مسلم حکمران: ظالم یا مظلوم؟

ندیم عبدالقدیر

’’مسلم حکمران ظالم تھے،   لٹیرے تھے، بدمعاش تھے،بد اخلاق تھے، انہیں عوام کی فلاح کی کوئی فکر نہیں تھی،رعایا کی بہبودگی کا کوئی احساس نہیں تھا، انسانیت کا کوئی پاس نہیں تھا، وہ دن و رات اپنی عیاشی میں مست  رہتے تھےوغیرہ وغیرہ وغیرہ ‘‘۔ ان  تمام باتوں  اور فلسفوں کو    تمام  اقسام کے دانشوروں نے وحیٔ اِلٰہی سمجھ کراس پر  ’سمعنا و اطعنا‘ کی طرزپرایمان لایا  اور اپنی حسبِ استطاعت اس  نظریہ کی  بھرپور تبلیغ بھی کی۔ اس کی ابتدا انگریزوں نے کی۔ انگریزوں نے   ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں سے نفرت کے آتش کدے  کو دہکانے کیلئے ’ظالم مسلم حکمران‘ کے ایندھن کا بھرپور استعمال کیا۔ اس کے بعد ہندو انتہا پسند قلم کاروں نے اس آتشِ نمرود کو خوب بھڑکایا۔ پھر لبرل، کمیونسٹ اور آزاد خیال کے مصنفین اور  دانشوران (اس میں کئی مسلم خود ساختہ دانشوران بھی شامل ہیں ) نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اس موضوع پر زورِ قلم  صرف کِیا۔ ایسے تو اس کے بعد مسلم حکمرانوں کا سارا اخلاق، ساری رواداری اور سارے فلاحی کارنامے بھسم ہو کر رہ گئے،پھر بھی رہی سہی کسر مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’خلافت اور ملوکیت‘ نے نکال دی۔

 ایک بھی مسلم دانشور نہیں ہے جس نے کچھ تحقیق کی ہو۔ ایک بھی مسلم آزاد خیا ل شخصیت  نہیں ہے جس نے مسلم دورِ حکومت کااُس وقت کے دیگر حکمرانوں سے موازنے پرکچھ وقت صرف کیا ہو۔ایک بھی مسلم خرد مند نہیں جسے اتنا بھی پتہ ہوتا کہ ہندوستان، سونے کی چڑیا نہ مغل حکمرانوں سے پہلے کبھی تھا اور نہ ہی مغل حکمرانوں کے بعد کبھی بن سکا۔ مغلوں کے دور میں ہندوستان کی قومی پیداوار (جی ڈی پی) جتنی تھی اتنی نہ کبھی مغلوں سے پہلے تھی اور نہ ہی کبھی مغلوں کے بعد ہوسکی۔اس نکتہ  پر دنیا کے تمام ماہرمعیشت متفق ہیں کہ مغل دور میں ہندوستان کی قومی پیداوار پوری دنیا کی قومی پیداوراکا تقریباً 27؍فیصد تھی اور جب انگریز ہندوستان سے گئے اُس وقت ہندوستان کی قومی پیداوار دنیا کی جی ڈی پی کے محض ۳؍فیصد پر پہنچ کر ہانپ رہی تھی۔ جس طرح منظم طور پر مغلوں نے ہندوستان کو سنوارا تھا اس سے کہیں زیادہ منظم طور پر انگریزوں نے اسے لوٹ لیا، لیکن  ہماری ستم ظریفی دیکھئے کہ ہمیں  مسلم حکمرانوں کو گالی دینے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔

سنگیت سوم نے جو کہا، درحقیقت اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ سنگھ پریوارکا  سو سال کا لٹریچر ایسی ہی باتوں سے اٹا پڑا ہے۔ اس میں مسلم حکمرانوں کو ظالم بنا کر پیش کرنے  کیلئے جان توڑ محنت کی گئی ہے۔ ’600؍سال مسلم حکمرانوں نے ہندوستان پر راج کیا‘  یہ  بات ایک کانٹے کی طرح  عام ہندوکے دل میں چبھتی ہے اور اس میں احساسِ ذلت اور احساسِ محرومیت کو جنم دیتی ہے۔
خواہ مسلم حکمرانوں کی حکومت کتنی ہی سیکولر اقدارپر مبنی رہی ہو اور مذہبی منافرت سے پاک رہی ہو، یہ سب باتیں اس کےلئے معنی ہی نہیں رکھتیں ۔ وہ اس بات کو فراموش کرجاتا ہے کہ وہ وقت ہی ایسا تھا۔ صرف ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں بادشاہوں کی فوج دندناتی پھرتی تھی۔ چندر گپت موریہ بنگال کا ہونے کے باوجود افغان تک فتح کرلیا۔ چنگیز خان  منگول کا ہونے کے باوجود عرب تک جا پہنچا۔ نپولین فرانس کا ہونے کے باوجود اٹلی، پرتگال اور پورے مغربی یوروپ پر قبضہ کرلیا تھا، لیکن ان حکمرانوں کے خلاف ایسی زہر افشانی نہیں ہوتی ہے جو بے چارے ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کے حصے میں آتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ سنگھ پریوار، ان مسلم حکمرانوں کو ہندوؤں کے مخالف بناکر پیش کرتاہے۔ یہ فلسفہ آگ پر گھی کا کام کرتا ہے۔  مسلم حکمرانوں کے خلاف ذہنیت راتوں رات پروان نہیں چڑھی ہے۔ اس کے پیچھے صدیوں کی محنت ہے۔ اس کا آغاز انگریزوں نے کیا، خود کو ہندوؤں کے نجات دہندہ بتا کر۔

انگریز، ہندوؤں کے نجات دہندہ 

ہندو انتہا پسندوں کو جو بھی ملا ہے وہ انگریزوں سے ملا۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے حکومت حاصل کی اس لئے مسلمان ہی انگریزوں سے  برسرِ پیکار رہا  لہٰذا انگریزوں  کےلئے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت  کے الاؤ جلائیں ۔ اس حصولِ مقصد کیلئے انگریز نے ہندوؤں کے دلوں میں یہ بات بٹھائی کہ ہم توہندوؤں کیلئے نجات دہند ہ بن کر آئےہیں جو  ہندوؤں کو غیر ملکی مسلم حکمرانوں سے نجات دلائیں گے۔ ہندوؤں کو انگریزوں کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ اس کام کیلئے انگریز تاریخ دانوں میں سب سے اہم نام ’ایچ ایم ایلیوٹ‘ اور ’ایم الفنسٹن‘ کا ہے۔ انہوں نے ایسی ایسی باتیں گڑھی کہ عقل دنگ رہ جائے۔ جتنے بھی ہندو انتہا پسند مصنفین ہیں وہ سب ان انگریز تاریخ دانوں کی کتابوں کا ہی حوالہ دیا کرتے ہیں ۔ ان دونوں انگریز متعصب مصنفین کے بعد ونسنٹ اسمتھ، اسٹین لی لین پول، الیگزنڈرا کننگھم، جوزف ٹیفن تھیلر اور آر بی وہائٹ ہیڈ کا نام آتا ہے۔  تاج محل، تیجو مہالیہ ہے یہ بات بھی ایچ ایم ایلیوٹ کے ہی شہ دماغ کی اپج ہے۔ بابری مسجد، ایک مندر کو توڑ کر تعمیر کی گئی، یہ فتنہ سب سے پہلے جوزف ٹیفن تھیلر نے ہی اٹھایا تھا، یہ جوزف ٹیفن  تھیلر ایک عیسائی مشنری کا کارندہ تھا۔ تقریباً 200؍سال تک انگریز وں نے حکومت کی اور اس دوران انہوں نےانتہائی منظم طور پرتاریخ کو مسخ کیا۔ اس روایت کو ہندو انتہا پسندوں نے آگے بڑھایا، جسے مسلمان دانشوروں کا بھی ساتھ ملا۔ وہ اس بات کو بالکل فراموش کرگئے کہ مسلم حکمرانوں نے کس قدر کشادہ دلی سے یہاں راج کیاِ۔ مندروں کو جاگیریں دیں ، زمینیں اور اراضی عطیہ کئے۔ حتیٰ کہ یوگی آدتیہ ناتھ کا گورکھ ناتھ مٹھ بھی سراج الدولہ کی مرہون منت ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ کا گورکھ ناتھ مٹھ، سراج الدولہ کا عطیہ

