مسلمانوں کی حمایت میں کھڑا ہونا گاندھی جی کو مہنگا پڑا

ڈاکٹر قمر تبریز

ہریانہ کے میوات علاقہ کے مسلمانوں کا شمار ان حب الوطنوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی زمین پر مرنا پسند کیا، لیکن ملک سے جدا ہوکر پاکستان جانا گوارا نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھ مخالفتوں کے باوجود بابائے قوم مہاتما گاندھی ہندوستان کی تقسیم کے وقت میو مسلمانوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ جس وقت ملک کا بٹوارہ ہو رہا تھا، اس وقت بھی کانگریس حکومت نہیں چاہتی تھی کہ میو مسلمان ہندوستان میں رہیں اور آزادی کے 70سال بعد، آج بھی ہریانہ اور مرکز کی حکومتوں نے میو مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا برتاؤ اپنائے رکھا ہے۔ میوات میں نہ تو اب تک ریل گاڑی پہنچی ہے اور نہ ہی وہاں کے لوگوں کے پاس پینے اور کھیتی کے لیے پانی کا معقول انتظام ہے۔ اس کے باوجود میو مسلمان ناامید نہیں ہوئے ہیں، کیوں کہ 30 جنوری، 1947 کو گاندھی جی کے قتل کے بعد انہیں آچاریہ ونوبا بھاوے کی شکل میں ایک ایسا مسیحا مل گیا تھا، جس نے ان کے لیے ہندوستان میں بعد کی مشکلیں آسان کی تھیں۔

ہندوستانی تاریخ میں ہریانہ اور پنجاب کا جب جب ذکر ہوگا، تب تب وہاں کی میو مسلم برادری کا بھی نام آئے گا۔ میو مسلمانوں کا نام ہندوستان کی تاریخ میں اس لیے اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ 15 اگست، 1947 کو جب ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے اور دونوں ملکوں کی حکومتوں کے ’تبادلہ آبادی‘ کے فارمولے کے تحت پاکستان کی غیر مسلم برادری کو زبردستی بھارت کی طرف اور بھارت کی مسلم برادری کو پاکستان کی طرف کوچ کرنے پر مجبور کیا گیا، اس وقت میوات کے میو مسلمانوں نے پاکستان جانے سے منع کردیا تھا اور مہاتما گاندھی کی اس یقین دہانی پر کہ ان کے جان و مال کی مکمل حفاظت کی ذمہ داری ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی ہے، یہاں کے مسلمان ہر مصیبت کو جھیلنے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ لیکن آزادی کے 70 سال بعد بھی گاندھی جی کے ان وعدوں کو پورا کرنے میں حکومت پوری طرح ناکام رہی ہے۔ ہندوستان کی ترقی میں میو مسلمانوں کو کوئی حصہ ملتا دکھائی نہیں دے رہا ہے، نہ تو وہاں تک ابھی ریل پہنچی ہے اور نہ ہی وہاں کے اکثریتی غریب اور پس ماندہ مسلم کسانوں کے لیے کھیتی اور پینے کے پانی کا کوئی معقول انتظام ہے۔ سب سے زیادہ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ 19 دسمبر، 1947 کو مہاتما گاندھی نے نوح ضلع کے گھاسیڑا گاؤں کی جس جگہ پر تقریباً پانچ لاکھ مسلمانوں سے خطاب کیا تھا، انہیں پاکستان جانے سے روکا تھا اور ان کی جان و مال کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی تھی، اس جگہ کی خستہ حالت کو ایک نظر دیکھتے ہی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہریانہ اور مرکز کی متعدد کانگریسی حکومتوں نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی زبان کی لاج نہیں رکھی اور میوات کے مسلمانوں کو ان کی حالت پر ویسا ہی چھوڑ دیا، جیسا کہ وہ آج سے 70 سال پہلے تھے۔ نہ تو ان کے بچوں کی تعلیم کا کوئی مناسب انتظام کیا گیا اور نہ ہی ترقی کی دوڑ میں انہیں شامل کرنے کی کوئی صورت نکالی گئی۔

