مدینۃ الرسول، بزبان محمد رسولؐ اللہ

تحریر: محمد مسعود عبدہ ۔۔۔ ترتیب و تلخیص: عبدالعزیز
قوسین میں تعارف کے تمام الفاظ کتب احادیث سے منتخب کرکے براہ راست آپ کی طرف منتقل کئے جا رہے ہیں، جس طرح رب السمٰوات والارض کی الوہیت اول و آخر ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تا قیامت زمان و مکان کی تمام حدود سے بالا زندہ و تابندہ ہے۔ وقت کو صدیوں کے نام سے پکارا جائے یا سالوں اور مہینوں کے نام سے۔ بحوالہ رسالت اس کی کوئی اہمیت نہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین مبارک سے جس لفظ یا جملے کو زندگی نصیب ہوئی وہ تا قیامت زندہ ہے، گویا ہے، توانا ہے۔ زمین و آسمان کی وسعتیں اس کی محافظ ہیں۔ بسیط فضاؤں میں آوازوں کو محفوظ کرنے والی لہریں انہی مقدس آوازوں کی ا مین ہیں۔افضل البشر علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہر خطاب براہ راست ہردور، ہر مقام اور ہر نسل کے انسان کے ضمیر سے ہے۔ روح سے ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ جن کے ضمیر دنیا کی خواہشوں کے طلسمی سمندر میں غرق ہوچکے ہیں یا جن کی روحیں بدن کی آسائشوں اور لذتوں میں مقفل ہوچکی ہیں وہ نہ انھیں سن سکتے ہیں نہ ہی ان کی حلاوتوں، برکتوں اور سکون بخش اثرات سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔
ارشادات: ’’میرے جسد میں استعمال ہونے والی خاک کو اسی شہر نور (مدینہ) کی خاک کا وہ حصہ ہونے کا شرف حاصل ہے جہاں میری آخری آرام گاہ ہے‘‘ علیہ التحیۃ والسلام
یہ میرے اللہ کی سچائی کا ثبوت ہے۔ ’’وَمِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْہَا نُعِیْدُکُمْ ‘‘ ہم نے تمہیں (مٹی) سے پیدا کیا ہے اور اسی میں تمہیں لوٹادیں گے! یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اصول غیر متبدل ہے کہ جب کسی کو اس کی مقررہ سر زمین پیدائش میں مقام مدفن پہ لے جانا ہو، تو اس کیلئے ایسے اسباب مہیا کر دیتے ہیں کہ وہ انجانے طور پر وہیں منتقل ہوجاتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ کا یہ ضابطہ اس بات کا گواہ ہے کہ میرے لباس بشریت کو میری آرام گاہ کی خاک سے ہی مزین کیا گیا اور مکہ سے ہجرت کے بعد اسی شہر کو میرا دارلہجرت ہے، فرمایا:’’ میرے دارالہجرت، میرے حرم، میرے شہر جس کیلئے میں نے دعا مانگی، اے اللہ مدینہ (منورہ) کی محبت کو ہمارے دلوں میں فزوں تر فرما۔ مکہ معظمہ کی محبت سے بھی زیادہ‘‘۔ مدینہ منورہ کو میری اس دعاکی برکتوں کا بھی فیض حاصل ہو‘‘۔
’’اے اللہ ! حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے نبی اور بڑے مخلص ترین دوست تھے۔ انھوں نے شہر مکہ کیلئے تم سے دعا فرمائی اور آپ نے قبول کی۔ یا اللہ میں تیرا نبی، تیرا رسول، تیرا بندہ اہل مدینہ کیلئے دعا گو ہوں۔ اے اللہ ان کی زندگی کو اپنے بے پایاں انعامات و برکات سے نواز۔ ان کے ناپ تول کے پیمانے مُد میں (لغات میں اس لفظ کا ایک اور مفہوم بھی ہے جس کا مقصد ہے) ان کی زندگی کے مقررہ ایام میں اور ان کے ناپ تول کے پیمانے صاع (اس کے دوسرے معنی ہیں کوششوں کا مقصد) میں برکت عطا فرما۔ اور ان کے تھوڑے یا زیادہ اعمال کو خیر سے بھرپور فرما دے۔ آمین ثم آمین!
