ماحول جارحانہ انداز فاتحانہ

حفیظ نعمانی

ایک طرف یہ حالت کہ ہر ہاتھ میں کاغذی خنجر اور تلوار۔ ہر طرف نعرے کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔اور ایک طرف یہ ماحول کہ علم و ادب، طب و فن، غزل، کھیل،تعلیم، سماجی خدمات اور اپنے فن میںیکتا چاند ستاروں کا ہجوم اور ریاست کے سب سے بڑے اعزاز یش بھارتی کی تقسیم اور صرف ایک جواں سال اپنی شریک زندگی اور مستقبل کی اپنی نشانیوں کے ساتھ مسکراہٹ کے پھول ایسے برساتا ہوا جیسے صوبہ میں 22 کروڑ انسان سب خیریت سے ہیں اور آنے والے الیکشن میں ہر ووٹ میرا ہے۔

ہلکی سی جھلک دو تین بار ٹی وی پر دیکھی اور میرے جیسے آدمی کو جس نے 1952سے اب تک اپنے صوبہ کی ہر کروٹ کو دیکھا ہے، یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اکھلیش بابو کے اعصاب تانبے یا پیتل کے بھی نہیں، فولاد کے ہیں۔ وہ ہر چند جملوں کے بعد اپنے پتا ملائم سنگھ کا نام لینا نہیں بھولتے تھے جنھوں نے یش بھارتی اعزاز شروع کیا اور انتخاب میں وہ مہارت دکھائی کہ مردم شناسی کی انھیں سند دی گئی اور یہی بیٹے نے بھی دکھایا کہ اگر کسی کی ہمت ہو تو انگلی رکھ کر بتائے کہ وہ کون ہے جو اس اعزاز کا اہل نہیں تھا اور اسے ناتجربہ کار وزیر اعلیٰ نے نواز دیا؟

بیگم حامدہ حبیب اللہ ہوں جو ہماری بھی بزرگ ہیں ا ور نواب جعفر صاحب ہوں کہ ہم بھی ان کا ادب کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ چھ درجن منتخب حضرات و خواتین میں میرے لیے تو شا رب ردولوی اور صبیحہ انور کے ناموں کا شامل ہونا ایک ایسی نعمت ہے جس کا میں احسان نہ بھول سکوںگا۔ یہ دونوں ادیب ناقد،افسانہ نگار یا صرف دانش ور نہیں ہیں، بلکہ یہ وہ ہیں جنھوں نے نسلوں کی تربیت کی ہے۔ شارب نے برسوں دہلی میں اور اب برسوں سے لکھنؤ میں جتنے لڑکوں کڑکیوں کو علم و قلم کے زیوروں سے سجایا، میںان کا عینی شاہد ہوں۔ اور صبیحہ انور جسے میں چھوٹی بہن کی طرح چاہتا ہوں اس کی ایک روشن قندیل تو خود میری بیٹی اور دوسری بھتیجی ہے، جو میری کتاب پڑھ کر مبارک باد دینے سے پہلے ادب میں لپٹا ہوا اپنا غصہ بھیجتی ہیں کہ ہمارے باپ کو لکھنؤ میں پروف ریڈر نصیب نہیں ہوتا کہ کتاب میں املا کی 51 غلطیاں ہیں۔ اور میں آواز اپنی بیٹی کی سن رہا ہوتا ہوں اور آنکھوں میں صورت صبیحہ بی بی کی ہوتی ہے۔اور کتنوں سے سنا ہے کہ ہم سے کسی کے علم کا ذکر نہ کرو ہم نے صبیحہ انور سے پڑھا اور ان کا علم دیکھا ہے۔

شارب نے اردو کے سب سے خشک موضوع کو اپنایا۔ جدید تنقید سے تنقید ی عمل تک نہ جانے کتنے معرکے سر کئے۔ وہ جب بی اے آنرس کر رہے تھے اور میرے ساتھ رہتے تھے تو شعر بھی کہتے تھے۔ شعر، جس میں حسن بھی ہے ،عشق بھی ہے، لذت کام و دہن بھی ہے اور ہر دو چار دن کے بعد واہ وا سبحان اللہ اور مکرر ارشاد کا شور بھی ہے۔ اور جو شارب کی شکل و صورت ا ور سراپا پر سجتا بھی تھا۔ لیکن انھوں نے اس پر فضا وادی میں چہل قدمی کے بجائے فرہاد بننے کا فیصلہ کیا اور قلم کے بجائے تیشہ ہاتھ میں لے کر تنقید کی کوہ کنی میںجٹ گئے اور آخر کار ہر ایک سے اپنے کو عظیم ناقد کہوالیا۔

