مدینۃ الرسول، بزبان محمد رسولؐ اللہ – قسط (2)

تحریر: محمد مسعود عبدہ                     ترتیب و تلخیص: عبدالعزیز 

حدود حرم مدینہ : حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کی حدود کو حرم قرار دیا۔ اس کیلئے دعا کی یا ان کے رہنے والوں کیلئے دعا کی۔ میں بھی مدینہ منورہ کے علاقہ (سنت ابراہیم علیہ السلام) کو حرم قرار دیتا ہوں۔ اور میرے حرم کی حدود پہاڑوں کے درمیان کی زمین کو حرم قرار دیتا ہوں، ان حدود میں شکار نہ کیا جائے اور سر سبز درختوں کو توڑا نہ جائے، لیکن جانوروں کیلئے اونٹ، بکریوں اور بھیڑوں کیلئے انھیں توڑ کر دینا جائز ہے۔
اتبین سے مراد شرتی اور غربی علاقہ میں واقع پہاڑ ہیں۔ علاوہ ازیں حمیٰ (چراگاہیں) جو مدینہ منورہ سے دس میل دور پر واقع ہیں۔ اس درمیان کے باغات اور جنگلات کو حرم قرار دیا گیا تھا۔ گو آج نہ وہ چراگاہ ہے، نہ ہی باغات لیکن وہ پہاڑ اب بھی موجود ہیں۔ اور انسانوں کی بستیاں انھیں حدود میں ہیں۔ حدود حرم میں ایک دوسرے سے جھگڑنا، اسلحہ لے کر چلنا، گالی دینا، گالی دینا سب حرام ہے۔ ظاہری صورتوں کے بدلنے سے حقیقت نہیں بدل جاتی ہے۔ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ’’حکم‘‘ ہے اور وہ ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔
غبار مدینہ: اور یاد رکھو ’’غبار المدینۃ شفار من الجذام‘‘ مدینہ منورہ کی غبار میں کوڑھ کیلئے شفا ہے۔ ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارث کے قبیلہ سے گزرے تو ان میں ایک شخص تپ محرقہ میں مبتلا تھا۔ انھوں نے عرض کیا۔ یا رسولؐ اللہ؛ ہمارے علاقہ میں اس بخار کا چلن ہوگیا ہے۔ فرمایا: مقام معیب تم سے کتنی دور ہے۔
عرض کیا: ہم سمجھے نہیں۔ آپ نے فرمایا: وہاں کی مٹی لو اور تم میں سے کوئی ایک اسے پانی میں گھول لے اور پھر یہ پڑھتے ہوئے ’’بسم اللہ تراب ارضنا، بربق بعضنا، لمریضنا باذن ربنا‘‘ اس کے جسم پر مَل دے، چنانچہ حکم کی تعمیل ہوئی اور مریض کو اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمادی۔
اس کے بعد مدتوں تک یہی عمل اصحاب سلف میں رہا اور سب کے سب شفا پاتے رہے۔ اسی طرح برص کی بیماری اور دوسری جلدی بیماریوں کیلئے اس مٹی کو تریاق پایا گیا اور آج بھی وہ گڑھا جہاں سے لوگ مٹی لیا کرتے تھے۔ اس کے آثار موجود ہیں۔
اسی طرح جب کسی کو گہرا زخم آجاتا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتا تو آپ ﷺمٹی اس پر لگاتے اور فرماتے : ’’تراب ارضنا، شفاء لقرحنا باذن ربنا‘‘۔ ’’ہماری زمین کی مٹی کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے زخموں کیلئے شفا بخش مرہم بنایا ہے‘‘۔
مدینہ منورہ کی عجوہ کھجور: اسی طرح کھجوروں میں عجوہ کھجور جو ایسی کھجور کا پھل ہیں جنھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے باغ میں اپنے مبارک ہاتھ سے بویا تھا۔ اس کھجور کے سات دانے سات دن کھانے والے پہ اگر آسیب ہو تو وہ دور ہوجاتا ہے اور آئندہ کبھی وہ ان اثرات سے متاثر نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ان فی عجوۃ العالیۃ شفاءٌ اوانھا تریاق اول البکرہ‘‘ عجوہ کھجوروں میں اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے۔ وہ سحر اور زہر دونوں کیلئے تریاق ہے۔ اور فرمایا: ’’الکماۃ من المن وماؤھا شفاء للعین والعجوۃ من الجنۃ ‘‘ کھمبی (ایک چھتری نما برسات کے دنوں میں پودا ہوتا ہے۔ اس کا پانی آنکھوں کیلئے شفائے کامل ہے اور عجوہ جنت کے پھلوں میں سے ایک پھل ہے۔ اسی قبیل کا ایک درخت بتیل کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا پھل اور اس کا رس، اس کا دھواں بھی صحت بخت تبرک ہے۔ اسی طرح مدینہ منورہ کے تمام درختوں کا پہلا موسمی پھل بے گنت امراض کیلئے شفا ہے۔ جنھیں وہاں کے مقامی لوگوں نے استعمال کیا۔ اور تجربوں کی روشنی میں اس کی تصدیق پائی اور پھر انھوں نے اسے آنے والی نسلوں کو ان کے فوائد سے آگاہ کیا۔
