مابعد جدید دیش پریم!

عالم نقوی

خوشونت سنگھ (پیدائش فروری 1915 وفات مارچ 2014) نے 2003 میں شایع  اپنی مشہور کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا ‘‘ میں چودہ سال قبل اُس کے ایک باب ’’سنگھ اور اس کے عفریت ‘‘ میں لکھا تھا کہ۔۔۔ ’’ ہر فاشسٹ حکومت اپنی بقا کے لیے کچھ  ایسے لوگوں  یا گروہوں کی محتاج ہوتی ہے جنہیں وہ عوام میں راکشس (عفریت ) بنا کے پیش کر سکے۔ پھر اُن کے خلاف  خوف و ہراس اور نفرت   پھیلانے کی ایک  منظم پروپیگنڈا  مہم  شروع کی جاتی ہے ۔ ہم میں سے وہ لوگ جو ’’عیسائی یا مسلمان ‘‘نہ ہونے کی وجہ سے  آج خود کو یہاں (بھارت میں ) محفوظ سمجھتے ہیں وہ’’احمقوں کی جنت ‘‘میں رہتے ہیں !سنگھ پریوار  بائیں بازو کے مؤرخوں اور دانشوروں کو  ’’مغرب زدہ ‘‘ قرار دے کر اُن کے خلاف تو  اپنی شر انگیز اور نفرت خیز مہم شروع کر  ہی چکا ہے، کل، اُن خواتین کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے جو ساری نہیں پہنتیں۔

وہ لوگ اُن کے شر و فساد کی زد پر آسکتے ہیں جو گوشت کھاتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں۔ غیر ملکی فلمیں دیکھتے ہیں اور اور ہندو تیرتھوں اور مندروں کی سالانہ یاترا پر نہیں جاتے۔ جو دنت منجن کے بجائے ٹوتھ پیسٹ سے اپنے دانت صاف کرتے ہیں۔ آیور وید کے بجائے ایلو پیتھک طریقہ علاج سے اپنی بیماریوں کا علاج کراتے ہیں اور ملاقات ہونے پر ’جے شری رام ‘ کہنے کے بجائے ہاتھ ملاتے اور مصافحہ کرتے ہیں۔ ۔اِن میں سے کوئی بھی(چاہے وہ ہندو ہی کیوں نہ ہو )  اَب بھارت میں محفوظ نہیں۔ ہم اگر انڈیا کو زندہ اور متحد رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں وقت رہے اِن حقائق کو سمجھنا اور اُن کے سدِّ باب کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ‘‘

اور آج دنیا نے دیکھ لیا  ہے کہ سنگھ پریوار کے فاشسٹوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے دانشوروں، دابھولکر، پنسارے، کلبرگی اور گوری لنکیش میں سے کوئی بھی عیسائی یا مسلمان  یا عیسائی نہیں  ہے !یہ سب کے سب شدھ بھارتی ناگرک  اور ہندو تھے۔ بس اُن کا قصور یہ تھا کہ  وہ سنگھ پریوار کی فسطائی  وِچار دھارا  (طرز فکر )  کے خلاف اور بائیں بازو کی فکر کے حامل تھے !

موجودہ مودی راج ، آنجہانی خوشونت سنگھ کی پیش بینی سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے کہ اس نے عالمی فرعونوں اور قارونوں دونوں سے، ہاتھ ہی نہیں، دل بھی ملا رکھے ہیں۔ وہ اَپنے سِوَا ہر کسی کو دیش دروہی کہتے ہیں  جبکہ خود اُنہوں نے دیش  بھکتی کے نام پر  دیش دِرُوہ کا نیا ہمالہ کھڑا کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر’’ڈیجیٹل انڈیا ‘‘ کی قیادت کا تاج ملک کے قدیم سرکاری اداروں بی ایس این ایل اور ایم ٹی این ایل  کے سر رکھا جانا چاہیے تھا لیکن مودی نے اپنے  قارون دوست  اور سنگھ پریوار کے سب سے بڑے دانی (ڈونر) مکیش امبانی کی کمپنی ریلائنس ’جیو ‘ کے سر پر یہ تاج رکھ دیا ! کیش لیس اکنامی کا اَوتار قومی ’این سی پی ایل ‘کے ’روپے ‘ کو بننا چاہیے تھا لیکن یہ سہرا بھی   ’پے ٹی ایم ‘ کے   سر باندھ دیا گیا  جس کا سب سے بڑا اسٹاک ہولڈر ایک چینی گروپ ’علی بابا ‘ ہے !

