکتا۔

ہمارے زوال کا ایک اہم سبب :

عمران و تمدن کے تمام اصولوں اور قوانین کا متن قرآن کاہی اصل اصول ہے اسی اصول کی ہمہ گیری ہے کہ امم قدیمہ کے حالات ہم پڑھتے ہیں تو ہر قوم کا ایک دور عروج ہمارے سامنے آتا ہے اور دوسرا زمانہ انحطاط ان دونوں میں ما بہ الامتیاز اور فاصل اگر کوئی چیز ہوسکتی ہے تو وہ قیام عدل اور نفاذ جور و جفا ہے۔

جب تک قومیں قیام عدل میں مساعی اور جدوجہد کرنے والی ہوتی ہیں تو فتح و کامرانی نصرت الٰہی و کامیابی ان کے قدم چومتی ہے؛لیکن جب قیام عدل کے بجائے افشاء ظلم اور ترویج جوروستم ان کا شعار بن جاتا ہے تو پھر قانون فطرت حرکت میں آتا ہے اور بیک جنبش ان کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیتا ہے اور پھر ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔

دور جانے کی ضرورت نہیں خود اپنی تاریخ کو اٹھا کر دیکھو!جب تک ہم دنیا میں حق اور انصاف کے حامی و مددگار رہے تو خدا تعالیٰ بھی ہمارا مددگار رہا اوردنیا کی کوئی طاقت بھی ہمارے سامنے نہ ٹھہرسکی؛لیکن جوں ہی تاریخ اسلام کا عہد تاریک شروع ہوا اورعلم و مذہب، اعلان حق اوردفع باطل کے لیے نہ رہا؛بل کہ حصول عز و جاہ اور حکومت وتسلط کے لیے آلہ کاربن گیا اور اس طرح علم و مذہب حصول قوت حکمرانی اور دولت جاہ دنیوی  کا ذریعہ بن گیا تو اجتماعی فسادات اور امراض کے چشمے پھوٹ پڑے۔ حکام عیش و عشرت کی زندگی بسرکرنے لگے اور علماء  اور  فقہاء ان کے درباروں کی زینت بن گئے تو قوت حاکمۂ کائنات کے دست قدرت نے بھی استبدال اقوام اور انتخاب ملل کے فطری قانون کو حرکت دی اور عمل بالمحاذات کے دستوراٹل کو عمل میں لائی تو پھر ہمارے ادبار اور شقاوت کونہ ہماری حکومت روک سکی اور نہ ہی عسکری قوت۔رسوائی و ذلت کے اس بحر متلاطم کے تھپیڑوں سے نہ علماء و مشائخ بچ سکے  اور  نہ عمال اور زہاد۔آج جنتی رسواء عالم،مسلمان قوم ہے شاید ہی کوئی قوم اس درجہ مغضوب و مقہور ہوئی ہو۔

وتلک الایام نداولھابین الناس(140:3)

ماضی  اور  حال:

یہ انقلاب قدرتی ہے  اور  نہیں معلوم اس دنیا میں کتنے دور قوموں اور ملکوں پراس کے گذر چکے ہیں۔ آج امید و کامیابی کے جس آفتاب سے غیروں کے ایوان اقبال روشن ہو رہے ہیں، کبھی ہمارے سروں پربھی چمک چکا ہے اور جس بہار کے موسم عیش و نشاط سے ہمارے حریف گذر رہے ہیں، ایک زمانہ تھا کہ ہمارے باغ و چمن ہی میں اس کے جھونکے آیا کرتے تھے۔ اب کس سے کہیے کہ کہنے کا وقت ہی چلا گیا۔   ؎گذر چکی ہے یہ فصل بہار ہم پربھی

ہم ہمیشہ سے ایسے نہیں جیسے کہ اب نظر آ رہے ہیں، زمانہ ہمیشہ ہم سے برگشتہ نہیں رہا،مدتوں امید کا ہم میں اشیا نہ رہا ہے؛ بلکہ ہمارے سوا اس کا کہیں ٹھکانہ نہ تھا،اب دنیا میں ہمارے لیے ماتم و نا امیدی،دوہی کام کرنے کے لیے باقی رہ گئے ہیں ؛ لیکن زیادہ دن نہیں گذرے کہ ہماری زندگی کے لیے اس دنیا میں اور بھی بہت سے کام تھے۔

اور ہم نے ان قوموں کو اچھی  اور  بری امید اور مایوسی،فتح  اور  شکست دونوں حالتوں میں ڈ ال کر آزمایا کہ شاید یہ بداعمالیوں سے توبہ کریں  اور  راہ حق بھی اختیار کر لیں۔ ( الأعراف:168)

