قیادت ہمارے مسلے کا حل نہیں! 

مشرّف عالم ذوقی 

میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہندوؤں کو ، سکھوں کو ، عیسائیوں کو کسکی قیادت حاصل ہے ؟ آر ایس ایس بھی سیاسی تنظیم ہے– ،یہ بات واضح ہو چکی ہےکہ آر ایس ایس اپنے سیاسی مشن پرچل رہی ہے . .مودی سیاسی لیڈر ہیں .ہندو مذھب کے ماننے والوں کے قایڈ نہیں ہیں .ہندو راشٹر کے فلسفے پر اکثریت نے ان کو حمایت دی . کیا سیاسی لیڈر آپکے قاید ہو سکتے ہیں ؟ کسی بھی سیاسی لیڈر کی سیاسی زندگی میں ہی ایک وقت میں زلزلہ آتا ہے اور چلا جاتا ہے .مودی نے اس وقت اکثریت کو سیاسی سطح پر متحد کیا ہے .کل ممکن ہے انکی جگہ کویی یوگی یا کویی آر ایس ایس کا دوسرا لیڈر آ جائے .اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ ایک سیاسی نظریے کو آگے بڑھانے کا ہی کام کرے گا .کانگریس نے مدّتوں نام نہاد جمہوریت اور سیکولرزم کے فلسفے سے کھیلا .یہ بھی سیاست کا ایک حصّہ تھا .اقتدار کے لئے ایسا کرنا کانگریس کی مجبوری تھی .لیکن اسی نظریے کی بنا پر کانگریس نے سیاست کی لمبی پاری کھیلی .اب مودی ہندوتو کے فروغ کو لے کر نیی پاری کھیل رہے ہیں .سکھوں اور عیسایوں میں بھی ایسی کویی قیادت نہیں ہے .قیادت کا رونا صرف مسلمانوں کے درمیان ہے .الیکشن سے پہلے اور بعد میں قیادت کا رونا کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتا ہے .نتیجہ ؟ مسلمانوں کی بے بسی کو محسوس کرتے ہوئے ایک سے بڑھ کر ایک قاید اپنے تماشوں کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں .

دراصل تیس کروڑ مسلمان کسی ایک قیادت پر مہر لگا ہی نہیں سکتے .ایسی صورت میں جب بہتر کے بہتر فرقے تال ٹھوک کر میدان میں ہیں .جب مساجد پر الگ الگ فرقوں کے بینر لگے ہیں . شمشیر بہ کف مسلمان ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں .آپکو کیا لگتا ہے ،ایک قاید آسمان سے نازل ہوگا اور سارے مسلمان اسکی بات کو تسلیم کرنے لگیں گے ؟.ایسا ممکن نہیں ہے .ارشد مدنی سے محمود مدنی تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ انکے ساتھ ہیں .کچھ لوگ مولانا رشادی اور ایوب کے بھی ساتھ ہیں .اویسی کو بھی کچھ لوگوں کی حمایت حاصل ہے . مسلمانوں کا درد زور مارتا ہے تو کبھی کبھی کویی آواز جامع مسجد سے بھی بلند ہو جاتی ہے .لیکن پس منظر اور پیش منظر کا جایزہ لیں تو ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت کو علما یا مسلم سیاسی جماعت یا مسلم لیڈر کی ضرورت نہیں ہے .تیس کروڑ آبادی میں ایک بڑا طبقہ مسلم سیاست اور قیادت کے بغیر زیادہ آرام سے جی رہا ہے .

مسدلمانوں کی اکثریت مدرسوں سے باہر بھی ہے .بریلی اور دیو بند سے الگ بھی ہے .ایک بہت بڑی تعداد ایسے مسلمانوں کی ہے جو اہل حدیث ،بریلوی ، دیو بندی یا کسی بھی مسلک پر کویی بات نہیں کرتے .وہ روزگار کرتے ہیں .سرکاری دفاتر میں کام کرتے ہیں .انکی ساری توجہ اپنے کام پر رہتی ہے .کیریئر ،روزگار ،گھر کی خوش حالی ،مستقبل کو محفوظ بنانا انکا مشن ہے .اویسی سے ا عظم خان جیسوں پر گفتگو کرنا انکو وقت برباد کرنا لگتا ہے .اسی طرح وہ قیادت اور مسلک کے چکروں سے بھی دور رہتے ہیں .آپ مانیں مت مانیں ،لیکن ہندوستان کی مسلمان اکثریت اب بھی ان باتوں سے کوسوں دور ہے ،آپ جس بات کو مسلہ بنا کر طوفان اٹھا دیتے ہیں،اکثر وہ اس طوفان پر خاموش رہنا پسند کرتے ہیں .میڈیا ،سوشل میڈیا سے سیاسی منچ تک صرف پانچ فیصد مسلمانوں کی چیخیں سنایی دے رہی ہیں .یہ بے نیازی نہیں ہے . بے زاری کی فضا ہے .مسلم اکثریت اب منسلم قیادت سے پناہ مانگتی ہے .

