لکھنو اور علی گڈھ: عدل فریاد سے ملا نہ کبھی، وقت چیخا کیا ہمیشہ سے

ڈاکٹر سلیم خان

وویک تیواری کے قتل پر بی جے پی کے معمر رہنما اور سابق مرکزی وزیر کلراج مشر نے کہا کہ یہ محکمہ پولس اور صوبائی حکومت  پر ایک بدنما داغ ہے۔ داغ  خوشنما بھی ہوتے ہیں اور بدنما بھی۔ علی گڈھ میں مستقیم اور نوشاد کو قتل کرکے یوگی ادیتیہ ناتھ کی پولس نے اپنے چہرے پر جو خودساختہ  خوشنما تلک لگایا تھا اس پر لکھنو میں مشیت نے کالک پوت دی۔ وویک تیواری کے قتل پر واویلا مچانے والے کلراج  مشرا گر علی گڈھ انکاونٹر کے بعد  پولس کو قابو میں  رکھنےکی وکالت کرتے تو شاید وویک پر گولی چلانے کی جرأتکسی میں نہیں ہوتی  لیکن اس وقت تو سب کو سانپ سونگھ گیا  تھا۔ اس   پراسرار خاموشی نے پولس کی وردی میں  روپوش   بدمعاشوں  کے حوصلے اس قدر بلند کردئیے کہ انہوں نے مرکزی وزیرداخلہ کے حلقہ انتخاب میں سفاکانہ قتل کرنے میں بھی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ یہاں تک کہ کلراج مشر کو مجبوراً   کہنا پڑا ’’ لکھنو میں وویک تیواری کا ایک سپاہی کے ذریعہ گولی مار کر قتل کیا جانا محکمہ پولیس کو شرمسار کرنے والا ہے۔ یہ پولس کی مجرمانہ ذہنیت کا عکاس ہے۔ پولس کو سیدھے گولی مارنے کا حق کس نے دیا ہ؟ حقیقت میں اس حادثے سے اتر پردیش کی شبیہ کو نقصان پہنچا ہے۔ پولس کے اعلی افسران کو اس تکلیف دہ حادثے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے‘‘۔

یوگی جی  سے پریشان ہوکر پھر سے  براہمن سماج بتدریج بہوجن سماج پارٹی سے قریب ہوتا جارہا ہے اسی لئے وویک کے قتل کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی  کے قومی صدر امیت شاہ نے یوپی حکومت کونظم و نسق پر جلد از جلد قابو پانے کا حکم دیا ہے۔ ہردوئی اور بریلی کے ارکان اسمبلی رجنی تیواری اور راجیش کمار  مشرنے بھی اسی لیے وزیراعلیٰ  کو خط لکھنے کی زحمت گوارہ کی۔ ہردوئی  کی رکن اسمبلی رجنی تیواری کے مطابق لکھنو کا یہ حادثہ بتاتا ہے کہ انتظامیہ پوری طرح غیرحساس ہوچکا ہے، جس شخص کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے، وہ آزاد ہے، اس لیے وہ  مطالبہ کرتی ہیں کہ جو بھی اس معاملے میں ذمہ دار ہے، اس کے خلاف جانچ کے تحت سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ بریلی کے رکن اسمبلی راجیش کمارمشرا نے یوگی کو لکھے خط میں سنگین الزام لگایا  کہ لکھنو ڈی ایم اورایس ایس پی معاملے کودبانے اورملزمین کوبچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ پولیس پسماندگان  کو ڈرانے اوردھمکانے کی کوشش کررہی ہےاس لیے  ڈی ایم اورایس ایس پی کوفوراً معطل کردیاجانا چاہئے۔راجیش کمار کا الزام صد فیصد درست معلوم ہوتا  ہے کیونکہ اس کا اعتراف  ڈی جی پی او پی سنگھ نے بھی اپنے ٹویٹ میں بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کیا ہے۔

