مسلم سیاست اور انتخابات

مسعود جاوید

پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات یعنی 2019 لوک سبها عام انتخابات کا سیمی فائنل کا بگل بج چکا ہے ووٹر لسٹوں میں اپنے اپنے ناموں کا اندراج یقینی بنانے سے لے کر voting pattern کہ کس پارٹی کو ووٹ دیں اور کیوں۔ اس پارٹی اور اس کے نمائندوں سے ہماری توقعات کیا ہونی چاہیئے اور ان توقعات کو زمین پر اتارنے کی کون سی ترکیب کارگر ہوگی۔ کس طرح مسلم ووٹ اتنا باوزن ہو کہ اس کی بنیاد پر مختلف پارٹیوں کے ساتھ ڈیل سیٹ شیئرنگ اور bargaining کی جائے، چار سال قبل مسلم ووٹرز کو بے معنی irrelevant بنانے کا تجربہ بہت حد تک کامیاب رہا۔ غیروں کے تهینک ٹینک کی اسٹریٹجی اور اپنوں کا روایتی انتشار اور مفاد پرستی نے مسلمانوں کی وہ حیثیت بهی ختم کردی جس کی وجہ کر انتخابات کی آمد آمد پر مسلمانوں کی آؤ بهگت ہوتی تهی۔ اب تو یہ حال ہے کہ” سیکولر”پارٹیز اور امیدوار اپنی کمیٹیوں میں کسی مسلم چہرہ کو نمایاں جگہ دینے سے بهی پناہ مانگتی ہیں اس لئے کہ اب کوئی بهی پارٹی "اقلیت نواز” کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کرنا نہیں چاہتی۔

گزشتہ چند سالوں میں ایسا ماحول بنایا گیا اقلیتوں اور پسماندہ طبقوں کے لئے رفاہ عامہ اور ڈیولپمنٹ کے کاموں کے خلاف اس قدر شور کیا گیا اور سابقہ حکومت پر مسلم خوشنودی   appeasement کا الزام لگایا گیا۔ اقلیت نوازی کہہ کر اس قدر مخالفت کی گئی کہ اب کوئی بهی پارٹی اس پر گفتگو کرنے سے بچتی ہے۔ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ” اقلیتوں کی فلاح و بہبود یا سیکورٹی کی بات کرنا اکثریت کی ناراضگی مول لینا ہے”۔ پچھلے انتخابات کا تجربہ ان کی اس سوچ کو اس حد تک یقینی بنادیا کہ کانگریس کے بعض بڑے لیڈروں نے 2014 کے انتخابات میں شکست فاش کے بعد کہا کہ ضرورت سے زیادہ اقلیت نوازی کی وجہ سے شکست ہوئی۔ اس کے علاوہ دوسرے کئی سیکولر لیڈر اقلیتوں خاص طور مسلمانوں کے خلاف ظلم و زیادتی کی مذمت کرنے سے بچتے رہے ہیں اور وجہ صاف ہے کہ اصل مطمح نظر اصول و ضوابط نہیں ہیں انتخابات میں فتحیاب ہونا ہے اور ظاہر ہے ‘اکثریت کو ناراض کر کے فتح یاب ہونا ممکن نہیں ہے’۔ تهینک ٹینک کی اسٹریٹجی کا اثر اس شکل میں ظاہر ہوا۔ ویسے اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ بھی اچها ہوا کہ اب  ہر پارٹی کے اصول اعلانیہ یا خفیہ تقریباً یکساں ہیں۔ اب سب مندر مندر کهیلنے میں لگے ہیں۔ میں بهی چاہتا ہوں کہ وہ اپنے دهرم کا پالن کریں۔ اور یہ کہ دهرم کسی پارٹی کی جاگیر نہیں ہے۔

اب ایسا لگتا ہے کہ  سالہا سال سے جاری منافقت کا خاتمہ ہوگا۔۔۔ ۔۔۔۔ میں اس کے حق میں بہت پہلے سے لکهتا رہا ہوں کہ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دینی شعائر کو اپنائیں اور ہندو اپنے دینی شعائر کو۔ ایک اچها شہری اور سیکولر مسلمان ہونے کے لئے ہیشانی پر ٹیکہ تلک لگانا کلائیوں میں دهاگہ باندھنا ضروری نہیں ہے اسی طرح ایک اچها شہری اور سیکولر ہندو ہونے کے  لئے ٹوپی پہننا اور مزاروں پر ماتها ٹیکنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن افسوس ہوتا ہے ان سادہ لوح مسلمانوں پر جو مودی جی یا کسی اور لیڈر کے ٹوپی پہننے یا نہ پہننے افطار پارٹی دینے  یا نہ دینے  اور مسجد و مزار کی زیارت کرنے یا نہ کرنے  سے مسلمانوں کے تئیں ان کی مسلم دوستی یا وفاداری کو ناپتے ہیں۔   حالیہ برسوں میں جس قدر مسلمان بے وقعت ہوئے ہیں ماضی میں حتی کہ ازادی کے بعد کے سالوں میں   جب اکثریتی طبقہ کے بعض لوگوں کی زبان پر رہتی تھی کہ’ تمہیں تمہارا حصہ پاکستان کی شکل میں دے دیا گیا’  اس دور میں بھی ایسی بے وقعتی نہیں تهی۔

اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے حالات کو سدھارنے کے لائحۂ عمل پر نہ صرف غور کریں بلکہ عملی اقدامات کریں۔ ہم ملت واحدة ہیں اس سے انکار نہیں،  ہم جسم واحد کی طرح ہیں کہ اس کے عضو میں تکلیف ہونے سے درد اور بخار پورے جسم میں ہوتا ہے اس سے انکار نہیں، حرمین شریفین اور بیت المقدس ہم مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ مقدس مقامات ہیں اس سے انکار نہیں۔ عالم اسلام میں کشت و خون اور گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبے سے ہم بهی لرزاں ہیں۔ مگر ( 1) ہم ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے ملک کے دستور و قوانین کے فریم ورک میں ان کے بارے اظہار خیال اور عمل کرنا ہے۔ (2) ہماری ترجیحات متعین ہونی چاہیئے۔ اور پہلی ترجیح ‘ ہمارا اتحاد ہے’۔ مگر تضاد دیکھئے کہ ہم اپنی مسجدوں میں مسلکی فقہی جزئیات پر اختلافات کو مخالفت اور عداوت بنائے ہوئے ہیں محلہ اور شہروں میں قیادت کے مسئلے پر ایک دوسرے کو نیچا دکهانے میں لگے ہیں مگر عالمی اسلامی اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ گراس روٹ یونیٹی کی ضرورت ہے۔

اس بارے میں  طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو پهر پڑوس کو پهر محلہ کو پهر شہر کو پهر ملک اور پهر بیرون ملک کی فکر کریں۔ مگر افسوس اپنا گهر اور اپنا محلہ جہاں اصلاح اور  تعلیمی سماجی اور سیاسی بیداری کی سخت ضرورت ہے اس  کو پس پشت ڈال کر انٹر نیشنل پالیٹکس سعودیہ ترکی ایران اور  اسرائیل کو موضوعِ بحث بنائے ہوئے ہیں۔

 انتخابات میں ہماری بهر پور شراکت کس طرح ہو، ‘بهیک نہیں بهاگیداری’ کس طرح یقینی بنائی جائے۔ اس کے سلسلے میں اگر ابهی متحرک نہیں ہوئے تو آئندہ پانچ سالوں کے بعد ہماری حیثیت کیا ہوگی اس کا تصور بهی خوفناک ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