لاقانونیت کے دور میں ’یوم قانون‘ کا انعقاد!

 ڈاکٹرسیّد احمد قادری

26 ؍ نومبر کا دن آیا اور گزر گیا۔ یہ دن ہمارے ملک بھارت کے لئے اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اسی روز  یعنی 26 نومبر1949 ء کو ہمارے ملک  بھارت کا آئین ڈاکٹربھیم راؤ امبیڈکر کی سربراہی میں ، دو سال،اگیارہ ماہ اور اٹھارہ دن میں مکمل کر  ایوان میں پیش کیا گیا تھا۔ جسے 26 جنوری 1950ء سے پورے ملک کے لئے نافذ کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی سربراہی میں آئین سازی کے لئے تشکیل دی گئی اس ڈرافٹنگ کمیٹی کی کُل 166 دن کی میٹنگیں  منعقدہوئی تھیں اور ان تمام میٹنگوں کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پریس اور عوام کو بھی شامل ہونے کی اجازت تھی۔ 15 اگست1947 ء کو ملک کے آزاد ہونے کے بعد ڈاکٹر امبیڈکر کی سربراہی میں آئین تیار کرنے والی اس ڈرافٹنگ کمیٹی میں جواہر لعل نہرو، راجندر پرساد، مولانا ابولااکلام آزاد، سردار پٹیل، بھیم راؤ امبیدکر،شیاما پرشاد مکھرجی،سمیت ملک کے ہر صوبہ کی نمائندہ شخصیات پر مبنی کمیٹی کی تشکیل دی گئی تھی۔ 26جنوری 1950 ء سے نافذ ہونے والی ملک کے آئین کا اہم مقصد جو بہت ہی واضح طور سامنے تھا کہ کسی بھی بااثر شخص،  کے ذریعہ کسی بھی کمزور انسان کا براہ راست یا بالواسطہ استحصال نہ کیا جائے۔ اسی آئین یا قانون کے تحت ملک کے عدلیہ اپنے فیصلے بھی سناتی ہے۔ مرکزی حکومت اور تمام ریاستوں کے وزرأ بھی حکومت چلانے کے لئے اسی آئین کو سامنے رکھ کر حلف برداری کرتے ہیں ۔

 یہ تمام باتیں ایسی ہیں ، جن سے ملک کا ہر شہری بخوبی واقف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 26 جنوری1950 ء سے’ یوم جمہوریہ‘ منانے کی جو ابتدأ ہوئی، اسے ہر سال اسی دن بڑے تزک و احتشام کے ساتھ  پورے ملک کے ہر اسکول، کالج، یونیورسیٹیوں ، دفاتر وغیرہ میں منایا جاتا ہے۔اس لئے لوگ اپنے ملک کے آئین (قانون) اور ملک میں نافذ جمہوری نظام سے بخوبی واقف ہیں ۔

یوں تو یوم آئین یا یوم قانون، دنیا کے مختلف مما لک میں اس کے احترام  اور اعتراف کے طور پر سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن عام طور پر جس دن آئین کو منظور کیا گیا یا جس دن سے نافذا لعمل ہوا، اسی دن کو ہی منایا جاتا ہے۔یہی وجہ رہی کہ ہمارے ملک میں بھی ہر سال 26 جنوری کویوم جمہوریہ کاا نعقاد کیا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ 2015 ء میں اچانک موجودہ نریندر مودی کی حکومت نے یہ فیصلہ لیا کہ بابا بھیم راؤ امبیڈکر کی 125 ویں یوم پیدائش کے باعث اب ہر سال    26 ؍ نومبر کو یعنی جس دن ڈاکٹر امبیدکر نے ملک  کاآئین مکمل کر ایوان میں پیش کیا تھا اور جسے منظور کیا گیا تھا،  اس دن یوم آئین یا یوم قانون کا انعقاد کیا جائیگا۔ اس فیصلے پرپارلیمنٹ میں یہ سوال اٹھا تھا کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے، جبکہ ہم ہر سال 26 جنوری کو اپنے آئین اور قوانین کی عظمت کا اعتراف ’یوم جمہوریہ ‘ کے طور پرکرتے ہی ہیں ۔ حزب اختلاف کے رہنمأ غلام نبی آزاد نے یہ سوال زور و شور سے اٹھایا تھا اور اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کیا  تھا کہ ملک کے آئین پر باتیں ہو رہی ہیں ، لیکن دانستہ طور پر ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا ایک بار بھی نام نہیں لیا گیا۔ غلام نبی آزاد کے اس سوال کے پیچھے مودی حکومت کی منشأ پوری طرح واضح  تھیں ۔ لیکن اس معاملے کو سیاسی طور پر زیادہ طول نہیں دیا گیا، اور اس طرح ملک میں ’’ قومی یوم آئین یا قانون‘‘ وجود میں آیا۔