براہمن سماج سے متعلق انگریزوں کی رائے یہ تھی کہ ان کے اندر عادلانہ کردار  نہیں پایا جاتا۔  ان بیچاروں کو   اپنی برادری سے باہر ظلم نظر نہیں آتا ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیش شرما، راکیش کمار، رجنی تیواری، اشوتوس ٹنڈن اور برجیش پاٹھک    جیسے براہمن رہنما ۱۱۰۰ انکاونٹرس کے بعد (جن کے متعلق  معروف وکیل پرشانت بھوشن کی رائے ہے کہ ۹۰ فیصد فرضی ہیں) وویک تیواری کے قتل پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ ان کو صرف کلپنا تیواری فریاد سنائی دیتی ہے جس میں مظلومہ سوال کرتی ہے ’’ اگر وہ (وویک) گاڑی نہیں روک رہے تھے تو پولیس کو پکڑنا چاہیے تھا۔ گولی کیوں ماری گئی؟  میرے اتنے چھوٹے، چھوٹے بچے  ہیں، کل کو میں  ان کو کیا بتاؤں‌گی کہ تمہارے پاپا کو کیوں گولی ماری گئی تھی؟ ‘کلپنا کا سوال معقول ہےساتھ ہی  یہ الزام بھی جائز ہےکہ ’ پولیس اس پورے معاملے میں گمراہ کر رہی ہے اور اعلیٰ افسر اس پر لیپاپوتی کر رہے ہیں‘‘۔

بی جے پی والوں کو جس بات کی فکر ستارہی ہے وہ کلپنا سے ہمدردی نہیں بلکہ  وویک کے رشتہ دار وشنو شکلا جیسے لوگوں کابیان ہے۔ شکلا جی نے اپنی ناراضگی  کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’ ہم اتنے بھروسے کے ساتھ ریاست میں بی جے پی حکومت لائے تھے، یوگی آدتیہ ناتھ وزیراعلیٰ بنےاور اس کے بعد  ہمارے ساتھ ہی اتنا برا ہو رہا ہے۔ وویک کون سے دہشت گرد تھے، جو ان کو گولی مار دی گئی۔ ہماری مانگ ہے کہ اس میں سی بی آئی جانچ ہو‘‘۔ وویک اگر مسلمان ہوتا تو اس کی گاڑی سے اے کے ۴۷ بندوق برآمد کر لی جاتی۔ اس کا تعلق کشمیر میں مصروف کار داعش کی شاخ سے جوڑ دیا جاتا اور بعید نہیں کہ یوگی ادیتیہ ناتھ اور ان کے نائب وزرائے اعلیٰ گولی مارنے والے سپاہی کو انعام و اکرام سے نوازتے نیز ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے اپنی پیٹھ تھپتھپاتے۔ اس لیے کہ کسی مسلمان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے اس ملک میں  شواہد کی  چنداں ضرورت نہیں ہے نیز دہشت گردوں کو گرفتار کر کے  ان کے خلاف جرم ثابت کرنے میں یوگی مہاراج یقین نہیں رکھتے۔ ان کا حکم ہے ’ٹھونک دو ان کو‘۔ اسی فرمان  کی بجاآوری آج انہیں شرمندہ کررہی ہے۔ اس سے قبل ٹھاکروں کی اس دبنگائی سے تنگ آکر براہمن بی ایس پی کی گود میں چلے گئے تھے بعید نہیں کہ پھر سے مایا بہن کو جیون دان مل جائے۔ اتر پردیش میں براہمنوں کا تناسب  دیگر صوبوں سے زیادہ ہے اور حیرت کی بات ہے کہ سونیا گاندھی نے ابھی تک کلپنا سے ملاقات نہیں کی؟

