مسلمانوں کے زوال کے اسباب

محمد صابر حسین ندوی

ایک زمانہ وہ تھا کہ مسلمان جہاں جائیں، دنیا کے جس کونے پر دستک دیں، جس در کا دروازہ کھٹکھٹائیں وہاں کا ہر ذرہ ان کی طاعت پر طوعا یا کرھا مجبور ہوتا تھا، بلکہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ پوری دنیا باندی کی صورت میں ان کے قدم کی داسی بن گئی ہے، ان کی تلواروں کی نوک پر سر کش و خود سر مطیع و فرمانبرادار اور متبعین راہ بن کر خدمت گزار بن جاتے تھے، واقعتا ان کا حال یہ تھا کہ قدم کا ہر نشان انسانیت کو نشان منزل کا پتہ دے، ٹوٹتوں کو سہارا اور شکستہ کو جوڑ دے، بےخود کو خودی اور مدہوش کو ہوش دے، ان کی آمد فصل بہار ہوجائے اور پوری فضا پر علمی و تحقیقی اور شجاعت و مردانگی کا عنصر غالب ہوجائے، کتب خانے لگائے جائیں، کتابوں کی میز سجائی جائے، علم کا بول بالا ہوجائے، گرمی محفل علمی مناقشوں پر ٹکی ہو، اور میدان عمل کا ہر جز انسان اور انسانیت پروری پر منحصر ہو، ان کا جود اتنا مبارک اور قابل ستائش ہوتا تھا کہ انہی کے بل بوتے علمی ایجادات اور نئی نسلوں کی پرداخت کا بندوبست ہوجائے، بہتی ہوئی بے رنگ ندی میں رنگ اور خموش سمندر میں تلاطم و تموج پیدا ہوجائے، ٹھنڈی سانسون میں گرماہٹ اور بہکتے قدموں یا لرزتے پیروں میں ثبات کی زنجیر پڑ جائے، دنیا نے وہ حیرت ناک صورت حال بھی دیکھی کہ ان کے وجود سے قوموں کی سب سے کمزور اور مظلوم اصناف نے اتنی ترقی پائی کہ انہوں نے قیادت کے فرائض انجام دئے، غلاموں کے آگے سرداروں کی سرداری کام نہ آئی، اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ پوری دنیا ایک جنت نما قیام گاہ بن گئی، راحت و سکون اور امن و امان کا دھارا بہہ پڑا، ہر طرف خدا کی پکار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کا غلغلہ تھا، ظالم کی سرکوبی ایک عام بات ہوگئی تھی، اور مظلوم کی حمایت شوق و فروتنی کا درجہ پاچکا تھا، یہ ان کے عقیدے کے خلاف بلکہ ناجائز امر تھا کہ کسی ظلم کو دیکھیں اور خموش رہیں، حتی کہ ظالم کے پونچیں کاٹ دی جائیں۔

اس سکہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسی قوم نے جب اپنے مذہب کے ساتھ نا انصافی کی اور ایک خدا کی عبادت اور اس کے فرمان کو بالائے طاقت رکھا، دنیا کی محبت اور اس کی شیرینی کے گرویدہ ہوگئی اور اس کے سحر میں الجھ کر خود کو مسحور کر لیا، ان کے پر پیچ اور خمدار زلفوں کے اسیر ہوگئے، جوآزادی کا علمبردار تھا اور جو طوق وسلاسل کو کاٹ دیتا تھا وہی اپنی گردن میں غلامی کا پٹہ اور پیرون میں زنجیر ڈال بیٹھے، تو ان کے پیروں سے زمین کھینچ لی گئی، ان کے وجود کو زحمت بنا دیا گیا، وہ سب ہو کر بھی گرد بن گئے، جوتے اور چپلوں کی دھول بن گئے، وہ کاٹے گئے، گاڑے گئے، ان کے سروں کا پلندہ بنایا گیا، ان کی لاشوں کے ساتھ بھی حرمتری کی گئی، ان کے خون سے خدا کی زمین بھر گئی، اور جاہلیت نے ان سے وہ انتقام لیا کہ جاہلیت کی بھی روح کانپ اٹھی، حتی کہ بعض پہودی و صہیونی دشمنوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی، رچرڈ ار ا سکے جیسے ماقبل کے پوپ نے اپنے گلے کی سیرابی کیلئے انہی کے خون کو آب زمزم بنا لیا، ار اپنے خون کے ساتھ ان کے خون کی آمیزش کر لی، خون تو خون ان کے جسم کے ٹکڑے کباب اور لذیذ ڈش بنا دئے گئے۔

