مسلمان ہجری تقویم کو فروغ دینے والے بنیں

محمد قاسم ٹانڈوی

ہمارے اسلامی سال کا افتتاح ماہ محرم الحرام سے ہوتا ہے اور سال کا اختتام ماہ ذی الحجہ پر۔ گویا ہمارے اسلامی سال کا افتتاح و اختتام دونوں ہی بامعنی ہوئے کیوں کہ ہمیں از روئے شرع ان دونوں مہینوں کو بھرپور طریقے پر احترام و اکرامناور تعظیم و تکریم کے ساتھ گزارنے کی تاکید کی گئ ہے لہذا ہمارا اسلامی سال کا کلینڈر اسی آخری مہینہ ذی الحجہ کے اختتام پر جہاں اپنے ماننے والوں کو عظیم باپ بیٹوں کی عظیم قربانی کی یاددہانی اور اس قربانی کو خوش دلی کے ساتھ ادا کرنے کا درس دیتا ہے وہیں ہمارے سال کا یہ پہلا مہینہ اپنے آغاز پر اپنے ماننے والوں کو کئ سارے اسباق و پیغامات کی نوید سناتا ہے، گویا ہمارا اسلامی سال اول و آخر ہر اعتبار سے یکسانیت و مساوات اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔ جس سے اہل ایمان کو اپنے ایمان میں تازگی، اعمال میں روحانیت اور اپنے اکابر و بزرگوں کے تئیں عقیدت و محبت میں وارفتگی پیدا ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ اور حقیقتا ایسا ہونا بھی چاہئے اس لئے کہ اس روئے زمین پر اقوام عالم کی جو ولولہ خیز تاریخ اور اسباب ترقی و تنزلی کے لاثانی نقوش کندہ ہیں وہ سب ہجری کلینڈر کے ماہ و ایام سے وابستہ ہیں۔

مگر افسوس ہماری قوم کی اکثریت بالخصوص اس کا نوجوان طبقہ ان سے نابلد و ناواقف ہے جس کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف و اکابر اور مسلم حکمرانوں کے کارہائے نمایاں کا علم اپنی معلومات کی میموری میں نہیں پاتے اور بوقت ضرورت پشیمانی و تحقیر کا سامنا کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں اس کے برخلاف جب انگریزی سال کی شروعات ہوتی ہے اس وقت بکثرت مشاہدہ جو ہوتا ہے وہ سب انتہائی قابل افسوسناک صورتحال ہوتی ہے کیونکہ اس موقع پر ہمارے ان نوجوانوں کو اپنے گھر مکان اور دوکان و بازار کو رنگ برنگے قمقموں سے سجانا اور سیر و تفریح کے مقامات پر ہجوم در ہجوم جانا، جشن و چراغاں سے بھرپور طور پر مزین ہوٹل و بار کی محفلوں سے لطف اندوز ہونا خوب یاد رہتا ہے۔

الغرض عیسوی سال نو کے آغاز پر پورے شان و شوکت، مکمل جوش جوانی میں غرقاب ہوکر بڑی دھوم دھام کے ساتھ ہمارے نوجوانوں کا وہاں سہیم و شریک ہونا پایا جاتا ہے۔ اور اگر عین اسی وقت قوم مسلم کے اس طبقے سے یہ معلوم کر لیا جائے کہ بھائی! ذرا بتانا کہ ہمارا اسلامی سال کا افتتاح اور ہجری کیلنڈر کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ اسلامی کیلنڈر اور ہجری تاریخ کو رواج دینے اور اس پر بنیاد رکھنے کے کیا اسباب بنے؟ تو اس موقع پر ان کے چہرے بشرے سے حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور ایسے میں ان کی معصوم شکلیں قابل دید ہوتی ہیں، اس لئے کہ وہ تاریخ اسلام اور ماضی میں پیش آمدہ احوال و کوائف سے یکسر ناواقف و بےخبر جو ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف اسلامی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے ہوں بلکہ جس طریقے سے ہم اپنے دینی امور اسلامی کلینڈر کے ماہ و ایام اور سال کے مطابق مکمل کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح سے اپنے دنیاوی معاملات کو اور زندگی کے ہر موقع پر اسلامی کلینڈر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہجری تاریخوں کو مروج و متعین کرکے زیادہ سے زیادہ ان کو استعمال کرنے کی فکر اور بھرپور کوشش کریں۔

ملت اسلامیہ کے ہر فرد اور ہر شخص پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی کیلنڈر اور ہجری تاریخ کا بغور مطالعہ کرے اور اس کے آغاز و وجوہات کو ذہن نشیں فرما کر اس کو اپنے روزانہ کے معمولات کا حصہ بنائے۔

ہمارے ہجری کلینڈر کا پس منظر یہ ہےکہ:

اسلام جب اپنی حقانیت و صداقت کے بلبوتے عروج کو پہنچا اور وہ دنیا میں وسیع تر ہونے لگا یہاں تک کہ اس نے دور دراز کے علاقوں میں اپنا ہلالی پرچم لہرا دیا تو اب حکومتی انتظام اور عوامی امور کو بحسن و خوبی طے کرنے کے واسطے منتخب حکمرانوں کو موقع بموقع حضرت امیرالمؤمنین سے بہت سے امور میں خط و کتابت کی نوبت پیش آنے لگی، دارالخلافت سے دوری کی بنا پر پیش آمدہ واقعات و حوادث کی اطلاع بروقت خلیفہ المومنین کو پہنچانا ضروری محسوس ہونے لگا، ادھر سیدنا حضرت عمرؓ کی خلافت کو شروع ہوئے ابھی تقریبا دو ڈھائی سال کا ہی عرصہ ہوا تھا کہ سیدنا عمرؓ کے دربار عالی میں ایک رقعہ آیا جس پر مہینہ کا اندراج تو ضرور تھا مگر یہ بات مجہول تھی کہ آیا یہ رقعہ اسی جاری ماہ کا ہے یا سال گزشتہ کے ماہ کا؟ یعنی اس رقعہ پر جو ماہ شعبان درج تھا اس سے یہ طے کرنا مشکل ہو گیا کہ کون سا شعبان مراد ہے؟ چنانچہ اس امر مشکل واقعہ کے پیش آنے کے بعد سیدنا حضرت عمر فاروق رض نے حضرات صحابہ کرامؓ کو مدعو کیا تاکہ اس پیچدار مسئلہ کا کچھ حل نکالا جا سکے۔ چناچہ آپ نے صحابہ کو اکٹھا فرما کر رائے طلب فرمائ کہ ہمیں کس سن سے تاریخ کا آغاز کرنا چاہیے؟ چنانچہ اس مشاورتی اجلاس میں مختلف صحابہ کرام کی طرف سے الگ الگ رائے پیش کی گئیں؛ کسی نے تو یہ کہا کہ ملک روم والوں کی کی تاریخ پر ہمیں اپنی تاریخ کی بنیاد رکھنی چاہیے، کسی نے فارس والوں کی تاریخ کو بنیاد بنانے کی رائے پیش کی، مگر ان دونوں آراء کو خارج کر دیا گیا کیوں کہ روم و فارس والوں کی تاریخ ذوالقرنین سے منسوب تھی جس کی بنیاد کو طویل گردانا گیا بالآخر سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں تاریخ اسلامی کی بنیاد اس دن اور اس سن پر رکھنی چاہیے جس روز رسول اللہﷺ نے شرک و بت پرستی کی سرزمین کو چھوڑ کر بحکم الہی ہجرت فرمائ تھی۔ لہذا امیرالمومنین خلیفہ المسلمین سیدنا حضرت عمرؓ نے نہ صرف اس رائے کو قبول فرمایا بلکہ مجمع میں موجود دیگر حضرات صحابہ کرام نے بھی اس رائے پر اتفاق کا اظہار فرمایا، بس یہیں سے سن اسلامی کا آغاز ہوا یعنی ہجرتِ رسول اللہ ﷺ کو اسلامی تاریخ کی اساس و بنیاد قرار دے دیا گیا اور امیر المؤمنین سیدنا حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں سے ہیں، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"فعلیکم بسنتی وسنت الخلفاء الراشدین المھدیین” (سنن ابو داود:ج2/287)

چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس اتفاقیہ عمل سنت سے ہمارے اسلامی سال اور ہجری کلینڈر کی ابتداء ماہِ محرم الحرام سے طے پائی کیوں کہ محرم سے ہی ہجرت کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں۔

ہجرت کیا ہے؟

ہجرت: تاریخ اسلام اور رسول کریمﷺ کی حیاتِ آفریں کا وہ باب عظیم ہے جس نے دنیا کی تاریخ میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا تھا جس نے دینِ قیام و دین حنیف پر مر مٹنے والے جاں نثار مظلوموں کو سر بلندی و سرفرازی کی آخری دہلیز پر پہنچایا تھا۔

ہجری تقویم و تاریخ اسلامی کا یاد رکھنا یا خط و کتابت میں اس کا استعمال کرنا یہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے، کیونکہ اسلامی تاریخ سے ہی اسلامی تعلیمات اور دین حق کے احکامات متعلق ہیں، اور احکام اسلامی پر عمل آوری ہجری تقویم کو سمجھے بغیر ممکن نہیں اس لئے قمری تاریخوں کا یاد رکھنا ازحد ضروری امر ہوا، اسی لئے ہمارے حضرات علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ:

"اگر پوری امت قمری حساب کو ترک کر دے یا بالفرض چاند کی تاریخ کسی کو یاد نہ رہے تو اس صورت میں سب کے سب لوگ گنہگار ہوں گے”۔

گویا قمری تاریخوں کا یاد رکھنا اور اپنے دینی و دنیاوی معاملات میں ان ہی کو رواج دینا اور لین دین، حساب و کتاب میں ان کی رعایت کرنا ایک اہم دینی امر بھی پورا ہوگا اور اسلامی شعار کی پاسداری بھی۔

ہمارے اکابر و بزرگ ہمیشہ انہیں اسلامی ماہ و سال پر اپنے امور و افعال کی بنیاد رکھ کر ان کی تکمیل فرماتے تھے اس لئے کہ وہ حضرات جانتے تھے کہ اسلاف و اکابر کی قربانیوں کا تحفظ اور نسل نو کو ان کے کارہایے نمایاں سے واقفیت کرانا کا واحد طریقہ یہی ہے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے اعمال و افعال کی انجام دہی میں اپنے اکابر و بزرگ حضرات کے نقش قدم پر قدم رکھتے ہوئے اسلامی تاریخوں کا التزام کریں اور عیسوی تقویم کے مقابلے ہجری تقویم کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے والے بنیں۔

تبصرے بند ہیں۔