مسجد کا بیچ دینا یا دوسری زمین سے اس کا تبادلہ کرنا: ایک علمی جائزہ

مفتی ابصار احمد ندوی

اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے، جس کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ اسلام کے علاوہ جتنے ادیان ہیں، وہ سب باطل ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے: (اللہ کے نزدیک زندگی گزارنے کا طریقہ صرف اسلام ہے) (آل عمران۔۱۹)، (جو اسلام سے ہٹ کر زندگی گزارے گا، اسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا)۔(آل عمران۔۸۵)

رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد یہ تھا، کہ آپ اسلام کو تمام ادیان پہ غالب کردیں ، خواہ یہ منکرین حق کوکتنا ہی ناگوار ہو۔ اس کے لئے آپ ﷺ نے انتھک کوششیں کیں ، اور اسے جزیرۃ العرب میں ثابت کر دکھایا۔ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ غلبہ چاہتا ہے، مغلوبیت کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ یہ اسپرٹ اور یہ جذبہ ہر مسلمان کے اندر ہونا لازم ہے۔

اسی پس منظر میں ایک موقع سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: «لا يجتمع دينان في جزيرة العرب » کہ جزیرۃ العرب میں دو دین کا اجتماع نہیں ہونا چاہیے۔

خيال رہے کہ مساجد کے علاوہ جتنی بھی عبادت گاہ ہیں ، وہ سب غیر اسلامی شعائر ہیں ، ان میں ایک اللہ کی عبادت نہیں کی جاتی ہے، بلکہ اللہ کے ساتھ کفر وشرک کیا جاتا ہے۔ان میں سے کسی کی تعمیر سے خوش ہونا،یا خوشی کا اظہار کرنا یا کسی طرح کا تعاون کرنا گناہ عظیم ہے۔ اس سلسلہ میں حنبلی مسلک کے بڑے عالم دین اور مجتہد علامہ ابن تیمیہ حنبلی رحمہ اللہ کا  فتوی ہے:

قال شيخ الإسلام: "من اعتقد أنَّ الكنائس بيوت الله وأنَّ الله يُعبدُ فيها، أو أنَّ ما يفعله اليهود والنصارى عبادة لله وطاعة لرسوله، أو أنه يحب ذلك ويرضاه، أو أعانهم على فتحها وإقامة دينهم وأنَّ ذلك قربة أو طاعة فهو كافر”. (بہ حوالہ فتاوی اللجنۃ الدائمۃ جزء  ۱،  ص ۴۷۰)

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جس شخص کا یہ اعتقاد ہو کہ گرجا گھروں کی حیثیت اللہ کے گھر کی ہے، ان میں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے،یا یہود و نصاریٰ جو اعمال بجالاتے ہیں، وہ اللہ کی عبادت اور رسول کی اطاعت ہے، یا وہ ان اعمال کو پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتا ہو اور ان سے خوش ہو،یا کسی طرح ان گرجاگھروں کو آباد کروانے اور ان کے دین کی اقامت میں انکی مدد کرتا ہو، اور اسے تقرب الی اللہ کا ذریعہ اور طاعت سمجھتا ہو، تو ایسا شخص کافر ہے۔،،

مذکورہ ذکر کردہ حقائق غیر مسلمین کی عبادت گاہوں کی ایک شرعی تصویر اور اسلام میں ان کا کیا تصور ہے،پیش کرتے ہیں۔

اب ہم بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے پس منظر میں عرض کرتے ہیں کہ بابری مسجد  شرعی طور پر جائز طریقے سے بنائی گئی مسجد تھی،اسے شر پسندوں نے شہید کردیا، اور اس کی جگہ رام مندر کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ علمی بنیادوں پر چاروں فقہی مسالک میں سے کسی  بھی مسلک کے اعتبار سے کیا اس بات کی کوئی گنجائش ہے کہ  مسجد کو یا مسجد کی زمین کو بیچ دیا جائے یا بدل دیا جائے، یہ جانتے ہوئے کہ وہاں پہ مندر یا گرجا گھر وغیرہ کی تعمیر ہوگی ؟

