لوک سبھا الیکشن اور ہندوستانی مسلمان

مسعود جاوید

لوک سبھا انتخابات کی آمد میں صرف چند مہینے رہ گئے ہیں، سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں،  سیاسی کارکنوں اور عوام  میں بھی جوش و خروش دیکھنے کو مل رہا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہر پانچ سال کے بعد عوام کو اپنی طاقت اور اہمیت کا احساس ہوتا ہے یا جمہوری نظام کے قواعد عوام کو ان کے ووٹوں کی قیمت کا احساس دلاتے ہیں۔

ظاہر ہے مسلمان بھی اسی عوام اور سیاسی کارکنوں میں شامل ہے  وہ بھی اس ملک کا شہری ہے اور اس ناطے حکومت کی اچھی بری پالیسیوں کا اثر اس پر بھی پڑتا ہے۔  بعض حضرات شکوہ کناں ہیں کہ سیاسی جماعتیں  جوڑ توڑ کرنے اور 2019 الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے میدان میں اتر چکی ہیں لیکن مسلم طبقہ ابھی تک سویا ہوا ہے۔ مسلم تنظیمیں ؛ پرسنل لاء، مشاورت ،جمعیت علماء ،جماعت اسلامی اور جمعیت اہلحدیث کے ارباب حل و عقد ابھی تک سوئے ہوئے ہیں اور اپنی ذمہ داری نبھانے میں تساہلی برت رہے ہیں۔” – ملی تنظیموں سے یہ شکایت غیر ضروری بلکہ غیر مناسب ہے اور ہمیں بغیر سوچے سمجھے لعن طعن کرنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ کسی تنظیم کے بارے میں گفتگو کرنے اور کچھ لکھنے سے پہلے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ :

 ووٹ کرنے یعنی رائے دہی  18 سال اور اس سے زائد عمر کے ہر شہری کا دستوری حق ہے۔ اسی طرح امیدوار بننے اور ووٹ حاصل کرنے کے دستوری حق کی ضمانت ہر ایک کو حاصل ہے۔

ہر شہری کو اپنی پسند کے امیدوار،  خواہ کسی بھی پارٹی کا/کی ہو،  کو ووٹ کرنے اور اس پارٹی کی حمایت کرنے کے لئے آزاد ہے۔ اس کی اس آزادی کو مذہب ذات علاقائیت کی دہائی دے کر متاثر کرنا قانونا غلط ہے۔ اسی طرح روپے پیسے یا کسی اور شکل میں مالی پیشکش سے کسی کو اپنے حق میں رائے دہی کے لئے راضی کرنا جائز نہیں ہے۔  دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ہے کہ یہ رشوت کے قرین  ہے اس لئے پیسے لے کر ووٹ کرنا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح ذات علاقائیت یا مذہب کے نام پر بلیک میل کرنا یا اپیل کرنا بھی درست نہیں ہے۔  اس طرح کی اعلانیہ اپیل کی شروعات دہلی جامع مسجد کےشاہی امام مرحوم عبدالله بخاری سے ہوئی تهی جو اب بھی ان کے جانشین کرتے رہتے ہیں گرچہ اس کا فائدہ تو بالکل نہیں ہاں نقصان ضرور ہوتا ہے۔ اس لئے کہ میڈیا والے اس اپیل کو  ”  مسلمانوں کے  سب سے بڑے دهرم گرو اور ہندوستان میں مسلمانوں کی  سب سے بڑی اور مقدس ترین مسجد کے شاہی امام کا فتویٰ ” کہ کر اچھالتے ہیں اور یہ غیر مسلم ووٹوں کو لام بند polarize کرنے کے لئے ان کی اس رائے کو فتویٰ یعنی تمام مسلمانوں کو ان کی اس اپیل کا لازمی طور پر پابند ہونا ” بتاتے ہیں۔  بدقسمتی سے  غیر مسلموں بالخصوص میڈیا والے غیر مسلموں بلکہ بہت سے مسلمانوں کو بھی یہ نہیں معلوم کہ فتویٰ صادر کرنے کا اہل صرف وہی شخص ہے جس نے دینی تعلیم سے باضابطہ فراغت کے بعد افتاء کا کورس کیا ہو اور اسے اجازت ملی ہو۔   شاہی غیر شاہی امام ، دیوبندی بریلوی یا کسی بھی مسلک کا عالم ، مدرسے کا مولوی مولانا، سلسلہ تصوف کے پیر ، خانقاہ کے سجادہ نشین، جماعت تبلیغ یا جماعت اسلامی کے امیر  یا مزار یا مسلم انجمن  کے صدر سرپرست اور متولی فتویٰ دینے کے اہل نہیں ہیں۔
فتویٰ ایک دینی اصطلاح اور عمل ہے جس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کو دینی شعائر عبادات و عادات  کے کسی فعل کو کرنے میں شک و شبہ اور تذبذب ہو کہ جائز ہے یا ناجائز حلال ہے یا حرام تو وہ شخص اپنی الجهن لکھتا ہے اور اسے دارالافتاء بھیجتا ہے جہاں مفتی حضرات کی ٹیم اس قبیل کی الجھنوں اور مسئلوں کا جواب  قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے اسلاف کے فتووں میں اور فقہ کی کتابوں میں ڈھونڈتے ہیں اور اس کی رو سے جواب لکھتے ہیں۔ اسے اس سوال( استفتاء )کا جواب ( فتوی)ٰ کہتے ہیں۔ ظاہر ہے ووٹ کرنے سے متعلق کسی فتویٰ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ ہر ایک شخص کی اپنی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس پارٹی کے کس امیدوار کو ووٹ کرے۔

