قِصّہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

ریاض فردوسی

ابھی چند ماہ قبل وہ معصوم مظلومین، انہوں نے آخری لفظ ’’والناس ‘‘ پڑھا  اور سندیں وصول کی اور پھر پگڑیاں باندھی، سفید لباس میں، عطر سے معطر ہو کر یہ سب گھر سے آئے ہوئے تھے گویا انہیں معلوم تھا کہ جس مصنف کا کلام وہ  یاد کر چکے ہیں اس نے انہیں پورا کلام سنانے کے لئے بلایا ہے۔ نیٹو افواج کی درندگی میں شہیدہونے والے (۱۰۰) سو سے زائدمعصوم حفاظ اکرام جب اللہ کی بارگاہ میں سروں پر دستار فضیلت سجائے حاضر ہوں گے اور پوچھیں گے کہ  بِایّ ذَنب قتلت  ’’ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا ؟‘‘

  اسرائیلی فوج کے ایک جنرل نے اعتراف کیا کہ فوجیوں کو فلسطینی بچوں کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کی اعلیٰ سطح سے ہدایات دی جاتی ہیں۔ فوجی ان احکامات اور ہدایات پرعمل درآمد کرتے ہوئے فلسطینی مظاہرین اور بچوں کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔

عبرانی ریڈیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اسرائیلی ریزرو فوج کے جنرل ’زویکا فوگل‘ نے کہا کہ فوجی اہلکار فلسطینی نوجوانوں اور بچوں میں فرق کرسکتے ہیں مگر انہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ دانستہ طورپر فلسطینی بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنائیں تاکہ فلسطینیوں میں زیادہ سے زیادہ خوف وہراس پھیلایا جاسکے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی مقامی اور عالمی تنظیموں نے اسرائیلی جنرل کے بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ جنرل فوگل کا بیان اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کا اقبالی بیان ہے اور اس بیان کو صہیونی ریاست کے خلاف عالمی عدالتوں میں جاری مقدمات میں بہ طور اعترافی بیان شامل کیا جانا چاہیے۔

خیال رہے کہ گذشتہ جمعہ کو اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں مشرقی سرحد پر احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعد فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ شہداء میں ایک 15 سالہ بچہ محمد ایوب بھی شامل تھا جسے قریب سے سر اور سینے میں گولیاں ماری گئی تھیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ایوب کی شہادت کو اسرائیلی ریاست کا جنگی جرم قرار دیا تھا۔

اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے لیے امن مندوب نیکولائی ملادینوف نے ایک بیان میں کہا کہ محمد ایوب کا قتل غیرذمہ دارانہ واقعہ ہے اور اس کی آزادانہ تحقیقات کی جائیں۔

انسانی حقوق گروپ ’یورو مڈل ایسٹ‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بھی فلسطینی مظاہروں میں بچوں کو نشانہ بنائے جانے کی اسرائیلی فوج کی پالیسی پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نہتے اور بے گناہ فلسطینی شہریوں کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنا کر انہیں شہید کررہی ہے۔

ایک حقیقت

خلافت عثمانیہ   1299 ء سے 1922 ء تک (تقریباً623سال)قائم رہنے والی عظیم مسلم سلطنت تھی۔ یہ سلطنت تین(۳ )برا عظموں پر پھیلی ہوئی تھی، جنوب مشرق یورپ، مشرق وسطی، شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے ماتحت تھا۔ 1299میں عثمان اول نے سلجوقی حکومت سے خود مختاری کا اعلان کرکے عثمانی سلطنت کی بنیادڈالی۔ ان کے انتقال کے بعد ایک سال کے اندر ہی عثمانی سلطنت مشرق بحیر روم اور بلقان تک پھیل گئی، مئی  1453ء کو سلطان محمد ثانی نے قسطنطنیہ کو فتح کیا، اور اسے اپنا دارالحکومت بنا لیا۔ معیشت میں اہم ترین کردار تجارت کا تھا، کیونکہ ایشاء اور یورپ کے تمام زمینی و سمندری راستے اسی سلطنت سے گزرتے تھے۔ 17ویں صدی سے 19 ویں صدی کے دوران روس اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان کئی جنگیں لڑیں گئیں۔ 19ویں صدی میں نسلی قوم پرستی (عرب و عجم وغیرہ)کو عروج ملا۔ پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کی شکست کا سب سے بڑا سبب بغا وت کو سمجھا جا تا ہے۔ عرب بغاوت میں شریف مکہ ’’حسین‘‘اور محمدابن عبد الوہاب نجدی کے متبعین بہت بڑاہاتھ تھا، مصطفی کمال پاشا کی زیر قیادت جنگ آزادی کے آغاز اور جمہوریہ ترکی کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ مصطفی کمال پاشا کی زیر قیادت ترک قومی تحریک نے 1920 میں استنبول میں عثمانی حکومت اور ترکی میں بیرونی قبضہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، 1922میں خلافت عثمانیہ کاخاتمہ ہوا، خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو ممالک قائم ہو ئے ان کی تعدادتقریباً 40تھی۔

