لارنس ابھی زندہ ہے!

ممتاز میر

کرنل ٹی ای لارنس جنگ عظیم اول کے وقت ایک برطانوی جاسوس تھا۔ پھر اسے عربی مسلمان بننے کی تربیت دے کر خلیج عرب میں پلانٹ کیا گیا۔ جتنے خود غرض ،مفاد پرست اقتدار پرست آج کے عربی حکمراں ہیں اتنے ہی خود غرض ،مفاد پرست ،اقتدار پرست حکمراں عالم عرب میں آج سے سو سال پہلے بھی تھے۔ کرنل لارنس جو کہ اس وقت عربی مسلمان کا بھیس اختیار کر چکا تھا عربوں اور خصوصاً شریف مکہ اور اس کے بیٹوں کو ساتھ لے کرعربوں میں وطن پرستی، قوم پرستی پیدا کی۔ تقریباً اسی زمانے میں اس مرض کے تعلق سے علامہ اقبال نے  کہا تھا ۔

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اس نے عربوں کو قوم پرستی کا نشہ اتنا پلایا کہ وہ بد مست ہو گئے۔لارنس نے عربوں کو حجاز میں موجود ترکی کی اور اس کی فوجوں کے خلاف اتنا بھڑکایا کے نادان عربوں نے ترکی فوجوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا(کاش کے یہی کام وہ فی الوقت وہاں موجود امریکی فوجوں کے ساتھ بھی کریں ) عربوں کو ترکی کی خلافت عثمانی کے اثرسے نکالنے کے کارنامے کی بناپر کرنل ٹی ای لارنس کولارنس آف عربیہ کے نام سے جانا جاتا ہے دوسری طرف حجاز  میں ترکی کی فوجوں کے اس حشر کی بنا پر ترکی فوجی جرنیل مصطفیٰ کمال پاشا نے بغاوت کرکے خلیفہ کو معزول کردیا(کمال پاشا کے تعلق سے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی منافق تھا)بات صرف یہاں تک رہتی تو غنیمت تھا مگر کمال پاشا نے اسلام کو بھی ترکی سے معزول کرنے کی کوشش کی ۔اسی لئے علامہ اقبال نے اس وقت کہا تھا:

چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا

سادگی اپنی بھی دیکھ،اوروں کی عیاری بھی دیکھ

خلیج اور ترکی میں ان دو ایجنٹوں سے وہ کام لیا گیا جو یورپ کی متحدہ فوجیں بھی نہ دے سکتی تھیں ۔اور اس اتھل پتھل کا آخری نشانہ تھا  فلسطین میں مملکت اسرائیل کا قیام۔اب جن عربوں نے اسرائیل کے قیام میں تن من دھن سے حصہ لیا ہو وہ حماس یا اخوان جیسی ’’شریر‘‘طاقتوں کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔

  23 جون کو 4 خلیجی مملکتوں نے جس کے سربراہ محترم خادم الحرمین شریفین ہیں قطر جیسے ننھے منے ملک کو ’’راہ راست‘‘ پر لانے کے لئے 13 مطالبات کی ایک فہرست سونپی ہے اور مطالبات کو ماننے کے لئے 10 دن کا الٹی میٹم دیا ہے ورنہ۔۔فی الوقت معلوم نہیں کہ ورنہ کیا ۔۔

ہمارا اپنا خیال یہ کہ فی زمانہ تمام عرب ممالک چوسے ہوئے آم سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ان مطالبات کو پڑھ کر ایسا لگا کہ ’’لارنس آف عربیہ ‘‘نہ صرف یہ کہ زندہ ہے بلکہ حجاز کے حکمراں آج بھی کرنل ٹی ای لارنس کے زیر سایہ زندگی گزار رہے ہیں ۔علامہ اقبال نے کہا تھا:

آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرودہے

پھر کسی کوپھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟

مطالبات اور اس کے مندرجات پڑھ کر جو پہلا خیال دل میں آیا وہ یہی تھا کہ تاریخ پھر سو سال بعد اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔عالم عرب کے حکمراں سو سال بعد بھی بالکل بھی نہیں بدلے۔حیرت انگیز بات یہ کہ ترکی 100  سالوں میں پھر ’’خلافت ‘‘ کی طرف گامزن ہے اور اسی بات نے مسلمانوں کے دشمنوں کا دن کا چین اور رات کی  نیند اڑا دی ہے ۔پہلے کی طرح اب پھر خلیج میں یہ ساری قواعدExercise ترکی کو گھیرنے یا اس کی ناکہ بندی کے لئے ہے اور اس بار پھر خلیجی حکمرانوں کے کاندھوں کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ خلیج کے حکمراں اتنے بے وقوف کیوں ہوتے ہیں ؟یہ تواس عمر فاروقؓ کی اولاد ہیں جس سے شیطان بھی ڈرتا تھا ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خلیجی ممالک اپنی اپنی زمینوں سے امریکی فوجی اڈے ختم کرتے۔اور اس کی جگہ قطر کی طرح اپنے اپنے ملکوں میں ترکی کے فوجیوں کو خوش آمدید کہتے۔مگر۔اے بسا آرزو کہ خاک شدہمطالبات کی سب سے اہم(ہمارے نزدیک)شق ہی یہ ہے کہ قطر کی سرزمین سے ترکی فوجی اڈہ ختم کیا جائے۔ہم ذیل میں عربی حکمرانوں کے وہ 13 مطالبات مختصراًپیش کر رہے ہیں جو انھوں نے کویت کے ہاتھوں قطر کو بھجوائے ہیں ۔

(1) ایران کے ریولیوشنری گارڈس کااخراج مشترکہ دفاعی تعاون کا خاتمہ.

(2)اخوان المسلمون،حماس،داعش،القائدہ اور حزب اللہ سے تعاون کا خاتمہ.

(3)الجزیرہ نامی بین الاقوامی ٹی وی چینل کا خاتمہ.

(4)عربی 21،رسد، العربی الجدید،اور مڈل ایسٹ آئی جیسے نیوز آؤٹ لیٹسNews outlets کو مالی تعاون کی فراہمی بند کرنا.

(5) سرزمین قطر سے ترکی کے فوجی وجود کا خاتمہ.

(6)ایسے افراد یا گروہ.

یا تنظیمیں جنھیں ہم دہشت گرد کہہ دیں انھیں مالی تعاون کا خاتمہ.

(7)سعودی عرب بحرین مصراور عرب امارات کے مطلوبہ افراد کو ان کے حوالے کرنا.

(8)عرب مملکتوں کے مطلوبہ افراد کو قطری حقوق شہریت تفویض نہ کئے جائیں

(9)عرب ریاستوں کی اپوزیشن(وہاں اپوزیشن ہے کیا۔م م)سے کسی قسم کے تعلقات نہ رکھے جائیں

 (10)قطری پالیسیوں کی بنا پر شکایت کنندہ ریاستوں کو حالیہ برسوں میں جو جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں اس کا معاوضہ ادا کیا جائے

(11)معاوضہ کی ادائیگی کو پہلے سال ماہانہ مانیٹر کیا جائے گا دوسرے سال ہر سہ ماہی کو اور اس کے بعد ۱۰ سالوں تک  سالانہ نگاہ رکھی جائے گی (بشرطیکہ قطر ان کے ساتھ وہی رویہ اختیار کرے جو یہ اپنے آقاامریکہ کے ساتھ اختیار کرتے ہیں ۔م م)

(12)فوجی، سیاسی،سماجی اور معاشی اعتبار سے عرب ممالک ہی کا ساتھ اختیار کیا جائے(واضح رہے کہ اب امریکہ کا شمار بھی عرب ممالک میں ہونے لگا ہے۔م م)