 بے شک اس انقلابی حالت میں عبرت و موعظت کی بہت سی نشانیاں ہیں ؛ مگر ان میں اکثر لوگ ایمان و ایقان کی دولت سے محروم تھے۔

ہجوم یاس و اختلال نظام امید:

جو شخص مایوس ہو کر اللہ کی نسبت ایساظن رکھتا ہو کہ اب دنیا و آخرت میں خدا اس کی مدد کرے ہی گا نہیں، توپھراس کو چاہیے کہ اوپر کی طرف رسی تانے اور اس کا پھندا بنا کر اپنے گلے میں پھانسی لگا لے اور اس طرح زمین سے جہاں اب وہ اپنے لیے مایوسی سمجھتا ہے، اپنا تعلق قطع کر لے پھر دیکھے کہ آیا اس تدبیرسے اس کی وہ شکایت جس کی وجہ سے مایوسی ہو رہی ہو،وہ دور ہو گئی یا نہیں۔ اس طرح ہم نے قرآن کریم میں ہدایت فلاح کی روشن دلیلیں اتاری ہیں کہ تم ان پر غور کرو۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے اس کے ذریعے سے ہدایت بخشتا ہے۔(الحج :16)

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس

ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے

جنگ بلقان  اور  جنگ اسلام و فرنگ کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تواس میں شایدسب سے زیادہ موثر اور درد انگیز باب مسلمانان عالم کے اضطراب امید و بیم کاہو گا۔یہ سچ ہے کہ میدان جنگ میں صرف مجاہدین ترک تھے؛لیکن ہزاروں ہیں جنہیں خواب غفلت سے مہلت نہیں تو ان کی تعداد بھی کم نہیں جو گو اب تک بستروں پر لیٹے ہیں مگر اضطراب کی کروٹیں بھی بدل رہے ہیں اور یہ یقیناً کار فرمائے قدرت کی ایک سب سے بڑی توفیق بخشی ہے، اگرموسم کے بدلنے کا وقت آ گیا ہے تو اتنے آثار بھی کم نہیں۔ ہم نے بڑے بڑے آتش کدوں اور  تنوروں کو دیکھا ہے، ان کے اندر آگ کے مہیب شعلے اٹھ رہے تھے۔ حالاں کہ چند گھنٹے پیشتر ان کی تہہ میں چند بجھی ہوئی چنگاریوں کے سوا  اور  کچھ نہ تھا۔انہی خاکسترکے تودوں میں چھپی ہوئی چنگاریوں کو جب  باد تند و تیز کے چند جھونکے میسرآگئے تو چشم زون میں دہکتے ہوئے انگاروں  اور اچھلتے ہوئے شعلوں سے تنور بھر گیا۔پھر کیا عجب ہے کہ سوزتپش کی جو چنگاریاں اس وقت دلوں میں بجھی ہوئی نظر آ رہی ہیں توفیق الٰہی کی باد شعلہ افروز ان کے اس آتشکدہ حیات کو گرم کر دے جوافسوس ہے کہ روزبروزخاکسترسے بھرتا جا رہا ہے۔

بہتر ہے کہ اس بارے میں میری زبان پر صاف صاف سوالات  ہیں۔

کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ امیدویاس کی تقسیم میں ایک ہمارے لیے صرف یاس ہی رہ گئی ہے اور تکمیل فنا میں جس قدر وقت باقی رہ گیا ہے اس میں صرف رفتہ کا ماتم  اور  آئندہ کی نا میدی دوہی کام کرنے کے لیے باقی رہ گئے ہیں ؟

کیا جو کچھ ہو رہا ہے، ہماری زندگی کی آخری مساعات  اور  موت کے احتضار کی آخری حرکت ہے ؟

کیا چراغ میں تیل ختم ہو گیا  اور  بجھنے کا وقت قریب ہے  اور  سب سے آخر یہ کیا اعداء اسلام سے اسلام کا آخری مقابلہ ہو چکا ہے  اور  یسوع کی مصلوب  اور  مردہ لاش نے خدائے حی و قیوم پر فتح پائی؟۔معاذاللہ

میں سمجھتاہوں کہ یہ سوالات مختلف شکلوں میں آج بہتوں کے سامنے ہوں گے۔ ممکن ہے کہ مایوسی کا غلبہ میرے اعتقاد کو مغلوب کرے، اس لیے ممکن ہے کہ میں تسلیم کر لوں کہ ہمارے مٹنے کا وقت آ گیا ہے۔ مگر میں نہیں سمجھتاکہ کوئی مسلم قلب جس میں ایک ذرہ  برابرنوراسلام باقی  ہے ایک منٹ،ایک لمحہ ایک دقیقے  اور  ایک عشیرہ دقیقے کے لیے بھی اس کو مان سکتا ہے۔