 ایک مثال

بنگال کا بھیانک قحط جسمیں دس ملین لوگ مارے گئے، جب گاندھی نے اس پر لکھا تو کہا کہ یہ بنگال کے لوگوں پر انکے کرتوت کا صلہ ہے، وہ گائے کاٹتے اورکھاتے ہیں اس لئے انہیں یہ بھیانک سزا ملی ہے۔ جب کہ سب جانتے ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قحط انگریزوں کی غلط زرعی پالیسیوں کی وجہ سے پیش آئی تھی۔ امرتیہ سین نے بڑے واضح لفظوں میں کہا کہ یہ  man-made famine تھا۔ خود انسانوں نے یہ صورتِ حال پیدا کی تھی اور وہ انگریز تھے۔

 عالمی پیمانے پر مسلمانوں کو درپیش مسائل کا جب کوئی حل نہیں ملتا تو گھوم پھر کے ہسٹیریا کی کیفیت میں مسلمانوں کا دین سے دوری کو سبب بتاتے ہیں۔ تیرہ سال تک مکہ کے اولین مسلمانوں سے بھی زیادہ کوئی اسلام سے جڑا ہوا تھا؟ ان سے زیادہ کوئی عبادت گزار نہ تھا، پھر بھی کفارِ مکہ کے ہاتھوں انکے ستائے جانے کا سلسلہ کسی طرح بھی ختم نہیں ہوا بلکہ روز بروز سنگین ہوتا گیا۔ اگراسلام سے جڑنے اورعمل کرنے سے مسائل حل ہوتے تو انکے مسائل مکہ میں کیوں نہیں حل ہوئے۔ (حبشہ)اتھوپیا اور  مدینہ منورہ کی ہجرت کی ضرورت کیوں پڑی۔

یہ تو شتر مرغ والی بات ہوئی کہ کوئی راستہ نہیں سوجھتا تو ریت میں سر چھپا لو، مسائل کا کوئی حل نہیں ملتا تو اسے دینی غفلت اور اسلام سے دوری سے جوڑ کے دیکھنے لگتے ہیں ؟

اگر سارے مسائل اسلام سے جڑنے  اور صرف اس پر عمل پیرا ہونے سے حل ہوجاتے تو جب کفارِ مکہ( ۷)سات ہجری میں مدینہ پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے، اور پورا مدینہ اس کی زد میں تھا تو خندق کھودنے کی کیا ضرورت تھی؟ گھر میں بیٹھ کے روزہ نماز کرتے، اللہ اللہ کرتے خندق کھودنی ہی پڑی۔ ہزار صوم وصلاۃ کے باوجود سلمان فارسی ؓ کے بتاہوئے مشورے پر عمل طئے پایا گیا۔

