مسلم لڑکی کے ساتھ ریپ یا لڑکی کے ساتھ ریپ؟

یاسر محمود

آج کل سوشل سائیٹس پر ٹرین۔میں ہوا واقعہ ”ایک مسلم لڑکی کا ریپ” بڑا موضوع  بحث بنا ہوا ہے اور اس پر مسلم حلقوں کیجانب سے بڑا سخت نقد و تبصرہ اور سخت مخالف کی جارہی ہے۔ یقینا یہ ایک سخت غلط عمل ہے اور سماج کے تعلیمی، ذہنی و اخلاقی اعتبار سے سخت پچھڑے پن کی علامت ہے۔ لیکن اس تعلق سے دو باتیں ضرور عرض کرنی ہیں :

1- ریپ ریپ ہوتا ہے۔ ریپ مسلم یا ہندو نہیں ہوتا۔ ریپ ‘خاتون یا لڑکی کیساتھ ریپ’ ہوتا ہے۔ کسی بھی اچھے عمل یا گناہ و برائی کو کسی مذہب کیساتھ وابستہ کردینا اسکے حسن یا اسکی ہولناکی و قباحت میں اضافہ نہیں کردیتا۔ البتہ لڑکی کیساتھ ریپ کو مذہب و قوم سے وابستہ کردینے سے ایسا کرنے والوں کے اکیسویں صدی میں بھی ‘سماجی طبقاتی ذہن’ کا ضرور پتہ چلتا ہے۔

جبکہ نتائج کے لحاظ سے صنف نازک کے ساتھ ریپ کو ‘مسلم لڑکی کے ساتھ ریپ’ کہنا ملک کے اکثریتی حلقہ کو ریپ جیسے مذکورہ گھنائونے عمل کے تعلق سے خاموش کردیگا۔ اور ‘خاتون کیساتھ ریپ’ کو ‘مسلم لڑکی کیساتھ ریپ’ کے طور پر شہرت دینا ایک ایسے متصادم ماحول (environmental conflicts) کو پیدا کرتا ہے جہاں ریپ جیسی چیزیں ایک معمول کا عمل بن جائیں ۔ مگر پچھلے چار سو سالوں سے مسلمانوں نے عقل و شعور استعمال نہ کرنے اور خود اپنے ہاتھ پاؤں کاٹنے کی قسم کھا رکھی ہے بلکہ واقعات بتاتے ہیں کہ 1605 سے مسلم قوم کی راست لڑائی ‘تحقیق و شعور اور تفکر و تدبر’ سے چل رہی ہے۔

2- دوسری بات بطور سوال اس تعلق سے یہ عرض کرنی ہے کہ ابھی تین روز قبل ہی دس مسلم نوجوانوں نے رامپور میں اپنی ماں کیساتھ جارہی ایک دلت لڑکی کے ساتھ جو زبردستی کی اس پر یہ سب لوگ کیوں خاموش تھے جو آج چراغ پا ہورہے ہیں ؟ محض اس لئے کیونکہ وہ مسلمانوں نے کیا تھا؟

اور متاثرہ ہندو تھی۔۔۔۔۔

جو لوگ اس وقت خاموش تھے حتی کہ انہوں نے رامپور کے اس اندہوہناک واقعہ پر سابق وزیر شہری ترقیات اعظم خاں کے اس بیان کی تائید کی کہ ”عورتیں گھروں سے  نکلتی ہی کیوں ہیں ۔۔۔انہیں گھر ہی میں رہنا چاہئے”۔ چنانچہ (1) تین روز قبل ہی رامپور میں دلت لڑکی کیساتھ ہوئے واقعہ پر خاموش رہنے والے (2) اعظم خاں کے متاثرہ لڑکی کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کے بیان پر خاموش رہنے والے اور (3) اعظم خاں کے اس قسم کے غیر اصولی مبنی بر تعصب بیان کی تائید کرنے والے تمام افراد کو آج ٹرین میں ہوئے واقعہ پر بولنے اور اس پر تنقید و مخالفت کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ بلکہ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہیکہ انہیں وہی بیان اب دینا چاہئے کہ "عورتیں گھروں سے نکلتی ہی کیوں ہیں …….بغیر مرد کے کیوں جاتی ہیں …” وغیرہ۔

آخر ہم کب اس غیر اصولی، غیر فطری، غیر انسانی اور خلاف قرآن ‘قومی روش’ اور حالات و واقعات اور سانحات (events) کے تعلق سے یکچشمی رویہ (one-eyed attitude) سے آزاد ہونگے؟ اور کب انسانی دنیا میں اچھائی اور برائی کو قوم و مذہب کی تقسیم کیساتھ سے دیکھنا بند کرینگے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