یوگی حکومت کے وزراءکو پہلے یہ جان  لینا چاہئے کہ یوگی آدتیہ ناتھ جس گورکھ ناتھ مٹھ سے آتے ہیں اُس مٹھ کی زمین نواب سراج الدولہ نے عطیہ میں دی تھی۔ 1994ء میں آدتیہ ناتھ کے پیش رو، مہنت اویدناتھ نے آصف الدولہ کی نسل سے تعلق رکھنےوالے انجم قدر کی عزت افزائی بھی کی تھی۔ انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا تھا کہ گورکھ ناتھ مٹھ کی زمین مسلم حکمراں سراج الدولہ نے دی تھی۔ کم از کم یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے کابینی رفقاء کو تو مسلم حکمرانوں کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہئے۔

مسلم حکمرانوں کی تعمیرات سے حکومتِ ہند کو آمدنی

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق مغلوں کے ذریعے بنائی گئی تاریخی عمارتوں کے ذریعے حکومت کو ہونے والی آمدنی بھی اس کا چیختا ہوا ثبوت ہے۔ وزارتِ سیاحت  کی  2015ء کی رپورٹ کے بموجب تاج محل سے حکومت کو 21ء23؍کروڑ روپے سالانہ فیس موصول ہوتی ہے۔ اسی طرح آگرہ قلعہ سے 10ء59؍کروڑ، قطب مینار سے 10ء29؍کروڑ، ہمایوں کے مقبرے سے 6ء36؍کروڑ، فتح پور سیکری سے 6ء31؍کروڑ، لال قلعہ سے 5ء97؍کروڑ روپے کا قومی خزانہ میں اضافہ کرتی  ہے۔ یہ آمدنی ٹکٹ وغیرہ سے حاصل ہوتی  ہیں ۔ ان کے علاوہ ان  مقامات پر کھانے پینے کے اسٹال کے ٹھیکوں اور اشتہارات کے ٹھیکوں سے ہونے والی آمدنی علیحدہ ہے، جس کا اس میں ذکر نہیں ہے۔

کچھ بارے مسلم دانشوروں کا بیاں ہوجائے

مسلم دانشوروں کو یہ شکایت ہے کہ مسلم حکمرانوں نے’ٹی این سیشن ‘ جیسا کوئی الیکشن کمشنر نامزد کرکے ہندوستان میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن   کیوں نہیں کرائے ؟ ایسا نہیں کرکے انہوں نے ہندوستان کی رعایا کے ساتھ ظلم کیا ہے، لیکن یہ کہتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں  سے پہلے ہندو راجا مہاراجا کوئی الیکشن سے جیت کر حکمران نہیں بنے تھے، اور نہ ہی ان کے بعد آنے والے انگریزوں نے الیکشن جیت کر دہلی کا تخت حاصل کیا تھا۔ مسلم حکمرانوں کا موازنہ ہمیں کرنا چاہئے تو اس وقت کے دیگر حکمرانوں سے کرنا چاہئے،لیکن ہم اُن کا موازنہ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام سے کرنے لگتے ہیں ۔ اب اُن سے موازنہ کریں گے تب تویہ بےچارے قصور وار ہی نظر آئیں گے.

تبصرے بند ہیں۔