مسلکی اختلافات اور اعتدال کی راہ!

محمد اشفاق عالم ندوی

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور ابدی نظام زندگی کا نام ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں انسانوں کی صحیح رہنمائی کرتا ہے ۔یہ وہ آخری دین ،آخری شریعت اور آخری مذہب ہے جس کو لیکر آخری نبی ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے ،اس دین کو اللہ تعالی نے امت وسط۔ یعنی ایسی امت جس میں کسی چیز میں شدت پسندی نہ ہو اور اس دین کا ہر فعل وعمل اعتدال چاہتا ہو۔ بنایاچنانچہ نبی ﷺ کی پوری زندگی اس کے امت وسط ہونے پر دلیل اور ثبوت اور خلافا ء راشدین زندگیاں اس کا عملی نمونہ تھے اور ان کے درمیان کسی چیز میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوااور کبھی کوئی  اختلاف ہوابھی تو وہ ایسا اختلاف تھا جس کو نبی ﷺ نے اپنی امت کے لئے رحمت فرمایا تھا اور یہ اختلاف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ،تابعین اور ائمہ مجتہدین کے درمیان اجتہادی مسائل میں ہوتاتھاجس کی وجہ سے امت میں ہر دور میں بڑے بڑے مفکرین اور مجتہدین پیدا ہوتے رہے ۔اور اپنے تدبر و تفکر کے ذریعہ اس امت مسلمہ کی بدلتے ہوئے حالات کے مطابق صحیح رہنمائی کرتے رہے ہیں ۔چنانچہ قرن اول میں حضرت عمر ؓ،حضرت علی ؓاور حضرت عائشہ ؓ اور تابعین میں سعید ابن المسیبؒ،سفیان ثوری ؒ اور امام زہریؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں جبکہ ائمہ مجتہدین میں امام ابو حنیفہ، ؒامام مالک ؒ،امام شافعی ؒاور امام احمد ابن حنبل ؒکا نام سر فہرست ہے ان کے بعد بھی بڑے بڑے مجتہدین پیدا ہوتے رہے ہیں جیسے امام غزالی اور امام ابن تیمیہ وغیرہ۔اور پوری امت ان کے اجتہاد ات سے فیض یاب ہوتی رہی ہے۔

 لیکن ایک دوسری قسم کا اختلاف بھی اس امت میں ہر دور میں برپا رہاہے، اس اختلاف کو نظریاتی اختلاف کہا جاتا ہے چنانچہ اس کی ابتداء قرن اول میں شیعیت کے نام سے ہوا اور یہاں سے مسلمانوں میں دو جماعتیں وجود میں آگئیں ۔ایک شیعہ اور دوسرا سنی ۔لیکن رفتہ رفتہ اس اختلاف نے شیعیت کے اندر بھی اتنا فساد مچایا کہ اس کے بھی انگنت ٹکڑے کر ڈالے اور بے شمار جماعتیں وجود میں آگئیں ۔

زمانہ اپنی چال چلتا رہا ،دن و ایام گزرتے رہے اسلام پر مختلف قسم کے مصائب و مشکلات آتے رہے اور مذکورہ بالا نظریاتی اختلافات کا سلسلہ بھی چلتا رہا چنانچہ اس اختلاف کے نتیجہ میں وہابیت ،بریلوت ،دیوبندیت اور اہل حدیث یا سلفیت کادجود عمل میں آتا رہا اور ان تمام کی شدت پسندی نے اس امت مسلمہ کو اتنا بڑانقصان پہونچایا ہے جس نقصان کی امیدشاید دشمنان اسلام سے بھی نہ تھی چنانچہ ان اختلافات نے اس درجہ شدت اختیار کیا کہ دیوبندیوں نے بریلویوں پر اور بریلویوں نے دیوبندیوں پر کفر کے فتوئے دے ڈالے اور مناظروں نے اپنا بازار اس حد تک گرم کیا کہ اسٹیج پر کھڑے ہوکر علماء نے ایک دوسرے کو سرعام گالیوں تک سے گریز نہ کیا ۔ان اختلافات  نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ ان میں اس حد تک نفرت پھیلا دی گئی کہ وہ اس بات کو بھی پسند نہیں کرتے کہ کوئی وہابی کسی بریلوی یا کوئی بریلوی کسی دیوبندی یا کسی سلفی کی مسجد میں داخل ہو حتی کہ بعض جگہوں میں مساجد میں یہ بورڈ بھی آویزاں ملا کہ وہابیوں کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے ۔شدت پسندی میں ایک جماعت نے اس حد تک غلو کیا گیا کہ اولیاء اللہ کے قبرو ں کو سجدہ گاہ بنا ڈالا تو دوسری جماعت نے اولیاء اللہ اور ان  کے کرامات اور ان کی عظمت کا سرے سے انکار کردیا ۔

  لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ ان سب چیزوں میں اسلام کے نام پر اتنی بڑی بڑی رقمیں خرچ کی گئی کہ اگر ان کو اسلام کی تبلیغ واشاعت میں صرف کیا جاتا تو شایدہی برصغیر میں کوئی گھر ایسا باقی بچتا جس تک اسلام کا پیغام نہ پہونچتا لیکن ان علماء نے خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں اپنی قیادت وسیادت کوچمکانے کے لئے برصغیر کے مسلمانوں کو وہ نقصان پہونچایا ہے کہ جس کی بھرپائی میں شاید صدیاں گزرجائیں ۔

 لیکن ان سب سے ہٹ کرکچھ علماء کرام ایسے بھی تھے جن کے اندر اعلائے کلمۃ اللہ کا جذبہ تھا اور دین کی تبلیغ و اشاعت کے لئے مخلص تھے اور امت مسلمہ کے لئے صحیح معنوں میں فکر مند رہتے تھے اور شاید و ہ برصغیر کے مسلمانوں کے مستقبل کو اپنی نظروں سے دیکھ رہے تھے انہی علماء میں مولانا مودودی علیہ الرحمۃ بھی تھے ۔

 ایک بار جبکہ مولانا مودودی علیہ الرحمۃ ارض القرآن کو دیکھنے کے بحرین تشریف لے گئے تھے ،جب وہاں لوگوں میں یہ خبر عام ہوئی کہ مولانا یہاں تشریف فرما ہیں تو ملاقاتیوں کی بھیڑ لگ گئی چنانچہ سوالات کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا ،ان میں سے کسی نے تبلیغ جماعت اور مولانا مودودی کے درمیان اختلاف کے متعلق پوچھا ،مولانا نے جواب دیتے ہوے فرمایا کہ ہمارے اور تبلیغ جماعت کے درمیان کوئی کشمکش یا مخالفت نہیں ہے ،دین کا کام وہ اپنی سمجھ اور طریقہ کار کے مطابق کر رہے ہیں اور ہم اپنی سمجھ اور طریقہ کار کے مطابق ۔اور طریقہ کار میں اختلاف ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہمارے اور ان کے درمیا ن کوئی تصادم یا مخالفت ہو ،ہم خواہ مخواہ ایک دوسرے کی مزاحمت کریں اس کے بجائے اگر ہم اور وہ ایک ہی خدا کی دین کی اخلاص کے ساتھ خدمت کر رہے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کا خیر خواہ ہونا چاہئے اور جس حد تک ہم ایک دوسرے کی مددکر سکتے ہیں اس میں ہمیں دریغ نہیں کرنا چاہئے اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ تو نہ ہو کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف بد گمانیاں رکھیں ،،

 اسی طرح ایک موقعہ پر شیعوں کے ایک بڑے مولانا کلب جوادنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلباء سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ اگر ہندوستان کے مسلمانوں کو ترقی کرنیہے،اور ہندوستان میں رہ کر اپنے مستقبل کو روشن بنانا ہے تو ان کو مذہب و ملت اور شیعیت اور سنیت سے اٹھ کر اسلامیت اور وسطیت کی طرف آنا ہو گا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو سمجھ لو کہ  تمہاری داستاں نہ ہوگی داستانوں میں ۔

اعتدال کی را ہ اسی وقت نکل سکتی ہے جب تمام مسلمان خواہ وہ دیوبندی ہوں یا بریلوی ،وہابی ہو ں یا سلفی فرعاتی مسائل میں اختلاف کو نظر انداز کریں اور اس بات پر متفق ہوجائیں کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہواور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہو اور اس کی کتابوں کے منزل من اللہ ہونے کا اقرار کرتا ہو اور یوم آخرت پر کامل یقین ہووہ مسلمان ہے اب خواہ وہ عظمت صحابہ کا قائل ہو یا نہ ہو خواہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لئے علم غیب کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو ہمیں اس سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہئے بلکہ ہم دنیا کی نگاہ میں کل بھی مسلمان تھے اور آج بھی مسلمان ہونگے فرق اتنا ہوگا کہ کل تک ہم باہم دست و گریباں تھے اور آج ایک دوسرے کے لئے مخلص ۔

اگر ایسا نہ کیاتو سمجھ لو سر زمین ہندوستان اپنی تمام وسعتوں کے باوجود ہمارے لئے تنگ اور ہندوستان میں ہمارا مستقبل تاریک ہوگا کیونکہ شر پسند عناصر ہندوستان کو بھگوا رنگ میں رنگ دینے کی پوری کوشش کئے ہوئے ہیں اور روز اپنی فتنہ پروری کا مظاہر ہ کرتے رہتے ہیں لہذا ایک بار پھرہمیں وسطیت اور اعتدال کو اپنانا پڑے گا اور اپنے درمیان عزت و شرافت اور احترام کا معیار اللہ تعالی کی اس فرمان یعنی ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم اور فرمان نبوی لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی الا بالتقوی کو قرار دینا پڑیگا ۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