اس معاملے کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ  دونوں نائب وزرائے اعلیٰ دنیش شرما اور کیسو پرساد موریہ نے مقتول کے گھر جا کر متاثرہ کنبہ کی ڈھارس بندھائی  نیزحکومت کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کی ۔ وویک کی  آخری رسومات میں  کابینی وزیر اشوتوس ٹنڈن اور برجیش پاٹھک  بنفسِ نفیس حاضر رہے۔ وویک کی بیوہ کلپنا، اپنی  دو نوں بیٹیوں اور بھائی سمیت  وزیر اعلی کے سرکاری رہائش پہنچے۔ یوگی جی  نےحادثے پر رنج و غم   کا اظہار کیا  اور قصورواروں کے خلاف سخت کاروائی کی یقین دہانی کرائی ۔ کلپنا تیواری کو ۲۵ لاکھ روپئے مدد کے طوردینے علاوہ دونوں بیٹیوں کو پانچ پانچ لاکھ روپئے کی فکسڈ ڈپازٹ اور وویک کی ماں کو پانچ لاکھ روپئے کی مالی تعاون مہیا کرانے کی ہدایات جاری کی۔ یہاں تک کہ  کلپنا تیواری کو لکھنومیونسپل کارپوریشن میں ملازمت اور خاندان کی رہائش کے مسئلہ کو بھی سلجھانے کی بات کہی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کلپنا نے ان پر پہلے سے زیادہ اعتماد کا اظہار کیا۔

اس معاملے میں یوگی جی  نےمحکمہ داخلی امور اور پولیس کو سخت ہدایات جاری کی۔ ریاستی حکومت کے ذریعہ  ایس آئی ٹی کی تشکیل  عمل میں آئی۔ اس معاملے میں ملزم پولیس اہلکار پرشانت اورسندیپ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتارکرکے برخواست  کردیا گیا لیکن پولس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وزیراعلیٰ اور دیگر وزراء کے مگر مچھ آنسووں سے بے نیاز پولس اہلکار قتل کے ملزم پرشانت چودھری کی حمایت میں مہم شروع نے کا اعلان کردیا۔ اتر پردیش اسٹیٹ پولس اسٹاف کونسل نے جمعہ کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کردیانیز سنیچر کو ایک میٹنگ کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ پولس کونسل کےترجمان  اویناش پاٹھک  بڑی ڈھٹائی  کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ مذکورہ نشست میں پرشانت کو چھڑانے کے لیے حکام کو میمورنڈم دینے اور  اس ملزم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے تین دنوں کی اجتماعی  چھٹی پر غوروخوض ہوگا بلکہ  مطالبات کو نظر انداز کیے جانے پر ایک ویڈیو کے ذریعہ  کھلے عام خودسوزی کی دھمکی بھی دی گئی۔ ان فیصلوں سے صاف ظاہر ہے کہ  پولس فورس کے نزدیک یوگی سرکار کی قدروقیمت ہے۔ وہ یوگی جی، ان کے نائبین اور دیگر پارٹی کے عہدیداران کوکتنی اہمیت دیتے  ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ کلپنا خاموش ہوجانے پر ان ملزمین کے ساتھ بھی نرمی کی جائے۔

اس پاکھنڈی ماحول کے اندر یوگی سرکار میں  پسماندہ طبقات کے وزیر اور سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے سربراہ اوم پرکاش راج بھر نےذات پات سے اٹھ کر یوگی سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ انہوں نے یہ سنگین الزام لگایاکہ اترپردیش کی پولس مڈبھیڑ کے نام پر پیسے لے کر قتل کررہی ہے یعنی اگر کوئی کسی کو قتل کروانا چاہتا ہو تو غنڈے بدمعاش  کی خدمات حاصل کرنےکے بجائے پولس کو سپاری دے۔ جب ’سیاّں  بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا‘؟  راج بھر نے اپنے ٹویٹ میں یہ بھی لکھا کہ ’پردیش(صوبے) میں جرم کا اقبال قائم ہے۔قانون ویوستھا(نظم و نسق) مذاق بنی ہوئی ہے۔ یوگی جی نہ تو پردیش میں اپرادھ(جرائم) کم کرنے میں سپھل(کامیاب) ہوئے ہیں اور نہ جنتا کو سورکشا(تحفظ) کا احساس ہی کرا پائے ہیں۔ قانون ویوستھا کے نام پر پوری طرح فیل ہے یوگی سرکار ‘۔ اپنے وزیر کی زبانی  وزیر اعلیٰ کی خدمت میں یہ خراج عقیدت  اور پھر اس پر کسی کارروائی کا نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اس میں سچائی  ضرور ہے۔

