محمدﷺ نبوت سے پہلے

مولانا افتخارالحسن مظہری

دنیامیں جتنے انبیاء گذرے ہیں پیدائش کے وقت ہی سے ان کی ہمہ جہت نگہبانی کا خاص اہتمام اللہ کی مشیت نے کیا ہے ۔ ولادت کے معاً بعد موسیٰ علیہ السلام کو صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کی موجوں کے حوالہ کرنا، پھر ان کے دشمن جاں فرعون کے محل میں ان کی پرورش کا انتظام کرنا، ایسا ایمان افروز واقعہ ہے جس سے صاف طور پر عیاں ہوتاہے کہ اللہ کی مشیت و قدرت کی پاسبانی اور اس کی خاص عنایت ہر قدم پر ان کے ہم رکاب رہی ، اس لیے نامساعد حالات ان کی تربیت وپرداخت میں ذرہ برابربھی حارج نہیں ہوئے۔
آخری رسول حضرت محمدﷺ کے تعلق سے یہ بات مشہور زمانہ ہے کہ آپ ابھی رحم مادر ہی میں تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا پھر ابھی چار سال ہی کے ہوئے تھے کہ والدہ بھی وفات پاگئیں، اس عمر میں کوئی سرپرست نہ ہوتو حالات کی ستم ظریفیوں کے طفیل بچے کس طرح زیاں کاریوں کی راہ پر لگ جاتے ہیں اس کا کچھ اندازہ ہرذی شعور کو ہے ، لیکن محمدﷺ کی خدائی نگہبانی کا انداز بڑا ہی عظیم الشان تھا، ورنہ جس جاہلی دورمیں شرابنوشی وجہ افتخار وامتیاز سمجھی جاتی تھی ، قتل و غارت گری کو شان شجاعت تصورکیاجاتاتھا اور عصمت دری کو عہد شباب کا لازمی مشغلہ باور کیاجاتا تھا، اس دور میں سرپرستی سے محروم کو ئی بچہ حالات کے تیز و تند طوفان کے منجدھار میں رہ کر اس کے تھپیڑے کھائے بغیر کیسے رہ سکتاہے مگر مشیت خداوندی جسے اپنی عنایتوں کے گہوارے میں رکھے ، حالات اس کاکیابگاڑ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خودارشاد فرماتاہے۔
الم یجدک یتیما فآویٰ ووجدک ضالا فھدیٰ ووجدک عائلا فأغنیٰ۔
چنانچہ والد کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ نے دادا عبدالمطلب کو اور ان کے بعد چچا ابوطالب کو آپ کی سرپرستی کے لیے کھڑاکردیا۔
ابوطالب بھائیوں میں نہ سب سے بڑے تھے نہ مالدار و خوشحال، لیکن دیکھنے میں اچھے اور بھلے لگتے تھے۔ بہ ظاہر دیکھنے میں ایسا لگتاجیسے شرافتوں کا پیکر جمیل، عزم و ہمت کے بلند کہسار کی صورت، عظمتوں کے حصار میں ایستادہ ہے اور چہرے پر انسانیت و اخلاق کی تجلیاں باہم سرگوشی کررہی ہیں۔ اس لیے دادا نے عزیز ترین پوتے کو ان ہی کی سرپرستی میں دے دیااورجاتے جاتے تاکیدکردی کہ اپنی شفقت و محبت کے سائے سے اسے کبھی دور نہ کریں۔
ابوطالب نے بھتیجے کو اپنی سرپرستی میں پایا تو باغ باغ ہوگئے، جیسے کونین کی دولت ان کے ہاتھ آگئی ہو۔ یہ بھتیجا اپنے کچھ ذاتی اوصاف وکمالات کی وجہ سے بہت جلد ان کی آنکھوں کا تارا بن گیا ، انھوں نے اسے ٹوٹ ٹوٹ کے چاہا اور اتنا چاہاکہ اپنی اولادکو بھی پیچھے چھوڑدیا۔ مزید برآں اس کے کردار کی عظمتیں ان کے جذبۂ محبت کو فزوں تر کرتی رہی۔ اس کی ر است بازی، امانت و دیانت، عفت و طہارت اور حیا و شرافت کا جمال ان کی روحِ محبت کو اپنی جانب کھینچتا رہا کھینچتارہا تاآنکہ وہ اس کے اسیر بے دام ہوگئے۔ اب کیاتھاکوئی معاملہ ہوبھتیجے کی رائے ہی فیصلہ کی بنیاد ہوتی کیونکہ بارہا کا تجربہ شاہد تھاکہ اسی کی رائے حق و صواب سے ہم آہنگ اور اسی کی بات عدل و اعتدال سے ہم رشتہ ہوتی ہے۔ اس طرح موقعہ بہ موقعہ اس کی ہوشمندی کے آثار و شواہد روزروشن کی طرح درخشاں ہوتے گئے تو بڑے نازواعتماد کے ساتھ اس کو ساتھ لے کر ارباب حل و عقد شرفاء و رؤساء کی مجلس بست و کشاد میں بھی جانے لگے، وہاں اونچی ناک والوں کے ابرو کشیدہ ہوگئے، تیوریاں بل کھاگئیں کہ نویا باختلاف روایت بارہ سال کا چھوکرا جہاندیدہ اشیاخ کو عقل کی راہیں دکھائے، بھلا اس سے بڑی توہین اورکیا ہوگی۔ لیکن زیادہ دن نہیں گذرے کہ اس کے فکری افق کی وسعتوں کے آگے ان کے عقلی گھروندے تارعنکبوت کی طرح ٹوٹتے بکھرتے گئے اور انھیں اس کی عقلی رجاحت کے آگے خمیدہ سر ہونا پڑا۔
