مسائل تشدد سے نہیں سوجھ بوجھ سے حل ہوتے ہیں!

ابراہیم جمال بٹ

’’ایک وقت وہ ہوتا ہے جب انسان سوجھ بوجھ سے کام لے کر، حقیقت کا ادراک کر کے اور وقت کے تقاضوں کو سمجھ کراس بات پر کھڑا ہو جاتا تھا۔تقاضائے وقت کو ملحوظ نظر رکھ کر وہ یہ دیکھنے کی کوشش کرتا تھاکہ سب سے پہلی ترجیح کس چیز کو دی جائے۔ ترجیحات کا تعین کر کے وقت پر کام کرنے میں قوموں کی کامیابی اور ترقی کا راز مضمر ہے، اور جو وقت کی اہمیت نہ سمجھتے ہوں ان کا یہی عمل اُنہیں ترقی اور کامیابی سے محروم رکھتا ہے اور اُنہیں اپنی تنزلی کا اندازہ بھی نہیں ہوپاتا۔ ‘‘

 یہی صورت حال ایشیا کی ایک بڑی طاقت ’’بھارت‘‘ کی ہے۔ جہاں کثیر المذاہب سے وابستہ قریباً سوا ارب لوگ رہتے ہیں ۔یہ ملک اگرچہ بظاہر اپنی ترقی اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہے تاہم اصل حقیقت کے اعتبار سے یہاں نہ کسی قسم کا امن وامان اور اطمینان پایا جاتا ہے اور نہ ہی یہاں کے لوگوں میں غربت وافلاس کی زندگی سے کوئی چھٹکارا نصیب ہو پاتا ہے۔ کیوں کہ بھارت کی حکومتیں اصل ترجیحات کی بنیادوں پر کام نہیں کر رہی ہیں بلکہ اپنی اپنی حکومت کا پرچار کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ غربت و افلاس جو اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، بجائے اس کے کہ اس مسئلہ کو سلجھانے کی کوششیں کی جاتی، ان کو ملکی سرمایہ کا سہارا دے کر ان سے غربت کو خاتمہ کیا جاتا، انہیں غربت سے نجات دینے کی ترکیبیں بتلائی جاتیں ، اس کے برخلاف اس غربت کو پسِ دیوار کر کے نشے میں چور ہو کر فوجی طاقت کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، بے شمار ایسے مسائل میں اپنے آپ کو اُلجھا کر رکھا جاتا ہے جہاں مجموعی طور پر پورے ملک کو نہ صرف نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے بلکہ پورا ملک ہی خطرات کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے۔ ایک بڑا اور بظاہر ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پر اُلجھ کر اپنے آپ کو طاقتور اور بہادر کہلوانا اصل بہادری او رعقل مندی نہیں ہے بلکہ عقل مندی اس میں ہے کہ ان مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے جن سے پورے بھارت کو ہر سال ان گنت مالی اخرجات اُٹھانے پڑتے ہیں ۔ غریبی کا خاتمہ کرنا تو دور کی بات، اس پر اصل معنوں میں غور ہی نہیں کیا جا رہا ہے، اس کے برعکس فوجیوں کو اسلحہ اور گولہ بارود سے لیس کر کے ملک کی ایک بہت بڑی رقم ہر سال خرچ کی جاتی ہے۔

 جموں وکشمیر کے مسئلہ کو، جسے آدھی صدی سے زیادہ عرصے سے لٹکایا جاتا رہا ہے اور جس کی وجہ سے ہر سال اربوں روپیوں کا دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنا پڑتا ہے،  فوجی طاقت کی بدولت ہی یہاں حکمرانی کی جارہی ہے، یہاں کے لوگ کسی بھی حیثیت سے اپنے حق ’’حق خودارادیت‘‘ سے منحرف نہیں ہونا چاہتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہٹ دھرمی اختیار کر کے اس دیرینہ حل طلب مسئلہ کو بجائے حل کرنے کے یہاں فوجیوں کا جمائوبڑھایا  جا رہا ہے، یہاں کے لوگوں میں خوف کا ماحول قائم کر کے اس بات کی اُمید کی جاتی ہے کہ اس طرح سے جموں وکشمیر کے لوگوں کے دلوں پر ہماری حکومت قائم ہو جائے۔ یہ سوچ ایک ذی حس قوم کی نہیں ہو سکتی ہے۔ اور جب صورت حال یہ ہو تو اس ملک میں امن وامان اور ترقی کا خواب پورا کیسے ہو سکتا ہے؟

