لاکہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

 ماضی انسان کی شخصیت کو سنوارنے میں بہت اہم کردار اداکرتی ہے، یہ دو طرح کی ہوتی ہے، ایک روشن اورتابناک، دوسری اندھیر اورتاریک، روشن اورتابناک ماضی انسان کے عزم کوجواں، اس کے حوصلہ کو بلند اور اس کی ہمت کو تازہ دم رکھتی ہے، جب کہ تاریک ماضی انسان کو یہ باور کراتی رہتی ہے کہ تمہارے نقوشِ رفتگاں شب ِدیجور کی طرح تاریک ہیں، تم اپنے اندر وہ صلاحیت پیداکرو، جو اس تاریکی کوروشنی سے بدل دے اور اُس اندھیارے کو ختم کردے، جس کی وجہ سے آج تک تمہیں دیوار ٹٹول ٹٹول کر چلناپڑرہاہے۔

خدا کافضل ہے کہ ہمارا ماضی تاریک نہیں رہاہے؛ بل کہ ایساروشن رہاہے، جس کی روشنی سے صحرائے ظلمت میں راہ گم کردہ سینکڑوں لوگ منزلِ مقصود تک پہنچے، شرک وبت پرستی کی تاریک گلیاروں میں ہزاروں ٹھوکر کھانے والوں کو سیدھا راستہ ملا، ہمارا ماضی ایسا درخشاں ہے، جس کے ہرہرجزء سے ہم روشنی حاصل کرسکتے ہیں، جس کے ایک  چھوٹے سے شرارہ سے ہم سینکڑوں چراغ جلاسکتے ہیں ؛ بل کہ اس کی راکھ میں دبی ہوئی جلتی بجھتی ایک حقیر چنگاری سے بھی پورے عالم کو روشنی عطاکرسکتے ہیں، ہمارے ماضی کی تابناکی دنیا کی کسی بھی قوم، کس بھی مذہب، کسی بھی ملت، کسی بھی دین اور کسی بھی ملک کو میسر نہیں، یہ ہماری بخت آوری کی بات ہے، یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے۔

لیکن ہمارے ماضی کی یہ درخشانی یوں ہی حاصل نہیں ہوگئی ہے؛ بل کہ اس کے لئے قربانیاں پیش گئی ہیں، اس کے حصول کے لئے دادِشجاعت دی گئی ہے، بہادری کے جوہر دکھائے گئے ہیں، جوانمردی کاثبوت دیاگیاہے، پامردی کامظاہرہ کیاگیاہے، دلیرانہ کارنامے انجام دئے گئے ہیں، بے جگری اور بے خوفی کی ایسی نظیریں پیش کی گئی ہیں کہ دنیاان کے سامنے حیران ہے، ہمارے ماضی کو تابناک بنانے والے ہمارے وہ اسلاف تھے، جس کا مقابلہ ہاتھیوں کے غول سے ہواتوان کے سونڈکاٹ کر ان کا رخ خود ان کے اپنے مالکین کی طرف پھیردیا، دشمن کے قلب پر حملہ کی ضرورت ہوئی توخشکی پر کشتیوں کوچلاڈالا، سمندر کی طغیانی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس میں گھوڑے دوڑادئے، دشمن کے ملک میں جاکر اپنی کشتیوں کو اس لئے نذرِآتش کردیاکہ بھاگ جانے کاخیال تک دل میں نہ آنے پائے، ان کاسامنا جب اپنے سے تین گنا لشکر کے ساتھ ہواتو بھی ان کے پائے ثبات پر لغزش نہیں آئی، ایران کے ریشمی قالین ان کے دلوں پر رعب ڈال سکی نہ ان کے قیمتی موتیوں او رہیرے جوہرات سے مرصع دربار انھیں متأثر کرسکا۔

 یہ تمام کارنامے صرف اس وجہ سے وہ انجام دے سکے کہ ان کے دلوں میں ایمان پیوست تھا، یہی ان کا اوڑھنااوریہی ان کا بجھونا تھا، اسی کے لئے وہ مرتے اور اسی کے لئے وہ جیتے تھے، بقیہ تمام چیزوں کی حقیقت ان کی نگاہوں کے سامنے ایک تنکے سے بھی کم تھی، یہی وجہ تھی کہ نہ کسی سے خوف کھاتے تھے اور نہ ہی کسی کارعب ان پرطاری ہوتاتھا، بس ایک مالک الملک تھا، جس کا خوف، جس کاڈر، جس کادبدبہ اور جس کی ہیبت ان کے دلوں پر قائم رہتی تھی، اس ایک کے خوف کا نتیجہ تھاکہ دنیا کے بڑے سے بڑے اورطاقتورترین سے بھی خوف زدہ نہیں ہوتے تھے۔