مدینہ منورہ کی فضیلت کی وجوہات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امامین نے اس طرح بیان فرمائی ہیں۔
۱) یہ وہ بستی ہے جس میں مکمل شفا اور صحت سراپا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور اس کی زمین کے ذروں کو شہداء کے اجسام مقدسہ کو محفوظ کرنے کا شرف حاصل کیا۔
۲) مدینہ منورہ وہ شہر ہے جس نے اقصائے عالم پہ تلوار سے نہیں بلکہ قرآن حکیم کے احکامات پر عمل کرنے کے بعد اپنے اخلاق اور تعلیم کے ذریعہ فتح کیا۔
۳) اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں اور ان فرشتوں کی صبح و مسا گزرگاہ جنھوں نے مجاہدین اسلام کی نصرت کی۔
۴) قیامت کے دن سب انسانوں سے زیادہ اعلیٰ صفات و کردار کے لوگ اسی مرکز دین قیم سے قیام کریں گے۔
۵) اسی زمین کے حصہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کردہ دو مسجدوں کا شرف حاصل ہے۔ مسجد قبا اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس سر زمین کی مٹی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ مومنہ اور مسلمہ ہے‘‘۔
مسجد نبویؐ میں عبادت کا ثواب: فرمایا: من صلی فی مسجدی ہٰذا اربعین صلاۃ کتب لہ براءۃ من النار۔ جس شخص نے میری مسجد میں چالیس نمازیں ادا کیں اسے جہنم کی آگ سے نجات مل گئی۔
اور جس شخص نے رمضان شریف کے روزے رکھے تو اسے ایک ہزار روزوں کا ثواب اسی طرح ایک نماز جمعہ کا ایک ہزار جمعہ کا ثواب! غرض یہ کہ جتنے بھی اعمال صالحہ انسان سے ہوسکتے ہیں مدینہ منورہ میں اسے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا، جس کا ذکر کیا گیا ہے۔
جو شخص مدینہ منورہ میں وفات پائے گا،میری شفاعت اس کیلئے مقدر ہوگئی۔
جو شخص قبر شریف کے پاس اور ستون المخلق کے پاس، منبر کے قریب، جنت البقیع، مسجد فتح میں ظہر کی نماز کے بعد چار دن دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائیں گے۔
مسجد قبا میں جو شخص دو رکعت نماز نفل ادا کرے گا، وہ عمرہ کے ثواب کا مستحق قرار دیا جائے گا۔فرمایا: ما بینی و منبری روضۃ من ریاض الجنہ و منبری علیٰ حوضی۔ میرے مقام استراحت اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے اس حوض پر واقع ہے جو مومنین کیلئے مخصوص ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی امت کے افراد کو اسی حوض سے پانی پلائیں گے، لہٰذا اس مقام پر زیادہ سے زیادہ نوافل ، تلاوت قرآن حکیم اور صلوٰۃ و سلام جتنا بھی زیادہ سے زیادہ ہوسکے پڑھنا چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو بھی میری مسجد میں داخل ہو، اسے چاہئے کہ حسنات آخرہ اور حسنات دنیا کا مقصود اپنے دل میں اسی طرح کرے جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کیا، ورنہ دنیا ہی کے مقصود سے اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اسے چاہئے کہ وہ ’اعمال حسنہ‘ کی مانگ کرے ۔ اسے چاہئے کہ وہ اپنے گناہوں سے استغفار کرے۔
آداب مسجد نبویؐ: اور مسجد میں داخل ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھے: بسم اللہ توکلت علی اللہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الکریم اللھم افتح لی ابواب رحمتک و مغفرتک۔ اللہ تعالیٰ کے نام اس پر توکل کرتے ہوئے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود پڑھتے ہوئے (مسجد میں داخل ہوتا ہوں) اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے! آمین ثم آمین۔ مسجد نبویؐ کے باب الرحمۃ یا باب جبریل سے داخل ہوں۔ (مسجد نبویؐ )کے ابواب کا نام ہے۔ قدمین شریفین کی طرف باب جبریل ہے اور دوسری مقابل سمت پہلا باب، باب الرحمہ کہلاتا ہے۔ سرجھکا ہوا، دل میں اپنے گناہوں کی ندامت موجزن ہو اور آنکھیں بار بار آنسوؤں سے وضو کر رہی ہوں۔ آواز بلند نہ ہونے پائے۔ شور یا اونچی آواز آج بھی اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ مکہ مکرمہ میں مقامات دعا میں تم پاگلوں کی طرح رو سکتے ہو۔ چلّا سکتے ہو۔ جو چاہے کرسکتے ہو! جس طرح چاہے اپنی التجائیں پیش کرسکتے ہو لیکن بارگاہ نبویؐ میں بڑے صبر و ضبط، ادب، دبی سی آواز ضروری ہے۔ ورنہ اگر آواز اونچی ہوگئی تو یاد رکھو ؛ تمام نیکیاں ضائع ہوجائیں گی۔ اب سب سے پہلے روضۃ الجنّہ میں دو رکعت نماز (تحیۃ المسجد) پڑھئے۔ یہی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ جذبات کو قابو میں رکھو اور بارگاہ نبویؐ میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد اور روؤ اور التجا کرو۔ معافی مانگو اور اب اٹھو اور مواجہہ شریف کی طرف دست بستہ، بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم میں سلام ودرود عرض کرو۔ بھرائی ہوئی آواز ہو۔ دھڑکتا دل ہو۔ اور جو دل میں آئے کہو۔ لیکن حد شریعت اور ادب کا پاس رکھ کر۔ اب بائیں طرف رقیق غار، ہم سفر ہجرت اور عزیز ترین معاون نبوت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں سلام عرض کرو۔ ان کی خدمات، ان کے احسانات کا اعتراف کرو۔ اس کے بعد عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں سلام عرض کرو۔ ان کی خدمات، ان کے اسلام کے استحکام اور فتوحات کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات اور ان کی اتباع میں اپنی جرأت کو استعمال کرنے پر ان کو خراج تحسین پیش کرو۔ یہاں کھڑے یہ خیال رہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں صدیوں سے ہر لمحہ، ہر پل، ہر ساعت، دنیا کے کونے کونے سے نہ جانے کتنے متقی، مومن، مومنات، صالح، اولیاء، اصفیاء، علماء اور نہ جانے کتنے نفوسِ مقدہ کے درود و سلام اور اعمال کو پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔
مدینہ منورہ کی خاک پاک کا ہر ذرہ قابل صد احترام ہے۔ یہاں کے محلے، گلیاں، فضائیں، ہوائیں آج بھی اپنے سینوں میں صحابہ کرامؓ، اہل بیتؓ، شہداء، غازی، مجاہد، متقی، صالح، اصحاب سلف کے ایمان افروز سانسوں کی خوشبو سمیٹے ہوئے ہیں۔ مدینہ منورہ اس ذات والی صفات کا مقام آرام گاہ ہے جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ نسل آدم کی پیشانی پہ عزت و تکریم کا درخشندہ اعزاز اولاد آدم کے ناموں میں سب سے ممیز، سب سے مکرم، سب سے معزز، سب سے پہلا اور سب سے آخری وہ نام جسے اللہ کے بعد تمام اعلیٰ اعزاز حاصل ہیں۔ وہ نام جس کی نسبت سے اولادم آدم کی تمام تر معصیت، نافرمانیوں، گناہوں اور بداعمالیوں پہ جلال الٰہی کی نگاہ عفو و درگزر میں بدل جاتی ہے۔ وہ اسم عظیم جو ایسے علم کا مظہر ہے جو انسان کی گمراہ عقل کو زندگی اور موت کی ’’حقیقت‘‘ کا آئینہ دکھاکر اسے فراق وصال کے سفر کے اصل مقصد کی خبر دیتا ہے۔ اپنے زور بیان کے شور سے نہیں بلکہ اپنے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کی نرم اور محبت بھری آواز میں کہتا ہے۔ رنگ و بوکے دھوکوں میں مبتلا، آوارہ وادیوں کے اندھیروں میں بھٹکنے والے انسان؛ تو وارث نہیں تو حرف غلط نہیں۔ تیرا مالک بلا شرکت غیرتے بڑا عظیم ہے۔ وہ تیرا خالق ہے۔ وہ تیرا رازق ہے۔ جہالت نے تمہیں رسوا کن زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ انھیں توڑ پھینک۔ تونے اپنے مالک سے تعلق توڑ کر احسان فراموشی اور عہد شکنی کے ذلیل کن طوق اپنے گلے میں ڈال رکھے ہیں۔ انھیں اتار پھینک۔ تیرا لباس عزت ہے۔ شرف ہے، تکریم ہے۔ اپنی عزت کا احساس کر۔ کائنات کی ہر چیز تیرے مالک نے تیری خادم بنائی ہے۔ یہ چان، ستارے، زمین میں مدفون خزانے، فضاؤں میں برقی قوتیں، ثوابت و سیارے سب تیرے خادم، تو اشرف المخلوقات۔ لیکن اس شرف کے بقا اور ارتقاء کا انحصار صرف اور صرف اس نام کے مالک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت میں مضمر ہے۔
(باقی)

تبصرے بند ہیں۔