مجلسِ اتحاد المسلمین: ایک نظر میں!

مجلسِ اتحاد المسلمین کی بنیاد 1927 میں  پڑی، اس کے بانی محمود نواز خان تھے، اس کا ہیڈ کوارٹر، دارالسلام حیدرآباد ہے، اس کے تحت روزنامہ اردو اخبار -اعتماد- شائع ہوتا ہے، آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین (Aimim) کا نام سلطان صلاح الدین اویسی نے رکھا، جو کہ اسد الدین اویسی کے والد تھے، 6 بار ممبر آف پارلیمنٹ چنے گئے، حیدرآباد کے اسمبلی الیکشن 1983 ء میں  انهیں  64.5 فیصد ووٹ ملے تھے، جب کہ 1998 کے ایم پی الیکشن میں  44.65 فیصد ووٹ ملے، انهیں  ‘سالار ملت’ کے خطاب سے نوازا گیا، سیاسی میدان میں  قدم رکھنے کے بعد سے اس پارٹی نے کبهی پیچھے مڑ کر نہیں  دیکھا، سلطان صلاح الدین اویسی نے اپنے علاقے میں  مسلمانوں  کی فلاح و بہبود کے لئے بے شمار کام کئے، انہوں  نے انجینئرنگ کالج، میڈیکل کالج، فارمیسی، ڈگری کالج اور اسپتال قائم کئے جہاں  پر بہت ہی کم قیمتوں  میں  علاج ہوتا ہے۔

آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین کی آئیڈیا لوجی کی بنیاد مسلمانوں ، دلتوں ، اور پچهڑوں  کو تحفظ فراہم کرنا ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق یہ اسٹیٹ پارٹی ہے- اس کا چناؤ نشان ‘پتنگ’ ہے، پہلے مجلسِ اتحاد المسلمین کے نام سے تهی جو فلاح و بہبود کے لئے تهی، پهر بعد میں  یہ سیاسی پارٹی بنی اور صلاح الدین اویسی نے اس کا نام آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین رکھا، تلنگانہ اسمبلی کے الیکشن میں  اس پارٹی نے 20 میں  سے 7 سیٹوں  پر درج حاصل کی، مہاراشٹر کی اسمبلی الیکشن میں  24 میں  سے 2 سیٹوں  پر جیت حاصل کی، 2012 میں  اورنگ آباد مہاراشٹر کے کارپوریشن الیکشن میں  81 سیٹوں  میں  سے 11 سیٹوں  پر جیت حاصل کر کے دوسری سب سے بڑی پارٹی بنی۔

اسد الدین اویسی
1969 کو حیدرآباد میں  ولادت ہوئی، اسکولی تعلیم حیدرآباد پبلک اسکول سے، بی اے- عثمانیہ یونیورسٹی سے، Bachelor Of Law لندن سے، بیرسٹر ایٹ لاء (لنکن ان)، سے، اسد الدین اویسی پیشے سے وکیل ہیں۔
حیدرآباد سے ایم ایل اے ہوےء، اور 2004، 2009 اور 2014 میں  ایم پی ہوےء، انهیں  15 ویں  لوک سبها میں  اچهی کارکردگی کے نتیجے میں  2014 میں  "سنسد رتن ایوارڈ” سے بهی نوازا گیا۔

اکبر الدین اویسی
ولادت 1970 کو حیدرآباد میں  ہوئی، اسکولی تعلیم حاصل کرنے کے بعد MBBS میں  داخلہ لیا، مگر سیاست میں  آنے کی وجہ سے دو سال کے بعد تعلیم منقطع ہو گئی، ان کی شریکِ حیات شادی سے پہلے اسلام میں  داخل ہوئیں

مجلسِ اتحاد المسلمین کے کارنامے!
اس پارٹی کی بنیاد حیدرآباد میں  پڑی، تب سے لے کر اب تک اس پارٹی نے مسلم مفاد کے لئے ہمیشہ آواز اٹهائی ہے، سلطان صلاح الدین اویسی نے وہاں  کے مسلمانوں  کی فلاح و بہبود اور اعلیٰ تعلیم کے لئے کئی ادارے کھولے، انجینئرنگ کالج، میڈیکل کالج، فارمیسی، ڈگری کالج، ایم بی اے، بی سی اے کے لئے بهی ادارے کھولے، اردو زبان کی ترقی اور اس کے فروغ کے لئے انهوں  نے با رہا آواز اٹهائی ہے، اسی طرح کشمیر کا سیلاب ہو یا آسام کی تباہی، اتراکهنڈ کا حادثہ ہو یا اتر پردیش میں  سیلاب، ہر جگہ اس پارٹی نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر مدد کی بلکہ ریاستی اور صوبائی حکومتوں  سے اپیل بهی کہ عوام کی راحت رسانی کے لئے فوری اقدامات کریں۔ ہندوستانی مسلمانوں  کے مظالم پر ہر جگہ پہلی آواز اسد الدین ہی نے اٹهائی ہے، مسلم طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کا معاملہ ہو یا ان کو دی جانے والی اسکالرشپ، ہر معاملے کو انهوں  نے پارلیمنٹ میں  اٹھایا ہے، اگر میں  یہ کہوں  کہ اس وقت ہندوستان میں  دو شخصیات ایسی ہیں  جن کے پاس ہر سوالوں  کا جواب ہے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا، اسلامی تعلیم کے حوالے سے ڈاکٹر ذاکر نائک ہیں  اور سیاست کے حوالے سے اسد الدین اویسی ہیں – کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان میں  سواےء اسد الدین اویسی کے کوئی ایسا شخص ہے ہی نہیں  جو دلائل اور بیباکی سے اپنی بات کہتا ہو

شکوک و شبہات
اس پارٹی سے متعلق لوگوں  کے درمیان شکوک و شبہات بهی پاےء جاتے ہیں ، جس کے نتیجے میں  اسے بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنٹ بتاتے ہیں ، مگر قول و فعل سے کوئی یہ دعویٰ نہیں  کر سکتا کہ یہ پارٹی آر ایس ایس کی ایجنٹ ہے- مسلمانوں  کے حوالے سے اسد الدین اویسی کی کوششوں  پر شک نہیں  کیا جا سکتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں  کی فلاح کے لئے کوشاں  ہیں  اور یہی ان کا مشغلہ ہے- در اصل اس ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں  کے منشور میں  ہے کہ مسلم قیادت اور سیاسی طاقت قابلِ قبول نہیں  ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ مختار انصاری، عتیق انصاری، شہاب الدین وغیرہ اپنا سیاسی اثر رکھنے کے باوجود بھی جیل کی سلاخوں  کے پیچھے ہیں ، آدتیہ ناتھ یوگی کھلے عام اپنے جلسے میں  کہتا ہے کہ ایک ہندو لڑکی کے بدلے دس مسلم لڑکیوں  کو پکڑو اور ایک ہندو کے بدلے 10 مسلمانوں  کو مارو- مگر اس کے باوجود بھی وہ جیل کے باہر ہے- پروین توگڑیا، آدتیہ ناتھ یوگی، راجہ بھیا، وغیرہ جیسے گناہ گار جیل سے باہر ہیں۔  ان سب کے خلاف اگر کوئی کهل کر بات کرتا ہے تو وہ یہی ہیں – اسد الدین اویسی کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ ان کے قول و فعل میں  تضاد نہیں.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