ملی اداروں کے بارے میں لکھنے سے قبل  یہ بات بھی ذہن نشیں رکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہماری ان سے شکایت یا انہیں گھیرنے کی کوشش قانونی اور عقلی طور پر درست ہے یا محض تنقید برائے تنقید ہے۔  اس لئے کہ ہر تنظیم کا اپنا اپنا  دستورالعمل Bye laws ہوتا ہے جس میں اس کی محدود سرگرمیوں اور میدان عمل کا ذکر ہوتا ہے۔

سیاست اور انتخابی سیاست میں فرق ہے۔ جن حضرات نے جن ملی تنظیموں کو 2019  انتخابی سیاست میں سرگرم نہ ہونے کی وجہ سے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے شاید ان کے ذہن میں ان تنظیموں کا دستورالعمل نہیں ہے۔  جماعت اسلامی انتخابات میں حصہ لینے کے خلاف رہی تھی اب قدرے لچک ہے پھر بھی اس میدان میں متحرک کردار سے دوری برقرار ہے۔ مسلم پرسنل لاء اس کا اپنا ایجنڈا ہے جس پر وہ عمل پیرا ہے۔ جمعیت علماء اپنے آپ کو نیم سیاسی جماعت مانتی ہے اس لئے اپنے متبعین کو مشورہ دیتی ہے اور اس میں کس پارٹی کو ووٹ کرنا ہے اس کا مشورہ صدر یا سکریٹری صاحب کو  راجیہ سبھا کس پارٹی نے بھیجا اس پر منحصر ہوتا ہے۔ ویسے جمعیت آزادی کے قبل سے چند سال قبل تک کانگریس کی حمایت کرتی رہی ہے۔

اسی طرح جمعیت اہل حدیث اور دیگر ملی تنظیموں کے اپنے اپنے دستورالعمل ہیں۔ دینی مدارس کے اپنے اپنے مکمل یا ناقص بہر حال دساتیر العمل ہیں جن پر وہ کاربند ہیں۔   یہ تمام غیر سیاسی ادارے ہیں اور ان کو ایک حد کے اندر ہی سرگرم ہونا چاہئے اور وہ حد ہے یہ نصیحت کہ  ” بڑے شیطان کے مقابلے میں چھوٹے شیطان کا انتخاب ”  Go for a lesser evil in face of greater evil۔ دفع المضرة أولى بجلب المنفعة۔  1992 میں ملی کونسل کے قیام کے بعد سے  کئی  لوک سبھا الیکشن کے موقعوں پر   کل ہند ملی کونسل نے یہ کام انجام دیا تھا اور بہت حد تک اسے کامیابی بھی ملی تھی۔  وہ پیغام تھا کہ لوگ اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں جو سیکولر، ہندو مسلم یکجہتی اور رواداری فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے جانا پہچانا امیدوار ہو ان کو ووٹ کیا جائے۔