حیران ہوں کہ آج مسلمان مایوس ہو رہے ہیں ؛حالاں کے میں توکفرومایوسی کے تصورسے کانپ جاتا ہوں، کیوں کہ یقین کرتا ہوں کہ مایوس ہونا اس خدائے ذوالجلال والاکرام کی شان رحمت و ربوبیت کے لیے سب سے بڑا انسانی کفر اور اس کی جناب میں سب سے زیادہ نسل آدم کی شوخ چشمی ہے۔ تم جو ان بربادیوں  اور  شکستوں کے بعدمایوس ہو رہے ہو تو بتلاؤ کہ تم نے خدائے اسلام کی قوت و رحمت کوکس پیمانہ سے ناپا۔وہ کون ساکاہن ابلیس ہے جس نے خدا کے خزانہ رحمت کو دیکھ کر تمہیں بتلا دیا ہے کہ اب اس میں تمہارے لیے کچھ نہیں۔

سورۂ عصر اور کامیابی کی چارمنزلیں :

قوموں کی زندگی ایک بہت بڑی علامت یہ ہے کہ ان کا دل امید کا دائمی آشیانہ ہوتا ہے اور خواہ ناکامی اور مصائب کا کتنا ہی ہجوم ہو مگر امید کاطائرمقدس ان کے گوشے سے نہیں اڑتا،وہ دنیا کو ایک کار گاہ عمل سجھتے ہیں اور امید کہتی ہے کہ یہاں جو کچھ ہے صرف تمہارے لیے ہے۔ اگر آج تم اس پر قابض نہیں تو غم نہیں کیوں کہ عمل و جہد کے بعد کل کو وہ تمہارے ہی لیے ہونے والی ہے۔ مصیبتیں جس قدر آتی ہے وہ ان کو صبر و تحمل کی ڈھال پر روکتے ہیں اور غم و اندوہ سے اپنے دماغ کو معطل نہیں ہونے دیتے بلکہ مصیبتوں کو دور کرنے اور ان کی صفوں پر غالب آنے کی تدابیر پر غور کرتے ہیں، نامرادی ان کے دلوں کو مجروح کرتی ہے مایوس نہیں کرتی اور غم کے لشکرسے ہزیمت اٹھاتے ہیں، پر بھاگتے نہیں۔

گردش زمانہ شاہد ہے کہ  ہر جماعت خسارہ میں گھری ہوئی ہے؛ مگر وہی جو یہ چار کام انجام دیں۔ ایمان لائیں  اور  عمل صالح کریں، حق و صداقت کا اعلان کرتے رہیں اور صبر کی تلقین کریں۔

زمانہ اس لیے شاہد ہے کہ اس آسمان کے نیچے قوموں اور جماعتوں کی بربادی و کامیابی اور ارتقاء انحطاط کی کہانی پرانی ہے اتنا ہی پرانا زمانہ بھی ہے۔ دنیا میں اگر کوئی اس انقلاب اقوام کا ہم عصرہوسکتا ہے تو وہ صرف زمانہ ہے۔ پھر قوموں کی تباہی و بربادی  اور  کامیابی و فلاح جو کچھ بھی بھی ہوتا رہا ہے وہ زمانہ کی گود میں ہوا۔پس انقلاب امم پر اگر کوئی چیز گواہ ہوسکتی ہے تھی تو وہ صرف گردش ایام ہی تھا؛اس لیے قرآن نے زمانہ کواس پر شاہد اور گواہ بنایا کہ زمانہ  اور اس کی گردش ورفتاراس بات پر شاہد ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ان اصول چہار گانہ کونہ اپنا لے۔ پس قرآن اعلان کرتا ہے کہ اس آسمان کے نیچے نوع انسان کے لیے انسانوں کی تلاشوں اور جستجوؤں کے لیے اور امیدوں و تمناؤں کے لیے بڑی بڑی ناکامیاں ہیں گھاٹے اور ٹوٹے ہیں، خسران اورنامرادی ہے، محرومی  اور  بے مرادی ہے؛ لیکن دنیا کی اس عام نامرادی سے کون انسان ہے، کون جماعت ہے جو کہ بچ سکتی ہے اور نا کامیابی کی جگہ کامیابی اور نا امیدی کی جگہ امیداس کے دل میں اپنا آشیانہ بنا سکتی ہے۔ وہ کون انسان ہیں، وہ انسان جو کہ دنیا میں ان چار شرطوں کو قولاً و عملاً اپنے اندر پیدا کر لیں۔ جب تک یہ پیدا نہ ہوں گی،اس وقت تک دنیا میں نہ کوئی قوم کامیاب ہوسکتی اور نہ ملک۔حتی کہ ہوا میں اڑنے والے پرندے بھی کامیابی نہیں پا سکتے۔