اب جب کہ آج کے دن یوم قانون کا فیصلہ ہو ہی چکا ہے، تو اب بہت اچھا موقع ہے کہ آج کے دن اس بات کا محاسبہ ہو نا چاہئے کہ عوام اور حکومت کاملک کے آئین کے تئیں کس قدراحترام ہے۔ ؟ آئین کی پامالی تو نہیں ہو رہی ہے۔؟آئیے ہم اس پہلو پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ ویسے حکومت، عوام اور آئین کے سلسلے میں گزشتہ روز پٹنہ میں پٹنہ ہائی کورٹ کے سینئرجج احسن امان اللہ نے ’’یوم آئین‘‘ کے موقع پر اپنی تقریرمیں چند بہت اہم باتیں بتائیں کہ قانون کی حکمرانی میں عوام کے مفادات کو فوقیت حاصل ہے اور اسے حکومتوں کے ذریعہ ہمیشہ پہلی ترجیح دی جانی چاہئے۔ عوام کے مفادات کسی بھی حال میں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے، کیونکہ جمہوریت کا یہی تقاضہ ہے۔جمہوریت میں قانون کی بالا دستی ہر حال میں اور ہر سطح پر برقرار رہنا ضروری ہے۔جسٹس احسن امان اللہ نے یہ بھی بتایا کہ آئین اور قانون کے ذریعہ حکومت چلانے کا عہد کیا جاتا ہے اور اس پر کاربند رہنا حکومت کی پہلی ذمہّ داری ہوتی ہے۔قانون کے ذریعہ چلنے والی حکومت ہی جمہوریت کی روح ہوتی ہے۔

