لہو میں ڈوبی یادیں!

حفیظ نعمانی

بابری مسجد کو شہید کرکے فخر کرنے والے یہ کیوں سوچ رہے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ نہ چلے؟ بی جے پی کے برسوں سب سے بڑے کہے جانے والے ایل کے اڈوانی اس مسجد کو شہید کرانے کے سب سے بڑے مجرم ہیں اور 1998 ء میں بی جے پی کی حکومت بنوانے میں وہ خود کو اس کا اہم کردار کہتے تھے۔ بی جے پی کی قیادت کے یہ سب مہرے جنکی آج شرم سے گردن لٹکی ہوئی نظر آرہی ہے یہ گردن 25  سال اس بات پر اکڑی رہی ہے کہ ہم نے غلامی کی نشانی کو مٹا دیا۔

سی بی آئی کی کوشش سے جب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ان سب کے خلاف سی بی آئی کی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلے گا تو گنگا میّا کی وزیر اوما بھارتی نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے سازش نہیں کی ہم نے جو کیا وہ کھلم کھلا کیا ہے۔ وہ اب بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ انہوں نے جو کیا ہے وہ کوئی پاپ تھا۔ اگر کوئی پاپ نہیں تھا تو ان سب نے ضمانت کی درخواست کیوں دی اور پچاس پچاس ہزار کی ضمانت کے کاغذ پر دستخط کرنے کے بجائے جیل جانا کیوں پسند نہیں کیا…؟

بابری مسجد کی شہادت ہی مسلمانوں کے دلوں کا زخم نہیں ہے۔ اسی مسجد کا جب راجیو گاندھی نے تالا کھلوایا تھا تو پورے ملک میں مسلمانوں نے احتجاج کیا تھا جس میں میرٹھ میں کچھ زیادہ شور ہوا جس کی سزا راجیو گاندھی نے انہیں یوپی حکومت سے دلوائی آج بزرگ صحافی کلدیپ نیر نے اسے جلیاں والے باغ کے قتل عام جیسی تاریخ کا ایک باب کہا ہے۔ پی اے سی کی تحویل میں 42  مسلمانوں کی شہادت اور ان کی لاشوں کو ہنڈن ندی میں پھینکنا کلدیپ صاحب نے انفرادی واقعہ بتایا ہے۔ شاید اُن کے ذہن میں بھاگل پور کا وہ واقعہ نہیں رہا جہاں فوج کی ایک ٹکڑی نے جلتے ہوئے ایک گائوں سے مسلمانوں کو نکال کر مقامی پولیس کے سپرد کیا کہ ان کو سنبھالو ہم دوسرے گائوں کے مسلمانوں کو لاتے ہیں اور جب وہ دوسرے گائوں کے مسلمانوں کو لے کر آئے تو پولیس تو تھی مسلمان نہیں تھے۔ ان سے جب معلوم کیا کہ وہ مسلمان کہاں گئے؟ جواب ملا کہ محفوظ جگہ بھیج دیا ہے۔ اتنے ہی میں ایک تالاب میں سے ایک لڑکی نکلی اور اس نے کہا یہ جھوٹے ہیں انہوں نے انہیں مروانے کے لئے بھیجا ہے۔ اس لڑکی کا نام ملکہ تھا اور یہ معمولی زخمی تھی اندھیرے کا فائدہ اٹھاکر چپکے سے تالاب میں اُترگئی۔ میرٹھ کی تعداد تو 42  سب کو یاد ہے۔ بھاگل پور کی تعداد کسی کو معلوم نہیں ۔ بس یہ معلوم ہے کہ بھاگل پور کا ہی جلیاں والا باغ تھا جس نے بہار سے کانگریس کو ایسا نکالا کہ آج تک اسے حکومت نصیب نہیں ہوئی۔