 2016 کی عوامی ایجی ٹیشن سے کشمیر میں سو کے قریب لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں ، کیا اس کے بعد فوجی طاقت کا سہارا لے کر بھارت نے کوئی کامیابی حاصل کی ؟ بمطابق میڈیا رپورٹوں کے کہ ۸؍جولائی سے 100سے زائد پڑھے لکھے نوجوانوں نے بندوق اُٹھائی۔ ہر دو دن کے بعد خونی معرکہ ہو رہا ہے، جن میں دونوں فریقین کو بھاری جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ عوام کی طرف سے پرامن احتجاجوں کا سلسلہ تو اب طول ہی پکڑتا جا رہا ہے۔ کیا یہ سب کچھ ہونے کے بعد کسی بھی سطح پربھارت یہاں کے لوگوں کے دل جیتنے میں میاب ہوا ہے؟ بھارت کی مرکزی حکومت ’’ھل من مزید‘‘کا طریقہ اختیار کر کے فوجیوں کو نئے نئے اسلحہ سے لیس کرکے کشمیریوں کی آواز کو دبانا چاہتا ہے۔ اس کی تازہ مثال بھارتی وزارت داخلہ نے وادی ٔ کشمیر میں تعینات سی آر پی ایف کے لیے مزید 5000 پیلٹ گن خریدنے کی منظوری دینا ہے اورا س کے لیے سرینگر کے ایک بٹالین ہیڈکوارٹر میں باضابطہ طور پر فورسز اہلکاروں کو پیلٹ گن چلانے کی تربیت بھی دی جارہی ہے۔حالاں کہ یہی وہ بندوق ہے جس سے گزشتہ برس کی عوامی ایجی ٹیشن کے پرامن  احتجاجی مظاہروں کے دوران وسیع پیمانے پر استعمال کے نتیجے میں قریب6000 لوگ مضروب کئے گئے تھے جس میں سینکڑوں افراد کی بینائی متاثر ہوئی ،جبکہ70 سے زائد لوگ ایک آنکھ سے ہی محروم ہوگئے اور ایک درجن کے قریب افراد مکمل طور پر نابینا  ہوگئے جن میں چند لڑکیاں بھی شامل ہیں ۔جب انسانی حقوق انجمنوں اور سیاسی پارٹیوں نے احتجاج کیا تو بھارت کی مرکزی حکومت نے پیلٹ گن کا متبادل تلاش کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ مذکورہ بندوق کے استعمال پر روک لگائی جائے۔ تاہم سیکورٹی ایجنسیوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ پیلٹ گن کا استعمال ہی احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے کے لیے مؤثر ہتھیار ثابت ہوا ہے، لہٰذا اس کے استعمال پر پابندی عائد کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ اس سے قبل بھی احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کے لیے بھارتی وزارت خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ ’’مظاہرین کو مکمل طور سے جکڑنے کے لیے سیکورٹی انتظامات کو سخت کیا جائے تاکہ احتجاج کرنے والوں کو زیر کیا جائے۔ مساجد اور مساجد سے وابستہ ذمہ داروں اوردینی مدارس پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ احتجاجی سنگبازوں پر سیفٹی ایکٹ، علاحدگی پسندوں کا گھیرائو تنگ کرنے اور پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ کو پھر سے زندہ کرنے کی طرف اشارہ دیا گیا۔ ‘‘عسکریت کے خطرے کی آڑ میں تدابیر کے طور اور لوگوں کو خوف زدہ کرنے کی غرض سے عارضی موبائل بینکر قائم کئے جا ئیں گے۔حالانکہ حالیہ شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق وادی میں فی الوقت 258سیکورٹی کیمپ اور 18بینکر موجود ہیں ۔ احتجاجی مظاہرین سے نمٹنے کے لیے بھارت کی مرکزی حکومت نے مزید سی آر پی ایف اور محکمہ پولیس کو 20 ہزارافراد ریزورو ہیں ، 3ہزار شیلڈ، جدید ہیلمٹ، پروٹکٹر اور پیلٹ وپاواگن خریدنے کے لیے ٹینڈر طلب کیا گیا ۔

