قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے!

مدثراحمد

 جمعیۃ علماء ہند کے قومی جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے مجلس اتحاد المسلمین کے صدر و رکن پارلیمان حیدرآباد اسد الدین اویسی سے دوٹوک انداز میں کہا کہ آپ مسلمانوں کی قیادت سے باز آجائیں۔ انہوں نے اویسی کو مزید کہا کہ وہ حیدرآباد اور تلنگانہ تک اپنے آپ کو محدود رکھیں۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے قائد بننا چاہ رہے ہیں جسے ہم کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ سوشل میڈیا پر مولانا محمود مدنی کے اس بیان کی سخت مذمت کی جارہی ہے۔ مولانا محمود مدنی نے اویسی کے بعد آسام کے رکن پارلیمان مولانا بدر الدین اجمل کو بھی انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ آسام تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھیں، وہاں سے آگے نکل کر اگر وہ قومی سیاست میں قدم رکھتے ہیں تو ہم اپنا راستہ جدا کرلیں گے۔

 ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولانا بدر الدین اجمل آسام سے باہر نہ نکلیں ورنہ ہم بھی ان کی مخالفت کریں گے۔ او ران سے اپنے راستہ جدا کرلیں گے۔ واضح رہے کہ مولانا بدر الدین اجمل، مولانا محمود مدنی کی جمعیت جمعیۃ علماء ہند میں آسام یونٹ کے صدرہیں۔ مولانا محمود مدنی کے خاندان سے ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ مولانا محمود مدنی کے والد مولانا اسد مدنی مولانا اجمل کے شیخ تھے اور ان کے ہی مشورہ پر انہوں نے یونائیٹیڈ ڈیموکرٹک فرنٹ کے نام سے سیاسی پارٹی بنائی تھی۔ مولانا بدر الدین اجمل کی شناخت ایک سیکولر لیڈر کے طور پر ہوتی ہے۔ ایک طرف ہندوستان بھر میں یہ واویلا مچایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے پاس سیاسی قائدین کی کمی ہے اور ایک بھی مسلمان مسلمانوں کی قیادت کرنے کیلئے آگے نہیں آرہا ہے۔

مولانا محمود مدنی نے جوبیان دیا ہے وہ کس بنیاد پر دیا ہے وہ خود ہی بہتر جانتے ہیں، لیکن عام مسلمان یہ چاہ رہا ہے کہ کم ازکم کوئی ایک شخص مسلمانوں کی قیادت کیلئے آگے آئے، سیاسی اعتبار سے وہ مسلمانوں کی ترجمانی کرے، مگر ایک عالم دین، سابق رکن پارلیمان اور وسیع النظر شخصیت مانے جا نے والے مولانا محمود مدنی نے جس طرح سے یہ بیان دیا ہے اس سے یہ بات تو پہلی نظرمیں واضح ہورہی ہے کہ مولانا محمود مدنی کسی سیاسی شخصیت کو مسلمانوں کا قائد بنانا ہی نہیں چاہتے۔ ان کی نظر میں مولانا بدر الدین اجمل اور اسد الدین اویسی سیاسی قائد بننے کے قابل نہیں ہیں۔ حال ہی میں مولانا ارشد مدنی نے اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ ہندوستانی مسلمان رکن پارلیمان اسدالدین اویسی کواپنا سیاسی قائد مان لیں، جبکہ مولانا محمود مدنی کہہ رہے ہیں کہ انہیں مسلمانوں کا لیڈربننے نہیں دینگے۔ جس طرح سے مولانا محمود مدنی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسدالدین اویسی صرف تلنگانہ وآندھراپردیش تک ہی محدود رہے جائیں اور مولانا بدرالدین اجمل آسام کی سیاست تک ہی محدود رہ جائیں، اسی طرح سے کوئی مولانامحمود مدنی کویہ مشورہ دیں کہ آپ اپنی جمعیت کی سرگرمیوں تک ہی محدود رہ جائیں، سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کریں تو کیا انہیں یہ بات قبول ہوگی اور کیا ہندوستانی مسلمان جو مولانا محمود مدنی کے حامی ہیں وہ مان جائینگے؟۔ ہرگز نہیں مان سکتے کیونکہ جس طرح سے جمعیت علماء ہند ہندوستانی سیاسی، سماجی و فلاحی سرگرمیوں میں اپنی حصہ داری کو ثابت کرتی ہے، اسی طرح سے ایک سیاستدان ہونے کے ناطے اسدالدین اویسی یا پھر مولانا بدرالدین اجمل، ان کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک، بنگال سے لیکر گجرات کے مسلمانوں کی سیاسی قیادت کریں۔ ویسے بھی مخصوص ریاستوں تک اپنے آپ کو محدود کرلینا کسی قائد کی پہچان نہیں ہے۔ جب اللہ نے انسانوں کو اس زمین کا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے تو مسلمانوں کی قیادت کرنے والے اپنے آپ کو محدود کیوں کرلیں ؟