اڈوانی ہوں ، جوشی ہوں یا بھارتی یہ نہ بھولیں کہ مسلمان کا عقیدہ ہے کہ راجیو گاندھی جو جوتے سے پہچانے گئے وہ قدرت نے میرٹھ اور بابری مسجد کے تالا کھلوانے کی ہی سزا دی تھی۔ کیونکہ اڈوانی، جوشی اور بھارتی کی طرح 25  برس ان کی شرم سے گردن جھکانے کا فیصلہ کرنیو الی کوئی عدالت نہیں تھی۔

ایک بات وہ ہے جسے ہر پارٹی مانتی ہے کہ سی بی آئی مرکزی حکومت کے اشاروں پر چلتی ہے۔ لیکن یہ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ وہ خداء وحدہٗ لاشریک جس کو چاہتا ہے دنیا میں سزا دیتا ہے اور جس کو چاہتا مرنے کے بعد دے گا۔ یہ مسجد نہ بابر کی تھی نہ میر باقی کی اور نہ اجودھیا کے کسی مسلمان کی یہ اللہ کی تھی اور وقف بورڈ کی نگرانی میں تھی۔ اب یہ فیصلہ پاک پروردگار کو کرنا تھا کہ کسے کیسی سزا دے؟ اس نے راجیو کی ہستی مٹادی، نرسمہاراؤ کو ذلیل کیا اور گرانے کی سازش کرنے والوں کو ان کے ہی ایک پروردہ نریندر مودی کے دماغ کو باندھ دیا کہ وہ سی بی آئی پر زور نہ ڈالیں ۔ سب جانتے ہیں کہ سی بی آئی میں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ یہ تو قدرت ہے جو جس سے چاہے وہ کام لے لے۔

وہ لال کرشن اڈوانی جنہوں نے 2009 ء میں پوری انتخابی مہم اس طرح چلائی کہ لاکھوں روپئے کے رتھ میں سوار ہوکر نکلے اور سر کا تاج اور تلوار ہر دم ساتھ رکھے۔ انہیں یقین تھا الیکشن ہوگا وہ اپنی پارٹی کو کامیاب کرائیں گے پھر وزیر اعظم بنیں گے اور آخری سانس تک حکومت کریں گے۔ اور یہ قدرت کا فیصلہ تھا کہ سونیا جیسی کمزور عورت کے مقابلہ میں انہیں شکست کی ذلت اٹھانا پڑی اس لئے کہ وہ بابری مسجد کے مجرم تھے۔ 2001 ء کا وہ واقعہ کون بھولا ہوگا کہ اڈوانی نائب وزیر اعظم تھے لیکن اپنے کو وزیر اعظم سے زیادہ سمجھتے تھے انہوں نے اچانک گجرات جاکر ایک شریف وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل کو ہٹایا اور نریندر مودی نام کے ایک نئے ورکر کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ جب ان سے سوال کیا کہ یہ آپ نے کیوں کیا؟ تو جواب تھا کہ ایک خاص مقصد کے لئے انہیں بنایا ہے۔ پاک پروردگار نے کلام پاک میں فرما دیا ہے کہ ملک ان کے ہیں وہ جس کو چاہتے ہیں دیتے ہیں اور جس سے چاہتے ہیں لے لیتے ہیں ۔ اور وہی جس کو چاہتے ہیں عزت دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں ذلیل کرتے ہیں ۔