ابوطالب محمدﷺ کی شرافت و انسانیت کوتو پہلے ہی دل دے چکے تھے، اب اس کی دانائی کے آثار و برکات دیکھے تو کیفیت یہ ہوگئی کہ اس کے بغیر کوئی بھی چھوٹابڑا کام کرنے میں ان کو تردد ہونے لگا۔ شام کے تجارتی سفر کا موقعہ آیا تو سوچا محمدﷺ کو بھی ساتھ لے چلیں لیکن حد سے زیادہ محبت اندیشوں کے جال بننے لگی، سوچنے لگے محمدﷺ ابھی کم عمر ہیں اور سفر دور دراز کی مسافتوں کا ہے ، پرپیچ راستوں، سنگلاخ وادیوں ، تپتے ریگزاروں اور صحراء کے آتشیں بگولوں کا سامنا ایک بچے کے لیے بڑا تاب آزما ہوگا۔ مباداایک غنچۂ نودمیدہ خزاں کے شرربار ہاتھوں میں پہنچ کر اپنی تمام لطافتوں اوررعنائیوں کا مقبرہ بن جائے۔ اتنی سخت آزمائشوں کے روبرو کرنا آئین محبت کی خلاف ورزی ہوگی۔ لیکن اندرون سے دل آواز دے رہاتھاکہ ساتھ لے کر چلیں، وہ گومگو کی کشمکش میں ہچکولے کھاتے ہوئے سوچنے لگے اور معاملہ کے ہر پہلو پر غور کرنے لگے۔
یہ بات تو سچ ہے کہ محمدﷺ ابھی کچی عمر کے ہیں، اس عمر میں بچے اپنے گھر محلے اور بستی کے عام مشاغل لہوولعب کے سوا کسی دوسری چیز سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، نادانی ان کی تہذیبی نفسیات کا جزولاینفک ہوتی ہے ، اس لیے کسی ایسے کام میں ان کو شریک کرنا مناسب نہیں جس سے ذمہ داریوں کے شاخسانے پھوٹتے ہوں۔ لیکن کیا محمدﷺ بھی عام بچوں کی طرح ہیں، کچی عمرمیں ہی ان کے عقلی بلوغ وکمال کی متعددشہادتیں سامنے آچکی ہیں۔ پیچیدہ سے پیچیدہ نزاعی معاملات کی گتھیاں انھوں نے چٹکی بجاتے سلجھادی ہیں، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بالی عمر کے البیلے لڑکے مصائب کی کوہ پیمائیوں سے بہت جلد گھبرا اٹھتے ہیں، لیکن ماں باپ دونوں سے یتیم محمدﷺ کی بات تو سب سے نرالی ہے ۔ انھوں نے تو سینہ پر تیر کھاکھا کے دوسروں کو مسکرانے کی ادا سکھائی ہے ۔ زندگی کی تلخیوں کے گھونٹ شہد کے میٹھے گھول کی طرح پی گئے ہیں۔ شدید ترین دشواریوں میں بھی ان کے لب پر کبھی کوئی حرف شکایت نہ آیا، کسی نے ان کی زبان سے یتیمی کا دکھڑاکبھی نہیں سنا، تنگیوں اور پریشانیوں نے ان کے گرد بہت گھیرے ڈالے لیکن ان کے چہرے پر کبھی اداسی کی پرچھائیاں نمودار نہیں ہوئیں۔ بارہادیکھاہے کہ جس عمر میں بچے کھلونوں کے لیے مچل مچل جاتے ہیں، اس عمرمیں انھوں نے ایک باشعور پر تمکنت شخصیت ہونے کے احساس کو زندگی بخشی ہے ۔ اس لیے صرف کم عمری کی وجہ سے ان کو ساتھ نہ لے جانا کوتاہ بینی ہوگی، آخرش طے کرلیاکہ ان کوساتھ لے کر سفرپہ جائیں گے۔
سفرشام کا مقررہ دن آگیا، لوگ اپنا اپنا سامان تجارت لے کر آگئے، تیاریاں مکمل ہوگئیں توقافلہ روانہ ہوا۔ یہ پہلا موقعہ تھاجب اس قافلہ میں ایک نویابارہ سال کا لڑکا بھی شامل تھا۔ مختلف مقامات سے ہوتاہوا قافلہ جانب منزل سرگرم سفر رہا، لوگ باہم باتیں کرتے سفر کی کلفتوں کا بوجھ ہلکاکرتے رہے ، لیکن وہ لڑکا اپنے من میں ڈوبا ہواسراپا خموش مناظرقدرت کوتدبر اور تفحص کی نگاہ سے دیکھتااور ان سے ہدایت کی تجلیاں اخذ کرنے کی کوشش کرتارہا، وہ دورانِ سفر پورے طور پر خاموش رہا لیکن اس کی خاموشی فکر کی بلاغت سے معمور اورگفتگو کی معنویت سے لبریز تھی۔ ایسا لگتاجیسے وہ عالم کون و مکان کی حقیقت کا جویائے راز ہو اور سراپا طلب و جستجو بن گیا ہو۔
