مسلم سینا کا نام لینا بھی طوفان کو دعوت دینا ہے

حفیظ نعمانی

ہم الحمد للہ نہ کم آمیز ہیں نہ مردم بے زار، بعض جسمانی معذوریوں کی وجہ سے تقریباً 15  سال سے خانہ قید جیسی زندگی گذار رہے ہیں۔ اپنے گھر کے سامنے مشہور رائے اُماناتھ بلی ہال ہے جہاں آئے دن کوئی علمی یا ادبی تقریب ہوتی ہے، جی چاہنے کے باوجود وہاں بھی سال میں دو چار بار ہی جانے کی ہمت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اچانک کسی کا مضمون سامنے آتا ہے یا کوئی اچھی غزل دل پر دستک دیتی ہے تو اپنے عزیز بھانجے میاں اویس سنبھلی سے معلوم کرنا پڑتا ہے کہ یہ کون ہے؟ اس لئے کہ وہ ہماری جیسی ہی دلچسپی کے ساتھ ادبی ماحول میں سرگرم ہیں۔ 05  اگست کو اودھ نامہ کے ادارتی کالم میں ایک نام مدثر احمد کا دیکھا جنہوں نے ’’مسلم سینا مستقبل میں رونا‘‘ عنوان سے ایک اہم مسئلہ کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے۔ اور انہوں نے خود ہی کہا ہے کہ اگر کوئی مسلم تنظیم مسلم سینا بنا بھی لے تو کیا اسے برداشت بھی کرلے گی؟ افسوس ہے کہ ہم اب تک معلوم نہ کرسکے کہ مدثر احمد صاحب کہاں ہیں اور ہم ملنا چاہیں تو کیسے؟

یہ بات شاید پچاس سال سے بھی زیادہ پرانی ہے کہ جب شیوسینا نے مہاراشٹر میں بال ٹھاکرے کی قیادت میں ممبئی کے باہر کے مسلمانوں کا ممبئی میں رہنا حرام کردیا تھا۔ انہوں نے مراٹھوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور انہیں نعرہ دیا کہ مہاراشٹر مراٹھوں کا ہے (جبکہ وہ خود نہ مراٹھا تھے اور نہ مہاراشٹر کے رہنے والے تھے ان کے دادا بہار سے نہ جانے کہاں کہاں کی ٹھوکریں کھاتے کھاتے ممبئی آئے تھے) اور انہوں نے پہلے سابق مدراس جو اَب چنئی کہلاتا ہے اس کے لوگوں کو ممبئی سے بھگایا اس کے بعد وہ مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان مسلمانوں میں یوپی کے اور لکھنؤ کے مسلمان بھی ہوں گے۔ وہاں سے آنے والوں کے ایک خاندان کے ایک فرد اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر بے روزگار اخلاق احمد خاں درّانی بھی تھے وہ ہم سے بہت بے تکلف، ہر دن ملنے والے بھی تھے اور خوب جانتے تھے کہ ہمارا ذریعۂ معاش پریس ہے (جس کا نام تنویر پریس ہے) لیکن ہم سے انہوں نے کبھی ذکر نہیں کیا۔ ایک دن اچانک شور ہوا کہ شہر میں فل سائز یعنی 20×30  سائز کے بہت خوبصورت پوسٹر لگے ہیں جن کا عنوان ہے مسلم سینا اور اس میں نہ تو یہ لکھا ہے کہ کون بنا رہا ہے اور نہ یہ کہ کس نے چھاپا اور چھپوایا ہے؟ ہم خود امین آباد کے ایک ضمنی علاقے باغ گونگے نواب میں رہتے تھے۔ امین آباد چوراہے پر آئے تو دیکھا کہ پولیس کے جوان پوسٹر دیواروں سے نوچ کر پھاڑ رہے ہیں اور دہشت کا یہ حال ہے جیسے چنگیز خاں کے حملہ کی خبر آگئی ہو۔ ہر پریس پولیس کے نشانہ پر آگیا۔ امین آباد تھانے کے انسپکٹر ہم سے واقف تھے وہ ایک پوسٹر لے کر آئے اور کہا کہ نعمانی صاحب آپ ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ یہ بتایئے کہ یہ کس پریس کا چھپا ہے؟ ہم نے کہا کہ یہ بات کوئی پریس والا نہیں بتا سکتا۔ یہ لیتھو مشین کا چھپا ہوا ہے اور صرف لکھنؤمیں لیتھو کی 50  سے زیادہ مشینیں ہوں گی۔

پوسٹر دیکھ کر ہم یہ تو سمجھ گئے تھے کہ یہ کس کاتب نے لکھا ہے لیکن ہم نے اپنی بلا ٹالی اور مشورہ دیا کہ شام کو چار بجے قومی آواز کے دفتر چلے جائیے گا اس کے ایڈیٹر حیات اللہ انصاری صاحب سے کہئے گا کہ وہ اپنے کاتبوں کو بلاکر معلوم کریں کہ یہ کس کا خط ہے اگر اس کا پتہ چل گیا تو پریس کا بھی پتہ چل جائے گا۔ دو دن کے بعد معلوم ہوا کہ یہ اخلاق احمد خاں درّانی نے محض شرارت میں چھپوایا تھا جس کے دوسرے دن ہی ایک باکس میں جس کا سائز 6×9  ہوگا انگریزی کے اخبار پائنیئر نے چھاپا And Now Muslim Sena  (اور اب مسلم سینا) اور اس کے بعد جتنا زہر اگل سکتا تھا اس نے اگلا اور پورے ملک کے ہندو پریس نے کئی دن تک رونا رویا۔

