لہولہان ’غوطہ‘ اور مسلم قائدین کی خاموشی!

  عبدالکریم ندوی گنگولی

کتابیں عام طور سے دست بدست سیاہی کی نذرہوتی ہوئیں طویل مسافت کے بعد منظر عام پر لائی جاتی ہیں، لیکن اس کے برعکس آپ کی خدمت میں  شعلۂ عشق ووفا اورنغمۂ درد وغم میں ڈوب کر خون جگر سے نکلے ہوئے چند قطرات کو رشحات قلم کی صورت میں آپ کی نذر کررہاہوں تاکہ میرے درد مندانہ کلمات اور غیرت مندانہ سطرات ملک شام میں غوطہ کے خونچکاں حالات اور امت مسلمہ کی سرگشتگی وسراسیمگی کی ترجمانی کرسکے۔

عالمی منظر نامہ پر امت مسلمہ کی زبوں حالی، شکستہ خوردی کی داستان دردوکرب سے سسکتے بلکتے نظر آرہی ہے، غوطہ کے معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی دردبھری چیخ وپکار، مرجھائے ہوئے حسین وجمیل چہرے، آگ کے شعلوں میں جھلستے نرم ونازک جسم اور ملبے کے نیچے دب کر آخری سانس لینے والے انسانوں کی فلک شگاف صدائیں آنکھوں کو خیرہ اور کانوں کے پردوں کو چاک چاک کر رہی ہیں، زخموں سے چور، خون میں لہولہان بے یارومددگار ندائیں زمین کو لرزہ خیز کررہی ہیں، انسانی خون کی بہتی ندیاں، ویرانی وتاریکی میں تبدیل بستیاں، دہگتی آگ میں جلتی ہوئی جھونپڑیاں اور بے گورر وکفن لاشیں جسم کے رونگٹے کھڑے کردے رہے ہیں اور قلب مضطر کے ساز کو چھیڑتے ہوئے روح کو بے چین و بے قرارکررہے ہیں، ستم ظریفی کے واقعات، ہولناک وخون آشام مناظر حکومت کی ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کی بے توجہی ولاپرواہی کی بین اور واضح دلیل ہیں، ہائے اللہ ! تیری زمین میں یہ کیسا ظلم وستم اور بلاخیز طوفان اورتیز وتندسیلاب بپا ہے، جس کی رو میں امت مسلمہ خس وخاشاک کی طرح بہتی جارہی ہے، ظالم وسفاک، سنگ دل وبے حیا حکام کی بدولت بزم ہستی موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا ہے، لاکھوں کی تعداد بے گھر اور خیموں کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔

   یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک شام کی سرزمین پر جو انسانیت سوز اور اخلاق سوز شیطانی کھیل رچاجارہاہے، درحقیقت وہ سفاک وخونخوار بھڑئیے اور درندوں سے بھی بدتر ہیں جنہوں نے انسانی تاریخ میں ظلم وبربریت، حیوانیت وشیطانیت کی ایسی بدترین تاریخ رقم کی ہے جس کی نظیر ملنی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے،جن اسلام دشمنوں کی ستمگری وجفاطرزی، دھوکہ دہی ودغابازی نے ملک شام کے کمزور ونہتے، بے سروسامان مسلمانوں پر ایسے کوہ ظلم وستم ڈھائے کہ کوہستان بھی ریگستان میں تبدیل ہوگیا،افق عالم پر ستارے حیران وششدر رہ گئے کہ لوگ انسانیت کے نام پر خود انسانیت کا خون چوس رہے ہیں اور ماہتاب وآفتا ب بھی ان کی چیرہ دستیوں، ستم رانیوں اور ریشہ دوانیوں پر انگشت بدنداں ہیں کہ یہ لوگ حکومت کے تخت پر جلوہ افروز ہوکر، حکومتی اصول وقوانین کو بالائے طاق رکھ کر، عدل وانصاف کی چادر ہٹاکر اور انسانیت کے سبق کو بھلاکرمسلمانوں کانام ونشان تک جریدۂ عالم سے مٹانے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں جس سے چشم فلک بھی آنسو بہانے پر مجبور ہے، آسمان پر اندھیرا سا چھاگیا ہے اور زمین پر خود انسانیت سرمشار ہوچکی ہے۔

 اگر بچشم غور عالم اسلام پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو پورا ملک شام بشمول کئی اسلامی ممالک ظلمت آگیں وناگفتہ بہ اور جاں گسل حالات سے دوچار ہے اور امت اسلامیہ کا ہر فرد بے چین وبے قرار ہے، ان کے چہروں پر مایوسی وناامیدی کا گرد وغبار پڑا ہواہے، ان کے ماتھے ذلت ورسوائی سے داغدار ہیں، ان کے سروں پر ناامیدی ومجبوری کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، مختصر یہ کہ آج یہ امت انتہائی سنگین وآزمائشی دور اور ایسے کربناک والم ناک حالت سے گذررہی ہے کہ تاریخ نے اپنی پوری زندگی میں اب تک ایسے حالات کا سامنا کیا ہے اور نہ آئندہ کرے گی۔