حکومتوں کی اس اندیکھی کے باوجود میو مسلمانوں کا گاندھی جی میں اب بھی پورا عقیدہ ہے۔ وہ اپنے سینوں میں اس مشعل کو اب بھی روشن کیے ہوئے ہیں، جو 19 دسمبر، 1947 کو مہاتما گاندھی نے جلائی تھی۔ انہیں اس بات کا بھی صدمہ ہے کہ گھاسیڑا آمد کے تقریباً ایک ماہ بعد دہلی میں 30 جنوری، 1947 کو گاندھی جی کے قتل کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس وقت کی کانگریس حکومت اور فرقہ پرست طاقتوں کی خواہشوں کے برخلاف میوات کے مسلمانوں کو ہندوستان میں ہی رہنے کے لیے آمادہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ’’میو ہندوستان کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ان کو دیش سے باہر نہیں نکالا جاسکتا۔‘‘ یہی نہیں ، اس سے پہلے 14 ستمبر، 1946 کو بہار کے چمپارن میں منعقدہ ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بھی گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’اگر میو مسلمانوں جیسا حوصلہ ہندوستان کی باقی قوموں میں ہو، تو میں 24 گھنٹوں میں دیش آزاد کروالوں۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ زندہ قومیں کبھی اپنی تاریخ کو فراموش نہیں کرتیں۔ ہریانہ کے نوح ضلع کے گھاسیڑا گاؤں کے مسلمان بھی ہر سال 19 دسمبر کو بڑی تعداد میں اس جگہ پر جمع ہوتے ہیں، جہاں 1947 میں مہاتما گاندھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ وہ گاندھی جی کے ذریعے قائم کی گئی گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم بھائی چارے کی عظیم مثال پر عمل کرتے ہیں، اسے دہراتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو یاد دلاتے ہیں کہ انہیں گاندھی جی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آگے کیسے زندگی گزارنی ہے، ملک کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو کیسے پورا کرنا ہے۔

آئیے تاریخ کے اس گم شدہ صفحہ کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا تعلق گاندھی جی کے میوات دورے سے ہے۔ 15 اگست، 1947 کو ہندوستان انگریزی حکومت سے آزاد تو ہو گیا، لیکن ملک کے دو ٹکڑے ہو جانے کی وجہ سے پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندو اور مسلمان دونوں ہی لاکھوں کی تعداد میں قتل کیے گئے، عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں، کروڑوں کی دولت کا نقصان ہوا اور لوگوں کو در در بھٹکنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ایسے میں دونوں ملکوں میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی، جو کسی بھی حال میں اپنے گھر، اپنی زمین، اپنے آبائی وطن کو چھوڑنے کے لیے کسی بھی طرح راضی نہیں تھے۔ میوات کے مسلمانوں کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے، خاص کر وہاں کی میو برادری سے تعلق رکھنے والے مسلمان کسی بھی حالت میں ہندوستان کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن حالات کچھ ایسے پیچیدہ ہو گئے تھے کہ انہیں کچھ دنوں کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر مہاجرین کے لیے بنائے گئے کیمپوں میں زندگی گزارنی پڑی تھی۔ دراصل، ہند و پاک کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کی حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا، جو ’تبادلہ آبادی‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدہ کی رو سے پاکستانی علاقے میں رہنے والے غیر مسلموں کو ہندوستانی علاقوں میں منتقل ہونا تھا اور ہندوستانی خطے میں رہنے والے مسلمانوں کو پاکستان جانا تھا۔ حالانکہ اس معاہدہ میں زبردستی لوگوں کو ادھر سے ادھر بھیجنے کی بات نہیں کہی گئی تھی، بلکہ صرف اتنا کہا گیا تھا کہ جو لوگ اپنی مرضی سے ہندوستان یا پاکستان میں جاکر رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں، وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس معاہدہ کے تحت نوح اور فیروز پور کی مسلم آبادی کو بھی پاکستان جانا تھا۔ یہ دونوں ضلعے اِس وقت ریاست ہریانہ میں آتے ہیں، جب کہ آزادی کے وقت یہ دونوں ضلعے پنجاب صوبہ کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ نوح (جو پہلے گڑگاؤں ضلع میں ہوا کرتا تھا، کچھ دنوں پہلے ہی یہ نیا ضلع بنا ہے) سے واگھہ سرحد کی دوری تقریباً 300 میل ہے، اس کے باوجود یہاں کی مسلم آبادی کو زبردستی پاکستان جانے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ یہی نہیں، راجستھان کے بھرت پور اور الور ضلعے کے مسلمانوں کو بھی فرقہ پرستوں نے میوات کی طرف مار پیٹ کر بھگا دیا۔