اسدالدین اویسی نے پچھلے دنوں جب طلاق ثلاثہ کا معاملہ پیش آیا تھا اس وقت پارلیمان میں اس بل کی شدید مخالفت کی تھی، تو کیوں نہیں آپ کے یوپی و بہار سے منتخب ہونے والے اراکین پارلیمان خصوصاً اسرارالحق قاسمی پارلیمان میں اس بل کی مخالفت کیلئے نہیں اترے۔ ہندوستان بھر میں جب بات مسلمانوں پر ظلم وستم کی آتی ہے تو یہی لوگ تو آواز اٹھاتے ہیں، اُس وقت جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری ہونے کے ناطے آپ نے کتنے ملک گیر احتجاجات کئے ہیں یہ خود آپ جان لیں۔

 یہ وہی جمعیت علماء ہند نے جس نے آزادی پہلے جنگ آزادی کی کمان سنبھالی تھی اور اسی جمعیت نے تحریک ریشمی رومال کے ذریعے انگریزوں کو پریشان کررکھا تھا۔ اب آزادی کے بعد کون کونسی تحریکیں آپ نے چلائی ہیں یہ سوال اس ملک کی عوام مولانا محمود مدنی سے پوچھ رہی ہے۔ جس وقت آپ رکن پارلیمان تھے اسی معیاد میں جسٹس راجیندر سچرنے اقلیتوں کی بدحالی کے سلسلے میں رپورٹ پیش کی تھی تو آپ نے اُس وقت کی حکومت پر کیوں دبائونہیں ڈالا تھا۔ آج جب کوئی مسلمانوں کاقائد بن کر ابھرنے کی کوشش کررہا ہے تو اس کی ہمت افزائی کرنے کے بجائے اسے پس ہمت کرنا کونسی حکمت ہے۔

ہندوستان کا ہر مسلمان یہ چاہ رہا ہے کہ ہمارے درمیان اویسی اور بدرالدین جیسے قائدین پیدا ہوں اور پورے ملک کے مسلمانوں کے قائد بن جائیں، لیکن آپ جیسے اہل علم حضرات میڈیا میں اس طرح کی باتیں کرتے ہیں تو فسطائی طاقتوں کو یہ جواز مل جاتا ہے کہ خود مسلمان ہی ان قائدین کواپناقائد نہیں مانتے ہیں تو کیونکر وہ اپنے آپ کو مسلم قائد کہلاتے ہیں۔ آج ہمیں ایک دوسرے کے پیر کھینچنے والے اہل علم حضرات اور دانشوروں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کھل کر مسلمانوں کی سیاسی قیادت کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ ہاں، اگر کوئی کہتا ہےکہ اویسی بی جے پی کی تائید کرنے والوں میں سے ہیں تو یہ بات اور ہے، لیکن تاریخ کا جائزہ لیں تومغلیہ دور کے حکمرانوں سے لیکر حضرت ٹیپو شہیدؒ کے دور تک اسی طرح کی الزام تراشیاں ہوتی رہی ہیں، اس دورمیں مسلم حکمرانوں پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھاکہ وہ تلوار کے بل بوتے پراسلام پھیلانے آئے ہیں تو اس دورمیں مسلمانوں کی قیادت کرنے والوں پر الزام لگادیا جاتا ہے کہ وہ فسطائی طاقتوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔

 افسوس کے آج غیروں کے ساتھ ہم بھی اپنے ہی قائدین کو شک وشبہ کی نظرسے دیکھنے لگے ہیں اور یہ سلسلہ شاید قیامت تک چلتا ہی رہےگا۔ شاید ایسے ہی حالات کے تناظرمیں علامہ اقبال نے کہا تھاکہ

میں نے اے میرِ سپہ تیری سپہ دیکھی ہے

قُل ہواللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام

قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے

اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