جسٹس احسن امان اللہ نے عدلیہ کی ذمہّ داریوں پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ عدلیہ کی بھی بہت بڑی ذمہّ داری ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی قائم کرنے اور اس نظام کو چلانے میں اپنی سطح سے ہر ممکن کوشش کرے۔ اب اس سیاق و سباق میں ہم عدلیہ کی ذمہّ داریوں یا قانون کے محافظ کی بات کریں تو ہم دیکھینگے کہ جب کوئی عدالت، حکومت کے کسی فیصلے کے خلاف حکم صادر کرتی ہے، تو ایسے میں حکومت کے ذمہّ دار عدلیہ کی بھی تنقید کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ایسی بہت ساری مثالوں سے سردست توجہ مبذول کرانے کی بجائے ہم ان دنوں بہت ہنگامہ خیز اور موضوع بحث سہراب الدین اور عشرت جہاں انکاونٹر معاملہ پر ایک نظر ڈالیں ، تو  ہم پاتے ہیں کہ کس طرح اس قتل کے معاملے میں چارشیٹید امت شاہ کو بار بار عدالت میں حاضر ہونے کے لئے کہا جاتا ہے، لیکن وہ  عدالت میں حاضر نہیں ہوتے ہیں اور سپریم کورٹ کے حکم پراس معاملے کی سنوائی کر رہے سی بی آئی کے  جسٹس اُٹپل، جب شاہ کو عدالت میں حاضر ہونے کا آخری موقع کی تاریخ 26 جون20014ء طئے کرتے ہیں ، تو اچانک ان کا تبادلہ 25جون کو کر دیا جاتا ہے، جبکہ سپریم کورٹ کا یہ حکم تھا کہ سہراب الدین فرضی مڈبھیڑ معاملے کی پوری سنوائی سی بی آئی کے ایک ہی جج کرینگے، اس کے باوجود اس جج کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد شاہ اور دیگر بہت سارے پولیس والوں کے خلاف چل رہے اس معاملے کو سننے کے لئے جسٹس برج گوپال لویا کو بحال کیا جاتا ہے، جنھوں نے شاہ کو بار بار عدالت میں حاضر ہونے کے حکم دئے جانے کے باوجود حاضر نہیں ہونے پر سخت تعجب  اور اپنی خفگی کا  اظہار کرتے ہوئے انھوں نے بھی شاہ کو عدالت میں پیش ہونے کی تاریخ طئے کی۔ لیکن اس تاریخ سے قبل ہی ان کی پراسرار  طور پر موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس موت پر اُن دنوں ان کے اہل خاندان نے چپی سادھ لی تھی، لیکن اب اچانک ان کی بہن انورادھا نے اس پراسرار موت پر اتنے سوال کھڑے کر دئے ہیں کہ دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال، ارون شوری کو یہ کہنا پڑا کہ اس متنازعہ معاملے میں مجرم کوئی بھی ہو، جانچ بہت ضروری ہے۔

اسی طرح ایک دوسرے پہلوپر بھی نظر ڈال لیں ۔ بہت دور نہ جا کر ان دنوں موضوع بحث معاملے کو ہی دیکھتے ہیں ، مثلاََ، سپریم کورٹ کا ایک معاملہ بہت ہی افسوسناک ہے کہ اس سال کے ستمبر ماہ کے وسط میں سی بی آئی نے بدعنوانی کے معاملے میں اڑیسہ ہائی کورٹ کے ایک سابق جج سمیت پانچ لوگوں کو گرفتار کیا۔ اس معاملے میں بتایا گیا کہ آئی ایم قدسی پر وشوناتھ اگروال کی مدد سے سپریم کورٹ سے 46 میڈیکل کالجوں میں نامزدگی کی سازش کا الزام ہے۔ میں جسٹس احسن الدین امان اللہ کی اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہ عدلیہ کی بھی یہ بہت بڑی ذمّہ داری ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی قائم کرنے اور اس نظام کو چلانے میں اپنی سطح سے ہر ممکن کوشش کرے۔ اب ایسے میں عصری منظر نامہ پر نظر ڈالتے ہیں ، تو تعجب سے زیادہ افسوس ہوتا ہے، جب اس نظام سے وابستہ اور قانون کے محافظ اپنے منصب کو مجروح کرتے نظر آتے ہیں ۔ بہت زیادہ موضوع بحث رہنے والے ایک معاملے کی جانب میں توجہ دلانا چاہونگا کہ جب چیف جسٹس پی سدا شیوم نے عدلیہ سے سبکدوشی کے بعد کیرالا کے گورنر کا عہدہ قبول کرنے میں ذرا بھی ہچک نہیں محسوس کی۔ حد تو تب ہوئی جب گورنر رہتے ہوئے جسٹس شیوم 2015 ء کے فروری ماہ میں دہلی کا سفر، بی جے پی کے قدآور قومی صدر امت شاہ کے بیٹے کی شادی کے ریسپشن میں شامل ہونے کے لئے کیا تھا۔ اب اس ضمن میں جتنے منھ، اتنی باتیں سامنے آئیں ۔ اس سلسلے میں ، بہت سارے مقدموں کے ہونے والے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا گیا۔

