معدنیات کے جنگل میں زندگی!

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

معدنیات، جنگلات اور آدی واسیوں کے نایاب قبیلوں کیلئے جھارکھنڈ کا گملہ ضلع جاناجاتاہے۔یہ کبھی رانچی ضلع کا سب ڈویڑن تھا۔ جو 30اپریل 2001کو ضلع میں تبدیل ہوگیا۔ اس کا کل رقبہ 5327مربع کلو میٹر ہے۔ دیہاتی علاقوں ناگپور، اوراؤں اورسادری کے لوگ اسے گومیلاپکارتے تھے۔اس کا مطلب ہے ہفتہ واری بازار۔یہاں کے لوگوں کی زندگی میں ہفتہ واری بازار (ہاٹ)کا کیامقام ہے اس کا الگ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ضلع کی کل آبادی کا 68%فیصد حصہ آدی واسیوں پر مشتمل ہے۔ ندیوں اور جھرنوں کے لئے بھی یہ مشہور ہے۔ سدنی جھرنا اس کی ایک مثال ہے۔ ضلع میں 1.35لاکھ ہیکٹرزمین پر جنگلات ہیں جبکہ کل زمین 5.21لاکھ ہیکٹر ہے۔ یعنی کل زمین کا 27%فیصد۔گملہ قدرتی معدنیات سے مالامال ہے۔ یہاں 23باکسائیڈ اور68پتھر کی کانیں ہیں ،یہاں انٹیں بنانے والوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ المونیم اوریہاں کے متعدد گاؤں جیسے آمکی پانی، چروڈیہہ، جالم، نرما، بہاگارا، گرداری، لپ انگ پٹ، چھوٹااجیاتو، ہروپ اورسیرنگ داگ وغیرہ میں پایاجاتاہے۔ اس کے علاوہ چینی مٹی یہاں کے کئی حصوں میں موجود ہے۔یہاں کے لوگوں کے جسم کی بناوت کا کِسری ڈھنگ(Look)کی ہے۔ آدی واسیوں کے قدیم قبیلوں میں ویبھور، اَسْر، نگیہ، مکڑا، کوجوراوربرجیاوغیرہ اس ضلع کے پہاڑی گاؤں میں پائے جاتے ہیں ۔ سمجھنے کے لئے آدمی واسیوں کو دوزمروں میں بانٹاگیاہے۔ایک ٹوٹم، اس میں لکڑا، کوجور، ترکی، منج، بھگت، اَسْریوں کے علاوہ 32قبیلے شامل ہیں ۔

دوسرا ٹوپمو، اس میں منڈا، پنچ، پنگریا،ناگپوری، سادری، اْوریا،کرْکھ وغیرہ ہیں ان قبیلوں میں بولی جانے والی زبانوں میں اَسوری، اوسٹراسیاٹک (Austroasiatic)، کھورتا، اوراؤں ، کوڈکھ Kurukh، منداری، ناگپوری،سادری، ہندء اریا اورکرکھ kurukhوغیرہ قابل ذکر ہیں ۔مرکزی حکومت کے ذریعہ نشان زد کئے گئے انتہائی پسماندہ اضلاع میں سے ایک ضلع گملہ بھی ہے۔ جسے پچھڑا ریجن گرانٹ فنڈ پروگرام(BRGF) اسکیم کے تحت فنڈ فراہم کیاجارہاے۔عورتوں اوربچوں کی اچھی صحت کیلئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم یونیسیفUNICEF کی تکنیکی مد دسے یہاں زندگی کو بچانے اورآنے والی نسل کو زندگی دینے کے لئے چلائے جارہے طبی کاموں اورمنصوبوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔گملہ شہر سے 60کلومیٹر دور بشنوپور بلاک کے گاؤں جاہنوپاٹ میں زندگی کی دشواریوں کااندزہ ہوا۔ اس گاؤں میں 40-35گھر ہیں ۔ کل آبادی 350افراد پر مشتمل ہے۔یہ نگسیا، اَسْراوربرجیاآدی واسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہاں جانے کے لئے نہ کوئی سڑک ہے نہ راستہ نہ سواری رہل دار گاؤں سے 6-5کلومیٹر پیدل پہاڑ پرچڑھناپڑتاہے۔ پہاڑ سے برسات کا پانی نیچے آنے کے لئے جوقدرتی راستے بنے ہوئے ہیں ۔انہیں پیدل چڑھنے کے لئے استعمال کیاجاتاہے۔یہاں پینے اوراستعمال کرنے کے لئے پانی کی ایک داڑی(قدرتی پانی کا کنواں )ہے وہاں ہم نے دیکھا کہ UNICEFکے کارکنان پولیو کی دواپلانے اوربچوں کو ٹیکے لگانے کا کام کررہے تھے۔یہاں بچوں اورعورتوں کو زندگی کی جدوجہد میں طبی امداد باہم پہنچانے کا یونیسیف کے ارکان کاجذبہ دیکھ کربہت اچھالگا۔