مسلمانوں کو اس بات کا غرہ تھا کہ ان کی حکومت پائیدار ہے، فوج و انتظام میں سر تر اور نسق میں اعلی ہے، لیکن تاریخ میں وہ صفحات موجود ہے کہ جب ان کا زوال آیا تو ان کی ہزارہا سال کی حکومت پر ڈاکہ ڈالا گیا اور راتوں رات انہیں غریب الدیار کردیا گیا، اندلس، غرناطہ، کوفہ اور مصر و شام ساتھ ہی ملک عزیز ہندوستان جیسے باغ بہارریاستوں کو اجاڑ دیا گیا، ان کے حکمراں اپنی جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے، دست بستہ جان کی بخشی گئی، اور بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نلکے کی تصیر بن گئی، ایسے میں قتل و غارت گری کی گئی اور ان کی محرمات کو سر بازار نیلام کر دیا گیا، وہ بچے جو اس امت کی امانت اور مستقبل تھے، انہیں نیزوں کی نوک پر اچھالا گیا، اور یہ کیفیت کردی کہ زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی، سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر میں اسی بات کو بڑی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے، اور ایسی تاثیر و اثر انگیزی کے ساتھ پیش کیا ہے ؛کہ خشک آنکھیں جنہوں نے صدیوں سے تری نہ دیکھی ہو وہ بھی نم ہوجائے، اور قساوت قلبی کی مثال شخص کا دل بھی پسیج جائے۔

اس کتاب کو بار بار پڑھنے کے بعد اکثر دل تھم سا جاتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے؛ جی ہاں ایسا ہی ہے! اگر یقین نہ ہو تو عصر حاضر کی مسلم کارستانیاں دیکھ لیجئے! ان کی صلاحیتیں اور ان کا قوی کا رخ کس جانب ہے اور اس کے اندر تعمیر سے زیادہ تخریب اور موانست سے زیادہ منافقت کا مادہ کتنا پایا جارہا ہے؟ اگر آپ نے اس کا اندازہ کر لیا تو ٹھیک ٹھیک تصویر صاف ہوجائے گی، غور کیجئے !جس وقت مسلم قیادت لٹ رہی ہے، اسلامی شعائر اور تعلیمات کا جنازہ نکل رہا ہے، ہر طرف مسلم کشی کی صدائے بازگشت گونج رہی ہے، حرمین شریفین تک محفوظ نہیں ہیں، ملکی و خارجہ پالیسیاں اوندھے منھ گری جارہی ہے، اسلام کو جڑ سے مٹانے اور اس کی آخری اینٹ بھی گرا دینے کا خواب بلکہ منصوبہ تیار کیا جا چکا ہے، اسرائیل اور صلیب اپنی ہر طرح کی مذہبی جنگ کو بھول کر اور آپسی نظریاتی اختلافات کو پسند پشت ڈال کر اسلام کو مٹادینے اور بیت المقدس اکھاڑ پھینکنے ( کیونکہ قبضہ تو ان کا ہی ہے) اور ہر صورت میں ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے درپے ہے۔

تو وہیں مسئلہ ارتداد نے سر اٹھا رکھا ہے، مائیں، بہنیں جو اسلام کی مستقبل اور محرم اسلام ہیں، وہ بھی اپنا حرم چھوڑ کر خاکم بدہن غیر اسلامی طرز و بود و باش بلکہ دین پر رضامند ہو رہی ہیں، نہ جانے کتنے قصے اخبارات و اشتہارات اور مجلوں کی زینت بن چکے ہیں، ہمارے ملک میں ہی زعفرانیت کا عروج سر پر ہے، ۲۰۱۹؁ء کے چناو کی تیاری کی جاچکی ہے، اور پھر سے کسی زخم کا منصوبہ بنا یا جائے چکا ہے، یا پھر پرانے زخم کو تازہ کر نے کی مہم شروع ہو چکی ہے، بلکہ پلواما حملہ اور جوابی کاروائی کی سیاست اور سرگرمیاں پیدا کرکے ماحول گرم کرنے کا کام کیا جاچکا ہے، حب وطنی کا شعلہ جوالہ بھڑکا کر چہار جانب آگ لگانے کی تیاری ہوچکی ہے، تو وہیں اندرونی سیاست بہت حد تک مستحکم نظر آتی ہے، مد مقابل بھی حیراں ہیں، اور اس طوفان میں ہر کوئی تنکے کے مثل اڑتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، بہت سے ماہرین اور تجزیہ نگار وں کا ماننا ہے؛ کہ اگر اگلا مرکزی انتخاب رواں حکومت جیت جاتی ہے، تو ملک ’’ہندو راشٹریہ ‘‘میں تبدیل کردیا جائے گا، یا پھر یہ کہ جمہوریت کو اس قدر کھوکھلا کردیا جائے گا؛ کہ اس کی حیثیت صرف کاغذ میں پرنٹ سے زیادہ کی نہ ہوگی اور یہ بات عین قرین قیاس ہے، ابھی گزشتہ چند سالوں میں اس کی حقیقت کا کچھ حصہ منظر عام پر آچکا ہے، یعنی سمجھ لیجئے کہ ٹریلر آ چکا ہے اب بس فلم کی دیر ہے!