چلتے چلتے قافلہ شام کی سرحد میں دا خل ہوگیا، شام میں شہر بصرہ کے کنارے آبادی سے کچھ دور ایک خانقاہ تھی جس میں کئی نسلوں سے عیسائی راہب رہاکرتے تھے، ایک راہب کے بعد دوسرے راہب کی طرف اس کی تولیت یا ملکیت منتقل ہوجاتی تھی ۔ اس میں عیسائی مذہب کے کچھ تبرکات و آثارتھے، ان ہی میں ایک مخطوطہ بھی تھا جس میں یہ پیشین گوئی درج تھی کہ عرب میں آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے ۔ جو راہب اس وقت خانقاہ کا متولی تھا ، اس کا نام بحیریٰ تھا۔ اس کو اس بات کا اندازہ اور یقین ساتھا کہ مخطوطہ میں آخری نبی کے آنے کی جو پیشین گوئی درج ہے اس کا زمانہ آچکا ہے اس لیے اس کی بے تاب تمنائیں حالات و واقعات کی پرتوں کی ادھیڑبن میں حدسے کچھ زیادہ ہی دلچسپی لیتی تھیں۔ وہ خانقاہ میں بیٹھ کر تاجران قریش کے آنے والے قافلے کو بغور دیکھاکرتاتھا۔ جو دستور کے مطابق خانقاہ کے قریب ہی ایک سایہ دار درخت کے نیچے فروکش ہوتاتھا۔ اس بار آنے والے قافلے کے ساتھ اس نے ایک عجوبہ دیکھا۔
دیکھاکہ ایک پارۂ ابر ان کے سروں پر سایہ فگن ساتھ ساتھ چل رہاہے۔ جہاں وہ رکتے ہیں وہ بھی وہیں رک جاتاہے اور جب چلتے ہیں تو ان کواپنے سایہ میں لیے ہوئے وہ بھی چلنے لگتا ہے۔ قافلہ آکے دستور کے مطابق اسی درخت کے نیچے فروکش ہوگیا جس کے نیچے ہمیشہ وہ فروکش ہواکرتے تھے۔ بحیریٰ نے دیکھاکہ جب انھوں نے وہاں پڑاؤڈالا تو درخت نے اپنی شاخیں جھکالیں اور ان کو اپنی چھاؤں کی ٹھنڈی گودمیں لے لیا، اب ان پر دوہراسایہ تھا، ایک درخت کا اور دوسرے اس پارۂ ابرکا۔
بحیریٰ یہ دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا ، اسے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ لگی کہ قافلے میں کوئی عظیم روحانی ہستی موجود ہے ، مخطوطہ میں درج پیشین گوئی اس کے ذہن میں آئی ، تو اس کے دل میں ایک لہر سی اٹھی اور آواز آئی کہ آنے والا سید اولین و آخرین آچکا ہے اور اسی قافلہ میں موجود ہے ۔ وہ ان سے ملنے کے بہانے ڈھونڈھنے لگا۔ کچھ ہی دنوں پہلے خانقاہ میں اس نے سامانِ خوردونوش کا ذخیرہ کیاتھا سوچا سب کو کھانے پر مدعو کیا جائے، کھانا تیار ہوگیا تو کہلا بھیجا کہ خانقاہ کی طرف سے تمام لوگوں کی دعوت ہے ، چھوٹابڑا، غلام، جوان بوڑھا، کوئی چھوٹنے نہ پائے ، سب لوگ شریک دعوت ہوں۔ قافلے والوں کے لیے یہ دعوت چونکہ ایک نادر اور نیا واقعہ تھا۔ اس لیے سب سوچنے لگے کہ آخراس دعوت کا راز کیا ہے ، ہم یہاں مدتوں سے آرہے ہیں کبھی اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی، آخر اس مرتبہ یہ اہتمام کیوں کیاگیا، آخر ایک نے پوچھ ہی لیا کہ کس مناسبت سے اس دعوت کا اہتمام کیاگیاہے۔ بحیریٰ نے کہا: آپ لوگ ہمارے جوار میں آآکے مدتوں سے قیام کرتے رہے ہیں اس لیے بہ تقاضائے انسانیت آپ ہمارے مہمان ہیں، ہم نے سوچا کہ آج مہمان نوازی کا فریضہ اداکردیں۔ اس لیے آپ میں سے کوئی چھوٹنے نہ پائے، سب لوگ شریک ہوں۔ خانقاہ میں دسترخوان بچھادیاگیا، بحیریٰ دروازہ پر بیٹھ گیا اور ہر آنے و الے کا چہرہ پڑھتا رہا، کسی میں عظمت کی کوئی ایسی نشانی اسے نظرنہ آئی جو اس عجوبہ کے وقوع سے مطابقت رکھتی ہو، اس نے بلند آواز سے کہا:
قافلے والو! شاید سب لوگ نہیں آئے، کوئی نہ کوئی ضرور چھوٹ گیا ہے۔
’’ہاں ہاں‘‘ قافلے والوں نے کہا۔’’ایک لڑکے کو سامان کی حفاظت کے لیے چھوڑدیاہے۔‘‘
’’ایسا نہیں ہونا چاہیے‘‘بحیریٰ نے کہا۔ ’’اس کو بھی ضرور بلالیں ، آخرایک آدمی گیا اور اس لڑکے کو لے کر آیا۔‘‘بحیریٰ نے دیکھا کہ جو بادل کا ٹکڑا انھیں چھاؤں کی ٹھنڈک پہنچارہاتھا، وہ اس لڑکے کے ساتھ ساتھ آرہا ہے اور آکے وہیں رک گیا۔ لڑکا خانقاہ کے اندر کھاناکھانے بیٹھا تو بحیریٰ ٹکٹکی باندھے اسے بڑی شیفتگی سے دیکھتارہا، اس کی حرکات و سکنات ، خدوخال، ڈیل و ڈول، انداز واطوار ہرچیز میں اس کو نبوت کی شان جمال خنداں نظرآئی۔ جب وہ کھانا کھاچکا تو بحیریٰ اس کے پاس گیا اور کہا:
’’تمہیں لات و عزیٰ کا واسطہ، میں چند باتوں کی و ضاحت چاہتاہوں ،۔‘‘
’’اگرلات وعزیٰ کا نام لیاتو میں ہرگز تم سے کوئی بات نہیں کروں گا۔‘‘ لڑکے نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے برملاکہا۔
’’نہیں نہیں، میں اللہ کے واسطے سے کچھ باتیں دریافت کرنا چاہتاہوں‘‘بحیریٰ نے کہا
’’اب جو پوچھنا ہوپوچھو۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
بحیریٰ نے لڑکے سے اس کے رہن سہن، عادات و اطوار، معمولات و مشاغل سے متعلق کچھ استفسارات کیے اور لڑکے نے وضاحت سے بلا تامل سب کے جوابات دئے۔ مخطوطہ میں مندرج تمام علامتیں لڑکے میں موجود تھیں بحیریٰ کو یقین ہوگیا کہ آسمانی پیشین گوئی کا مصداق کامل اس کی نگاہوں کے سامنے ہے ، لیکن اپنے یقین کی تقویت کے لیے اس کو مہرنبوت دیکھنے کی بھی خواہش تھی، اس نے لڑکے سے اس کی پشت دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، لڑکے نے اپنی عبااتاردی۔ کتاب میں دی ہوئی تفصیلات کے مطابق دونوں شانوں کے درمیان ٹھیک اسی جگہ وہ نشان (مہرنبوت) اس نے دیکھا جس جگہ کی نشاندہی کی گئی تھی۔ دونوں میں ابھی باتیں ہوہی رہی تھیں کہ ابوطالب آگئے اور لڑکے کو اپنے ہمراہ لے جانے لگے۔
بحیریٰ نے ان سے پوچھا:
’’اس لڑکے سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘
’’یہ میرا بیٹا ہے!‘‘ابوطالب نے کہا۔
’’یہ ہوہی نہیں سکتاکہ اس کا باپ زندہ ہو۔‘‘بحیریٰ نے کہا۔
’’یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے‘‘ابوطالب نے کہا۔
’’تو اس کے والد کہاں ہیں؟‘‘بحیریٰ نے پوچھا۔
’’یہ ابھی رحم مادر ہی میں تھاکہ ان کا انتقال ہوگیا۔ ‘‘ابوطالب نے کہا۔
’’یہ بالکل سچ ہے ۔ ‘‘بحیریٰ نے کہا ۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اس نے مزید کہا:
’’دیکھو تمہارا بھتیجا بڑی عظمت و شان کا مالک ہوگا، اس کا ستارۂ اقبال بہت بلند ہے، اس کی پیشانی میں عظمت وسروری کے نقوش درخشاں ہیں۔ اس کو یہودیوں سے بچا کے رکھنا ، اس کے بارے میں جو کچھ میں جانتاہوں اگر ان کو معلوم ہوگیاتو وہ اس کی جان کے درپے ہوجائیں گے۔ ابوطالب بھتیجے کو لے کر واپس گئے تو بحیریٰ سرگوشی کے انداز میں اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا، کہہ رہاتھا: دیکھومیرا خیال درست نکلا، بھلا بدلیاں کبھی کسی کو اپنی چھاؤں کی گود میں لے کر اس طرح چلی ہیں، درخت کی شاخوں نے اس طرح جھک کر کسی کو اپنی گھنی چھاؤں کا پیار بخشا ہے ، یہ تو معجزہ ہے۔ جو صرف نبی کے لیے مخصوص ہے۔ یہ لڑکا حقیقتاً آنے والا آخری نبی ہے۔ ابوطالب سفر سے لوٹ کے مکہ واپس آگئے، راہب نے محمدﷺ کی نسبت سے جوباتیں کہی تھیں ذہن میں گردش کرتی رہیں لیکن اہل وعیال کا بوجھ زیادہ تھا اور آمدنی کم اس لیے مالی ۔
پریشانیوں نے ذہن میں ان کے لیے کوئی جگہ نہ چھوڑی۔ وہ سب نسیاً منسا ہوگئیں۔ ایک دن کہا: محمدﷺ دیکھو حالات بہت دشوار ہوتے جارہے ہیں، گذربسرمشکل سے مشکل تر ہوتا جارہاہے، اگرخدیجہ کا سامانِ تجارت لے کر شام جاؤ اور وہاں بیچو تو خاصی بھلی اجرت مل سکتی ہے۔ اگر تم تیار ہوتو میں ان سے بات کر وں ۔
’’چچا آپ جیسا مناسب سمجھیں ، مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔‘‘ بھیتجے نے کہا۔
