مسلمان پھوڑوں کا علاج کررہے ہیں خونِ فاسد کا نہیں!

عبدالعزیز

مولاناعبید اللہ خاں اعظمی ایک اچھے مقرر اور خطیب ہیں ایک زمانے تک ایک خاص نقطۂ نظر کا تحفظ اور تبلیغ کرتے تھے، مگر جب پارلیمنٹ کے ممبر ہوئے اور ملاقاتوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا تو مولانا کے خیالات میں توسع اور کشادگی پیدا ہوگئی مسلک اور ایک خاص نقطہ نظر کے تحفظ کے بجائے اسلام کے تحفظ اور بقا پر اپنے خیالات زور و شور سے پیش کرنے لگے ۔ پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے کلکتہ کے ایک محلہ (تالتلہ ) میں مولانائے محترم کی تقریر تھی ۔

مولانا نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں بہت ذہن  بگاڑ چکا ہوں اب یہ کام مجھ سے ہونے کا رہا ، پھر ’’عشق رسولؐ‘‘ پر نہایت جامع تقریر کی کہا عشق رسولؐ یہ نہیں ہے کہ تم ایک دوسرے کے درمیان نفرت و کدورت کی دیوار کھڑی کردو، دین و مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے درمیان عداوت اور دشمنی کا بیج بوئو عشق رسولؐ یہ ہے کہ دشمنوں کو بھی گلے لگالو ۔ گالیاں سن کر دعائیں دو مگر تم جو ایک دوسرے کو جو ہم مذہب ہیں انہیں گالیوں سے نوازتے ہو اور اپنا دشمن سمجھتے ہو ایک دوسرے ابولہب اور ابوجہل کہتے ہو یہ عادتیں چھوڑ دو اگر عشق رسولؐ کے دعویدار ہو ۔ جو لوگ ایک دوسرے پر طعن تشنیع کرتے ہیں پھبتیاں کستے ہیں ایک دوسرے کا جینا حرام کردیتے ہیں ایک دوسرے کو ذلیل و خوار کرنے کے فکر میں رہتے ہیں ۔ ایسے لوگ ابولہب و ابوجہل کی سنتوں کو زندہ اور تازہ کرتے ہیں رسول اکرمؐ کی سنتوں کو نہ تازہ کرتے ہیں اور نہ پیروی کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ دشمن اسلام کو تقویت پہنچاتے ہیں ان کی ہم نوائی کرتے ہیں ان کا ہاتھ مضبوط کرتے ہیں ۔ تم بڑے بڑے جلسے او ر اجتماعات کرتے ہو مگر تمہارے دشمن چھوٹے چھوٹے جلسے ، سپوزیم اور سمینار کرتے ہیں جس میں تمہارے قتل و خون کا منصوبہ طے کرتے ہیں تم ان کے قاتلانہ اور جارحانہ منصوبوں سے واقف ہو اس کے دفاع اور توڑ کیلئے تمہارے پاس نہ کوئی منصوبہ ہے، نہ لائحہ عمل اور نہ کوئی طویل المیعاد یا مختصر المیعاد پروگرام ہے ۔ جب دشمنوں کا منصوبہ تم پر لاگو ہوگا تو شاید تمہاری نیندیں کھلیں گی مگر بہت دیر ہوچکی ہوگی ۔

 گزشتہ روز (16مئی 2017) کی شام کو حسن اتفاق سے ایک مجلس میں جب مولانائے محترم سے میری ملاقات ہوگئی تو کلکتہ والی تقریر کا کچھ حصہ بیان کرنے لگا مولانا نے میری طرف غور سے دیکھا اور خاموش ہوگئے ایک دیدہ و دانش رکھنے والے شخص نے تقریباً بیس سال پہلے مسلمانوں کو آج کے آنے والے دور سے باخبر کیا تھا مگر سننے والوں نے ایک کا ن سے سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا۔ کاش! ایسے دیدہ وروں کی باتوں پرمسلمان دل و جان سے عمل کرتے تو آج دشمنوں سے سامنے مغلوب اور مجبور اور بے بس نہ ہوتے بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے۔

مولانا نے اپنے سفر ایران کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب انہوں نے اپنی نصف گھنٹے کی تقریر میں کہا کہ بدقسمتی سے مسلمان شیعہ ، سنی، دیوبندی ، بریلوی ، وہابی  غیروہابی ، جماعتی غیر جماعتی کے درمیان نفرت اور کدورت کی دیواریں کھڑی کررہے ہیں تو دراصل یہ سب ایک دوسرے کے پھوڑوں کا علاج کررہے ہیں جو جسم کے ایک حصہ پر نکلتے ہیں پھر دوسرے حصے پر نمودار ہو جاتے ہیں ایسے پھوڑے جسم میں نکلنا بند نہیں ہوتے جب تک جسم کے اندر جو خون فاسد ہے اس کا سنجیدگی سے علاج نہیں کیا جاتا آج ہمارا حال یہی ہے کہ ایک دوسرے کو پھوڑا سمجھ کر معالج ، حکیم اور ڈاکٹر بنے ہوئے ہیں مگر پھوڑوں کا نکلنا بند نہیں ہورہا ہے۔