(13) ان تمام شرائط کو  10دن کے اندر منظور کرنا لازمی ہے ورنہ یہ Invalidہوجائیں گے ۔۔۔اب یہاں اس لفظ سے کیا مراد ہے کم سے کم ہم تو سمجھ نہیں پائے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو چاہئے تھا کہ اپنے غلاموں کو ہدایت دیتے وقت وہ یہ بھی دیکھ لیتے کہ وہ دشمن کے سامنے کیا کیا اور کیسے کیسے مطالبات رکھ رہے ہیں ۔ان 13 مطالبات میں ایک مطالبہ تو بہت ہی عجیب بلکہ احمقانہ ہے جسمیں عرب ریاستوں کی حزب اختلاف سے  کسی طرح کے تعلقات نہ رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ویسے ٹرمپ جس طرح بر سر اقتدار آئے ہیں اور خود ان کا اپوزیشن کے ساتھ جو رویہ ہے شاید اسی سے تحریک پا کر ان کے یہ عربی چاکر ایسی جرا ء ت کر سکے ہیں ۔پھر پہلے مطالبے کو لیجئے ۔

اگر بعض عربی ریاستیں اسلام دشمنوں کے ساتھ فوجی مشقیں کر سکتی ہیں فوجی تعاون چاہ سکتی ہیں تو قطرکو اسلام دوستوں کے ساتھ وہی تعلقات رکھنے کی آزادی کیوں نہیں ؟کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کے مغائر نہیں ؟مگر ان کا آقا جو کہ انسانی حقوق کا دنیاکا سب سے بڑا ڈھنڈورچی ہے صر ف افراد کے انسانی حقوق کی بات کرتا ہے ریاستوں کے نہیں ۔ایران مسلک دشمن تو ہو سکتا ہے اسلام دشمن نہیں ۔خود سعودی عرب نے جو 34 رکنی (اب 41 ہو گئے ہیں )اسلامی فوجی اتحاد بنایا ہے اس میں قطر اور ترکی تو شامل ہیں ہی مگر ایران نہ سہی ایران کے ذیلی ممالک تو شامل ہیں ۔سعودی سربراہی نے اس41 ملکی اسلامی فوجی اتحاد کی تجہیز و تدفین کردی ہے ۔ممکن ہے کہ ٹرمپ کی تازہ مہربانی کی ایک وجہ یہ فوجی اتحاد بھی ہو۔

  گذشتہ ہفتے عشرے میں خلیج میں جو کچھ بھی ہوا ہے اس پر نظر ڈالنے سے یہ لگتا ہے کہ اب انا،خودداری عالم عرب میں اب صرف قطر جیسے ملک کے پاس ہی باقی ہے۔بڑے عرب ممالک اس پر جو ظلم ڈھا رہے ہیں وہ اس کو انگیز کر رہا ہے اور اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔

آج فلسطین جس صورتحال سے دوچار ہے اس میں سعودی حکمرنوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے (شاہ فیصل مرحوم کے استثناء کے ساتھ)ہونا  تو یہ چاہئے تھا کہ وہ سو سال پرانے اپنے پاپوں کا پرائشچت کرتے مگر ہو یہ رہا ہے وہ یہودی قبضے کوزیادہ سے زیادہ مستحکم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وجہ یہ ہے کہ جتنی جلدی فلسطین صفحہء ہستی سے مٹ جائے گااتنی جلدی کم سے کم دنیاوی اعتبار سے یہ اپنی ذمے داریوں سے سبکدو ش ہو جائیں گے۔دوسری طرف الجزیرہ ،جو کہ دنیا کہ واحد مسلم بین الاقوامی چینل ہے،اور ترکی ان کے آقا کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں ۔الجزیرہ دنیا میں ہر جگہ امریکی دادا گری کے آڑے آتا ہے اور رجب طیب اردگان ہمیشہ امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے ہیں ۔ان کی یہ بات امریکیوں کے لئے ناقابل برداشت نہیں ہے. ناقابل برداشت یہ ہے کہ اب ترکی کم و بیش ایک دہائی سے رجب طیب اردگان کے زیر سایہ اسرائیل کی سرپرستی سے باہر نکل چکا ہے. اردگان اسرائیلی مفادات پر ضرب لگانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بارایسا ہوا کہ اسرئیل کو معافی بھی مانگنی پڑی اور ماوی مرمرہ کے شہیدوں  کا معاوضہ بھی دینا پڑا اور اس کا غلام کچھ نہیں کرپایا۔یہی نہیں خود امریکہ سے،جو کہ ممالک سے اپنے مجرم حاصل کر لیتاہے کسی کی ہمت نہیں  کہ اپنا مجرم اس سے مانگ سکے. اردگان تقریباً ایک سال سے اپنا مجرم امریکہ سے مانگ رہے ہیں اور سارا امریکہ آئیں بائیں شائیں کر رہا ہے۔کیا اردگان کے ’’جرائم ‘‘اسرائیل اور اس کے غلام امریکہ کے نزدیک قابل معافی ہو سکتے ہیں ۔امریکہ کا یہودی چاکری میں یہ حال ہے کہ جب1947میں مصری پانیوں میں اسرائیل نے امریکی بحری جاسوسی جہازU.S.S Liberty کو ڈبویا تھا  توزندہ بچ گیا عملہ تو کہتا تھا کہ اسرائیل نے خوب جان بوجھ کر ہم پر حملہ کیا تھا مگر امریکہ کا صدر کہتا تھا کہ یہ حملہ غلطی سے ہوا۔

  مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ پدرم سلطان بود کے نشے میں غرق رہتے ہیں ۔بدلتے وقت پر ان کی نظر نہیں رہتی ۔خادم الحرمین شریفین کو چاہئے کہ وہ یہ سوچیں کہ وہ اس منصب کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔وہ مسلمان جو حالات کا شعور رکھتے ہیں وہ اب حرمین شریفین اور اس کے خادم کو الگ الگ دیکھنے لگے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ حرمین کی تولیت غلط ہاتھوں میں ہے ۔سعودی شہنشاہوں کا جو کردار سامنے آرہا ہے وہ اس منصب کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ٹھیک ہے کہ سعودی عرب کااربوں کھربوں ڈالر امریکہ میں اٹکا پڑا ہے یہ بھی درست کہ امریکی قانون جاسٹا اسی سعودی پیسے کو ہڑپنے کے لئے وجود میں لایاگیا ہے۔بہت صحیح کہ اسی مال کی بنیاد پر امریکی سعودیوں کو بلیک میل کرکے ایسے کالے کام لے رہے ہیں مگر یہ صحیح نہیں ہے کہ اس طرح بلیک میل ہو کر ،اپنی انا ،خودداری اور وقار کو طاق پر رکھ کر  امریکہ سے اپنے پیسے واپس حاصل کئے جا سکیں گے۔برسوں پہلے محترم عالم نقوی نے لکھا تھا کہ امریکی معیشیت تین ممالک چین جاپان اور سعودی عرب کے پیسوں پر چل رہی ہے ۔ان میں سے صرف چین میں اتنی طاقت ہے وہ اپنا پیسا وصول کر لے گا ۔باقی ممالک اپنا پیسہ ڈوبا ہوا سمجھیں ۔

ہم محترم کے تجزئے سے صد فی صد اتفاق رکھتے ہیں سعودی کے لئے بہتر یہ ہے کہ جو ہو چکا اس پر مٹی ڈالے اور مطالبات کی جو فہرست قطر کو سونپی گئی ہے اس سے واپس لے کر امریکہ کو سونپ دے اربوں کھربوں ڈالر کے اسلحے کے سودے جو امریکہ کو دئے جا رہے ہیں ترکی اور چین کو دئے جائیں ۔خبروں کے مطابق ترکی بڑی تیزی اور بڑے عزم کے ساتھ اسلحہ سازی مین خود کفالت کی جانب بڑھ رہا ہے اس سلسلے میں وہ ہر سال 40 فی صد تک بجٹ میں اضافہ کر رہا ہے ۔اگر عربوں کے اربوں کھربوں ڈالر اسے ملنے لگے تو کتنا  اچھا ہوگا۔۔۔مگر اتنی ہمت کرے گا کون؟ہمیں تو موت سے بہت ڈر لگتا ہے۔خدا تو جب مارے گا تب مارے گا۔امریکہ تو ابھی ماردے گا ۔

تبصرے بند ہیں۔