خدیجہ انتہائی شریف ایک باعزت خاتون تھیں، عرب کے معزز خانوادے بنواسد بن عبدالعزی بن قصی سے تعلق رکھتی تھیں جو محمدﷺ کے پردادا کے دادا تھے، بنومخزوم کے دو صاحب ثروت اغنیاء سے یکے بعد دیگرے ان کی شادی ہوئی تھی، دونوں وفات پاگئے اور اپنے پیچھے بیشمار دولت چھوڑکے گئے۔ ان میں زیرکی اور ہوشمندی زیادہ تھی، سوچاتجارت میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ دولت میں مسلسل اضافہ ہوتارہے۔ اسی لیے پھر شادی نہیں کی حالانکہ بڑے بڑے شرفاء قریش نے سلسلہ جنبانی کی لیکن کسی کو خاطرمیں نہ لائیں، انکار کردیا۔
ابوطالب بھتیجے کے لیے بات کرنے کے لیے جس وقت ان کے پاس پہنچے وہ کسی ایسے معتمد و امین شخص کی تلاش و جستجو میں سرگرداں تھیں جو شام کے بازاروں میں ان کا سامانِ تجارت لیجاکے فروخت کرسکے، اس لیے جب انھوں نے عرض کیاکہ محمدﷺ کو اپنے کام کے لیے اجرت پر رکھ لیں تو بہت خوش ہوئیں اور کہا:
ابوطالب اگرآپ کسی ناپسندیدہ و نامعقول شخص کی بابت بھی کوئی بات کہیں تو وہ عزت و احترام کے سر پر پھر ایک رشتہ دار اور معتمد و امین شخص کی نسبت سے کچھ کہیں تو وہ کیوں منظور خاطر نہ ہوگی۔
ابوطالب خوشی خوشی واپس آئے اور محمدﷺ کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے کہا : بھتیجے! سمجھویہ اللہ کا بھیجا ہوارزق تمہارے پاس آیاہے۔تاجرانِ قریش کا قافلہ روانگی کے لیے تیار ہوگیا اس میں محمدﷺ بھی شامل ہیں، خدیجہ نے اپنے غلام میسرہ کو بھی ان کے ہمر اہ کردیا، ان کے سب چچا ان کو رخصت کرنے کے لیے آئے ، ابوطالب پیش پیش تھے۔ سب نے دعائیں دیں اور کامیابی کی نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کیا اور میسرہ کو تاکید کردی کہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھے اور راستہ میں انھیں کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ چلتے چلتے قافلہ شام کے شہر بصرہ بخیروعافیت پہنچ گیا۔ سب لوگ خرید و فروخت میں مشغول ہوگئے ۔ محمدﷺ نے بھی امانت و دیانت اور صداقت و حق کوشی کے پورے التزام کے ساتھ لین دین شروع کیا۔ ایک منجھے ہوئے ہوشمند و مدبر سوداگر کی طرح انھوں نے اپنے سامان اس ترتیب و انداز سے بازار میں سجائے کہ جس کی نظر پڑے اس کے دل میں کھپ جائے، اس لیے اپنے سامان اچھے منافع سے بیچے اور جو سامان مکہ میں اچھے منافع پر فروخت ہوسکتے تھے اپنے کاروباری اندازے سے وہ سامان خریدے۔ کچھ کا مبادلہ بھی کیااور سب لے دے کر مکہ آئے تو دیکھ کے خدیجہ کی بانچھیں کھل آئیں۔ اتنا زیادہ منافع انھوں نے کبھی نہیں دیکھاتھا۔
ان تمام کاروباری مصروفیات کی گہما گہمی کے باوجود محمدﷺ کے ذاتی معمولات میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا، نصف شب کے بعد اٹھ جانا، خلوت گزیں ہوجانا، لوگوں کے حالات و اطوار اور دین و عقیدہ کے فرق و اختلاف کو عقل کی میزان پر تولنا اور کچھ دیر کے لیے مراقبہ کے عالم استغراق میں کھوسا جانا۔
ایک روز اسی طرح ایک درخت کے نیچے دنیا و مافیہا سے بے خبر محو مراقبہ تھے ، میسرہ کچھ ضروریات کی تکمیل کے لیے آمد و شد کے سلسلہ سے جڑا ہواتھا کہ قریب کی خانقاہ سے ایک راہب آدھمکا جس کا نام نسطور تھا ، چونکہ میسرہ بارباریہاں آتاجاتا رہتاتھا ، اس لیے اس سے اس کی کچھ بے تکلفی سی تھی۔ اس نے پوچھا میسرہ! تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟
’’یہ ایک قریشی نوجوان ہے ۔‘‘ میسرہ نے جواب دیا۔
ان نے ان کے ساتھ سفرمیں خاصے وقت گزارے ہیں ان کو کیساپایا؟ کچھ بتاؤ۔ راہب نے سوال کیا۔
میسرہ گویا ہوا: طہارت و پاکیزگی، امانت و دیانت، نرم خوئی ،حیا و شرافت اس کے نمایاں اوصاف ہیں۔ مزیدبرآں گھنٹوں گھنٹوں مراقبہ کے عالم میں ڈوب کر دنیا سے بے خبررہنا، دیکھئے وہ اس وقت اسی کیفیت استغراق میں ہیں، ان کی روح فضا کی وسعتوں میں سیرکرتی اور عبادت گزاروں جیسی تسبیحات کا زمزمہ بلندکرتی رہتی ہے۔