  ان نامساعد حالات، شکست خوردہ وہزیمت یافتہ جذبات واحساسات کی حالت زار کا سبب اگر صرف زمانے کی چیرہ دستیوں اور دشمنوں کی جعل سازیوں کو قرار دیا جائے اور عالم اسلام دشمن واستعمار پسند طاقتوں کی فریب کاریوں کا ماتم کیا جائے تو یہ بزدلانہ اور بے وقوفانہ رویہ ہونے کے ساتھ مردہ قوموں کا شعار لگتا ہے کیوں کہ ایک طرف مسلم قائدین کی غفلت پروری، شکم پروری اور عیش وتنعم میں بسر ہوتی زندگی اور اپنے احساس ذمہ داری سے لاپرواہی کارفرماہے تو دوسری طرف ہم سے ایسے اعمال وافعال سرزد ہورہے ہیں جن سے ہماری ایمانی کمزوری ودینی لاچاری، بے بسی وبے حسی، کم علمی وکم ظرفی کی جھلک صاف نظر آتی ہیں۔

 ملک شام انبیاء کی سرزمین ہے لیکن وہ بابرکت زمین انسانی خون سے لت پت ہوچکی ہے اور آج بھی وہ زمین پھر سے نورونکہت کی جلوہ گاہ، مقام رحمت وبرکت اور موسم بہار کی فضاؤوں سے معطر ہونے کے لئے کسی ولیٔ کامل،اخلاص وعمل کاپیکرسلطان صلاح الدین ایوبیؒ اور جانباز وبہادر،اللہ پریقین کامل کاحامل محمد بن قاسمؒ جیسے اللہ کے شیروں کی منتظر ہے،لیکن کیا کیجئے !اسلام کے تئیں اخوت وانسانیت کا دم بھرنے والے اورقرآن وسنت پر عمل کا ڈھندوراپیٹنے والے منافقت کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں، اس ناک صورت حال کے پیش نظر دوردور تک ایسامسلمانوں کا دردمند وفکر مند قائد ورہنما نظر نہیں آتااور نا ہی امید کی شمع فروزاں ہوسکتی ہے۔

  تو آئیے !اپنے غفلت کے دبیز پردوں کو اتار پھینکئے، نرم ونازک بستروں اور بادصبا کی خنک ہواؤں سے لطف اندوز ہونا بند کیجئے، مقصد حیات کو سامنے رکھ کر جمود وتعطل، سرد جذبات، دلوں پر چھائی افسردگی اور تعفن زدہ معاشرہ کو ایمانی ماحول میں بدل دیجئے، اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجائیے،معصوم بچوں کی طرح روئیے، بلبلائیے، درستیٔ حالات کی بھیک مانگئے،امت مسلمہ پرسایہ فگن ظلم وستم اور غم واندوہ کے بادل اور پژمردگی کے آثار ختم ہونے کے لئے دست دعادراز کیجئے، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام ؓ کی طرح دن کے شہسوار اور رات کے عبادت گذار بن جائیے اور یہ سلسلہ صرف مصیبت کی حد تک نہ ہو بلکہ پوری زندگی پر محیط ہو۔ پھر دیکھئے حالات کے رخ کس طرح بدلتے ہیں اور کامیابی وکامرانی کیسے انگڑائی لیتی ہے اور کھوئی ہوئی سرفرازی وسربلندی، امن وشانتی کیسے میسر ہوتی ہے۔

 اٹھ !کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے    

  مشرق ومغرب میں ترے دور کا آغاز ہے  

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    شام کے شہر غوطہ

    پر حکمران فرعونوں اور روسی فضائیہ کی وحشیانہ بمباری سے سینکڑوں بےگناہ مرد ، عورتیں اور بچے شہید ہوئے ہیں ، مسلسل جنگ کی وجہ سے وہاں شدید غذائی قلت پیدا ہوئی ہے اور ہزاروں بچے غذائی قلت اور بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔۔۔
    ایک اللہ ، ایک رسول اور ایک قرآن پر یقین رکھنے والوں کی خاموشی اس بات کی گواہی دے رہے ہی کہ یہ امت بےحسی کی انتہاپر ہے،خود غرضی نے آنکھوں پر چربی چڑھا دی ہےاور بزدلی اور منافقت ہمارا ٹریڈ مارک بن چکا ہے ۔۔۔۔۔۔
    آج خود کو محفوظ سمجھنے والوں کی چیخ و پکار پر جب کل سب لوگ اندھے اور بہرے بن جائیں گےتو یہ کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی ۔۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