وویک تیواری کے بعد لکھنو کے اندر عمران اور ارمان نامی دو بھائیوں کا غنڈوں کے ہاتھوں بے رحمی سے قتل  ہوگیا۔ اس پر ایوان بالا میں عام آدمی پارٹی کے رکن اور یوپی کے نگراں  سنجے سنگھ نے  یوگی جی  نظم و قانون کو سنبھالنے بونا ثابت ہونے کے بعد  وزارت اعلیٰ کی کرسی سے استعفیٰ دے کر گورکھپور کے مٹھ کی گدی سنبھالنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کہ وہ غیر جانبداری کا ثبوت دیتے ہوئےاترپردیش میں صدر راج نافذ کردے۔ اناؤ عصمت دری کیس کے تناظر میںصدر راج   کا مطالبہ سماجوادی پارٹی نے بھی  کیا تھا۔  ایس پی نائب صدر نے کہا تھاکہ (یہ یوگی) حکومت ایک دن بھی نہیں رہنی چاہیے۔آئین کی دفع ۳۵۶ لاگوہونی چاہیے کیونکہ ریاست میں صدر راج کو لازمی ہوگیا ہے۔ ویسے بی جے پی سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنی ہی حکومت کو برخواست کردے گی خود فریبی ہے لیکن اگر وہ یوگی جیسے نااہل کو ہٹا کر کسی قابل آدمی کو وزیر اعلیٰ بنادے تو اس میں پارٹی کی بھلائی ہےلیکن  خطرہ یہ ہے کہ برخواستگی  کے بعد کہیں یوگی بھی توگڑیا کے ساتھ  مندر وہیں بنائیں گے کا ناٹک نہ شروع کردیں۔

اوم پرکاش راج بھر نے وویک تیواری  قتل کے معاملے کو  مکیش راج بھر، جیتندر یادو، نوشاد اور  مستقیم سے جوڑ ان سب کی تفتیش سی بی آئی کے ذریعہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اعظم گڑھ کے اندر مکیش راج بھر   انکاونٹر کو انسانی حقوق کا کمیشن پہلے ہی  قتل ٹھہرا چکا ہے اس لیے اس کے پسماندگان کو بھی ۲۵ لاکھ روپئے معاوضہ ادا کرنے کی مانگ کی۔ راج بھر کے تیور دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی سے ان کا دل اچاٹ ہوچکا ہے  اسی لیے وہ کہتےہیں وزارت رہے یا نہ رہے عوامی فلاح بہبود کے معاملے میں وہ کوئی مصالحت نہیں کریں گے۔ سماجوادی پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی نوشاد اور مستقیم کے قتل کو فرضی انکاونٹر قرارد دیا  اور فرضی مڈ بھیڑ میں مارے جانے والے سارے لوگوں کے لیے سرکاری معاوضہ طلب کیا۔  یوگی اور ان کے نائب کا حوالہ دیتے ہوئے اکھلیش نے  یہاں تک کہا کہ ایک ایسی حکومت   عدل و انصاف کیسے قائم کرسکتی ہے جس کے سربراہان پر سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہوں۔ اکھلیش نے گوجر سماج کے سچن کا ذکر بھی کیا جسے  فرضی مڈ بھیڑ میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ علی گڈھ انکاونٹر کی بابت سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ کے سارے لوگ واقف ہیں کہ یہ باقائدہ  اسٹیج کیا ہوا قتل تھا۔ جس طرح سے لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے اس سے عوام میں خوف و ہراس ہے اور وہ  مناسب موقع کا انتظار کررہے ہیں۔