وہاں موجود ایم ایم سنگیتاکماری سے معلوم ہوا کہ انتہائی دشواری سے پہنچاجانے والایہ اکیلا گاؤں نہیں ہے۔ گملہ میں 36جن میں سے 20بشنوپوراور 16چین پور بلاک میں ایسے گاؤں ہیں انہیں Hard reach Areaکہاجاتاہے۔یہاں ویکسی نیشن(Vaccination)کاکام ہرماہ کرنا ممکن نہیں اس لئے ہر تین ماہ پر پوری ٹیم آکر پولیوکی دوا پلانے اورٹیکالگانے کا کام کرتی ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ اگر کوئی زیادہ بیمار ہوجائے یا کسی خاتون کے ولادت ہونے والی ہو تو اسے طبی امداد کیسے پہنچائی جاتی ہے؟معلوم ہوا کہ بیماری یا ولادت کے معاملے میں مریض کو چارپائی یاڈلیا(بہنگی)کے ذریعہ پہاڑ سے نیچے لایاجاتاہے۔عورتوں کو UNICEFکے جوری گاؤں میں بنے میٹرنیٹی سینٹر(لیبرروم)لایاجاتاہے۔اوراگر کوئی دوسری بیماری کامعاملہ ہے توبشنوپور پرائمری ہیلتھ سینٹر لے جایاجاتاہے۔ عورتوں اوربچوں کی دیکھ ریکھ اورطبی امداد باہم پہنچانے میں سہّیاکا رول بہت اہم ہے۔جوری میٹرنٹی سینٹر(لیبرروم)میں اپریل 2013سے مارچ 2014تک 63بچوں کی ولادت ہوچکی ہے۔جوری میں آنگن واڑی کابھی مرکز ہے۔ اس سینٹر کے ذریعہ بڑکادوہرا،رہل داگ، ہریجن ٹولی، بنالات گورسیلا، بناری جاہنو پاٹ وغیرہ گاؤں کو جوڑاگیاہے۔ طبی کارکن( سہّیاساتھی)اِرماتگہ نے بتایا کہ یونیسیف کی تکنیکی مدد کی وجہ سے یہاں کے ویکسی نیشن، بچوں کی ولادت کاکام آسان ہواہے اورغذاکی کمی کی وجہ سے بچوں میں پیداہونے والی بیماریوں میں کمی آئی ہے۔ گھر میں بچے پیداکرانے کا چلن دھیرے دھیرے کم ہورہاہے۔

سہّیا ساتھی نے بتایا کہ جن عورتوں کی ڈلیوری لیبرروم میں ہوتی ہے انہیں 24سے 48گھنٹے یہاں رکھاجاتاہے۔ ان کے لئے دوائی کھانااوردیکھ ریکھ کامفت انتظام سینٹر کی جانب سے کیاجاتاہے۔ گھر جاکر کھان پان کے لئے 1400روپئے سرکارکی جانب سے دیئے جاتے ہیں تاکہ انہیں ولادت کے بعد کھان پان میں دقت نہ ہو۔صحت کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لحاظ سے رایڈ یھ بھی اہم ہے۔رایڈیھ میں پرائمیری ہیلتھ سینٹر آگن واڑی کیندر لیبرروم اورکوپوشن سینٹر ہے۔ اس سے تین بلاکوں میں کام ہورہاہے۔ رایڈیھ ، ڈمری اورچین پور، پورے ضلع میں بشنورپور، ڈمری اورچین پور میں کوپوشت بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