یہ سنا تو نسطور کااشتیاق اور زیادہ ہوگیا ، اس نے پوچھا کہ جب یہ کیفیت ہوتی ہے تو ان کی آنکھوں کا حال کیسا ہوتاہے، اس سوال پر میسرہ کچھ دہشت زدہ سا ہوگیا، اس کی آنکھیں پھیل گئیں ، بولا: آنکھیں خوب بڑی بڑی کشادہ، سیاہ و چمکدار ، سفیدی کے گرد ہلکی سرخی اس کو مزید پرکشش بنادیتی ہے ، پلکیں لمبی لمبی گھنی بالکل سیاہ۔
اب نسطور نے اپنا رخ محمدﷺ کی جانب موڑلیا اور کہاکہ میسرہ دیکھو درخت کے پاس بیٹھا ہوا یہ شخص جس کے سرپر بادل کا ٹکڑا سایہ فگن ہے ، یہ سایہ فگن بادل کا ٹکڑا اور وہ اوصاف جو تم نے ابھی اس کے بتائے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ کوئی اور نہیں، نبی ہے۔ پھر نسطور ان کے پاس پہنچ گیا اور ان سے پوچھنے لگا کہ آپ کی قوم کس دین کی پیرو ہے اس میں عبادت کے مراسم کس طرح ادا کیے جاتے ہیں، اس سوال کے ذریعہ دراصل وہ یہ جاننا چاہتاتھا کہ وہ اس دین کی پیروی کس حد تک کرتے ہیں اور اس کے مراسم عبادت کا کتنا احترام کرتے ہیں۔
لیکن اس سوال پر محمدﷺ کچھ ناگوار سے ہوگئے اور اپنی قوم کے دین و مذہب اور اس کے مراسم عبادت کے عیوب و نقائص اس طرح کھول کھول کے بیان کیے کہ اس کی دھجیاں بکھرگئیں۔ نسطور ے اپنی قوم کے دین سے ان کی برگشتگی دیکھی تو اپنے دین کی تبلیغ شروع کردی، محمدﷺ نے دینِ مسیح کی ان باتوں کو سراہا جو برحق تھیں اور جو باتیں برخودغلط تھیں ان کے بخئے ادھیڑ کے اس کے سامنے اس طرح رکھ دئے کہ اسے اپنی تبلیغ پر شرم محسوس ہونے لگی۔
شام کے بازاروں میں لین دین مکمل کرکے سوداگرانِ قریش کا قافلہ مکہ کے لیے واپس چلا۔ جب مرالظہران کے قریب پہنچا تو میسرہ نے محمد سے کہا: اتنا منافع آج تک کبھی نہیں ہوا، جتنا کہ آپ کے ہاتھوں ہوا ، اس لیے جلد ازجلد خدیجہ کو اس کی اطلاع بہم پہنچادیجئے، وہ انتظار کررہی ہوں گی؟ محمدﷺ ایک اونٹ پر سوار ہوئے اسے تیزدوڑایا تاکہ خدیجہ کے گھر جتنی جلد ممکن ہو پہنچ جائیں۔ خدیجہ معمول کے مطابق بالاخانہ پر بیٹھ کر ٹھنڈی ٹھنڈی شمالی ہوا کا لطف لے رہی تھیں انھوں نے دیکھا کہ ایک شترسوار تپتے ریگستان میں اونٹ کو تیزی سے دوڑاتاہوامکہ کی طرف آرہا ہے اور اس کے سروں پہ بادل کا ایک ٹکڑا سایہ کیے ہوئے اونٹ کی رفتار کے مطابق ساتھ ساتھ چل رہاہے، وہ گھورگھور کر اسے دیکھنے کی کوشش کرتی رہیں تاکہ اس کا کچھ حال معلوم ہوسکے، دیکھتے دیکھتے وہ آبادی کے قریب آگیا، معلوم ہواکہ وہ محمدﷺ ہیں۔ خدیجہ بالاخانہ سے اترکر دروازہ پر آگئیں، محمدﷺ وہاں پہنچے تو ان کا پرتپاک خیرمقدم کیا۔ محمدﷺ نے شام کے بازاروں میں اپنے سامان کے بدلے جو سامان خرید اتھا ، وہ ان کے سامنے رکھ دیا۔ سفر کا حال بیان کیا اور جو کاروبار کیاتھااس کی تفصیلات بتائیں۔ خدیجہ خاموشی سے سنتی رہیں، یہ سودے بڑے منافع بخش تھے۔ وہ اپنا نیا اثاثہ دوگنی قیمت پر بیچ سکتی تھیں، لیکن منافع سے زیادہ ان کو دلچسپی کا مرکز کاروبار کی تفصیل بتانے والے کی شخصیت تھی۔ محمدﷺ نے ایسی دھلی ہوئی زبان اور ایسے شائستہ انداز میں اپنی باتیں ان کے سامنے رکھیں کہ وہ مسحورہوگئیں۔ان(محمدﷺ) کی عمر اس وقت پچیس سال تھی، درمیانہ قد و قامت ، نفاست و نزاکت کا مظہر سر بڑا، شانے چوڑے چکلے، سراور داڑھی کے بال سیاہ اور گھنے، کسی قدر گھنگھریالے، درازی چہرے کی مناسبت سے موزوں، نکوآثار کشادہ پیشانی، آنکھیں بڑی، حلقۂ چشم فراخ، پلکیں دراز، ابروگھنے، کسی قدر خمیدہ، پتلیاں سیاہ یا ہلکی بھوری، ناک عقابی، دہن کشادہ ، ایک خوشنمائی اور محبوبیت کی شانِ کشش نمایاں ، فطری حسن و جمال کے علاوہ چہرے پر ایک جگمگاہٹ سی ہویدا تھی، یہ نورانیت یا جگمگاہٹ پیشانی اور آنکھوں میں زیادہ نمایاں تھی۔