   حکومت، عدلیہ اور عوام کے رشتے پر ’ قومی یوم قانون‘ کے سلسلے میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس  کے افتتاحی اجلاس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا  بڑی اچھی بات کہی کہ آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا عدلیہ کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ جسٹس مشرا نے یہ بھی کہا کہ شہریوں کو آئین کے ذریعہ بنیادی حقوق دئے گئے ہیں اور حکومت سے اس کی تجاوز کرنے کی توقع قطعی نہیں کی جاتی ہے۔ لیکن اگر ان حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، یا اس تھوڑا سا بھی خدشہ ہوتا ہے تو اس کی حفاظت کرنا عدلیہ کا فرض ہے۔ جسٹس مشرا کی یہ بات ہمارے وزیر قانون روی شنکر کو نا گوار  لگی اور انھوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کو حکومت کے کام کاج میں دخل دینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ وزیر قانون اس سے قبل بھی عدلیہ پر اپنی خفگی کا اظہار کر چکے ہیں اور عدلیہ کے بعض فیصلوں پر یہاں تک کہا کہ عدلیہ اپنے کو حکومت تصور نہیں کرے۔

   ملک کے آئین اور ملک میں قائم جمہوریت کی کس قدر، اہمیت، عظمت اور افادیت کا احساس ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کو ہے، اس کا اندازہ گزشتہ دنوں اپنے پارٹی دفتر میں  صحافیوں کے ساتھ منعقد  ہونے والے جشن دیوالی ملن میں ہوا۔ جب انھوں نے اس موقع پر کہا  تھاکہ ملک کے مستقبل اور جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت، تنظیمی نظام، انتخابی نظام اور پارٹی قیادت وغیرہ کو مضبوط ہونا چاہئے۔ دیکھا جائے تو ہمارے وزیر اعظم نے واقعی کتنی اچھی باتیں کی ہے، اگر ایسا عملی طور پر ہو، تو ہمارا ملک یقینی طور پر ان جمہوری ممالک میں جہاں آئین کو اعتبار کا درجہ حاصل ہے، وہاں کے لئے ایک مثالی ملک بن سکتا ہے۔ لیکن بہت ہی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم گفتار کے غازی تو بن جاتے ہیں ، کردار کے غازی بن نہیں پاتے۔ اب یہی دیکھئے کہ ہمارے وزیر اعظم نے انتخابی نظام کو مضبوط بنانے کی بات کی۔ لیکن اس کے ٹھیک برعکس اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں جس طرح ای وی ایم سے ٹمپرنگ کی افواہیں سامنے آئیں ، اس نے یہاں کے انتخاب پر سوالیہ نشان لگا یا تھا۔ لیکن ابھی ابھی اتر پردیش کے مختلف علاقوں کے بلدیاتی انتخاب میں جس طرح کھلم کھلا ای وی ایم کو اپنے مواقف بنانے کی صداقت سامنے آئی، اور جب لوگوں نے اس طرح کے انتخابی انتظام پر شور و غل مچایا، تو ایسے شور مچانے والے مرد اور خواتین کو پولیس نے بڑی بے رحمی سے پٹائی کی۔ کیا یہی انسانی حقوق کا تحفظ ہے؟ کیا یہی جمہوری نظام ہے ؟ یہ تو سرا سر جمہوریت کی، آئین کی،انسانی اقدار کی اور ملک میں نافذ قوانین کی بدحالی اور پامالی  کے ثبوت ہیں ، لا قانونیت ہے اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان بدحالیوں اور پامالیوں کے ذمّہ دار وہ لوگ ہیں ، جو آئین کے اور قوانین کے محافظ ہیں ۔

