مسلمان اپنا دفاع خود کرنا سیکھیں

ذوالقرنین احمد

بھارتی مسلمانوں پر آزادی کے بعد سے اب تک ایسا کوئی پرسکون، خوشحال، پرامن سال نہیں گزرا ہوگا جس میں انھیں کوئی غم، پریشانی، تکالیف، سسٹم کے ظلم و ستم، بے گناہ قید و بند ، قتل و غارتگری، زمینوں، جائیدادوں پر ناجائز قبضے، تعلیمی اداروں میں تعصب اور اس طرح کے بہت سارے مظالم کے بغیر کوئی سال تو کیا کوئی دن بھی گزرا ہو۔  اصل میں مسلمانوں پر ہورہے ان تمام مظالم پر غور و فکر کیا جائے تو ہم گزشتہ ستر سالہ تاریخ سے پردہ اٹھا کر دیکھے تو ہمارے سامنے بہت سی باتیں آتی ہے۔ جس میں کسی مسلمان کو اسکی نوجوانی کی عمر کو برباد کرکے عدالت نے باعزت بری کیا ہو، یا ایسی کوئی مہربانی جس میں مسلمانوں کی پسماندگی پر ترس کھا کر کسی غیر مسلم سیکولر لیڈر نے مسلمانوں کیلئے کوئی جیم خانہ، یا گاؤں میں کوئی اسکول قائم کرکے دیا ہو، یا کوئی بیوا خاتون کو مختصر رقم عطیہ کی ہو، اور ان تمام کاموں کے پیچھے جی حضوری کرنے والے معمولی خودساختہ گلی محلے کے لیڈر ہوتے ہیں۔ جو بعد میں انتخابات کے وقت ان تمام مہربانیوں کا خراج مانگنے آجاتے ہیں یہاں تک جن لوگوں پر مہربانی کی گئی ان پر عمر بھر کیلئے اپنے احسانات کا بدلہ مانگا جاتا ہے۔
عام مسلمانوں نے یا پھر ملی تنظیموں، جماعتوں نے کبھی ان باتوں پر سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ کیوں نا اپنی قوم کو خودکفیل بنانے کی کوشش کی جائے سوائے چند ایک تنظیم کے۔ ذرا سوچئے جب جب مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے مسلمانوں نے ملک میں احتجاج کیا، یا پھر ملی تنظیموں، جماعتوں نے اپنے اپنے لیٹر پیڈ پر ضلع انتظامیہ کے ذریعے حکومت کو ایک میمورنڈم پیش کر کے اپنے فرض سے بری ذمہ ہونے کو اپنی ذمہ داری سمجھا۔ لیکن اس بات پر غور و فکر نہیں کیا کہ مستقل طور پر مسلمانوں کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور اسکے تدارک کیلئے کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ مسلمان خود اپنا دفاع کرسکیں۔
جب جب حالات آتے ہیں احتجاجی جلسہ جلوس ہوتے ہیں اور حکومت کی طرف سے اس معاملے پر اسٹے آرڈر جاری کردیا جاتا ہے یا پھر مسلمانوں کے خلاف قانون پاس ہوجاتے ہیں ، یا پھر غیر منصفانہ فیصلے صادر کردیے جاتے ہیں اور مظلوم ہونے کے باوجود ہم ہی سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کی جاتی ہے۔ یہ مظلوم انسانیت کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سارے غیر منصفانہ فیصلہ کیے گئے مسلمانوں کے خلاف قانون پاس کیے گئے۔اور ایک منظم پالیسی کے تحت دوبارہ اقتدار کو حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد پھر سے مسلمانوں کے خلاف  ظلم و جبر کو بڑھاوا دیا گیا ہے۔ سنگھی فرقہ پرستوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوچکے ہیں کہ اب کسی بھی طرح سے مسلمانوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔ ماب لنچنگ کی جارہی ہے۔ مقدس مذہبی مقامات کو شہید کیا جارہا ہے، اور انصاف کرنے والی عدالتوں کے فیصلے بھی فرقہ پرستوں کے حق میں ہورہے ہیں۔