دراصل، 1932-33 میں مہاراجہ الور کی کسان مخالف پالیسیوں کے خلاف وہاں کے مسلم کسانوں نے چودھری محمد یاسین خاں کی قیادت میں ایک زبردست تحریک چلائی، جو تاریخ میں ’الور تحریک‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس طرح مہاراجہ کی حکومت کو اکھاڑ پھینکا۔ اس تحریک میں جن دیگر مسلم لیڈروں نے پوری سرگرمی سے حصہ لیا، ان میں چودھری عبدالحئی، سید مطلّبی فرید آبادی، ڈاکٹر کنور محمد اشرف وغیرہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور راجہ کی عوام مخالف اور مظلومانہ پالیسیوں کے خلاف میوات کے مسلمانوں کو متحد کرنے میں ایک بڑا رول ادا کیا تھا۔ دوسری طرف بھرت پور کے راجہ کو بھی چودھری شفاعت خاں جیسے مسلم لیڈروں سے کافی ڈر لگنے لگا تھا، کیوں کہ انہوں نے بھرت پور کے کسانوں اور دیگر لوگوں کو راجہ کی غلط پالیسیوں کے خلاف متحد کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ لہٰذا، الور اور بھرت پور دونوں ریاستوں کے راجاؤں کو ایسا لگنے لگا تھا کہ اگر مسلمانوں کو یہاں سے بھگایا نہیں گیا، تو وہ 1947 کے بعد ان علاقوں میں ایک ’منی پاکستان‘ کی تشکیل کر دیں گے۔ اس کے علاوہ بھرت پور کا راجہ، برجندر سنگھ اس خطے میں ایک جاٹ ریاست کی تشکیل کرنا چاہتا تھا، جس کے لیے اس خطے کو مسلمانوں سے خالی کرانا ضروری تھا۔ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کی طرف سے ہندو راجاؤں کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ چونکہ میو مسلمانوں کا گوتر (جسے وہاں کی مقامی زبان میں ’پال‘ کہا جاتا ہے) بھی جاٹوں اور اس علاقے کی دیگر ہندو ذاتوں سے ملتا ہے، لہٰذا اگر راجہ چاہیں تو ایک ’پال پردیش‘ کی تشکیل کر سکتے ہیں، جس میں مسلمانوں کو بھی رہنے کی اجازت ہوگی، لیکن مسلمانوں کے اس مشورے کو راجہ نے ٹھکرا دیا۔

ان دونوں ریاستوں کے حکمرانوں کی شہ پر وہاں مقیم مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔ صرف الور ریاست میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد میں اس وقت 30 ہزار مسلمانوں کا قتل کر دیا گیا، ان کے گھر بار کو آگ لگا دی گئی۔اسی طرح بھرت پور میں رہنے والے مسلمانوں پر متھرا کے ہندوؤں نے حملہ کر دیا، جس میں ان کا بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ ان دونوں جگہوں کے مسلمان آزادی کے وقت اپنی عزت و آبرو اور جان بچانے کے لیے بڑی تعداد میں بھاگ کر نوح اور فیروز پور کی طرف آگئے۔