آج خریطہ ٔعالم پر نظر دوڑایئے، ماضی کے مقابلہ میں ہماری تعداد کئی گنا زیادہ ہے؛ لیکن پھر بھی ہم ہی ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، ستم کا نشانہ ہم ہی بنے ہوئے ہیں، ملامت کے تیر ہم پر ہی برس رہے ہیں، طعن کا وار ہم ہی پر کیا جارہاہے، ہم باطل طاقتوں کے لئے تختۂ مشق بن چکے ہیں، ان کے ہاتھ جب زنگ آلود ہونے لگتے ہیں توہمیں نشانہ بناکروہ صیقل کرلیتے ہیں، ہم ان کے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ ہیں، جب کوئی نیا اسلحہ وہ تیار کرلیتے ہیں توسب سے پہلے ہم پر آزماتے ہیں، پھر دنیا کے سامنے نمائش کے لئے پیش کرتے ہیں، افغانستان کی پہاڑیوں سے پوچھئے، کتنے نئے ہتھیاوں کی وہ تجربہ گاہ رہ چکی ہیں ؟ سرزمینِ فلسطین سے پوچھئے، کتنے جدید اسلحوں کی وہ امتحان گاہ رہ چکا ہے؟ چیچنیااور بوسینیاسے پوچھئے، کتنے تازہ آلاتِ جنگ کی وہ آزمائش گاہ رہ چکے ہیں ؟لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیاکے اس کنارے سے لے کر اُس کنارے تک ہدفِ جور ہم ہی کیوں بنے ہوئے ہیں ؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ہم نے اس جراء ت کو کھودیا ہے، جس نے روم وایران کے ایوانوں میں زلزلہ برپاکردیاتھا، ہم نے اس شجاعت کو گنوادیاہے، جس نے بد مست ہاتھیوں کے حملہ کا مقابلہ جھولدار گھوڑوں کی پیٹھ پر کیا تھااور ہم نے اس بہادری کو گم کردیاہے، جس نے اپنے سے کئی گنا زائد، جدیداسلحوں سے لیس لشکر کے دانت کھٹے کردئے تھے۔

ع   گنوادی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی

         ثریاسے زمین پر آسماں نے ہم کودے مارا

 اگر آج بھی ہم نے اپنی اس کھوئی ہوئی شجاعت کو حاصل کرلیاتودنیامیں پھروہی انقلاب ہم برپاکرسکتے ہیں، جو ہمارے اسلاف نے کیاتھا؛ لیکن اس شجاعت کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں وہی راستہ بھی اختیار کرنا ہوگا، جس پرچل کر انھوں نے یہ شجاعت حاصل کی تھی، اپنے دلوں سے ایک خداکے خوف کے سواتمام تر خوفوں کوکھرچ کر بھینک دیناہوگا، ایمان کو نہاں خانۂ دل میں اس طرح بساناہوگاکہ ہماری ہرہرچیز اس کے لئے وقف ہوجائے، ہمارا اوڑھنابچھونا، اٹھنابیٹھنا اور ہماراجینامرنا سب اسی کی خاطر ہو، زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر عملی اسلام کامظاہرہ کرناہوگا، ان اخلاقی قدروں کوحاصل کرناہوگا، جن کے سامنے سنگ دل بھی موم ہوجایاکرتاہے، اگر ہم نے یہ چیزیں اپنے اندر پیداکرلیں توہمارے اسلاف کی وہ دلیری پھرہمارے پاس لوٹ کر آسکتی ہے، پھر اپنے اس عظیم الشان ماضی کوہم دہراسکتے ہیں، جو ایک ہزار سال پہلے عالمِ انسانیت پر سایہ فگن تھی، بس ہمیں اپنے اسلاف کا وہی دل حاصل کرناہوگااور اس طریقہ سے کرناہوگا، جس طریقہ سے انھوں نے حاصل کیاتھا ؎

لاکہیں سے ڈھونڈکر اسلاف کاقلب وجگر  

تبصرے بند ہیں۔