ان سب کے باوجود ہمارا حال یہ ہے کہ ہم فرقہ بندی کاکھیل کھیل رہے ہیں، ایک دوسرے کو آئینہ دکھانے میں مصروف ہیں، بات نکلے گی تو دور تک جائے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، قدیم روایات اور پرانی خلش کو پھر سے اجاگر کر رہے ہیں، حمایت و مخالفت کا دور چل رہا ہے، پیری و مریدی کا تماشہ جاری ہے، روافضیت و سنیت کی سندیں بانٹی جارہی ہیں، افضل و مفضول اور بہتر و اعلی کی ہوڑ لگی ہوئی ہے، اس وقت پوری مسلم امہ ایک اسٹیج میں تبدیل ہوچکی ہے اور خود اس کے قائدین باری باری سے کرتب دکھا رہے ہیں، ایک دوسرے کی تحقیر کا دور جاری ہے؛ بلکہ یہ مقابلہ چل پڑا ہے کہ کون کس حد تک گر سکتا ہے، اور کس کے اندر دلوں کو زخمی کرنے اور جگر گوشے کو پارہ پارہ کرنے صلاحیت بحسن اتم پائی جاتی ہے، ماہرین میدان میں اپنے ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ چکے ہیں، یا کہیں کہ کشتیاں جلا کر امت کو ڈبونے میں مصروف ہوگئے ہیں، خیمے لگا لئے گئےہیں اور باہمی رسہ کشی و چھینٹا کشی کا ہر موقع غنیمت سمجھ رہے ہیں، ایسا لگتا ہے؛ کہ پوری قوم ایک کربلا کے میدان میں منتقل ہوگئی ہے، یا کہا جائے کہ امت نے خود کو کسی اکھاڑے کا پہلوان مان لیا ہے اور اپنے مد مخالف کو دھول چٹا دینے کی تمنا میں تمام حدود پار کردینے پر آمادہ ہیں۔

اس سلسلہ میں سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ نوجوان جو اقبال کا شاہین تھا، اور جو امت کا سرمایہ افتخار تھا، وہ بھی اس عفونت و ترشی اور بدبو سے محفوظ نہیں ہیں، جنہوں نے عظیم درسگاہوں کی سندیں حاصل کی ہیں، عظیم کتابوں کے مطالعہ اور بزرگوں کی صحبت سے آنکھیں ٹھنڈی اور سرور عشق پایا ہے، جن سے امید تھی کہ وہ جدید نسل کی قیادت کریں گے اور نئے ابھرتے ہوئے بھارت میں اسلام کی تشریح و توضیح اس تقویت کے ساتھ کریں گے؛ کہ اسلام کا حلقہ اور وسیع ہوتا جائے گا، اور مشرق و مغرب کے افق سے اسلام کا سورج اس تابانی کے ساتھ نکلے گا ؛کہ ہر کسی آنکھیں چکا چوند ہوجائیں گی، لیکن حیف صدحیف ان کی تمام تر صلاحیتوں کا مدار اختلافات کو ہوا دینے، خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے میں ہی صرف ہو رہی ہیں، جنہیں موسی ہونا تھا وہ فرعون بن رہے ہیں، اور خود پرستی میں جزئیات کو اچھال کر اپنے ہی بزرگوں اور اپنی ہی درسگاہوں کی بے حرمتی کئے جارہے ہیں، شب وروز کی تمام توانائیاں اسی نقطہ پر صرف ہورہی ہیں، اگرآپ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوں گے اور آپ کا دل فطرت سے قریب ہوگا تو ضرور بالضرور اس کے ناجائز استعمال سے دل بیٹھ جاتا ہوگا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہوں گے :کیا یہی لوگ بو بکر و عمر اور عثمان و علی کے جاں نشین ہیں ؟

ایک حقیقت پسند اور امانت دار مؤرخ کیلئے وہ وقت بڑی آزمائش کا ہوگا، جب وہ اکیسویں صدی کے اول پہر کی تاریخ مرتب کرے گا اور یہ لکھے گا؛ کہ عالم انسانی اور بالخصوص ہندوستان و فلسطین اور برما جیسے ممالک میں مسلمانوں کی گردنیں کاٹی جارہی تھیں اور اسلام کے خاتمہ کی تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی تیاری کی جاچکی تھی، اس وقت مسلمان افضل و مفضول کو ثابت کرنے میں لگے ہوئے تھے، اور یہ بحث چل رہی تھی؛ کہ کون کتنا اچھا ہے اور کس کے بزرگوں نے سب سے زیادہ عظیم کارنامے انجام دئے تھے، ارے ناداں ! کیوں نہیں سمجھتے وہ مردان با خدا جنہوں نے اسلام کی بلندی کیلئے جو کچھ کرنا تھا کر چکے، اور انہوں نے تو وہ کردیا کہ سوچ بھی نہیں سکتے ؛لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر ہم نے کچھ نہیں کیا، اگر ہم نے اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کیلئے سرفروشی نہ دکھائی! یاد رکھئے ! اگر یہی حال رہا تو آئندہ تاریخ میں وہ اسلام کے محسن اور نیک نام اور ہم اسلام اور مسلمان کے قاتل قرار پائیں گے!!

تبصرے بند ہیں۔