کاش اڈوانی اور جوشی غور سے قرآن عظیم کا انگریزی ترجمہ پڑھ لیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اڈوانی کے ہاتھ سے مودی کو وزیر اعلیٰ بنوانا اسے عزت دینا پھر اس کے مقابلہ میں 2013 ء میں مودی کو نظرانداز کرنا پھر مودی کا وزیر اعظم کے لئے منتخب ہونا اڈوانی کا پوری طاقت سے بار بار ناراض ہونا اور ہر مرتبہ مودی کے مقابلہ میں ذلیل ہونا پھر گجرات کے علاوہ کہیں اور سے ٹکٹ مانگنا اور ذلیل ہوکر گجرات سے ہی لڑنا پھر حکومت بننے کے بعد اپنے منھ سے اسپیکر جیسا چھوٹا عہدہ مانگنا اور درخواست ٹھکرا دینا پھر سیاسی کباڑ خانے کی مودی کی ہاتھوں ہی زینت بنا دینا اور اب جبکہ صدر جمہوریہ کی کرسی خالی ہورہی ہے اور ان سے زیادہ کوئی نہیں ہے جس نے محنت کی ہو تو صدر بنانے کے بجائے بابری مسجد کی شہادت کی سازش کا ملزم ہونا اور صرف 50  ہزار کی ضمانت پر باہر رہ کر مقدمہ کا سامنا کرنا اور نہ چاہنے کے باوجود عدالت میں حاضر ہونا۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور وہی پروردگار جس سے چاہتا ہے اپنا ملک لے لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ جو ایمان نہ لائے وہ بدنصیب ہے۔

کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ان تمام معاملات میں مسلمان کہیں نہیں ہیں ۔ یکم دسمبر 1992 ء کو اٹل بہاری باجپئی نے ہندوئوں سے کہا تھا کہ اجودھیا میں پانچ لاکھ آدمی جاچکے ہیں اب اور نہ جائیں ۔ وہ جو آج بی جے پی پریوار کے سب سے بڑے ہیں وہ اس طرح ایک گوشہ میں پڑے ہیں جیسے نہیں ہیں ۔ 1975 ء کی جے پرکاش تحریک جنہیں یاد ہوگی انہیں یہ بھی یاد ہوگا کہ جس وقت انہوں نے تحریک کھڑی کی تھی تو اُن کی صحت بھی اتنی کمزور تھی کہ جلسوں میں ان کی تقریر کے ٹیپ بجائے جاتے تھے اور جب 1977 ء میں حکومت بنی تو وہی تھے جنہوں نے مرارجی ڈیسائی جیسے پکے کانگریسی کو وزیر اعظم بنوایا اور کسی نے چوں نہیں کی اور وہ سب کو گاندھی جی کی سمادھی پر لے گئے اور سب چلے گئے۔ اور آخری سانس تک چرچے میں رہے۔ لیکن اٹل جی کا مہینے گذر جاتے ہیں ذکر بھی نہیں آتا۔ کیونکہ وہ اگر کھڑے ہوجاتے کہ احتجاج جتنا چاہو کرو مسجد کو گرانے کی غلطی نہ کرو تو ہرگز مسجد نہ گرتی اور مسجد نہ گرتی تو وہ بھی ایسے ہوتے کہ ہر کوئی جو بھی کام کرتا وہ ان کے پائوں چھوکر کرتا اور جو مقام ملک میں گاندھی جی کا تھا وہ ان کا ہوتا۔ ایسا نہ ہو تاکہ 26  مئی کو دوست دشمن سب تھے اٹل جی نہیں تھے۔

کلدیپ صاحب نے 1984 ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے انتقام میں تین ہزار سکھوں کے قتل کو بھی جلیاں والا باغ اور ہاشم پورہ کی قیامت کے ساتھ ملایا ہے اور کانگریس کے بڑے لیڈروں اور راجیو گاندھی کی طرف انگلی اٹھائی ہے۔ بیشک وہ جنون ہمیں خوب یاد ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے نہ جانے کتنے ہزار مسلمانوں کے قتل میں کانگریسی ہندو اور پولیس شریک رہی ہے لیکن جب ان میں سے کسی کو سزا نہیں دی تو سکھوں کے قاتلوں کو کون سزا دے گا؟ ایسے ہر قتل عام میں نیچے سے اوپر تک حکومت شریک رہتی ہے۔ جس کی بدترین مثال 1993 ء کا ممبئی میں مسلمانوں کا قتل عام ہے اور شاہ کمیشن کی رپورٹ لیکن بے غیرت حکومت فریق بن جاتی ہے اور مسلمان ہوں یا سکھ وہ نظر نہیں آتے صرف ہندو نظر آتے ہیں وہ مرجائیں تو قیامت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