اپنے اپنے گھروں سے بھگائے گئے اور پاکستان جانے پر مجبور کیے گئے ان مسلمانوں کے وقتی طور پر ٹھہرنے کے لیے حکومت کی طرف سے میوات سے دہلی تک پانچ کیمپ لگائے گئے۔ یہ کیمپ ہریانہ کے موجودہ نوح ضلع کے گھاسیڑا، سونا، ریواڑی، گڑگاؤں اور دہلی کے پرانا قلعہ میں لگائے گئے۔ ان کیمپوں میں بھی مسلمان پوری طرح محفوظ نہیں تھے، کیوں کہ فرقہ پرست طاقتیں، متعصب انتظامیہ کے ساتھ مل کر ہمیشہ ان کیمپوں کو اپنا نشانہ بناتی تھیں۔ دوسری جانب سرکاری انتظامیہ کا مسلم مخالف چہرہ اس وقت سامنے آگیا، جب پاکستان سے آئے ہندو مہاجروں کو میواتی مسلمانوں کے گھروں میں بسانا شروع کردیا، یعنی گھروں کے اصلی مالک یا تو کیمپوں میں ٹھہرنے پر مجبور تھے، یا اپنے کھیتوں میں کھلے آسمان کے نیچے وقت گزار رہے تھے، جب کہ پاکستان سے آئے ہندو مہاجروں کو ان کے گھروں پر سرکار کی طرف سے قبضہ دلایا جا رہا تھا۔ ان سارے حالات کو دیکھتے ہوئے میو مسلمانوں نے دہلی جاکر گاندھی جی سے ملاقات کرنے کا من بنایا۔ اس کے لیے سب سے پہلے کنور محمد اشرف، چودھری عبدالحئی اور سید مطلبی پر مشتمل میوات کے مسلم لیڈروں کے ایک وفد نے دہلی میں اس وقت کی ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری پی سی جوشی سے ملاقات کی اور انہیں مسلمانوں کے حالات سے باخبر کیا۔ چودھری عبدالحئی اور سید مطلبی نے مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی الگ سے ملاقات کی اور انہیں میوات کے مسلمانوں کی حالت کے بارے میں بتایا۔ مولانا آزاد کو یہ سن کر کافی صدمہ پہنچا۔ انہوں نے فوراً گاندھی جی سے مل کر انہیں میواتی مسلمانوں کے وفد سے ملنے کے لیے آمادہ کیا۔ آخرکار میو مسلمانوں کی ملاقات جب دہلی میں گاندھی جی سے ہوئی، تو انہوں نے اپنے مسائل گاندھی جی کے سامنے رکھے اور ان سے کہا کہ وہ اپنی جان دے دیں گے، لیکن اپنی مٹی سے جدا نہیں ہوں گے۔ میو مسلمانوں کی اپنے وطن سے اس قدر محبت کو دیکھ کر مہاتما گاندھی جذباتی ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ وہ خود ایسے مسلمانوں کے ساتھ مرنا پسند کریں گے۔ ان مسلمانوں نے گاندھی جی کو بتایا کہ کیسے میوات کی انتظامیہ اور پنجاب حکومت انہیں زبردستی گھروں سے نکال رہی ہے اور ان کے گھروں پر پاکستانی مہاجروں کو قبضہ دلوا رہی ہے۔ اس پر گاندھی جی نے ان سے یہ کہا کہ وہ دو دن بعد دوبارہ ان سے آکر ملیں۔ اس درمیان گاندھی جی نے اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر گوپی چند اور میوات انتظامیہ کے اعلیٰ افسروں کو اپنے یہاں طلب کیا اور مسلمانوں کی مذکورہ شکایت پر ان سے جواب طلب کیا۔ لیکن جب یہ دونوں گاندھی جی کے کہنے پر بھی ان سے ملنے نہیں پہنچے، تو گاندھی جی کو یقین ہو گیا کہ غلطی وہاں کی انتظامیہ اور حکومت کی ہی ہے اور مسلمانوں کی شکایت جائز ہے۔ اس کے بعد گاندھی جی نے میوات کے مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ وہ 19 دسمبرکو خود میوات کا دورہ کریں گے اور وہاں کے حالات کو دیکھنا چاہیں گے۔