  یہ سب کچھ کر کے اگر بھارت کی مرکزی حکومت سمجھتی ہے کہ خوف طاقت سے امن وامان قائم کرنے میں ملے گی، تو یہ ایک کم ذہنیت والی سوچ قرار دی جائے گی، کیوں کہ بار بار کشمیریوں کو اس طرح سے آزمایا جا چکا ہے لیکن تاحال ان جیسے اقدامات سے نہ صرف احتجاجوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ پرامن اور جمہوری طرز عمل پر قدغنیں لگانے سے نوجوان عسکریت کی جانب مائل ہورہے ہیں ۔ گویا خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں سے یہاں کے لوگ بے خوف ہوتے جارہے ہیں جس کی مثال حالیہ عوامی ایجی ٹیشن ہے۔ ایک طرف سے گولی اور پیلٹ وپاوا چل رہے ہیں اور دوسری جانب سے سینہ تان کے پُرامن لوگ احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں ۔ گولی اور پیلٹ سے ہلاکتیں اور آنکھوں کی بینائی سے محرومیت کو قبول کرنے والے کیا خوف کا شکار ہو سکتے ہیں ؟ ۔ منجملہ قوم آزادی پسند ہے البتہ قوموں میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو ہر کام اپنے مفاد میں کرتے ہیں ، ہر وقت اپنے مفاد کی عینک سے ہی دیکھتے ہیں ، تو اس خیال کے لوگ ہماری اس وادی کشمیر میں بھی جی رہے ہیں ۔ مفاد  اور مادّہ پرست لوگ، جو پیسہ کمانے کے لیے جیتے ہوں اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہوں اور جن کی نگاہ ہر وقت نفع  ونقصان کی میزان ہی پر جمی رہتی ہو، کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مقاصد عالیہ کے لیے کچھ کر سکیں ۔ وہ بظاہر اخلاقی مقاصد کے لیے کچھ خرچ کرتے بھی ہیں ، تو پہلے اپنی ذات کے مادی منافع کا حساب لگا لیتے ہیں ۔ اس ذہنیت کے ساتھ اُس تحریک کی راہ پر انسان ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جس کا مطالبہ یہ ہے کہ فائدے اور نقصان سے بے پروا ہو کر خلوص دل کے ساتھ اپنا وقت، اپنی قوتیں اور اپنی کمائیاں خرچ کی جائیں ۔ یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں کہ جو صرف ہمارے ہاں پائی جاتی ہے بلکہ یہ طبقہ ہر قوم اور ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ جنہیں صرف اپنی فکر رہتی ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسے لوگ نہ ہی کبھی کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کے تیوروں سے کسی باشعور ذہن کو پھیرا جا سکتا ہے۔

 بہر حال بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ اگر ملک کو ایک طاقتور اور کامیاب ترین ملک دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ان تمام مسائل کے حل کی جانب اقدامات کرنے کے لیے کوششوں میں اضافہ کرنا ہو گا جو ملکِ بھارت کو اندر ہی اندر کھائے جا رہے ہیں ، جن میں ایک اہم مسئلہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ ہے۔ یہی وہ تقاضا ہے جو بھارت کے حکمرانوں کے لیے خصوصاً اور وہاں رہنے والے ایک ارب سے زائد لوگوں کے لیے عموماً اہمیت طلب ہے۔ بھارت وقت کی نزاکت کو سمجھے، عملاً ترقی اور کامیابی کی راہ پانے کے لیے عملی اقدامات کرے، ورنہ تاریخ کے اوراق ان ابواب سے بھرے پڑے ہیں جن میں بظاہر کامیاب دکھنے والی اقوام کا ذکر موجود ہے جو اس قدر زمین بوس ہوئے کہ اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے۔

مہلک ترین ہتھیاروں سے فورسز اہلکاروں کو لیس کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے ماحول تیار کیا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی طاقتوں کو اس صورتحال کا جلد از جلد نوٹس لے لینا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں نہتی اور مظلوم کشمیری قوم پر ظلم وستم کے پہاڑ نہ توڑے جائیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