خدیجہ کو اپنے بارے میں تو یہ یقین تھا کہ وہ اب بھی حسن و جمال میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں، لیکن ان کویہ بھی معلوم تھاکہ محمدﷺ عمرمیں ان سے پندرہ سال چھوٹے ہیں، کیا عمر میں اتنے تفاوت کے باوجود بھی وہ ان سے شادی کرنے پر رضامند ہوجائیں گے؟ وہ کاروباری تفصیلات بتاکر جیسے ہی وہاں سے رخصت ہوئے، نفیسہ نامی اپنی ایک سہیلی سے مشورہ کیا ، اس نے پیشکش کی کہ اگر چاہیں تو وہ ان سے اس سلسلہ میں بات کریں اور ممکن ہو تو شادی کرادیں۔ اسی دوران میسرہ آگیا اس نے اپنی مالکہ کو بتایاکہ محمدﷺ پر دھوپ کی تمازت کا کوئی اثرنہیں ہوا، اس نے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا کہ دو فرشتے دھوپ میں ان کے سر پر سایہ کرکے تمازت آفتاب سے ان کوبچار ہے ہیں، پھر راہب نے جو کچھ کہاتھا ، وہ بھی بتایا۔ یہ باتیں سنکروہ اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں، ان سے میسرہ کی ساری باتیں دہرائیں۔
انھوں نے کہا: خدیجہ! اگریہ سچ ہے تو محمدﷺ ہماری قوم کے نبی ہیں۔ یہ بات بہت دنوں سے میرے علم میں ہے کہ ایک نبی کی آمد متوقع ہے اور اب اس کا زمانہ آگیاہے۔ اس دوران نفیسہ محمدﷺ کے پاس آئیں اور کہا: محمد(ﷺ)!آخرکیاوجہ ہے کہ تم نے اب تک شادی نہیں کی؟
میرے پاس شادی کے وسائل نہیں ہیں۔ محمدﷺ نے جواب دیا۔
اگرشادی کے وسائل مہیا ہوجائیں اور ایسے ازدواجی تعلق کی پیشکش کی جائے جہاں حسن و جمال بھی ہو ، شرافت و کرامت بھی ہواور دولت و ثروت کی فراوانی و بہتات بھی، تب بھی تم شادی پہ رضامند نہ ہوگے۔
آخرکون ہے؟ محمدﷺ نے دریافت کیا۔
’’خدیجہ‘‘ نفیسہ نے جواب دیا۔
محمدﷺ کچھ ہکلا سے گئے، حالانکہ وہ ان کے اخلاق و شائستگی سے بہت متاثرتھے،ان کی دوراندیشی، وقار و متانت ، طورطریقے نے ان کے دل میں محبت و احترام کی جگہ بنالی تھی، لوگوں کی زبانی ان کے جواوصاف سنے وہ ہوبہوسچ پائے، لوگ ان کی شرافت و پاکبازی کی وجہ سے ان کو طاہرہ کے لقب سے یاد کرتے تھے، اس لیے آپ کے دل میں محبت کا ایک گوشہ پیدا ہوچکاتھا، لیکن آپ کو یہ بھی معلوم تھاکہ بڑے بڑے اغنیاء و رؤساء کی تمناؤں کو انھوں نے پیروں تلے کچل دیاتھا اس لیے یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ وہ شادی کے لیے ان کا انتخاب کیسے کرسکتی ہیں، انھوں نے نفیسہ سے کہا:
’’بھلاوہ مجھ سے شادی کرنے کے لیے کیسے آمادہ ہوں گی؟‘‘
’’یہ بات مجھ پر چھوڑدو۔‘‘نفیسہ نے جواب دیا۔
’’تو اپنی حد تک میں راضی ہوں‘‘ محمدﷺ نے فرمایا۔ 
نفیسہ یہ خوشخبری لے کر خدیجہ کے پاس گئیں توانھوں نے آپ کو بلوایا ۔ آپ آئے تو کہا:
مرے چچا کے فرزند! قرابتی تعلق کی بناپر مجھے آپ سے محبت ہے ، آپ ہر معاملہ میں میانہ روی اختیار کرتے ہیں، معتمد وامین ہیں، حسن اخلاق اور خوبئ کردار سے متصف ہیں، راستبازی اور صدق و امانت کی خوبیاں آپ میں پائی جاتی ہیں۔
اس کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو شادی کے لیے پیش کیا۔ دونوں میں طے ہوا کہ آپ اپنے چچا سے اور وہ اپنے چچا عمروبن اسد سے تذکرہ کریں گی۔
محمدﷺ نے آکے اپنے چچا ابوطالب کو بتایا، انھیں یقین نہیں آرہاتھالیکن بھتیجے کی راستبازی کی دھاک دل میں ایسی بیٹھی تھی کہ انکار کی مجال بھی نہیں تھی، صرف اتنا کہا: بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ وہ سیدۂ قریش جس نے صاحب جاہ ومنصب اور ارباب دولت و ثروت شرفاء کو حقارت سے ٹھکرادیا وہ تم جیسے مفلس و قلاش سے شادی کرنے پر کیسے آمادہ ہوگئیں۔ پھر کہا:
محمدﷺ!سنو۔ یہ سچ ہے کہ تمہارے پاس دولت نہیں ہے ، لیکن خاندانی شرف و عظمت کا تاج تمہارے سر پر ہے ، اس کا خیال رکھنا!