امین آباد کی پولیس نے اخلاق احمد خاں درانی کی تلاش میں ان کے گھر کی زمین تک کھود ڈالی لیکن یہ ہم جیسے قریبی دوستوں کو بھی معلوم نہیں ہوا کہ وہ کہاں گیا اور پھر یہ مان لیا گیا کہ اس نے خودکشی کرلی۔ اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ وہ ممبئی میں ہمیں 1968 ء میں اس وقت ملے جب ہم جیل سے باہر آنے کے بعد ممبئی والوں کی دعوت پر گئے تھے یا 1980 ء میں مراد آباد کے قیامت جیسے فساد کے بعد گئے تھے بہرحال وہ ہمیںوکیلوں کی پوشاک میں ملے بالوں میں سفیدی آگئی تھی اور دانتوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا لیکن وہ پھر لکھنؤ نہیں آئے۔

مدثر احمد صاحب کے مطابق مسلم سینا دشمنوں سے اپنے کو بچانے کیلئے مارشل آرٹ اور سیلف ڈیفنس آرٹ کی مشق کرائے گی۔ کل ہی رات 9  بجے رویش کمار نے دکھایا اور سنایا ہے کہ جس ہجوم نے ہاپوڑ میں ایک مسلمان کی جان لی ان کے قاتلوں سے ایک نمائندہ نے امریکہ سے آئے ہوئے ایک اسٹوڈینٹ بن کر انٹرویو لیا تو ان کے سرغنہ نے بتایا کہ ہم نے شور کیا تھا کہ گائے کاٹ رہے تھے۔ یہ بات اخباروں میں آچکی ہے کہ مقتول کو رسّی میں باندھ کر گھسیٹتے ہوئے تھانے لائے اور پولیس ساتھ تھی۔ تھانے میں جب مارنے والوں کی طرف سے ایف آئی آر میں گائے کا ذکر آیا تو پولیس والوں نے کہا کہ جب گائے تھی ہی نہیں تو گائے کا ذکر کیوں کرتے ہو یہ لکھو کہ موٹر سائیکل سے ٹکر ہوگئی تھی اور موٹر سائیکل گھر پر ہے۔ اس کے علاوہ اسی نمائندہ نے جے پور میں بھی انٹر ویو لئے اور سب نے فخریہ بتایا کہ پولیس نے پورا ساتھ دیا اور آگے دینے کا وعدہ کیا۔

جب بھیڑ کے ساتھ پولیس ہو یعنی تھانہ کا انچارج ہو، یعنی ایس پی ہو یعنی آئی جی اور ڈی جی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ ساتھ ہے اور وزیراعلیٰ کے ساتھ کا مطلب مرکزی حکومت یعنی وزیراعظم ساتھ ہیں۔ تو میں بڑے ادب سے اپنے پرجوش عزیزوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ایسا بھی کوئی آرٹ اگر ان کے پاس ہو جو نریندر مودی جی سے لے کر پولیس کے سپاہی تک سب کے وار روک لے تو ضرور سکھائے ورنہ اخلاق احمد خاں درانی کا نام زندگی بھر یاد رکھئے گا۔ رہی یہ بات کہ پھر کیا کیا جائے؟ تو میرے عزیزو ایک علاج ہے اس سے دعا کرنا جس کے حکم کے بغیر آسمان سے پانی کی ایک بوند بھی نہیں گرتی اور دوسرا علاج یہ ہے کہ جب بھی الیکشن آجائے ہر نوجوان قسم کھالے کہ سیکولر پارٹیوں کے محاذ کے امیدوار کو 95  فیصدی ووٹ ڈلوانا ہیں اس کے لئے رکشہ چلانا پڑے گود میں لانا پڑے دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر لائن میں لگنا پڑے لیکن اپنے خاندان اور اپنے محلہ کا ہر مسلم ووٹ اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرنا ہے اور اگر کوئی ایجنٹ کہے بھی کہ مسلمان کا ووٹ مسلم پارٹی کے مسلمان بھائی کو دو تو اس سے معافی مانگ لینا ہے۔ 1946 ء سے زیادہ اہم 2019 ء کا الیکشن ہے۔ یہ وہ خاموش سینا ہے جو دشمن سے ہر حساب برابر کرالے گی۔

ہر پڑھا لکھا مسلمان جانتا ہے کہ مودی جی اور امت شاہ کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ مسلمانوں یا کانگریس کی کسی بات کسی کام یا کسی جملہ کو پکڑ لیتے ہیں۔ جو اُترپردیش کے الیکشن میں بھی کہا اور گجرات میں بھی وہ شیوسینا کو محمود غزنوی اور بابر کی فوج بتاکر ہندوئو ہوشیار کا رونا شروع کردیں گے اور وہ ہندو جو دیکھ رہا ہے کہ مودی سرکار کی حالت بہت بری ہے اسے طاقت پہونچانے کے لئے اور ہندو دھرم کو بچانے کے لئے ماحول کو گندہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس لئے عزیزو صبر کرو صبر اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

سی می کے جذبات لڑکوں نے بس ایک پوسٹر ہی تو چھاپا تھا جس میں لکھا تھا ’الٰہی بھیج دے محمود کوئی‘ نہ کوئی فوج بنائی تھی نہ محمود سینا بنائی تھی۔ ایک چھوٹی سی بھول کی یہ سزا ہے کہ سیکڑوں لڑکے جیل میں سڑ رہے ہیں جبکہ نہ انہوں نے جہاد کا نعرہ دیا تھا نہ کہا تھا کہ ہم کچھ کریں گے۔ مسلمان جو دستور کی بات کرتے ہیں یہ دل کے بہلانے کے لئے ہے ورنہ ہندو ملک ہے اور ہندو کے لئے ہے۔۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