     اب جب کہ جس دن یعنی 26  نومبر 1949 ء کو بھارت کے آئین کو منظوری دی گئی تھی،  اور اس دن کو ’یوم قانون ‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ اس لئے اس دن کو یوم قانون کے طور پر یاد کرتے ہوئے، ملک کے آئین اور اس کے معمار ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی عظمت کا اعتراف کیا جانا لازمی ہے۔ لیکن ملک جس سنگین اور مشکل بھرے حالات سے گزر رہا ہے  اور ہر جانب سے نہ صرف غم و غصّہ کا اظہار ہو رہا ہے بلکہ سخت مذّمت  کابھی سلسلہ جا رہی ہے۔ معروف صحافی کلدیپ نیّر نے  ملک میں بڑھتی عدم رواداری اور عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پارٹی کے اندر ایسے لوگوں پر کاروائی کریں ، جو بد امنی اور منافرت پھیلا کر ملک کا نقصان کر رہے ہیں ۔ جسٹس سچر نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرقہ پرستی ملک کے لئے ناسور ہے، جو ہندوستان کو تباہ و برباد کر دے گی۔ خود بی جے پی کے کئی اہم لیڈران یشونت سنہا، ارون شوری، شتروگھن سنہا، اور کرتی آزاد وغیرہ نے جیسے جیسے سوالات حکومت  کے سامنے رکھے ہیں ، ان سوالات نے تو حکومت کی بولتی ہی بند کر دی ہے۔ کانگریس یا دیگر پارٹیوں کے لوگ جس طرح حکومت کو ہر سطح  پر ناکام ثابت کر رہے ہیں ، ان لوگوں کی باتوں کو حزب مخالف پارٹی کے الزامات کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے، لیکن جب خود پارٹی کے اندر بہت زیادہ بے چینی پائی جا رہی ہو، تب ایسے معاملے میں پارٹی کے ذمّہ داران کی خاموشی  سے بہت سارے سوالات کا اٹھنا لازمی ہے۔ ایسے حالات میں ملک کے آئین ساز ڈاکٹر امبیڈکر کی 125 ویں سالگرہ تقریب کے تعلق سے برسر اقتدار لوگ جس طرح آئین کے اصول و ضابطہ کی باتیں کر رہے ہیں ، وہ بڑا مضحکہ خیز محسوس ہو رہا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل پارلیمنٹ کے اندر حزب مخالف کی لیڈر سونیا گاندھی نے بھی حکومت پر زبردست حملہ کرتے ہوئے اور انھیں آئینہ دکھاتے ہوئے  تھاکہ’ آئین کو نہیں ماننے والے ہی اس کا پرچم بلند کر رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں میں جو کچھ دیکھا گیا ہے وہ پوری طرح ان قدروں کے خلاف ہے، جنھیں آئین میں یقینی بنایا گیا ہے ‘۔