اس کے علاوہ کسی طرح کا فرمان جاری کرنا ہمیشہ مضر ثابت ہوا ہے۔ فرمان جاری کرنے اور رائے عامہ ہموار کرنے میں جو فرق ہے کاش ہمارے ملی ادارے ملحوظ خاطر رکھتے۔ اس لئے کہ عموماً ملی اداروں کے ارباب اقتدار اپنے متبعین ، متفقین اور خیر خواہوں کو اعتماد میں لئے بغیر کسی اجماع پر پہنچے بغیر اپنا فیصلہ مسلط کر دیتے ہیں یہ نہج ان کی تنظیموں کے داخلی امور میں چل سکتا ہے مگر ذاتی سماجی اور سیاسی امور میں اس لئے کامیاب نہیں ہو سکتا کہ ہر ایک شخص کی اپنی پسند ناپسند رجحانات اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ اگر ملی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنا ہو تو اپنا میسج پہنچانے کے لیے ایک میکانزم کی ضرورت ہوتی ہے مگر  بدقسمتی سے مسلم تنظیموں میں اس کا فقدان ہے اس لئے کہ وہ اس کی ضرورت اور افادیت کو ادنی سی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ چند لوگوں نے میٹنگ کرکے قرارداد پاس کیا اور بعض صوبوں اور ضلعوں میں اگر ان ” کل ہند” جماعتوں کے دفاتر ہوئے تو بذریعہ پوسٹ قرارداد کی کاپی بهیج دیا اگر ریاستی ذمہ دار شامل بھی ہوئے تو وہ اپنی عوام سے نہ آنے سے قبل مشورہ کرتے ہیں اور نہ واپسی کے بعد قرارداد کے بارے میں ان کو بتاتے ہیں۔ ۔ ۔۔ جبکہ ایسے مسائل پر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ویڈیوکانفرنسنگ کی سہولیات بروئے کار لائی جاسکتی ہے۔

الیکشن سے متعلق جن مسلم عوام اور تنظیموں کو سرگرم ہونا ہے وہ  وہ طبقہ ہے جو انتخابی سیاست میں حصہ لیتا ہے۔ لیکن افسوس کہ یہ لوگ اور یہ تنظیمیں الیکشن کے وقت ہی جاگتے ہیں۔ یہ جاگنا قابلِ ستائش نہیں قابلِ ملامت ہے اس لئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو  اپنی پارٹیوں کے نام کے ساتھ اسلام مسلمان ملت اور امت لگاتے ہیں اور مسلمانوں سے ووٹ محض اس وجہ کر مانگتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ جس کارکردگی کا ذکر ان کے رپورٹ کارڈ میں ہو۔ عوامی سطح پر مقبول ہونے کے لئے طویل مدتی لائحہ عمل بنانا ہوتا ہے۔ زمینی کام کرنا پڑتا ہے۔ بلا تفریق مذہب و ملت ذات پات ، غریبوں لاچاروں کی خدمت کرنی ہوتی ہے ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرانے میں معاون بننا پڑتا ہے ان کا الیکشن آئی ڈی ، آدھار کارڈ  راشن کارڈ  ایف آئی آر بچوں کے اسکالر شپ کے کئے آن لائن فارم اور دیگر حکومتی اسکیموں سے مستفید ہونے کے لئے ضروری دستاویز مہیا کرانا وغیرہ ایسے کام ہیں جن سے قوم و ملت کی خدمت بھی کی جاسکتی ہے اور سرپنچ سے لے کر ممبر اسمبلی و رکن پارلیمنٹ کے لئے بهی قسمت  آزمائی جا سکتی ہے۔  ایسے افراد ذاتی طور پر سامنے آتے ہیں مگر لاکھوں میں چند۔ اس لئے ضرورت ہے  کہ سیاسی جماعتیں ایسے افراد تیار کریں جو مرحلہ وار عوامی نمائندے بن کر پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی خاطر خواہ نمائندگی کر سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