علی گڈھ معاملے کی ابتداء تین لاشوں سے ہوئی جن میں سے ایک یوگیندر کمار لودھ اور دوسری اس کی بیوی وملیش کی تھی۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ کلیان سنگھ کا تعلق لودھ سماج سے ہے اور ان کا بیٹا راجویر سنگھ فی الحال اس علاقہ کا رکن پارلیمان ہے۔ اسی گاوں کے دورانی ماتا مندر میں ۴۵ سالہ سادھو روپ سنگھ کی لاش ملی۔ دونوں کی شکایت ان کے بھائیوں درج کرائی اور نامعلوم کے خلاف مقدمہ  درج کیا گیا۔ اس واقعہ کے چند روز بعد علی گڈھ کے ایس ایس پی اجے کمار ساہنی نے یہ تین اور اس سے قبل ہونے والے ۲ سادھو اور ایک شہری کے قتل کے الزام میں پانچ ملزمین کی گرفتاری کا دعویٰ کیا۔ اس قتل و غارتگری کے لیے ایٹا کے صابر علی عرف دنیش پال سنگھ سمیت اس کے ۵ ساتھیوں کو گرفتار اور تین کو فرار قرار دیا گیا۔ دنیش پال نے ۳۵ سال قبل اسلام قبول کیا تھا اور ۲۰۰۶؁ میں پنچایت کا انتخاب بھی جیتا تھا۔ فرار لوگوں میں نوشاد اور مستقیم کا نام شامل تھا۔

پولس کے مطابق صابر علی نے زمین کا ایک حصہ کسی مدرسے کے لیے وقف کرکے وہاں  مفتی شہزاد   کو متعین کیا۔ آگے چل کر جب زمین کا بھاو بڑھا تو اس نے مدرسے کی زمین واپس مانگی۔ مفتی  کے انکار پراس کا شہباز کے ذریعہ قتل کروادیا۔  شہزاد کے بیٹے شعیب نے باپ  کے قاتل کودیکھ لیا اور ماں کے ساتھ صابر کے خلاف قتل کا مقدمہ کردیا۔ صابر گرفتار ہوا تو جیل میں اس کی ملاقات  افسر سے ہوئی اور ان لوگوں نے تمام گواہوں کو جھوٹے قتل کے الزام میں  پھنسانے کا منصوبہ بنایا۔ اس لیے پولس کو گمراہ کرنے کے لیے تینوں  سادھووں کو قتل کرکے گواہوں کےثبوت  چھوڑ ے گئے۔ اس معمہ کو حل کرنے کی خوشی  میں پولس کو سوا لاکھ روپیہ انعام بھی دیا گیا۔ اس کے دو دن بعد نوشاد اور مستقیم کو ذرائع ابلاغ کے سامنے انکاونٹر کردیا گیا۔علی گڑھ شہر کے ایس۔پی اتل کمار شری واستو  نے اس کو سادھو روپ سنگھ سے جوڑنے کے بجائے کہا  مستقیم اور نوشاد نے ایک موٹر بائک اور دو موبائل فون چراکر بھاگ  رہے تھے۔پولس کے روکنے پر دونوں نے گولی چلانا شروع کر دی۔ پولس کو جوابی فائرنگ کرنا پڑی۔وہ ایک گری ہوئی عمارت پر پہنچے ڈیڑھ گھنٹے تک فائرنگ جاری  رہی۔ زخمیوں  کو ضلع کے اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ فوت ہو گئے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق انہیں  پولس کا فون آیا کہ اگر حقیقی مڈبھیڑدیکھنااور فلمبندی کرنی  ہو تو جائے واردات پر پہنچ جائیں۔ نوشاد اور مستقیم کے اہل خانہ نے پولس کے بیان کے بیان کو مسترد کردیا کیونکہ وہ  دونوں موٹر سائیکل چلانا ہی  نہیں جانتے تھے تو اسے چرا کر اس پر  کیسے فرار ہوتے؟

