متحد ہو کے بدل ڈالو نظام گلشن

عبیدالکبیر

ان دنوں بھارت کے مختلف علاقوں میں ایک خاص ذہنیت کے لوگ اپنی شر پسندی کا طوفان برپا کرنے کی بھر ہور کوشش میں مصروف ہیں۔ بات چاہے گجرات کی ہو یا پھر یوپی مدھیہ پردیش اور  راجستھان کی تقریباً ہر جگہ کچھ ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں جن سے  بھارت کی قومی یکجہتی کو سخت دھچکا لگنے کا قوی اندیشہ ہے۔ ہندستان جیسا ملک جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے افراد صدیوں سے آباد ہیں اور ملک کے دستور نے اپنے ہر شہری کو اپنے دین دھرم اور تہذیب وثقافت کے ساتھ بود وباش کی مکمل آزادی بخشی  ہے ایسے واقعات کا رونما ہونا ملک کے سیکولر چہرے پر ایک داغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت کی اندورونی سیاست کا یہ عجیب المیہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک یہاں جن لوگوں کو لیڈر کی حیثیت حاصل ہوتی رہی ان کی فکر وعمل پرنظر ہمیشہ اپنی پارٹی کے مفادات حاوی رہے۔ ووٹ بینک کا تحفظ اور اس کے لئے کسی بھی انتہا کو لانگنا ہمارے سیاسی لیڈروں کی خصوصیات کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔  عام طور پر یہاں جو سرکردہ سیاسی شخصیات جنم لیتی رہی ہیں ان میں یہ بات قدر مشترک کے طور پر دیکھنے میں آتی ہے کہ ہر ایک لیڈر جسے عوام نے اپنے زمانے کے مسائل کا حل سمجھا وہی زمانہ ما بعد میں بہت سے مسائل کی جڑ قرار پایا۔ ہمارے یہاں ایسے سیاست داں بھی پائے جاتے ہیں جو مختلف مقدمات میں ماخوذ ہیں ۔ اس ضمن میں ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے  کہ جہاں سرکاری عہدوں پر کسی کے انتخاب کے لئے کوئی نپا تلا معیار نہ ہو وہاں جب کسی کو  اقتدار کی کرسی پر عوام کے ووٹوں کی مدد سے پارٹی کی اعلی قیادت فائز کردے تو قانو ن کے ہمہ گیر تقاضوں اور پارٹی کے محدود مفادات میں ایک گونہ ٹکراؤ کا پایاجاناکوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ بھارت کی مو جوہ صورت جس پر حال امریکہ نے بھی اپنی تشویش ظاہر کی ہے یقیناً ہماری قومی سیاست کا ایک المیہ ہے۔  اس موقعہ پر ملک سے محبت رکھنے والے ہر فرد اور جماعت کو ملک کےآئین کا احترام کرتے ہوئے بقائے باہم کی فضا کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ سچ ہے کہ ملک میں گائے کے نام پر یا اسی جیسے دوسرے غیر ضروری امور کا ہوا کھڑا کر کے عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے  مگر عوام کو اپنے عقل وشعور سے کام لے کر ہر قسم کی گندی سیاست سے اپنی حفاظت کرنی چاہئے۔  اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسی تدبیریں جو بلا شبہ ایک منظم سازش کے تحت اپنائی جا رہی ہیں ان کے ذریعہ  فرقہ پرست ذہن رکھنے والے لوگ اپنی سیاسی روٹیاں سیکنے کی پوری کوشش کریں گے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا مجموعی نقصان ہر ہندستانی کو جھیلنا پڑے گا۔ اس لئے کہ جن لوگوں کے پاس اپنی رعایا کو آپس میں لڑانے کے سوا ترقی کا کوئی منشور نہ بچا ہو وہ بھلا بھارت کے دستور کو کیا اہمیت دے سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ان پر اعتماد کرنا یا ان سے اپنی توقعات وابستہ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ اور نہیں۔  حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور آتی جاتی رہیں گی مگر ایک عام آدمی کے لئے پر امن فضا کی معنویت یقیناً زیادہ ہے۔ اگر عوام ہمہ وقت کی خانہ جنگی کے سائے میں زندگی گذار نے پہ مجبور ہوں تو  محض کاغذی حقوق کا ورد مفید نہ ہو گا۔ کسی قانون کی افادیت اسی وقت ظاہر ہوگی جب اس کے نفاذ کی مخلصانہ کوشش کی جائے اور اس کی خلاف ورزی پر مناسب تعذیر کا بند وبست موجود ہو مگر جب قانون کو بالائے طاق رکھ کر محض جذبات کی سیاست ہونے لگے تو عوام کو اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ آج کے حالات میں ہمیں ان حساس مسائل کے تئیں بہت سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک کسی بھی ایک فرقے کی جاگیر نہیں ہے۔ ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ مذہبی انتہا پسندی کی آڑ میں جو لوگ ملک کا قبلہ بدلنا چاہتے ہیں ان کی پالیساں خود انہی کے ہم قوم افراد کے لئے مضر ثابت ہو سکتی ہیں۔  کیونکہ اس ذہنیت  میں طبقاتی نظام کاجو  خاکہ ہے وہ مساوات اور عدل اجتماعی کے قیام  کے لئے سد راہ ثابت ہو گا۔ ہمارے ملک میں آئے دن دلتوں کے ساتھ جس قسم کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے اس سے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ جس اسٹیٹ کا سارا کاروبار ہی ایسی فکر کے تحت چلنے لگے گا تو انجام کیا ہو گا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں دستور کی بالا دستی کو یقینی بنایا جائے اور فرقہ وارانہ کشمکش برپا کر کے ملک کو عدم استحکام کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے ۔ ان حالات کے پیش نظر  ملک میں بسنے والی مظلوم اقلیتوں کو متحد ہو نا چاہئے۔ ہمارے ملک کا ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ یہاں اقلیتوں کو محض ووٹ بینک کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ملک کی نامی گرامی سیاسی پارٹیا ں بس الیکشن کے موقعوں پر دلت مسلم اور عیسائی اقلیت کو وعدوں کے ذریعہ گمراہ کرتی رہی ہیں جبکہ عدل وانصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ان مظلوموں کو ان کے حقوق دیکر ملک کے وسیع تر مفاد کو یقینی بنایا جاتا۔ ان دنوں یو پی میں الیکشن کی فضا تیار کی جا رہی ہے  اور تمام سیاسی پارٹیاں  اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق رائے دہندگان کو اپنی جانب کھینچنے کی جاں توڑ کوشش کر نے میں لگی ہوئی ہیں۔ الیکشن میں جیت کس پارٹی کی ہوگی اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم رائے دہندگان کو بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے۔ یوپی کے گذشتہ انتخابات میں جو حکومت بنی تھی وہ  ریاست کو فرقہ وارانہ فسادات سے بچانے  میں ناکام ثابت ہوئی  جس کی زندہ مثال مظفر نگر کا  ہولناک فساد ہے۔  حکومتیں عوام کے ووٹوں سے اسی لئے قائم کی جاتی ہیں تاکہ عوام کو امن وامان نصیب ہو اور نظم ونسق میں برہمی پیدا نہ ہو لہذا جو حکومت اس اہم محاذ پر ناکام ثابت ہو چکی ہو اس کے تئیں رویہ پر نظر ثانی ہونی چاہئے۔ اس حوالے سے ایک بات بڑی اہمیت کی حامل یہ ہے کہ عموماً لوگ خود کو اقلیت شمار کرکے اکثریتی طبقے کے ساتھ مصالحت کی راہ اختیار کرتے ہیں اور اقلیتوں کی اس تقسیم کا راست فائدہ بسا اوقات دوسرے لوگوں کو ہو جاتا ہے  جبکہ اگر دیکھا جائے تو یہاں کی مظلوم اقلیتیں اگر متحد ہو کر کوئی ایک پلیٹ فارم بنائیں تو وہ سیاسی طور پر ایک اچھی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ بھارت میں جو نظام رائج ہے اس میں کامیابی کے لئے حقیقی معنوں میں اکثریت  کا منتخب کردہ ہونا لازمی نہیں ہے بلکہ یہاں جب کوئی  امیدوار نسبتاً زیادہ ووٹ حاصل کرلےتو وہی کامیاب قرا ر پائے گا۔ اسی لئے  کچھ  سیاسی پارٹیاں ہمیشہ اقلیتوں کی تقسیم کا راستہ اختیار کرتی ہیں تاکہ ان کے امید وار خواہ  وہ جمہور کی پسند نہ ہوں مگر وہ نسبتاً زیادہ ووٹ حا صل کرسکیں۔ یہ مندر مسجد اور گائے کے جھگڑے آخر اسی کا تو شاخسانہ ہیں ہماری سادہ لوح عوام کو اس خاص نکتہ پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