مشعل کا فتنہ

عمر فراہی

چودہ اپریل 2016 کوپاکستان میں مردان یونیورسٹی کے طالب علم اور سوشل میڈیا جرنلسٹ مشعل خان کو انہی کے ساتھیوں نے بہت ہی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا -مشعل پر الزام تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا -وہ عقیدے سے قادیانی تھا-خیر جو بھی تھا انسان تھا- اس کے فیس بک پوسٹ سے یہ اندازہ ہوتا ہےکہ وہ مذہب بیزار لبرل ذہنیت کا نوجوان تھا -بدقسمتی سےہمارے دور کاایک المیہ یہ بھی ہے کہ جو مذہب بیزار ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو انسانیت دوست کہتا ہے ، جو اسلام دشمن ہوتے ہیں وہ خود کو لبرل اور مغرب نواز کہتے ہیں -مشعل کے قتل کی خبر بھی ہمیں سب سے پہلے ایک وہاٹس اپ گروپ پر مشعل کے قبیلے کے ہی ایک سوشل لبرل جرنلسٹ کی پوسٹ سےملی-

اسلام بیزار اور اسلام پسندوں کے اس گروپ کو ایک ڈیڑھ سال پہلے اردو کےایک معروف صحافی نے تشکیل دیا تھا بعد میں وہ خود تو لیفٹ ہو کر باہر ہو گئےلیکن گروپ پر کچھ سوشل میڈیا ایران اور مغرب نواز لبرل جرنلسٹ مسلسل فتنہ پھیلاتے رہتے ہیں اور ان میں سے اکثر مشعل کی طرز کے سوشل جرنلسٹ اپنے اسلام مخالف نظریات سے دوسرے اسلام پسند صحافیوں کو مشتعل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے-

اسی گروپ پر مشعل کی طرز کا ایک فتنہ پرور پچھلے کئی دنوں سے مشعل کے سر عام قتل پر پاکستانی طالب علموں کی اس طرح مذمت اور اس طرح کی تحریریں پوسٹ کر رہا تھا جیسے کہ مشعل کے قتل کے ذمہ دار پاکستانی طالب علم نہیں بلکہ اسلام اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات ہیں -یوں کہا جائے کہ شریر اور بدمعاش قسم کے یہ لوگ مسلسل تحریکی شکل میں اسلامی تعلیمات کے خلاف ایسی گمراہ کن تحریریں اور ویڈیو پوسٹ کرتے رہتے ہیں کہ ہم جیسے باشعور کالم نگاروں کے تن بدن میں بھی آگ لگ جاتی ہے-مگر جب یہی معاملہ کالج اور یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کے ساتھ پیش آجائے تو بات خون خرابے تک پہنچنا بھی لازمی ہے-مشعل کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے جس کا ذمہ دار خود یہ نوجوان بھی ہے-

اسلام بہرحال جاہلوں سے الجھنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن کیا کیا جائے کہ ہر کسی کی قوت برداشت یکساں نہیں ہوتی-ہمارے  گروپ کے دو ساتھی جو اردو اخبار سے منسلک بھی ہیں وہ مشعل کے قتل کے ردعمل میں پوسٹ کی گئی نازیبا تحریر پر گروپ کے ایک ایران نواز سوشل جرنلسٹ سے الجھ گئے اور تقریباً ایک گھنٹے تک بات تو تو میں میں تک پہچ گئی -بحث کے دوران وہ یہ تاثر بھی دیتا رہا ہے کہ اگر پاکستان ہوتا تو آپ لوگ قلم کی بجائے میرے اوپر شمشیر لے کر چڑھ آتے-آپ کی جانکاری کیلئے بتادیں کہ اکثر شریر منافق اور دہریے قسم کے سوشل جرنلسٹوں کی یہ خصلت ہوتی ہے کہ وہ خود بدتمیزی گستاخی اور بد تہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور الزام اپنے مخالف پر تھوپ دیتے ہیں -ایسے میں جو اپنی بحث اور عقیدے میں مخلص ہے اس کا جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو کرمشتعل ہوجانا بھی لازمی ہے -شاید وقت کے رشدی اور طارق فتح بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ مشتعل کرکے تخریب پر آمادہ کریں -ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخریہ ان لوگوں کو ایسا کرنے میں مزہ کیوں آتا ہے ؟