    ہمارے وزیراعظم نریندر مودی ایک طرف تو وہ اپنے ملک میں مسلسل آئین اور جمہوری اقدار کی پامالی پر خاموشی اختیار کئے رہتے ہیں ، دوسری طرف جب وہ بیرون ملک  جاتے ہیں اور ان سے ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی، مذہبی جنون،بد امنی اور منافرت کے سلسلے میں سوالات  پوچھے جاتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے، جو اپنے آئین کے تحت چلتا ہے اور عام سے عام شہریوں کے نظریہ کی حفاظت کے لئے ہم پابند عہد ہیں ۔ لیکن اپنے ملک میں پہنچتے ہی وہ ان تمام باتوں کو فراموش کر جاتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے لوگ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف کس طرح آگ اُگل رہے ہیں ۔  ابھی ابھی پروین توگڑیا نے جس طرح ملک کے مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں یہاں کے مسلمانوں کو متنبہ کرتاہوں کہ وہ اگر گجرات بھول گئے ہیں ، تو انھیں اعظم گڑھ ضرور یاد ہ رہنا چاہئے۔ بات بات پر مسلمانوں کی حُب الوطنی پر سوالیہ نشان لگائے جا رہے ہیں ۔ سیکولر نظریات کے حامی کلبرگی، پنسارے، دابھولکر، گوری لنکیش وغیرہ کو تڑپا تڑپا کر قتل کیا جا رہا ہے۔ ایسے مظالم کی حکومت میں بیٹھے ذمّہ دار لوگ مذمّت تک کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے، جس کے باعث ان مجرمین کے حوصلے بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ ایسے سنگین اور ناگفتہ بہ حالات کی مذّمت نہیں کرنے والے،  یہ وہ لوگ ہیں جو پارلیامنٹ میں داخل ہوتے ہی ملک کے جمہوری اور آئینی اصولوں کے پابند رہنے کا عہد کرتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں ۔ دستور ہند کے ایک بابiv (اے) کے شق 4 میں بہت صاف طور پر لکھا ہے کہ ’’ ہندوستان کے سبھی لوگوں میں ہم آہنگی اور عام بھائی چارگی کے جزبے کو تقویت بخشے، جو مذہب، زبان اور خطہ یا طبقہ پر تمام اختلاف سے پرے ہو ‘‘۔ لیکن ہو رہا ہے ٹھیک اس کے برعکس۔ آئین کے دستور  10میں یہ بھی بہت واضح ہے کہ ’’ آزادی کے لئے ہمارے قومی جد و جہد کو متحرک کرنے والے اعلیٰ قدر اصولوں کو دل میں بسائے رکھے اور ان کی پیروی کرے‘‘ اور ہو یہ رہا ہے کہ ملک کے مجاہدین آزادی کے، ان کے مذاہب کی بنیاد پران کی جانثاری کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ان کی حب الوطنی کی تاریخ کو مسخ کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہو رہی ہیں ۔   نامور مجاہد آزادی اور اپنے ملک کی خاطر  انگریزوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ٹیپو سلطان  کے سلسلے میں  بھی تاریخی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے انھیں غدار وطن تک کہا جا رہا ہے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایسی ہی صورت حال کے پیش نظر ایک بار کہا تھا کہ ’’ ہم کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے، ہم سب مادر وطن کے فرزند ہیں ۔ ہم عملاََ اور قولاََ تنگ دلی اور مذہبی جنون کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے ہیں ‘‘۔

     ملک کے ویسے لوگ جو ملک کی مسموم فضا سے گھبرا کر اور ناقابل برداشت حالات سے پریشان ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ملک میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے، انھیں ہمارے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، ڈاکٹر امبیڈکر کا حوالہ دیتے ہوئے بتا تے ہیں کہ ڈاکٹر امبیڈکر کے ساتھ بھی اس ملک میں بہت کچھ ہوا، انھوں نے عدم رواداری  کا سامنا کیا، لیکن اپنے ملک کو نہیں  چھوڑ ا۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے بھی اپنے ملک میں زندگی بھر جھیلا، انھیں نظر انداز کیا جاتا رہا، لیکن ان کے اندر کبھی بدلے کے جذبات نہیں ابھرے، سارے زہر خود پی لئے اور ہمارے لئے امرت چھوڑ دیا۔ ان باتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے وزیر داخلہ اور وزیر اعظم یہ بھی بتاتے کہ انھیں دکھ کس نے دیا اور ان کا استحصال کن لوگوں نے کیا تھا اور ان دئے گئے دکھ