آج ان کے شاگرد، ان کا شاگرد ہونے پر اسی طرح فخر کرتے ہیں جیسے خود شارب اپنے کو احتشام حسین کا شاگرد ہونے پر فخر کرتے تھے۔ شارب نے اپنی محنت سے جو کچھ حاصل کیا مجھے ایک سب سے پرانے دوست ہونے کی وجہ سے اس پر فخر کا حق حاصل ہے کہ ان کی نظر کبھی پیسے کی طرف نہیں گئی اور انھوں نے علم فروشی نہیں کی۔ جس کا آخری باب وہ اب اس عمر میں شعاع فاطمہ کالج کے عنوان سے لکھ رہے ہیں اور بلا مبالغہ قرب و جوار کے کنکر پتھر جمع کرکے ان میں علم کے انجکشن لگا رہے ہیں اور انھیں پڑھنا بھی سکھا رہے ہیں اور لکھنا بھی۔ شارب اور صبیحہ بی بی سے پہلے ہمارے ہی ایک دوست انور جلال پوری کو مسٹر اکھلیش یادو یش بھارتی اعزاز سے نواز چکے ہیں۔ انور جلال پوری سے برسوں سے تعارف اور تعلق ہے۔ اور وہ بھی میرے جیسے کم علم سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن ہم دونوں کی رفاقت کی عمر بہت کم ہے۔ انھیں جب یش بھارتی اعزاز سے نوازا گیا تھا تو اسے گیتا کو اردو قالب میں ڈھالنے کا اعتراف سمجھا گیا تھا اور یہ خود ایک بہت بڑی بات ہے۔

بہرحال یہ اعتراف کرنا پڑ گیا کہ مسٹر اکھلیش یادو جواں سال وزیر اعلیٰ نے بھی اتنے نازک حالات میں بھی اس سب سے بڑے اعزاز سے نوازتے وقت یہ نہیں دیکھا کہ سیاسی دنیا میں ان میں سے کون ہے جو مجھے فائدہ پہنچا سکے۔ بیگم حامدہ حبیب اللہ اگر سیاست میں رہیں تو کانگریس میں۔ اور اب برسوں سے تو وہ کہیں بھی نہیں ہیں۔ جن دوستوں کا میں نے ذکر کیا سیاست سے ان دونوں نے بھی کبھی کوئی تعلق نہیں رکھا اور یہ اعزاز ہو یا کوئی دوسرا انھیں سیاست سے آلودہ کرنا بھی نہیں چاہیے۔

جس وقت یش بھارتی کے موتی برس رہے تھے اس وقت وزیر اعلیٰ کے پتا جی جنتا پارٹی اور جنتا دل کے پرانے اور روٹھے ہوئے ساتھیوں کو ہنوا کر کے لارہے تھے۔ شرد یادو، اجیت سنگھ، لالو یادو، نتیش کماراور تمام بی جے پی مخالف پارٹیوں کے لیڈروں کو ۵؍ نومبر کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر اورکانگریس کو بھی اس محاذ میں شامل کرکے بی جے پی کے خلاف باندھ بنانا چاہ رہے ہیں۔

اور ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر بھی الیکشن چار رُخا ہوجائے گا۔ مایاوتی اپنی دعویداری ختم کرنہیں سکتیں۔ اکھلیش بابو کو یقین ہے کہ میں نے اپنے حصہ کا جتنا کام تھا وہ کردیا اور جو نہیں ہوسکا اس میں میرا قصور نہیں ہے۔ اس کی ذمہ داری ان پر ہے جنھوں نے قدم قدم پر مجھے روکا وہ میرے والد بھی تھے ، میرے چچا بھی تھے اور دوسرے پرانے لیڈر بھی۔

اور شاید ان کے سامنے1966ء کی وہ تصویر ہے جس میں اندراگاندھی قوم سے کہہ رہی ہیں کہ میرے باپ نے تمہاری غریبی دور کرنے اور تمام پریشانیاں ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن یہ جو بوڑھے گدھ پارٹی کو دابے بیٹھے ہیں انھوں نے انھیں نہیں کرنے دیا۔ اب تم میرے ساتھ آؤ۔ اور پہلے دو تہائی قوم ساتھ آئی پھر ایک قسط اور آئی اور آخر میںسب یہ کہتے ہوئے آگئے کہ اب اندراگاندھی ہی کانگریس ہیں۔ اکھلیش بابو شاید 205 ممبران اسمبلی کے بل پر الیکشن میں اکیلے دم پر کودنے جارہے ہیں۔ ان کے چچا رام گوپال یادو اور چند دوسرے ان کے ساتھ ایسے ہی آئیںگے جیسے اندرا جی کے ساتھ فخر الدین علی احمد اور مسرا جی آئے تھے۔ اکھلیش بابو نے ا گر یہ فیصلہ کیا ہے تو انھیں زیادہ مایوس نہیں ہونا پڑے گا، ان کی آواز پر جتنے لوگ آئیںگے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، اس لیے کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ساڑھے چار برسوں میں ان کی حکومت پر تو داغ لگے ، ان کی ذات پر کوئی داغ نہیں ہے اور حکومت کے داغ اس لیے مشترک ہیں کہ اکھلیش برابر کہتے رہے کہ مجھے اکیلے حکومت نہیں چلانے دیتے۔شاید یش بھارتی اعزاز کی تقسیم وہ پہلا بڑا کام ہے جو اکیلے کیا اور جس کی ہر طرف تعریف کی جارہی ہے۔ بیگم صاحبہ ہوں ، شارب ہوں یا صبیحہ انور دولت ان کے لیے مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تینوں اگر ضرورت ہو تو اکھلیش کو اس سے زیادہ دے سکتے ہیں۔ ان کا مسئلہ اعتراف ہے اور وزیر اعلیٰ نے انھیں نواز کر اعتراف کیا ہے کہ ان کی ریاست ہیروں اور موتیوں سے بھری ہوئی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