 مولانا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ ناف کے اوپر یا نیچے ہاتھ باندھتے ہیں سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں اور جب دشمن ہماری آپ کی گردن نانپنے لگے گا تو نہ ناف کے نیچے نہ اوپر ہاتھ باندھ سکیں گے اور نہ سینے پر ہاتھ باندھنے کے لائق رہیں گے آپ ظالموں کے رحم و کرم پر زندہ رہیں گے ۔ مولانا نے کہا کہ اس مجلس میں شیعہ ، سنی ، دیوبندی ، بریلوی ، وہابی غیر وہابی جنہیں لوگ عرف عام میں کہتے ہیں سب تھے مگر سب سنکر حیرت زدہ رہ گئے۔ (آج کل بلکہ بہت پہلے سے سعودی میں رہنے والے عرب النسل مسلمان شیعہ کو مسلمان نہیں کہتے اور شیعہ عرب کے مسلمانوں کو مسلمان نہیں کافر سمجھتے ہیں یہ چیز امام خمیتی کے وقت کم ہوئی تھی مگر دشمنوں نے پھر شیعہ اور سنی کے بیچ میں کافی اونچی دیواریں اٹھا دی ہیں اور پورے وسط ایشیا میں دشمن دین نے مسلمانوں میں ایک دوسرے کو قتل کرنے اور برادرکشی کرنے کو آسان بنا دیا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افراد جان بحق ہوچکے ہیں لاکھوں بے گھر اور بے پناہ ہیں دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اغیار سے پناہ کی بھیک مانگ رہے ہیں ۔ یہ ہے اس وقت مسلمانوں کی حالت ، شام ایمن اور دیگر ممالک خون خرابے میں لت پت ہیں ۔)

مولانا کی توجہ جب ملکی حالات کی طرف مبذول کی گئی تو مولانا نے فرمایا کہ فرقہ پرست یا باطل پرست اپنی فرقہ پرستی اور باطل پرستی میں مخلص ہیں مگر جو لوگ سیکولر سٹ اور غیر فرقہ ستی کے دعویدار ہیں ان کے اندر خلوص نہیں ہے جس کی وجہ سے سیکولرزم یا غیر جانبداری کا زوال یا شکست ہورہی ہے۔ مولانا نے اترپردیش کے بارے میں بتایا کہ فرقہ پرستوں نے فرقہ پرستی یا ہندو پرستی کا وہ شعلہ بھڑکا یا کہ ہریجن ، ہریجن نہیں رہا ہندو ہوگیا ، یادو کرمی سب ہندو ہوگئے  سب تھوڑی دیر کے لئے اپنی ذات پات کو بھول گئے جس سے فرقہ پرستی کی جیت ہوئی اور سیکولر سٹوں کا حال یہ رہا کہ باپ بیٹے آخری وقت تک ایک دوسرے کے خلاف جنگ آزمائی کرتے رہے ۔ مولانا نے کہا کہ  کانگریس میں ہوتے ہوئے بھی اترپردیش کا رخ کرنے سے قاصر رہے مولانا آج کل زیادہ وقت شہر بمبئی میں گزارتے ہیں ۔

 مولانا سے راقم نے گزارش کی کلکتہ میں ، معززین شہر اور علماء کرام کے دو اجتماعات کو الگ الگ خطاب فرمائیں  مولانا نے کہا ’’اس وقت تو پابہ رکاب ہیں عمرہ کیلئے تیاری کررہے ہیں رمضان انشاء اللہ مکہ و مدینہ میں گزار یں رمضان کے بعد اگر آپ لوگوں نے ایسا کوئی پروگرام بنایا تو وہ ضرور آئیں گے ۔‘‘

 آج ضرورت ہے کہ مولانا عبید اللہ اعظمی جیسے علماء کرام ہر شہر اور ہر قریہ مین مسلمانوں کو خطاب کریں تاکہ ہماری صفوں میں جو انتشار ہے وہ اتحاد میں بدل جائے طلاق کے مسئلے پر بھی مولانا نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو تمام مسالک اور نقطہا نظر کو پیش کرنا چاہئے تھا۔ ہر مسلک اور مکتبہ ٔ فکر کے لوگ مسلمان ہیں سب نے قرآن و سنت سے ہی استنباط کیا ہے اپنے مسلک کو صحیح سمجھنا غلط نہیں ہے مگر دوسرے مسلک کوغلط کہنا غلط ہے

میری رائے صحیح ہے جس میں غلطی کا امکان بہر حال موجود ہے جبکہ دوسرے کی رائے غلط ہے مگر اس میں صحت کا امکان موجود ہے (ادب الاختلاف) جب  میں کسی مسئلے پر کسی سے میری بحث ہوتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس کی زبان سے حق ظاہر کردے تاکہ میں بھی اس کی اتباع کروں ۔(امام شافعیؒ)

تبصرے بند ہیں۔