مسلمانوں کی بد حالی کیسے دور ہو؟

محفوظ الرحمن انصاری 

مسلمانوں کی سیاسی ،سماجی اور معاشی بد حالی کے لئے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں اور اخلاقی زوال تو راستہ چلتے دکھائی دیتا ہے ۔مسلمانوں کے حالات بہتر بنانے کیلئے اکثر مسلم تنظیمیں ،دانشواران قوم،ہمدردان ملت اور علمائے کرام سیمینار ،پروگرام ،جلسے وغیرہ منعقد کرتے رہتے ہیں ۔مگر ان پروگراموں اور جلسوں سے نہ تو مسلمانوں میں شعوری بیداری آتی ہے اور نہ ہی مسلم قوم ترقی کی جانب ایک انچ بڑھتی ہے ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کے بیچ رابطے میں رہ کر مسلسل کام کیا جائے اس سلسلے میں ایک تجویز یہ ہے کہ مسلم تنظیمیں کسی ایک علاقے کو گود لیں ۔مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جھوپڑ پٹیوں میں رہتی ہے ۔جو غریبی کی وجہ سے غیر تعلیم یافتہ رہ جاتے ہیں اور پھر بے روزگاری کی صورت میں جرائم کی طرف راغب ہوکر قوم کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔لہٰذا مسلم تنظیمیں ایک چھوٹی مسلم بستی ،علاقے یا جھوپڑ پٹی کو گود لے کر ان کی مکمل نگرانی و رہنمائی کریں ۔

(1)تعلیمی طورسے اس علاقے میں ڈراپ آؤٹ روکنے کی کوشش کریں ۔اکثر غریبی اور گھریلو جھگڑوں کے باعث ہی ڈراپ آؤٹ زیادہ ہوتے ہیں ۔ایسے ماں باپ سے سیدھا رابطہ قائم کرکے ان کے مسائل اپنی سطح پر حل کرنے کی کوشش کریں ۔تاکہ بچے کی پڑھائی جاری رہ سکے ۔

(2)بڑی عمرکے جو لڑکے بے روزگار ہیں انہیں دن میں کہیں کام پر لگا کر نائٹ اسکولوں میں داخل کروائیں۔

(3)سرکاری یا دیگر فلاحی ادارے کی طرف سے اگر انہیں کوئی تعلیمی وظیفہ ،امداد ،اسکالر شپ مل سکتی ہے تو رہنمائی کرکے انہیں دلائیں ۔

(4)نگرانی رکھیں کہ اس علاقے میں چرس ،گرد ،افیم ،ایم ڈی یا دیگر منشیات تو فروخت نہیں کی جارہی ہیں؟یا پھر نشے کے عادی نوجوان علاقے کے باہر جا کر تو ڈرگس نہیں لے رہے ہیں ۔کوئی شراب نوشی میں تو مبتلا نہیں ہے ؟اس علاقے میں نشے کا کاروبار نہ ہونے دیں ،نشہ کرنے والوں کو خصوصی طور سے تربیت دے کر یہ بری لت چھڑوائیں ۔

علاقے پر کڑی نگرانی رکھیں ۔ورنہ ہو یہ رہا ہے کہ ہم دنیاوی ،سیاسی اور مسلکی تنازعات میں الجھے رہتے ہیں اور ہمارے علاقے میں نشے کا عفریت اپنی جڑیں جما لیتا ہے ۔پھر ہم جاگتے ہیں ۔نشہ مخالف ریلی نکالتے ہیں ۔جلسے کرتے ہیں ۔نشہ مخالف پوسٹر اور کتابچے تقسیم کرتے ہیں ۔مگر جن نوجوانوں کی زندگیاں اور ان کے گھر برباد ہو چکے ہوتے ہیں وہ پھر آباد نہیں ہو سکتے ۔اور جو لوگ ایم ڈی یا دیگر مہلک نشہ کا شکار ہو کر موت کے منھ میں چلے گئے وہ واپس نہیں آسکتے ۔

(5)بیماری کے سلسلے میں سرکاری اسپتالوں سے متعلق ان کی مکمل رہنمائی کریں۔علاج یا آپریشن کے لئے کسی سرکاری اسکیم یا دیگر فلاحی ٹرسٹ سے امداد مل سکتی ہے تو رہنمائی کریں ۔سرکاری اسپتال یا دوا خانے میں بدعنوانی اور لاپرواہی ہے تو آپ انتظامیہ کو قانونی چارہ کے ذریعہ حرکت میں لاکر غریبوں کو دھکے کھانے سے نجات دلاسکتے ہیں۔

(6)اس علاقے یا جھوپڑ پٹی میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے جیسے پانی ،بجلی ،بیت الخلاء ،گندے پانی کی نکاسی ،گندگی کا ڈھیر ،بارش کے دنوں میں ٹین کی چھتوں کی درستگی ،اسے جہاں تک ہو سکے ایم ایل اے ،کارپوریٹر ، وزیر اعظم کے گاؤں اسکیم فنڈ سے کروانے کی کوشش کریں اور نہ ہو سکے تو قوم کے مخیر حضرات سے اپیل کریں ۔ ہمارے شہر کے مخیر حضرات جب ہٹے کٹے بھکاریوں کو روزانہ لاکھوں روپئے خیرات اور بوگس چندہ خوروں کو بلا تحقیق ہزاروں روپئے دیدیتے ہیں تو بھلا آپ کے نیک کام کو دیکھتے ہوئے لوگ کیوں امداد نہیں دیں گے ؟بلکہ قریبی مسجد وں سے ہی اگر جمعہ میں اعلان کروا دیا جائے تو اچھی خاصی رقم بغیر بھاگ دوڑ کے جمع ہو سکتی ہے۔