اتر پردیش کے انتخابات کی تاریخوں کو اعلان ہوچکا ہے، اور کانگریس، سماجوادی، بی جے پی، اور چھوٹی موٹی مسلم پارٹیاں انتخابات کے پرچار میں مصروف ہے۔ گزشتہ دنوں جمعرات کو ایم آئی ایم کے صدر اور ممبر آف پارلیمنٹ جناب اسد الدین اویسی صاحب کی گاڑی پر کچھ فرقہ پرستوں نے حملہ کیا ہوسکتا ہے کہ ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کیلئے اور مسلمانوں کو متنفر کرنے کیلئے اس طرح کا کھیل سنگھی فرقہ پرستوں کی طرف سے کیا گیا ہو۔ اتر پردیش میں کس کی حکومت بنے گی یہ فیصلہ عوام کریں گی میرے اور آپ کے بولنے رائے دینے سے ووٹنگ کی سمت میں کچھ خاص تبدیلی ہونے والی نہیں ہے۔ مسلمانوں کی کمزوری یہی ہیں کہ جیسا موسم آتا ہے اس رنگ میں رنگ جاتے ہیں ہمارے پاس باشعور عوام کی کمی ہے۔ جب تک عوام خود اپنے اچھے برے کو سوچنے سمجھنے نہیں لگتی انہیں اسی طرح استعمال کیا جاتا رہے گا۔ جہاں کہیں بھی انتخابات ہو اسکے لیے بہت پہلے سے زمینی سطح پر ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عین وقت پر جذباتی تقاریر، اور لیڈروں کے جھوٹے آنسوں ، جھوٹے وعدےعوام کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے ہوتے ہیں۔ اس لیے اتر پردیش کی عوام کو ایسی پارٹی کو ووٹ دینے کی ضرورت ہے یا ایسے رہنما کو ووٹ دینا چاہیے جو ان کے حق میں بہتر ہو، اور جہاں تک ہوسکے مخلوط حکومت بنانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ کیونکہ ذات پات مذہب کی سیاست میں دو گروہوں تقسیم ہوجاتے ہیں اور ہندو مسلم ووٹوں میں بٹ جاتے ہیں۔ عوامی میں حلقوں اور میڈیا میں یہ بات گردش کر رہی ہیں کہ اتر پردیش اسمبلی انتخابات  2024 کے لوک سبھا انتخابات کا ٹریلر ثابت ہوگے۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ملک میں مسلمانوں کو اپنے دفاع کی تیاری خود ہی کرنی چاہیے، جیسے کرناٹکا کے گورنمنٹ کالج اڑپی میں لڑکیوں کو حجاب پہن کر کالج میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے اور اب یہ مدا عالمی میڈیا میں سرخیوں میں ہے اتنا ہی نہیں کرناٹکا کے تین کالجوں میں حجاب پہن کر کالج میں داخل ہونے سے مسلم لڑکیوں کو روک دیا گیا ہے اور وہ مسلم بچیاں کالج کے باہر اپنے مذہبی تشخص کی حفاظت اور قانون حق کو حاصل کرنے کیلئے احتجاج کر رہی ہیں۔ اور اس پر ظلم یہ کہ فرقہ پرست طلبہ تنظیمیں انکے خلاف جئے شری رام کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ہم جن افراد کو سیکولر اور اپنا خیر خواہ سمجھتے ہیں وہ سب اس مسئلے پر خاموش ہے۔ کیونکہ انھیں اس بات کا ڈر ہے کہ اگر انہوں نے مسلمانوں کے حق میں کوئی اسٹیٹمینٹ جاری کیا تو انتخابات کے موسم میں ہندو ووٹ منشتر ہوجائے گا۔
 اور جو مسلم قائدین سیاستدان ہیں وہ بھی صرف سوشل میڈیا پر احتجاج درج کرکے اپنی ذمہ داری سے دست بردار ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اب اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے خود احتجاج کریں۔ ایک اور اہم بات یہ عرض کرنی ہے کہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت اگر ہمارے حق میں قانون سازی کرلے تو ہمیں تمام حقوق حاصل ہوجائے گے۔ لیکن یہ انکی ناسمجھی اور بے وقوفی ہے۔ فرقہ پرستوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوچکے ہیں کہ وہ کھلے عام مسلمانوں کی لنچنگ کرتے ہوئے ذرا بھی قانون یا سسٹم کا خوف نہیں کھاتے  اور انھیں موجودہ حکومت کی تائید بھی حاصل ہے۔ اس لیے سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر حکومت لنچنگ وغیرہ جیسے مظالم کے  قانون سازی کر بھی لے تو مسلمان محفوظ نہیں رہے سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ اپنے اوپر عدالت یا قانون کی وہ کاپیاں چسپاں کرکے نہیں گھومنے والے اور ناہی ان فرقہ پرستوں کو اس سے کوئی فرق پڑنے والا ہے۔ ان لوگوں کے دلوں میں بےحد نفرت ہے کہ وہ جان لینے کیلئے ذرا بھی نہیں سوچ رہے تو وہ قانون سے کونسے رکنے والے ہیں۔ اس لیے خود اپنے دفاع کی کوشش کرنے کے ضرورت ہے۔ کیونکہ اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا۔

تبصرے بند ہیں۔