کامیابی کی پہلی منزل  وہ ہے؛جس کا نام قرآن کی بولی میں ایمان ہے۔ الا الذین امنو۔تم جبھی کامیابی پا سکتے ہو جب تمہارے دلوں کے اندر اور روح و فکر میں وہ چیز پیدا ہو جائے جس کا نام قرآن کی زبان میں ایمان ہے، ایمان کے معنی عربی زبان میں زوال شک کے ہیں یعنی کامل درجہ کابھروسہ اور کامل درجہ کا  اقرار تمہارے دل میں پیدا ہو جائے۔ جب تک کامل درجہ کا یقین تمہارے دلوں کے اندر پیدا نہ ہو اور اللہ کی صداقت وسچائی اور اللہ کے قوانین و اصولوں پر کامل یقین تمہارے قلوب میں موجزن نہ ہو جائے تب تک کامیابی کا کوئی دروازہ تمہارے لیے نہیں کھل سکتا۔

دوسری منزل اس کے بعد آتی ہے جب تک وہ دوسری منزل بھی کامیابی کے ساتھ طے نہ کر لو گے تو صرف پہلی منزل کو طے کر کے کامیابی نہیں پا سکتے۔ اس کا نام قرآن کی زبان میں عمل صالح ہے۔ وعملوالصلحت۔یعنی وہ کام جو اچھائی کے ساتھ کیا جائے؛ جس کام کوجس صحت اور جس طریقے کے ساتھ کرنا چاہیے اور جو طریقہ اس کے لیے سچاطریقہ ہوسکتا ہے، اس کام کواسی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ اس سے سادہ تر الفاظ میں یہ کہ جو طریقہ اس کام کے انجام دینے کا صحیح طریقہ ہوسکتا ہے، اسے اسی طریقہ کے ساتھ انجام دیا جائے۔ قرآن کا یہ اصول تو عام ہے کہ کیوں کہ ایمان کے معنی ہیں وہ کامل یقین و کامل اطمینان اور اقرار جو عمل سے پہلے پیدا ہوتا ہے۔

تیسری منزل ہے توحید حق کی۔وتواصوابالحق۔ یعنی ان منزلوں سے کامیابی کے ساتھ گذرنے کے بعدتیسری منزل کو بھی کامیابی سے طے کرو یعنی دنیا میں خدا کی سچائی کا پیغام پہنچاؤ۔جب تک تم میں یہ بات نہ ہو کہ تمہارا دل سچائی کے اعلان کے لیے تڑپنے لگے، تب تک تم کو کامیابی نہیں مل سکتی۔اب اگرتیسری منزل کے لیے تیار ہو گئے۔ اگر توفیق الٰہی نے تمہاری دستگیری کی ہے  اور  تم نے یہ منزل بھی کامیابی کے ساتھ طے کر لی ہے تو کیا پھر مقصود حاصل ہو جائے گا  اور  کچھ نہ کرنا پڑے گا۔قرآن کہتا ہے، نہیں ! بلکہ ایک  اور  آخری منزل بھی ہے جو کہ اعلان صبر کی منزل ہے۔ واتواصوبالصبر۔اعلان صبر کی منزل اعلان حق کی منزل کے ساتھ لازم و ملزوم کا رشتہ رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کی گردن اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ جدا نہیں کی جا سکتی۔فرمایا کہ حق کا وہ اعلان کریں گے، حق کا پیغام پہنچائیں گے، حق کا پیغام سنائیں گے، حق کی دعوت دیں گے، حق کی تبلیغ کریں گے۔ حق کا چیلنج کریں گے، حق کا پراپیگنڈا کریں گے۔ لیکن حق کا یہ حال ہے کہ حق کی راہ میں کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا،جب تک قربانیوں کے لیے نہ اٹھے۔ حق کا پیغام پہنچانا بغیر قربانی و ایثار کے ایساہی ہے جیساکہ آگ کو ہاتھ میں پکڑ لینا،بغیراس کی گرمی کے۔ جیسے یہ ناممکن ہے، ویسے ہی وہ بھی محال ہے اس لیے چوتھی منزل صبر کی ہے،جب تک یہ منزل بھی طے نہ کی جائے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اعلان صبر کی منزل اعلان حق کی منزل کے ساتھ لازم و ملزوم کا رشتہ رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کی گردن اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ جدا نہیں کی جا سکتی۔ حق کا پیغام پہنچانا بغیر قربانی و ایثار کے ایساہی ہے جیساکہ آگ کو ہاتھ میں پکڑ لینا،بغیراس کی گرمی کے۔ جیسے یہ ناممکن ہے، ویسے ہی وہ بھی محال ہے اس لیے چوتھی منزل صبر کی ہے۔ جب تک یہ منزل بھی طے نہ کی جائے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔

تبصرے بند ہیں۔