میری اس دعا کی مقبولیت کا شرف اس شہر کو حاصل ہے۔ میں نے اپنے اللہ سے دعا کی۔ ’’اور جتنی برکتوں سے تو نے اہل مکہ کو نوازا۔ اپنی نوازشیں اہل مکہ سے زیادہ اہل مدینہ پر نازل فرما۔ میں نے اللہ سے دعا مانگی۔ اے اللہ ! میرے حرم کی سر زمین پر رہنے والوں کو زمین کے ثمرات سے فیضیاب فرما۔میں نے دارِ قرار کیلئے اور یہاں کے رہنے والوں کیلئے دعا کی۔ اللہ ہمیں یہاں سکون دل کے ساتھ قرار عطا فرما، اور اس سے اعمال حسنہ کا رزق عطا فرما۔اور دل کے کانوں سے سنو، اس سے بڑھ کر زمین کے کسی حصہ کو اور کیا خوش نصیبی اور عظمت نصیب ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کو میرا ہجرت گھر بنایا اور اسی میں میرا آخری مقام استراحت ہے اور اسی شہر کو یوم حشر میرے قیام کیلئے منتخب فرمایا، لہٰذا میری امت کو میرے پڑوسی ہونے کا حق ادا کرنا چاہئے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کریں۔ اور جو شخص بھی اس احترام کا پاس اپنا شعار بنالے گا۔ قیامت کے دن اس کی شفاعت کا میں ضامن ہوں۔
’’یہی شہر مدینہ جو مجھ سے پہلے یثرب کہلاتا تھا، یعنی اذیتوں کا مقام، جہاں وبائیں عام تھیں، جہاں لوگوں کے ذہنی اور قلبی اوہام کی بیماریوں کا یہ عالم تھا کہ ثنیۃ الوداع کے قریب آکر اس سے آگے بڑھنے سے پہلے اگر کوئی شخص گدھوں کی طرح تین بار ڈھچکوں ڈھچکوں بآواز بلند نہیں چلاتا تھا تو وہ اپنے آپ کو ان بیماریوں سے محفوظ نہیں سمجھتا تھا۔ جہاں احترام آدمیت کے مفہوم سے بھی لوگ ناوافق تھے۔ جہاں سود خور یہودیوں کے ہاتھوں میں نادار لوگوں کی جانیں تھیں۔ جہاں ظلم و استبداد کے شکنجے میں جان انسانی لاشیں تڑپتی تھیں۔ میری دعا نے انھیں ان سب سے نجات دلادی۔ یاد رکھو؛ میرے حرم کی سر زمین انبیاء علیہم السلام کی سر زمین ہے۔ اور اب اگر میرے امتی کی زبان سے بھول کر بھی اس سر زمین کا نام یثرب نکل جائے تو اسے چاہئے کہ دس بار مدینہ منورہ کہے بلکہ تین بار استغفراللہ کہے۔ اور یقین کرو کہ مدینہ منورہ مقام راحت و مسرت ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھو؛ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو وہیں مدفون فرماتے ہیں جو جگہ اسے زیادہ پیاری ہو، اور مجھے مدینہ منورہ کی زمین سے بے پناہ محبت ہے۔ اور اس محبت کو میں نے اپنے اللہ سے مانگ کر لیا ہے۔ تمہارے ایمان کی کسوٹی اسی محبت کو قرار دیا جاتا ہے۔ تم میں سے جو بھی صاحب ایمان ہوگا وہ مدینہ منورہ کی طرف یوں دوڑ کر آئے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں دوڑ کر داخل ہوتا ہے‘‘۔
مجھے اس سر زمین سے اتنی محبت ہے کہ میں نے اسی میں زندگی بھر بسیرا کرنا اور اسی میں اپنی آرام گاہ کا انتخاب کرنا سب سے زیادہ عزیز جانا۔ اور یاد رکھو؛ جو بھی میرے اس شہر ایمان میں ٹھہرنے کے ایام میں موسم یا حالات کی سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کا وعدہ کرتا ہوں۔
یاد رکھو؛ اللہ تعالیٰ نے اس جزیرہ کو شرک سے پاک فرما دیا اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ’’مدینہ منورہ کا قیام انسان کی اندرونی خباثتوں (Internalevils) اور بیرونی برے ماحول کی اثر پزیری سے اس طرح صاف کر دیتا ہے جیسے لوہار دہکتی ہوئی بھٹی لوہے کو زنگ اور کھوٹ سے صاف کر دیتی ہے۔ ’’نہ صرف بدخوئی اور بدکرداری سے انسان کی اندرونی شخصیت کو سنوارتا ہے بلکہ اچھے اعمال کی خوبصورتی کا جمال بھی بخشتا ہے۔