لہٰذا، حسب وعدہ گاندھی جی مردولا سارابھائی، خان عبدالغفار خان، چودھری عبدالحئی، چودھری یاسین، مولانا ابوالکلام آزاد ، ڈاکٹر کنور محمد اشرف، جنرل شاہنواز خان، پنجاب کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر گوپی چند وغیرہ کے ساتھ نوح کے گھاسیڑا گاؤں پہنچے اور وہاں موجود تقریباً پانچ لاکھ بے یار و مددگار مسلمانوں سے خطاب کیا اور کہا کہ

’’… آج میرے کہنے میں وہ طاقت نہیں رہی، جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ کہنے میں طاقت اور اثر ہوتا، تو آج ایک بھی مسلمان کو انڈین یونین چھوڑ کر پاکستان جانے کی ضرورت نہ ہوتی، نہ کسی ہندو یا سکھ کو پاکستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر انڈین یونین میں پناہ لینے کی ضرورت ہوتی۔ یہاں جو کچھ ہوا، بڑے پیمانے پر قتل عام، آگ زنی، لوٹ پاٹ، عورتوں کا اغوا، زبردستی تبدیلی مذہب اور اس سے بھی بدتر جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، وہ سب میری رائے میں سراسر بہت بڑا جنگلی پن ہے۔ یہ سچ ہے کہ پہلے بھی ایسی باتیں ہوئی ہیں، لیکن تب اتنے بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تفریق نہیں تھی۔ ایسے وحشیانہ واقعات کے قصے سن کر میرا دل رنج سے بھر جاتا ہے اور سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک بات مندروں، مسجدوں اور گرودواروں کو توڑنے اور بگاڑنے کی ہے۔ اگر اس طرح کے پاگل پن کو روکا نہیں گیا، تو وہ دونوں برادریوں کا خاتمہ کر دے گا۔ جب تک ملک میں اس طرح کے پاگل پن کا راج رہے گا، تب تک ہم آزادی سے کوسوں دور رہیں گے۔‘‘

یہی نہیں، گاندھی جی نے آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر گوپی چند سے سخت الفاظ میں کہا کہ میو مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا اب ان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سردار ولبھ بھائی پٹیل جیسے لیڈروں کا مسلمانوں کے تئیں متعصبانہ رویہ جگ ظاہر تھا۔ گھاسیڑا کے مسلمانوں کو وہ واقعہ اب بھی یاد ہے، جب میو مسلمانوں کے ایک وفد کو نئی دہلی میں دیکھ کر سردار پٹیل نے کہا تھا کہ ’جاؤ جاؤ، پاکستان جاؤ‘ تو ان میں سے ایک نے سردار پٹیل سے چیختے ہوئے کہا تھا کہ ’او مراٹھا (اس وقت تک گجرات مہاراشٹر کا ہی حصہ ہوا کرتا تھا اور سردار پٹیل گجرات کے رہنے والے تھے) ہم وہی مسلمان ہیں، جنہوں نے تمارے سردار، شیوا جی مہاراج کو مغل بادشاہ اورنگ زیب کی قید سے چھڑایا تھا‘، تب کہیں جاکر سردار پٹیل کو شرم آئی اور انہوں نے میوات کے مسلمانوں کی حفاظت کے لیے دہلی سے گورکھا رجمنٹ کو وہاں بھیجا اور سکھ رجمنٹ کو وہاں سے ہٹایا، جس پر متعصب ہونے کا الزام تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