واضح ہو کہ ا ئمہ ثلاثہ۔ ۔۔امام ابو حنیفہ، امام شافعی،امام مالک رحمھم اللہ۔۔۔کے نزدیک اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے،کہ کسی حال میں مسجد یا مسجد کی زمین کوبیچ دیا جائے،یا کسی دوسری زمین سے اس کا تبادلہ کیا جائے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک  بھی  مسجد کی بیع یا تبادلہ جائز نہیں ہے، الا یہ کہ وہ مسجد بالکل ویران ہو گئی ہو، اور وہاں کوئی نماز پڑھنے والا نہ ہو، یا مستقبل میں اس کی کوئی امید نہ ہو۔

جہاں تک بات اس مسئلہ کی ہے  کہ کیا  مسجد کو یا مسجد کی زمین کو مندر یا گرجا گھر وغیرہ کی تعمیر کے لئے دیا جاسکتا ہے؟ تو اس سلسلہ میں صراحت کے ساتھ فقہ حنبلی کے فتاؤوں میں موجود ہے کہ ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے، فقہ  حنبلی کے کسی جزئیہ سےاس کے جواز کا ثبوت نہیں ملتا ہے۔  ذیل میں فقہ حنبلی کے فتاؤوں میں سے ایک فتویٰ کا   ترجمہ پیش ہے، جس میں یہ وضاحت طلب کی گئی تھی کہ کیا  ایسے شخص سے  مسجد کو بیچنا جائز ہے، جو اس کو گرجا گھر میں تبدیل کرسکتا ہے:

هل يجوز لهم بيع المسجد لمن يحتمل اتخاذه كنيسة ؟

والجواب : قطعاً لا يجوز ؛ فالوسائل لها حكم الغايات، فالوسيلة إلى فعل المعصية تكون معصية، والوسيلة إلى فعل الطاعة تكون طاعة، ولذلك حرم بيع السلاح وقت الفتنة، وحرم بيع العنب لمن يعصره خمراً، ويقال هنا : يحرم بيع أرض للنصارى بقصد بنائها كنيسة، أو لليهود بقصد بنائها بيعة، ونحو ذلك، كما يحرم تأجيرهم دوراً لإقامة شعائر الكفر فيها . ‘‘۔ ( حوالہ  موقع الاسلام سوال و جواب، جزء ۵، ص۱۲۸۷)

’’جواب: ہرگز یہ جائز نہیں ہے، وسائل کا حکم بھی غایات کے مثل ہے، جو شئی کسی معصیت کاذریعہ ہو وہ شئی بھی معصیت اور گناہ ہوتی ہے،اور جو شئی کسی بھلائی کا سبب ہو، وہ بھی بھلائی ہی ہوتی ہے، اسی لئے فتنہ کے وقت ہتھیار کا بیچنا حرام ہے،اور ایسے شخص سے انگور کا بیچنا جو شراب بناتا ہو،حرام ہے، یہاں بھی یہی بات کہی جائے گی کہ عیسائی سے زمین کا بیچنا تاکہ وہ گرجا گھر بنائے،یا یہودی سے بیچنا تاکہ وہ اپنی عبادت گاہ بنائے، حرام ہے‘‘۔

موسوعہ فقہیہ کویتیہ  جلد ۳۸ ص  ۱۵۷میں ہے:

’’نصَّ جمهور الفقهاء على أنّه يمنع المسلم من بيع أرضٍ أو دارٍ لتتّخذ كنيسةً‘‘ ۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية , ج 38. ص 157)

’’جمہور فقہاء کا اس پر  اتفاق ہے کہ مسلمان  کو اس بات سے روکا جائے گاکہ وہ گھر یا زمین گرجا گھر کی تعمیر کے لئے بیچ دے‘‘۔

مذ کورہ باتوں سے صاف وضاحت ہوتی ہے کہ کسی بھی مسلک کے اعتبار سے مسجد یا مسجد کی زمین کو مندر کی تعمیر کے لئے دینا جائز نہیں ہے۔ جانتے ہوئے ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔

میں استاذ محترم مولانا سیدسلمان ندوی صاحب اور ان کے علم کی قدر کرتا ہوں، لیکن جس بات کا اظہار انہوں نے سری سری روی شنکرصاحب کے سامنے فقہ حنبلی کے حوالہ سے کیا ہے، اسے علمی خیانت سمجھتا ہوں، اس بات سے تمام مکاتب فکر اور تمام مدارس کےمحققین علماء  اور حق پرستوں کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔اللہ ہم سب کو ہدایت پر گامزن رکھے۔

1 تبصرہ
  1. shahbaz ahmad کہتے ہیں

    Masha Allah ,bhut khub or bda hi ilmi jawab

تبصرے بند ہیں۔