خبردار: جو بھی اہل مدینہ سے بدسلوکی کرے گا، اللہ تعالیٰ اے یوں ملیامیٹ کر دیں گے، جس طرح پانی نمک کو تحلیل کردیتا ہے۔اور سن لیجئے؛ اے اللہ جو شخص بھی اہل مدینہ پر ظلم کرے یا ان کو دہشت زدہ کرے تو آپ اس کو خوف زدہ فرما دینا۔ اور لعنت ہو اس پر اللہ کی اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی۔ اور میرے اللہ اس کے نوافل و صدقات اور عبادات (صرف) اور اچھائیاں سب باطل قرار دے دینا۔
ضمانت تحفظ: فرشتے مدینہ منورہ کے پہاڑوں میں واقع خصوصی راستوں پہ متعین پاسبانی کر رہے ہیں، تاکہ طاعون اور دجال کی مدافعت کرسکیں بلکہ یوں کہئے کہ شہروں میں دجال کی پیش رفت صرف دو شہروں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی بیرونی حدود تک رہے گی۔
یوم نجات: اہل مدینہ اس یوم نجات کی تفصیل سن لو، اس دن دجال تو مدینہ منورہ کی مخصوص حد کے باہر ہوگا، لیکن مدینہ منورہ حد حرم تک تین بار تھرتھرائے گا۔ اس کیفیت سے متاثر ہوکر منافق، مشرک، فاسق و فاجر اور بدطینت لوگ مدینہ منورہ سے نکل کر دجال کے پاس پہنچ جائیں گے۔ اس طرح مدینہ منورہ کی حدود حرم کو تمام گمراہ لوگوں سے پاک صرف نیک، متقی، مومن اور مومنات کا بسیرا ہونا نصیب ہوگا۔ بس یہی دن یوم نجات (یوم اخلاص) ہوگا۔
اس تعارف کی روشنی میں ابوالیمن ابن عساکر، عقلی حنبی، علامہ نوری اور بہت سے دیگر علمائے متقدمین المحقق ابن امام کاملیۃ لکھتے ہیں: سچ بات تو یہی ہے کہ آسمانوں کا وہ حصہ جہاں انبیاء کرامؑ کی روحوں کابسیرا ہے۔ اور زمینوں میں جہاں انبیاء کرام کی روحوں کا بسیرا ہے۔ اور زمینوں میں جہاں انبیاء کرام کے اجسام استراحت مرنا ہیں، وہیں آسمان اور زمین میں دوسرے مقامات کے مقابلہ میں قابل تحریم ہیں، لیکن مدینہ منورہ کو بطور خاص عبادات کی فضیلت بھی حاصل ہے۔ یہاں ہر روز ہر لمحہ امت مسلمہ کے درود و سلام کے ہدیے، افواج در افواج کی طرح بارگاہ نبوی میں پیش ہوتے ہیں۔ یہاں ہر پل اور ہر گھڑی رحمت کے فرشتوں کی آمد و رفت کا سلسلہ غیر منقطع رہتا ہے۔ یہ وہ مقام فضیلت ہے جس کی گلیوں میں اب بھی ایسی خوشبو کے جھونکے پھرتے ہیں جو اپنی کیفیت انگیزی میں بالکل منفرد ہے اور یاد رکھئے؛ حرم نبویؐ وہ مقام ادب ہے جسے ’’ارض اللہ‘‘ کہا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’طاغوتی طاقتوں کو اپنے اعمال و ایمان کے درمیان دیواروں کا بہانہ بنانے والو۔ کیا اللہ کی زمین اتنی وسیع نہ تھی کہ تم اس کی طرف ہجرت کر جاتے؛ جس طرح ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ مکہ سے اس لئے ہجرت کی کہ عبادات الٰہیہ میں قریشی مخالفت حائل تھی، لہٰذا ہمارے نبیؐ نے عملی طور پر تمہاری راہ نمائی کرتے وہئے تمہیں بتادیا کہ ایسے حالات میں تمہیں اپنے جسم و جان کی حفاظت کیلئے نہیں بلکہ اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جو آئین الٰہیہ کے ترجمان ہیں) کو مقصود بناکر۔ کسی ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں تم اپنے اعمال حسنہ کے حسن کو اتنا دوبالا کرسکو کہ لوگ خود بخود اس سے متاثر ہوکر اپنی زندگی کے صحیح مقصد کی طرف مائل ہوجائیں۔ ہمارے رسولؐ کایہ شہر۔ اللہ کی وہ زمین ہے جو مثالی ہے۔ (باقی)

تبصرے بند ہیں۔