یہاں 40بستر کا ہسپتال ہے۔ جس کے ایک حصہ کو غذائی کمی کے شکاربچوں کے لئے مخصوص کردیاگیاہے۔ یہاں جن بچوں کو لایاجاتاہے ان کے جسم ودماغ کی نشونما، لمبائی، عمر کے لحاظ سے وزن وغیرہ کا جائزہ لینے کے بعد غذاو دواشروع کی جاتی ہے۔ بچوں کی ماؤں کو یہاں رہنے کے دوران بچوں کی دیکھ ریکھ کے طریقے سے واقف کرایا جاتاہے انہیں کب کیا غذادی جائے یہ بھی بتایا جاہے۔ اس سینٹر میں بچے کو 15دن رکھتے ہیں ۔جھارکھنڈ میں عام طورپر دیہاتی عورتیں مختلف مزدوری کے کام کرتی ہیں اس کا خیال رکھتے ہوئے ان پندرہ دنوں کے دوران 200روپئے فی دن کے حساب سے ماں کو دیئے جاتے ہیں ۔مظہر ٹولہ سے آئے ایک بچہ کی ماں سوشیلا منج سے بات چیت کے دوران یہ جانکاری ملی۔رایڈیھ کے MOICڈاکٹر آشوتوش نے بتایا کہ یہ سینٹر تین سالوں سے کام کررہاہے۔انہوں نے بتایا کہ پیدائش کے بعد بچوں میں ٹیٹ نس کا اوسط صفر ہوگیاہے۔ڈاکٹر آشوتوش نے یہاں کے لیبرروم میں موجود سہولیات کی واقفیت دی۔

انہوں نے بتایاکہ حاملہ عورتوں کو یہاں آنے پر ایک فلم دکھائی جاتی ہے۔ جن میں بچے کی پیدائش سے پہلے اورپیدائش کے بعد خیال رکھی جانے والی باتوں کی جانکاری دی گئی ہے۔انہوں نے آگن واڑی کیندر میں موجود ویکسی نیشن کا وہ نقشہ بھی دکھایا جس میں کب کب کس کس گاؤں میں یونیسیف کی مدد سے پولیو کی دواپلانے اورٹیکے لگانے کا کام کیاجاتاہے۔ انہوں نے وقت سے پہلے ولادت اورLow birth rateمیں آئی کمی سے واقف کرایا۔ انہوں نے بتایا کہ ماں بننے والی عورتوں کی اموات کا Ratioتخمینہ ایک لاکھ پر 270صوبہ اورملک کے تخمینے سے زیادہ ہے۔ صوبہ میں 267اورملک میں 212ہے۔اسی طرح بچہ کی پیدائش یا پیدائش کے ایک برس کے اندر زچہ بچہ کا تخمینہ دیش سے کم لیکن صوبے سے زیادہ ہے یعنی ایک لاکھ پر31جبکہ ملک میں یہ Ratioتینتیس(33) اورصوبہ میں 24ہے۔