اب سوال ہے ،مسلمانوں کے مسائل کیسے دور ہونگے ؟ جواب ہے ،اب تک کیا کیا مسائل حل کیے گئے ؟قیادت میں الجھ کر ہم عام خوش حال زندگی کی روایت سے بھٹک گئے .سوال ہے ،کانگریس نے کیا دیا ؟ جواب ہے کچھ نہیں دیا .سوال ہے ،کیا مسلمان پھر کانگریس کے خواب دیکھیںگے .آسان جواب ،نہیں دیکھنا چاہیے .کیونکہ مودی سے یوگی تک نے کانگریس کو ایسا انجکشن لگایا کہ کانگریس کی کوئی آواز کہیں ہے ہی نہیں .اب آخری سوال ..کیا آر ایس ایس مشن کے آگے مسلمانوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے ؟آسان جواب .کیا کانگریس بچا لے گی ؟ مسلم علماء یا سیاسی لیڈران مسلمانوں کو بچا لینگے ؟ جماعتیں ابھرتی ہیں تو طارق فتح علی ،انجنا اوم کشیپ ،سدھیر چودھری جیسے بازیگر بھی اچھلتے ہیں .زی میڈیا اور انڈیا tv کو بھی جوش آتا ہے .یہ سب پانچ فی صدی مسلمانوں کی وجہ سے ہوتا ہے اور پنچانویں فی صدی مسلمانوں کو نقصان پہچتا ہے .ہم گاندھی جی کے فیصلوں پر چلیں .خاموشی سے جییں .خاموشی سے اپنا کام کریں .ہندوستان کی ترقی کا حصّہ بنیں .انکی مخالفت کو ہوا نہ دیں .تحمل اورعدم تشدد کا یہ عمل آہستہ آھستہ رنگ لاے گا .چیخنا ،بولنا ،اختلاف کرنا بھی تشدد اور اکسانے بھرا عمل ہے .ہم اپنی ترجیحات بدل دیں تو نقشہ یقینی طور پر بدلے گا .

اب میرے بیان کی دلیل میں اس خبر کو غور سے پڑھئے .گوشت نہ ملنے سے کتے پاگل ہو رہے ہیں — یہ خبر آج کے اخبار میں شایع ہوئی ہے..کتوں کو کس نے اکسایا ؟ ہر عمل کا اسکے مساوی اور مخالف ایک رد عمل ہوتا ہے .سیاست مخالف سمت چلےگی تو رد عمل خود سے پیدا ہونگے .پھر کتے صرف پاگل نہیں ہونگے .بلکہ کاٹیںگے بھی .اسکے لئے آپکو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں .جذباتی سیاست اپنے گڈھے خود تلاش کر لیتی ہے .

میرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا ؟

.جنگیں زخمی کرتی ہیں .جنگوں کا خیال زخمی کرتا ہے .اور اس ماحول میں ،اس خوفناک فضا میں محبّت کی آہٹ بھی دور تک سنایی نہیں دیتی ..ادب تخلیق کرنے کا خیال اب کسی ڈراونے خواب کی طرح لگتا ہے ..جہاں موت ہر گام آپ کے پیچھے ہو ،جہاں آپکو دنیا کی نظر میں دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہو ،وہاں کتنی عجیب بات کہ اسی دہشت گرد پر مصیبت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں — کسی ملک میں اس دہشت گرد کو جلا وطنی کی سزا مل رہی ہے .کہیں یہ یہ دہشت گرد اپنوں پر بم باری کر رہا ہے ..اور کہیں مسلمان ہونے کی سزا اس طور مل رہی کہ اسکی ہستی کو مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے …یعنی ایک ہی وقت میں یہ دنیا مسلمانوں سے خوفزدہ بھی ہے اور مسلمانوں کو خوفزدہ بھی کر رہی ہے ..

امریکہ نے ،برطانیہ نے یہی تو کیا .صدام ہوں یا قذافی ،موت کا فتویٰ دینے کا حق ان ممالک کو نہیں تھا ،جنہون نے اسلحوں کے کاروبار سے دہشت گردی کا کھیل کھیلا .اسلامی ممالک کے چیتھڑے اڑا ے اور پھر آسانی سے جب یہاں خون کی ندیاں بہہ چکیں ،تو کہ دیا کہ غلطی ہو گیی ..یہ غلطی آگے بھی ہوتی رہے گی .یہ وقت گہرے سنّاٹے میں اداس آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھنے کا نہیں ہے .جہاں خاموش رہنا بھی جرم ہو اور جواب دینا بھی جرم میں شامل ہو ،وہاں درد بھری کوئی آواز نہ آسمان میں شگاف کر سکتی ہے ،نہ کسی کا حوصلہ بن سکتی ہے …ہم ہی نشانہ ہیں ..ٹارگٹ صرف ہم ..ہم ابھی بھی ظلم و جبر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بنے خود کو محفوظ تصور کر رہے ہیں …مذہب کی آسمانی کتابوں سے محبّت کا صفحہ غایب کر دیا گیا …

بے چین روح اس ماحول کی دہشت میں ادب کا فریضہ انجام نہیں دے سکتی …کچھ اور سوچنا ہوگ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