میں دولت کا بھوکا نہیں ہوں، محمدﷺ نے کہا۔ پھر ابوطالب اپنے بھائیوں کو لے کر عمروبن اسد اور عمروبن خویلد کے پاس گئے اور محمدﷺ کے لیے خدیجہ کا رشتہ مانگا۔ رشتہ طے ہوگیا، قرار پایاکہ محمدﷺ مہر کے طور پر خدیجہ کو بیس اونٹنیاں دیں گے۔
شادی کا مقررہ دن آیا، شادی ہوئی، محمدﷺ نے سو اونٹیاں مہرمیں دیں۔ اور سیدۂ قریش امینِ قریش کی زوجیت میں آگئیں۔
یہ ازدواجی زندگی بڑی بابرکت، خوشگوار اور کامیاب ثابت ہوئی۔ خدیجہ ایک ہوشمند خاتون تھیں، بہت زیرک ، آزمودہ کار اور نکو آثار و خوش خصال تھیں۔ شوہر کی مرضی بھانپ لیتیں اور صرف ان کی اطاعت گذار و فرمانبردار بن کے ہی نہیں رہیں بلکہ ان کے ارادوں اور منصوبوں کی تکمیل میں معاونت و مساندت کے ذریعہ ان کو تقویت پہنچانے کا سبب بنتی رہیں۔
زندگی اپنی منزلیں طے کرتی رواں دوں تھی کہ مکہ میں ایک عظیم تباہی رونما ہوئی۔ایک تباہ کن سیلاب جس نے مکہ کے اکثرمکانات ڈھادئے، یہاں تک کہ کعبہ کی دیواریں بھی محفوظ نہ رہ سکیں، ان میں بڑے بڑے شگاف پیداہوگئے، اہل مکہ کو اس کی اصلاح و مرمت کی فکرلاحق ہوئی، سوچنے لگے کہ پرانی عمار ت مسمار کردی جائے اور اس کی جگہ نئی عمارت کھڑی کی جائے، لیکن اس کو مسمار کرنے کی ہمت کون کرتا اور پھر اس کی تعمیر کی سعادت کس کو حاصل ہوتی، انھیں ڈرتھاکہ کعبہ کی دیواروں کو ڈھانے کا انجام بڑی بھیانک تباہی کی شکل میں سامنے آئے گا۔ لیکن اس کی جدید تعمیر بھی ناگزیر تھی کیونکہ دیواریں اتنی کمزور ہوچکی تھیں کہ کچھ نہیں کہاجاسکتاتھاکہ کب پورے طور پر زمیں بوس ہوجائیں، پھر تعمیر کے لیے مطلوبہ سامان بھی مہیا نہیں تھا، وہ سوچنے لگے کہ کیاکیاجائے، حسن اتفاق کہ لکڑیوں اور تعمیراتی سامانوں سے لدا ہوا ایک جہازمصر سے لے کر ایک رومی انجینئر حبشہ جارہاتھا، جدہ پہنچا تو سمندری طوفان میں ساحل سے ٹکراکر خشکی پر چڑھ گیا اور ٹوٹ پھوٹ گیا، رومی انجینئر جس کا نام باقوم تھا،اس نے تمام سامان جدہ کی بندرگاہ پر اتار لیے، مکہ والوں کو معلوم ہوا تو جدہ پہنچ کر ساری لکڑیاں اور تعمیراتی سامان خرید لیے اور تعمیر کے لیے اس رومی انجینئر کی خدمات حاصل کرلیں۔مکہ میں ان دنوں مصر کا ایک قبطی بھی رہتاتھا جس کا نام صلیح تھا وہ بہت ماہر بڑھئی تھا، رومی انجینئر کی مدد کے لیے اس کی خدمات بھی حاصل کرلی گئیں۔
تعمیر کا کام شروع کردیاگیا جب دیواریں اتنی اونچی ہوگئیں کہ حجراسود کو اس کے مقام پر رکھاجاسکے تو اس وقت تشدد آمیزاختلاف پھوٹ پڑا۔ہر قبیلہ چاہتاتھاکہ شرف و بزرگی کا یہ فخر اسے حاصل ہو، اختلاف اتنا بڑھا کہ کچھ لوگوں نے خون سے بھرے پیالے میں اپنے ہاتھ ڈبو کے قسم کھائی کہ یہ شرف و فضیلت ان ہی کا حق ہے ، وہ اسے حاصل کرکے ہی رہیں گے اور جو لوگ اس میں رکاوٹ ڈالیں گے ،تلواریں ان کا فیصلہ کریں گی۔ اس تشددآمیز بلکہ خونریز اختلاف کو دیکھ کر قریش کا ایک عمردراز بوڑھا ، ابوامیہ بن مغیرہ مخزومی کھڑا ہوا ، لوگ اس کو بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے اور اس کی کو ئی بات نظرانداز نہیں کرتے تھے، اس نے کہا:
اے لوگو! سیادت و بزرگی اور شرف و فضیلت کے معاملہ میں تمہارا کوئی حریف و ہمسر نہیں۔ تم سب لوگ یکساں طور پر دوسروں کے مقابلے میں برتر و بہتر ہو ۔ اس لیے باہم خونریزی کرکے اپنے درمیان شرف و شرافت کو داغدار مت کرو اور فیصلہ اس شخص پر چھوڑدو جو سب سے پہلے بابِ صفا سے کل حرم میں داخل ہو۔ سب نے بات مان لی۔ اختلافات کے شعلے ٹھنڈے ہوگئے، فضا خوشگوار ہوگئی، لوگ باب صفا کی طرف ٹکٹکی باندھے انتظار میں بیٹھ گئے، دوسرے دن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ سب سے پہلے جو شخص بابِ صفا سے حرم میں داخل ہوا وہ وہی خوبرو، خوشنما نوجوان تھاجس کو اعتماد و محبت کی وجہ سے لوگ امین کے لقب سے یاد کرتے تھے، جو کچھ دن غیر حاضر رہنے کے بعد ابھی ابھی مکہ واپس آئے تھے ۔ آپ پر نگاہ پڑی تو خود ہی بے ساختہ طور پر پکار اٹھے : واہ واہ اس کام کے لیے سب سے موزوں ومناسب شخص یہی ہیں، یہی الامین ہیں، ان کا فیصلہ ہمیں قبول ہے، جب لوگوں نے صورتِ حال کی وضاحت کی تو آپ نے فرمایا:
مجھے ایک چادر دو اور جب وہ مل گئی تو آپ نے اسے زمین پر بچھادیا اور حجراسود کو لے کر اس کے بیچ میں رکھ دیا ۔ اچھا اب ہر قبیلہ اس چادر کے کنارے کو تھام لے اور سب لوگ مل کر اس کو اوپر اٹھائیں۔ جب ان لوگوں نے ا س کو ٹھیک بلندی پر اٹھالیا تو آپ نے حجر اسود کو اٹھاکر اپنے ہاتھوں سے گوشے میں نصب کردیا۔ پھر تعمیر مکمل کردی گئی۔

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