 فرانس کے رفائل لڑاکا جٹ طیارے بنانے کا کام ملک کی مشہور اور نیک نام  پبلک سکٹر کمپنی ’ہندستان ائروناٹکس لیمیٹڈ (ایچ اے ایل) کو ملنا چاہیے تھالیکن اُسے بھی مکیش اَمبانی کی ریلائنس کے جھولے میں ڈال دیا گیا اور یہ دان دکشنا یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ بھارتیہ ریل کو ڈیزل سپلائی کرنے کا ٹھیکہ بھی انڈین آئل کارپوریشن جیسے سرکاری پبلک سکٹر ادارے  کے بجائے ریلائنس پیٹرو کیمیکلس کے حوالے کر دیا گیا !

آسٹریلیا میں قدرتی وسائل کی کان کنی کا ٹھیکہ مودی کے دوسرے قارون دوست اَڈانی کو دلوا دیا گیا جبکہ دیش بھکتی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ ٹھیکہ پبلک سکٹر کی ملکی کمپنی ’ ایم ایم ٹی سی ‘ کو دلوایا جاتا جس کے لیے صرف اپنے سرکاری بینک ’ اسٹیٹ بینک آف انڈیا‘(ایس بی آئی ) کی گارنٹی کافی ہوتی !سنگھ پریوار اگر واقعی دیش بھکت ہوتا تو نئی فسکل اور مانیٹری پالیسیوں کا فائدہ پبلک سکٹر اداروں کو پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا لیکن اس کے بر خلاف وہ خود یہ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے کہ اُس کے اوپر سو ڈیڑھ سو  سال پرانی سامراج دوستی اور انگریزحکمرانوں کی غلامی اور  تابعداری کا الزام غلط نہیں ہے۔

مودی صاحب کانگریس سے ساٹھ سال کا حساب مانگتے نہیں تھکتے لیکن خود اپنے تاریک ترین تین سال تین مہینے کا حساب دینے کی اوقات نہیں رکھتے۔ بقول مودی، ’منموہن سنگھ کی  لٹیری سرکار‘ کے زمانے میں، گھریلو گیس سلنڈر کی قیمت 414 روپئے تھی  جو اب مودی  کے امبانی اڈانی راج میں 777 روپئے فی سلنڈر ہو چکی ہے !

 2014 میں وہ کہتے تھے کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو روپئے اور ڈالر کا فرق مٹا دیں گے اور دونوں کی قیمتیں برابر کر کے رہیں گے، وہ تو نہ ہوا، البتہ مودی مہاشے نے ٹماٹر اور سیب کی قیمتیں برابر کر دیں !سنگھ پریوار کی غریب دشمن اور کسان دشمن  فسطائی  قارونی پالیسیوں کا اندازہ یوں لگائیے کہ نیا قاتل ’جی ایس ٹی ‘ اقارونوں کی مرسڈیز گاڑی پر صرف چھے فی صد ہے لیکن غریبوں اور کسانوں کے  ٹریکٹر پر  12 فی صد !اب کسان خود کشی نہ کرے تو اور کیا کرے کہ آپ امبانیوں اڈانیوں وغیرہ  ملک کے مٹھی بھر قارونوں کے تولاکھوں کروڑ کے قرضے معاف کر دیتے ہیں لیکن کسانوں کے قرضے معاف کرنے کا ایسا ڈرامہ کرتے ہیں کہ شیطان کو بھی شرم آئے۔ ابھی یوگی سرکار نے چند ہزار کسانوں کو قرض معافی کے سرٹیفیکٹ تقسیم کیے ہیں جونو پیسے، بہتر  پیسے  سے لے کر دو روپئے اور دس روپئے نیز پچاس روپئے سے لے کر زیادہ سے زیادہ پانچ سو روپئے تک کے قرضوں کی  نام نہاد معافی پر مبنی ہیں۔ ان سرٹیفکٹوں کے بنانے اور تقسیم کرنے پر ہونے والا سرکاری خرچ معاف کی جانے والی مجموعی رقم سے کہیں زیادہ ہوگا۔

ہمیں یہ لکھتے ہوئے شرم آرہی ہے لیکن فاشسٹوں اور ظالموں کو اس نام نہاد قرض معافی کا اعلان اور ڈرامہ کرتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ جبکہ کسانوں کے حقیقی قرضے بھی فی کس ایک لاکھ، سوا لاکھ  اور بہت سے بہت ڈیڑھ لاکھ روپئے سے زیادہ نہیں ہیں لیکن جو فاشسٹ حکمراں وجے مالیاؤں وغیرہ سے  ہزاروں لاکھوں کروڑ روپئے کا قرض  وصولنے کی سکت نہیں رکھتے اُن سے اِس ’’مابعد جدید بے شرمی‘‘ کے سوا کسی خیر اور کسی اُپکار کی توقع نہیں کی جا سکتی !

 منموہن سنگھ کے اقتدار کے دس برسوں میں سرحد پر ہونے والی جھڑپوں میں 171 فوجی ہلاک ہوئے تھے جبکہ نقلی دیش بھکتی کا ڈھول پیٹنے والوں کے  صرف تین برسوں میں اب تک 721 جوان سرحد پر قربان ہو چکے ہیں !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