اس کا جواب اس کے سوااور کیا ہوسکتا ہے کہ باطل نے ہر دور میں جہاں حق کے خلاف بزور شمشیر محاذ آرائی کی ہے اسی دور میں حق کے علمبرداروں کے خلاف ایسے بدزبان شعراء اور تبرا بازوں کا بھی استعمال کیا ہے جو اہل ایمان کا مذاق اڑا کر اس کی قیمت اصولتے تھے -ایسے بے غیرت مقرر اور مصنف آج بھی فروخت ہورہے ہیں -سلمان رشدی تسلیمہ نسرین اسریٰ نعمانی اور وی ایس نائیپال جیسے بدمعاش اورسطحی سوچ کے مصنفین کے ساتھ ساتھ ایسے الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات  بھی ہیں جو اپنی مطلوبہ قیمت میں فروخت ہو رہے ہیں – خوش قسمتی سے سوشل میڈیا کے دور میں تو فیس بک اور وہاٹس اپ میڈیا پر ایسے سوشل میڈیا جرنلسٹوں کی بھرمار ہو چکی ہے جو پیشہ وارانہ طور پر کسی گروہ کیلئے کام کر رہے ہیں یا فروخت ہونے کیلئے تجربات کے مراحل سے گذر رہے ہیں -مشعل خان بھی ممکنہ طور پر کسی اسلام دشمن تحریک کیلئے ہی استعمال ہورہا تھا-

شاید اسی لیئے بہت ہی بے باکی کے ساتھ ادبی انداز میں اسی طرح اسلامی تعلیمات کی تضحیک اور مسلم نوجوانوں کی دل آزاری میں مصروف تھا جیسے کہ پاکستان میں مشعل اور طارق فتح کی ذہنیت کی ایک پوری بھیڑ سرگرم ہے اور بہت ہی منظم طریقے سے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں اور محفوظ بھی ہیں -مشعل کا قتل اچانک ظہور پذیر ہونے والا حادثہ یا ردعمل نہیں ہے بلکہ جس طرح نشےکے عادی افراد اپنی عادتوں سے مجبور ہوتے ہیں ہمارے سماج میں مشعل جیسے بہت سارے لبرل نوجوانوں نے مسلمانوں کی دل آزاری کو اپنی ذہنی عیاشی کا مشغلہ بنایا ہوا ہے -غالباً مشعل کو بہت پہلے سےدھمکیاں مل رہی تھیں لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ حقیقت میں اس کے ساتھ ایسا ہوجائے گا -اس دھمکی کو بھی  اس نے مذاق میں لیتے ہوئے اپنی فیس بک کی چوبیس مارچ کی پوسٹ میں ایک نظم  پوسٹ کی تھی جس میں اس نے اپنے اغوا اور قتل کر دیئے جانے کا خیالی منظر پیش کرتے ہوئے اپنے ہی قاتلوں کے خلاف پولس میں شکایت درج کرنے کی بات کی ہے –