(7)نوجوانوں کو حتی المقدور سرکاری ملازمتوں کے حاصل کرنے کے لئے رہنمائی بھی کریں اور کوشش بھی کریں ۔بلکہ اس کو اپنی مہم کا مقصد بنالیں ۔یہاں پورے ملک کے حوالے سے یہ بات کہنا ہے کہ اگر مسلمان انتہائی اعلیٰ ترین اہم سرکاری عہدوں جیسے کلکٹر ،وزارت کے سکریٹری پر اپنے تعلیمی یا معاشی کمزوری کی وجہ سے نہیں پہنچ سکتے تو کم از کم ریلوے ،ڈاک،بجلی ،ٹیلیفون،پانی،صحت کے محکموں میں اپنی آبادی کے تناسب یعنی بیس فیصد کے برابر بھی پہنچ جائیں تو کیا قوم کی ترقی نہیں ہو جائے گی ۔ان میں بھی بہت اچھی تنخواہیں ملتی ہیں اور سہولیات بھی ۔پھریہ مسلمان جب سرکاری طور پر برسر روزگار ہو کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں گے تو کسی حد تک دوسری نسل میں مسلمانوں کے حالات ہر لحاظ سے مزید بہتر نہیں ہوں گے ؟

(8)اسی طرح پولس محکمے میں بھی اگر بیس فیصد مسلمان ہوں گے توکیا ملک و مسلمانوں کے لئے بہتر نہیں ہوگا ؟علاقے میں لائبریری قائم کریں ۔ان کی دینی اور اسلامی تربیت کے لئے درس قرآن کا اہتمام کریں ۔

یہاں میں مذہبی تنظیموں سے اور بگڑے ہوئے معاشرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے والوں کی عبرت کے لئے ایک حوالہ دیتا ہوں ۔ممبئی شہر کے بائیکلہ علاقے میں ایک بد نام زمانہ غیر مسلم مافیا ڈان اس علاقے کی مسلم جھوپڑ پٹیوں اور بلڈنگوں کے بنیادی کاموں پر ہمیشہ مدد کرتا ہے ۔جیسے پانی کا مسئلہ حل کروانا ،بارش سے قبل ہر جھوپڑ ا والے کو ٹین کی چھت فراہم کرنا اور اسی طرح سے چھوٹے موٹے کام کروانے کا لوگوں پر ایسا اثر ہے کہ اس علاقے میں ہونے والے ہر الیکشن میں اس کے سامنے کیسا ہی قابل مسلمان امیدوار کیوں نہ ہو یا ملک کے حالات کیسے بھی ہوں ،وہاں کے مسلمان اس غیر مسلم مافیا ڈان یا اس کی بیٹی کو ہی ووٹ دیتے ہیں ۔راشن کے ساتھ تھوڑا بھاشن بھی بہت اثر رکھتا ہے ۔خالی پیٹ بھجن نہیں ہوتا ۔یعنی خدمت خلق تبلیغ کا راستہ بھی آسان کردیتا ہے ۔ورنہ کرتے رہو جلسے ،جلوس ،نصیحتیں،ویسا ہی چلتا رہے گا ۔

ہماری تنظیمیں ہمدردان قوم کو صرف وقت دینا ہے ،سرکاری اسکول،اسپتال موجود ہیں،آپ کو صرف تعلیمی و طبی رہنمائی کرنا ہے ۔جہاں تک ہو سکے عوامی نمائندوں سے بنیادی سہولیات کا کام کروانا اور اگر تھوڑا بہت فنڈ درکار ہو اتو انشاء اللہ آپ کو ایک اپیل پر ہی مل جائے گا ۔نیک بندے موجود ہیں بس ان تک پہنچ کر کام دکھایئے اور پھر سب سے بڑی بات اللہ کی مدد بھی شامل حال ہوگی۔اس کے ساتھ ہی اگر آپ دینی تعلیم و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو لوگ کھنچے چلے آئیں گے ۔ آپ کو خدمت خلق اور تبلیغ دین کا دوہرا ثواب ملے گا ۔ساتھ ہی اس علاقے سے گدڑی کے ایسے لعل نکلیں گے جو قوم و ملت کی ترقی کا باعث بنیں گے۔جمعیتہ العلماء اور جماعت اسلامی ہند کا پورے ملک میں اچھا نیٹ ورک ہے ۔یہ عوامی خدمت کے کئی شعبے بھی چلاتے ہیں ۔ اس کے اراکین سرگرم و مخلص بھی ہیں ۔ لہٰذا اگر یہ تنظیمیں مذکورہ طرز پر کام کریں گی تو ملکی سطح پر مسلمانوں کو بہت جلد فائدہ ہوگا ۔ انشاء اللہ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