 اور استحصال کے نتیجہ میں وہ اپنا مذہب بھی بدل نے پر مجبور ہوئے تھے۔ ایسا کیوں ہوا  تھا۔؟ ڈاکٹر امبیڈکر کی  یہ بات یہ لوگ کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ انھوں نے کہا تھا کہ میں ہندو مذہب میں پیدا ہوا ضرور، لیکن مرونگانہیں ۔ امبیڈکر کے ساتھ برا اور نازیبا سلوک کرنے والے کون لوگ تھے۔ ؟ یہ وہی لوگ تھے، جس نظرئے کے حامی آج مُنھ میں آگ اور ہاتھوں میں خنجر لئے جگہ جگہ انسانی اقدار اور آئینی تقدس کا پامال کرتے پھر رہے ہیں ۔ لکھنے، بولنے، کھانے، پینے پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں ۔ مذہبی آزادی، رواداری یکجہتی، مساوات، اخوت اور سا   لمیت کو تار تار کر رہے ہیں ۔ دراصل ہوا یہ کہ عہد حاضر میں ملک کی باگ ڈور اور اقتدارایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی ہے، جنھوں نے  ناقص اور نفرت انگیز نظریہ سے اُوپر اٹھ کر ملک کی سا  لمیت اور ترقی کے لئے کبھی فکر کی ہی نہیں ۔ بس اپنے نظریہ کو فرغ دینے میں مصروف رہے۔ ایسے ہی نظریہ کے حامیوں کے سلسلے میں ہمارے پہلے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجند پرساد نے کہا تھا کہ ’’  اگر قانون سازی کے لئے منتخب کئے جانے والے عوامی نمائندے صاحب کردار اور دیانتدار ہیں توایک ناقص آئین کے باوجود بہتر فیصلے لے سکتے ہیں ، اگر ایسا نہ ہو تو آئین ملک کی کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘‘  اور اس وقت ہمارے سامنے یہی منظر نامہ ہے۔

  ہمارے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کوآئین میں 1976  ء میں 42 ویں ترمیم کے ذریعہ ’’سیکولر‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ جیسے الفاظ کا شامل کیا جانا  بھی کافی بوجھ محسوس ہو رہا ہے اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان  الفاظ کا سیاست میں غلط استعمال ہو رہا ہے کیونکہ اس سے سماجی ہم آہنگی برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے اس بیان سے حزب مخالف نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ دراصل راج ناتھ سنگھ لفظ ’’سیکولر‘‘  کے معنیٰ سے زیادہ اس لفظ کے جو جزبات اور روح ہیں ، ان سے بہت پریشان ہیں ۔ اگر ’’ سیکولر‘‘ اور’’ سوشلسٹ‘‘جیسے الفاظ بے معنیٰ، بے مطلب اور بے وقعت ہوتے، تو اوّل تو انھیں 1976 میں آئین میں شامل نہیں کیا جاتا، اور اگرشامل ہو ہی گیا تھا تو پھر 1977 میں جنتا پارٹی کی جو مرارجی دیسائی کی سربراہی میں حکومت برسراقتدار آئی تھی، جس میں اٹل بہاری باجپئی اور لال کرشن اڈوانی  جیسے دور اندیش اور ان ہی کے نظریہ کے حامی رہنمأ بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے ان دونوں الفاظ کو آئین سے کیوں نہیں حذف کرا دیا تھا۔ در حقیقت ہمارے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی پریشانی یہ ہے کہ ان کی نظروں کے سامنے کھلم کھلا لفظ ’’سیکولر‘‘ کو معنوی اور جزباتی دونوں لحاظ سے لہو لہان کیا جا رہا ہے، لیکن یہ کچھ کر نہیں پا رہے ہیں ۔ آر ایس ایس کی سخت گیری سے خوف زدہ اور مجبور ہیں ۔ کریں تو کیا کریں ۔ ملک اور بیرون ملک میں بدنامی تو

 انھیں کی ہو رہی ہے۔

 ان تمام حالات کے مد نظر یہی کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی مفادات  اور ووٹ کی سیاست کے لئے یوم جمہوریہ کے ساتھ ساتھ یوم آئین کے منانے سے آئین کا تقدس اور اہمیت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اگر واقئی اس کی عظمت اور تقدس کے خواہش مند ہیں تو عوام کے حقوق کا تحفظ، انسانی اقدار اور اس  کی سا  لمیت کے تحفظ  پر توجہ دیں ، تبھی آئین کے تقدسی چشمے کے نکلنے کے آثار رونما ہونگے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