مذبھیڑ کے بعد رہائی منچ کے  راجیو یادو  نےعلی گڈھ جاکر  نے روپ سنگھ کے بھائی  گری راج سنگھ  سے رابطہ کیا تو انہوں نے  بتایا کہ پولس نے میرے بھائی کی موت کا جو وقت لکھا ہے اس  وقت وہ میرے ساتھ موجود تھا اور انہیں  نوشاد اور مستقیم پر شک نہیں ہے۔ وہ دونوں معصوم ہیں۔ وہ   اس (سادھو) کا قتل کیوں کریں  گے۔یہ مقامی لوگوں کی کارستانی ہے۔  میرے بھائی کا موبائل اور جھولا بھی ابھی تک پولس برآمد نہیں کرسکی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت رہائی منچ  کے لوگ مستقیم اور نوشاد کے گھر پہنچے تو وہاں پولس تعینات تھی اور وہ کسی کو ا ہل خانہ  سے ملنے نہیں دیا جارہا تھا۔  یہ  غیر معمولی احتیاط چور کی داڑھی میں تنکہ کی مصداق ہے۔ نوشاد اور مستقیم کے اہل خانہ کے ساتھ  یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ  کے کارکنان کی  پولس تھانے میں آمد کی  اطلاع زعفرانی دہشت گردوں کو دینا اور وہاں ہجومی تشدد کا ماحول پیدا کرنا نیز مدد گاروں  پر اغواء کا مقدمہ قائم کردینا بتاتا ہے کہ اس معاملے میں پولس اور بجرنگی عناصر ملے ہوئے ہیں اور حقائق کے افشاء ہونے  سے خوفزدہ ہیں۔ یہ تفتیش لازمی ہے کہ انہیں  کون سا خوف لاحق ہے؟وہ کیا چھپانا چاہتے ہیں؟

 دہلی میں صحافیوں کے سامنے نوشاد اور مستقیم کی والدہ  نے پریس کو بتایا کہ مڈبھیڑ سے چار روز قبل پولس ان کے بیٹوں کو گھر سے لے گئی اور  ہلاک کردیا۔ نوشاد و مستقیم کی مذہبی عقیدے کے مطابق تدفین بھی نہیں کی گئی۔ انکے خلاف درج ۴ عدد ایف آئی آر میں موٹر سائیکل کا نمبر مختلف ہے۔ نوشاد کی عمر ۱۷ سال تھی اور الزام ہے کہ اس نے ۷ سال پہلے فساد بھڑکایا تھا۔ کیا ۱۰ سال کا لڑکا فساد بھڑکا سکتا ہے؟ وویک تیواری کے قتل کا پولس نے  اعتراف کر لیا پرشانت ملک و سندیپ چودھری پرقتل کا مقدمہ درج کرکےجیل بھیج دیااسی طرح کی کارروائی  نوشاد، مستقیم اورتمام فرضی انکاؤنٹر کے معاملے میں ہونی  چاہئے۔ تفتیش و تحقیق  کے  بعد ان میں ملوث سارے افسران کو معطل کرکے کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے۔ یہ  چونکہ  نہیں ہورہا اس لیےنوشاد اور مستقیم  کے اہل خانہ نے عدالت کے دروازے پر دستک دی ہے۔نوشاد کی غریب  والدہ شاہین کا عزم ہے کہ’اس  نا انصافی پرہم پولس کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے‘۔اس جنگ میں  سارے انصاف پسند ان کے ساتھ ہوں گے۔انصاف کبھی کبھار مانگنے سے بھی مل جاتا ہے جیسا کہ کلپنا تیواری کو مل گیا لیکن اس صورت انہیں اپنے شوہرکے بلاواسطہ قاتل پر مزیداعتماد جتا کر لوٹنا پڑتا ہےلیکن شاہین  جب عدالت میں لڑ کر انصاف حاصل کرے گی  تو  ظالم کو رسوا ہوکر سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔ عدل و انصاف کی اس کشمکش میں  حقیقی فتح یقیناً حق کے علمبردار وں کی ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