میں لاپتا ہوگیا ہوں
کئی ہفتے ہوئے
پولیس کو رپورٹ لکھوائے
تب سے روز تھانے جاتا ہوں
حوالدار سے پوچھتا ہوں
میرا کچھ پتا چلا؟
ہمدرد پولیس افسر مایوسی سے سر ہلاتا ہے
پھنسی پھنسی آواز میں کہتا ہے
ابھی تک تمھارا کچھ سراغ نہیں ملا
پھر وہ تسلی دیتا ہے
کسی نہ کسی دن
تم مل ہی جاؤ گے
بے ہوش
کسی سڑک کے کنارے
یا بری طرح زخمی
کسی اسپتال میں
یا لاش کی صورت
کسی ندی میں
میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں
میں بازار چلا جاتا ہوں
اپنا استقبال کرنے کے لیے
گل فروش سے پھول خریدتا ہوں
اپنے زخموں کے لیے
کیمسٹ سے
مرہم پٹی کا سامان
تھوڑی روئی
اور درد کشا گولیاں
اپنی آخری رسومات کے لیے
مسجد کی دکان سے ایک کفن
اور اپنی یاد منانے کے لیے
کئی موم بتیاں
کچھ لوگ کہتے ہیں
کسی کے مرنے پر
موم بتی نہیں جلانی چاہیے
لیکن وہ یہ نہیں بتاتے
کہ آنکھ کا تارہ لاپتا ہوجائے
تو روشنی کہاں سے لائیں ؟
گھر کا چراغ بجھ جائے
تو پھر کیا جلائیں ؟
سوشل میڈیا پر مشعل کے اس قتل پر بہرحال ہر طبقے کی طرف سے مذمت ہورہی ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی سلمان تاثیر اور مشعل کسی ممتاز قادری یا مشتعل بھیڑ کی شرارت کا شکار ہوتے ہیں تو ہم مسلمانوں میں سے ہی جو مفتی نہیں ہوتے وہ بھی مفتی ہوکر یہ فتویٰ دینا شروع کردیتے ہیں کہ اسلام قانون کو ہاتھ میں لینےکی اجازت نہیں دیتایا اس طرح کی حرکتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کےمنافی ہےاور اہل حق میں سے بھی کچھ لوگ یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ” ممتاز قادری جیسے لوگ خارجیت کا مظہر ہیں ، تکفیر اور انتہاء پسندی کا جو رخ ہمارے معاشرہ میں ہے اس میں ایسے افراد کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے”بیشک ایسا نہی ہونا چاہیے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اخلاق ، نجیب اور پہلو خان جیسے مسلمان ہندو دہشت گردوں کے ذریعے قتل ہوتے ہیں تو کوئی ہندو پنڈت یا دانشور اپنے ہندو مذہب کی دہائی کیوں نہیں دیتا ؟

شام میں ایرانی پانچ لاکھ لوگوں کو قتل کردیتے ہیں پھر بھی خارجی اور تکفیری کے دائرے سے باہر ہیں -امریکہ افغانستان میں اب تک کے سب سے وزنی بارودی حملے کے باوجود امن کا علمبردار ہے تو اس لیئے کہ ہم نے اس بمباری سے شہید ہونے والوں کو دہشت گرد تسلیم کرلیا ہے -اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ باطل کی آواز میں طاقت ہے اور ہم اپنے اختلاف اور خوف کی وجہ سےان کی آواز میں آواز ملاکر ان کے موقف کی تائید کردیتے ہیں -سچ تو یہ ہے کہ مسلمان یا مسلمانوں کے علماء کبھی کسی مذہب اور ان کے اکابرین کی توہین نہیں کرتے بلکہ رشدی تسلیمہ نسرین ، طارق فتح اور مشعل جیسے لوگ خود بلا جواز آگے بڑھ کر مسلم نوجوانوں کو مشتعل کرتے رہےہیں اور کررہےہیں – یہ بات بھی درست ہے کہ ایسے گستاخوں کی بدتمیزی اور گستاخی پر مسلمانوں کو مشتعل نہ ہوکرقانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے لیکن جس معاشرے سے انصاف اور قانون کی حکمرانی کا تصور ہی ختم ہو چکا ہو وہاں ممتاز قادری یا پاکستانی یونیورسٹی کے طالب علموں کی ایک قلیل بھیڑ کو مشتعل ہوجانے سے بھی کیسے روکا جاسکتاہے؟

بیشک اس کا ذمہ دار بھی موجودہ دنیا کا لبرل جمہوری نظام ہی ہے جس نے طارق فتح اورمشعل جیسے اسلام دشمن شرپسندوں کو پناہ دے کراسلام اور مسلمانوں کی شان میں گستاخی کیلئے آزاد چھوڑ رکھاہے-اب آپ اندازہ لگائیں کہ جہاں ابلیسیت اور دجالیت غالب ہواور للہٰیت اورربّانیت پابند سلاسل اور خطرناک بارودی بموں کے حصار میں جکڑ دی گئی ہو ، جہاں  ارباب اقتدار نے خود غنڈے بدمعاشوں کو پناہ دے رکھا ہو اور یہ لوگ اپنی بدعنوانی اور خرافات پھیلانے کیلئے آزاد ہوں تو پھر ایسے میں زمین پر کسی بھی طرز کے فساد اور فتنےکو کیسے روکا جاسکتا ہے…؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