ایک نصیحت

مدینہ کے لوگ کھجوروں کی اچھی فصل کے لیے تلقیح کا عمل کرتے تھے۔ نر اور مادہ کے گابھے میں جفتی کا عمل کرتے تھے۔ ایک سال اللہ کے رسولﷺ نے مدینہ کے لوگوں کو اس سے باز رہنے کو کہا، اس سال فصل کم پیدا ہوئی، لوگوں نے آپ ﷺسے شکایت کی کہ تلقیح نا کرنے کی وجہ سے ہمارے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺنے کہا ”انتم اعلم بامور دنیاکم” یعنی ایسا نا کرنے کا میرا ذاتی مشورہ تھا، اب تم تلقیح کر سکتے ہو، کیونکہ تمہیں اپنے دنیاوی معاملات کے بارے میں مجھ سے زیادہ پتا ہے۔ اسکے بعد مسلمانوں نے تلقیح کے اس عمل کو جاری رکھا۔

دنیا میں کامیابی کے لیے اسباب اپنانے پڑتے ہیں، صرف دین پر تکیہ کر لینے سے کامیابی نہیں ملنے والی۔ دین پر عمل کرنا ایک بات ہے اور دنیاوی مسائل سے حل کرنے کی سعی کرنا دوسری بات ہے۔ ( دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ ) اوکما قال ﷺ

 ایک تجزیہ

مولانا ابوالکلام آزاد نے فرانسیسی فوجی لا بریتان کے حوالے سے جس نے مسلمانوں اور فرانسیسیوں کی کئی جنگوں کے حالات بڑے ہی تجزیاتی انداز میں لکھا ہیَ لکھتے ہیں کہ فرانسیسیوں نے جب پہلی بار مصر اور اسکے مضافات میں حملہ کیا تو مسلمانوں کے پاس منجنیق کی شکل میں مضبوط اور تہس نہس کرنے والی اس زمانے کی توپیں موجود تھیں جس سے مسلمانوں نے فرانسیسیوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ جب مسلمان توپیں برسا رہے تھے تو فرانسیسی دور خیموں میں اپنے پادریوں کے پاس جما ہوکر عیسی مسیح سے مدد طلب کر رہے تھے۔ اور مسلمانوں کی توپوں سے اتنے مرعوب تھے کہ اسے عذابِ الہی اور دین سے دوری کا سبب گردان رہے تھے۔ لابریتان ایک دوسری جگہ لکھتا ہے کہ کچھ سالوں کے بعد جب فرانسیسوں نے مسلمانوں کی طرح توپیں بنا لیں اور وہ اس بار سمر قند اور بخارا پر حملہ آور ہوئے تو اس بار مسلمانوں کی وہی حالت تھی جو مصر پر حملے کے وقت فرانسیسیوں کی تھی۔ فرانسیسی توپیں برسا رہے تھے، اس بار مسلمان گھروں میں دبک کے بیٹھے تھے۔ سرکاری طور پر پورے سمرقند اور بخارا میں اعلان کردیا گیا کہ اس عذاب سے نجات کے لئے مسجدوں میں ختمِ خواجگان کیا جائیِ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو حلقے میں بیٹھ کر پڑھنے اورپڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔

مشورہ

سماجی، سیاسی، معاشی مسائل اور ہمیں عالمی سطح پر درپیش چیلینجز اس وقت تک دور نہیں ہو سکتے جب تک ہم مناسب حکمتِ عملی تیارنہ کریں، اسکے خاتمے کے لیے اسباب اختیار نا کریں اور اس کے لیے مناسب منصوبہ نا بنائیں۔ جو قوم بھی حکمت عملی سے دست بردار ہوجاتی ہے  وہ تاریکیوں میں کھو جاتی ہے۔ جب تک مسلمان حکمت عملی کے عمل سے جڑے رہے وہ خود بھی کامیاب رہے اور دوسروں کے لیے بھی رہنما بنے رہے۔ جب سے پالیسی میکنگ سے یہ قوم تہی دست ہوئی ہیِ اور دوراندیشیوں سے مفلوج ہوئی ہے اس وقت سے آج تک ہمارے سامنے اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔ ہمیں دوبارہ منظم منصوبہ بندی کا عمل شروع کرنا ہوگا۔ کیا کمیاں ہیں اورکیا خامیاں ہیں، انکا تجزیاتی مطالعہ کر کے انکے خاتمے کے لیے مناسب  لائحہِ عمل تیار کرنا ہوگا۔ اسے دین سے دوری اورغفلت سے جوڑ کر دیکھنے والی طرزِ تفکیر سے باز آنا ہوگا۔ وہ ذہنی طور پر انتہائی مفلوج سوچ ہے۔ جس میں ذرا بھی دور اندیشی نہیں۔ کوئی گہری سوچ شامل نہیں۔ آج دوسری قومیں کامیاب ہیں تو اس لئے نہیں کہ وہ دین دھرم سے بہت جڑی ہوئی ہیں۔ بہت عبادت گزار ہیں۔ انکی کامیابی کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ منصوبہ سازی کے عمل سے خود کو جوڑے ہوئے ہیں۔ یہود و نصاری جس پراللہ کی لعنت ہے وہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہیں کیونکہ انہوں نے پالیسی میکنگ کے عمل سے خود کو صدیوں سے گزارا ہے۔ آج ہندوتوا بریگیڈ ملک کی گدی پر براجمان ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ دین دھرم سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں نے اس کا خواب کئی دہایوں پہلے دیکھا تھا اور اس کے لیے انہوں نے منصوبہ بندی کی تھی جس کا پھل وہ آج ایک عرصے کے بعد چکھ رہے ہیں۔

مسلمان ہرچیز کو دین سے جوڑ کر دیکھتا ہے اور ہر چیز کا تجزیہ شرعی قوانین کے چشمے سے کرتا ہے، اسے نہیں پتا کہ اس دنیا میں کائناتی نظام بھی ہے۔ اور وہ کائناتی نظام یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی عمل اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اس کے لیے تدبیر نا اپنائی جائے اور اسے ایک خاص منصوبے سے نا گزارا جائے۔ ”وأن لیس للإنسان إلا ما سعی‘‘  اس کائنات میں انسان کی تمام حصولیابوں کا دار ومدار اس کی کوششیں ہیں، اسکی کاوشیں ہیں، کوششوں سے دست برداری اور پھر بھی کسی انہونی کا انتظار ایک مفلوظ ذہنیت کا فتور ہوسکتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اور کوئی بھی تدبیر نہ کرنا نٹھلے پن کی علامت ہے۔ (” اورتم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان کے علاوہ دوسروں کو خوف زدہ کرو۔ ۔ القرآن)

 سبق آموز

جاپان جب دوسری جنگِ عظیم میں بری طرح شکست خوردہ ہوا، جاپانیوں کے حوصلے پست ہوگئے، ہیرو شیما اور نا گا ساکی جل کر تباہ ہو گئے تو اس وقت وہاں کے بادشاہ (HiroHito) نے اپنی قوم کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیا اور اس وقت اس نے اپنی قوم سے خطاب کیا !  اس نے کہا ”اے میری قوم کے لوگو! آیئے اب ہم اپنے ہتھیار پھینک دیں اور اس کی جگہ اوزار اٹھالیں۔ ایک دن آئے گا کہ ہم پوری دنیا کو اپنے اوزاروں سے مات دیں گے، کیا ہم ایسا کرنے کے اہل نہیں ہیں ؟” اسی سوچ اوردیرپا پالیسی میکنگ کے نتیجے میں آج پوری دنیا میں جاپان آٹو موبیل (Automobile) میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ وہ عالمی پیمانے پرایک سند ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کے دھارے کو بدلنا ہوگا۔ مفلوج ذہنیت سے نکلنا ہوگا۔ پالیسی میکنگ کے عمل سے خود کو جوڑنا ہوگا۔ منصوبہ بند طریقے سے سالہا سال تک عمل کرنا ہوگا تب جا کے موجودہ حالات سے نکل پائیں گے۔ ورنہ کئی اور صدیوں تک یہی صورتِ حال بنی رہے گی۔ ۔ (معاذاللہ صد با ر معاذاللہ)

 اے قوم مسلم!

تیر ے علم و عمل کی نہیں ہے انتہا کوئی   

 نہیں ہے تجھ بڑھ کر ساز فطرت نوا کوئی

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا 

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

(تاریخ اسلام، تاریخ قاسم فرشتہ، تاریخ قسطنطنیہ، مضمون شرف الدین محمد قاسمی، اور دیگر ذرائع سے ماخوذ)

تبصرے بند ہیں۔