زندگی کے لئے اہم صحت کی اس مہم میں ضلع کا صدر اسپتال، شعبہ صحت اوریونیسیف کی مقامی یونٹ مل کر کام کررہے ہیں یونیسیف کے یہ مقامی ذمہ دار پون کمار کے مطابق جن مریضوں کا پرائمری ہیلتھ سینٹر میں علاج کیاجانا مشکل ہوتاہے انہیں صدر اسپتال لایاجاتاہے۔ صدر اسپتال میں ممتاواہن کا سینٹر بنایاگیاہے۔ممتاواہن کوزندگی کی ایک اہم کڑی کے طورپر دیکھاجارہاہے۔ ضلع میں 39ممتاواہن ہیں یہ 24گھنٹے خدمت کے لئے موجودہیں ۔ سہّیا ساتھی گاؤں پنچایت یا بلاک سے اس کے لئے مخصوص کئے گئے نمبر پرفون کیاجاسکتاہے۔ ممتاواہن 30سے 40منٹ میں کال کرنے والے تک پہنچ جاتاہے۔یہ حاملہ عورتوں کو پرائمری ہیلتھ سینٹر، لیبرروم یا صدراسپتال تک لانے اورولادت کے بعد واپس عورتوں کو ان کے گاؤں تک مفت پہنچانے کاکام کرتی ہے۔ ضلع کے 11پرکھنڈوں کو اس سروس سے جوڑاگیاہے۔ولادت کے 7دن بعدزچہ بچہ کو میڈیکل چیک اَپ کے لئے بلایاجاتاہے۔صدر اسپتال کی منیجر سبھاشنی کاکہنا ہے کہ 30سے 40فیصد عورتیں دوبارہ میڈیکل جانچ کے لئے نہیں آپاتیں ۔جبکہ انکے آنے جانے کا انتظام مفت ممتاواہن کے ذریعہ کیاجاتاہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ30سے 35کال ہرروز آتی ہیں ۔صدر اسپتال کے سول سرجن ڈاکٹر للت پردیپ نرنجن باڑا نے بتاکہ حاملہ عورتیں VHNDسینٹر میں رجسٹریشن کرانے کے بعد آئرن کی گولیاں مفت دیئے جانے کے باوجود ان کا استعمال نہیں کرتیں ۔ اس کی وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ کئی عورتیں آئرن کی گولیوں سے نوزیافیل کرتی ہیں یعنی پیٹ کی خرابی جیسا اس کی وجہ سے وہ آئرن کی گولیا لینا بند کردیتیں ہیں ۔ آئرن کی کمی کی وجہ سے بچوں میں ہیپوکسیایعنی آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے۔بچے کمزور پیداہوتے ہیں ۔صحت سے جڑی زندگی کی اس مہم کے نیٹ ورک سمجھنے کی کوشش کی تو معلوم ہواکہ سہّیا کا رول سب سے اہم ہے۔ معمولی پڑھی لکھی عورتیں جو سہّیا ساتھی بنناچاہتی ہیں انہیں SVAٹرینڈکرتاہے۔انہیں تنخواہ کی جگہ اعزازیہ incentiveدیا جاتاہے۔ جیسے حاملہ عورت کو لیبرروم لانے پر100روپئے، غذائی کمی کے شکار بچوں کو لانے پر ،ٹیکے وغیرہ لگوانے پر اس طرح 120ایسے پروگرام ہیں جن پر ان کو اعزازیہ ملتاہے۔سہّیا کے بعد ANMہیں جو بنیادی میڈیکل ٹرینگ لئے ہوئے ہوتی ہیں ۔ یہ ولادت کراسکتی ہیں ۔ بچوں کو ٹیکے وغیرہ لگاسکتی ہیں ۔

غذائی کمی کے شکار بچوں کی دیکھ ریکھ وغیرہ کرسکتی ہیں ۔ انکے بعد ہیلتھ وزیٹرس ہوتی ہیں ۔ جھارکھنڈ میں صرف37ہیلتھ وزیٹرس باقی ہیں ۔جوریٹائریڈ ہوگئیں ان کی جگہ تقررنہیں کیاگیااس کی وجہ سے سیکڑوں جگہ خالی ہیں ۔ عورتوں کے امراض کی ماہرڈاکٹروں کی بھی یہاں بہت کمی ہے۔ صدراسپتال میں صرف ایک گائنی ڈاکٹر ہے۔وہ بھی اسپتال میں کم ہی ملتی ہے۔ہماری ملاقات بھی ان سے نہیں ہوپائی۔ ایک اندازے کے مطابق 5سے 6ہزارڈاکٹروں کی یہاں ضرورت ہے۔انتہائی دشوار راستوں ، مشکل حالات ، ڈاکٹروں کی بھاری کمی کے باوجود زندگی نے یونیسیف کی تکنیکی مدد کے سہارے جینے کاراستہ نکالیاہے۔ پولیو کی دوا پلا ئی جاری ہے۔بچوں کو ٹیکے لگائے جارہے ہیں حاملہ عورتوں کا خیال رکھاجارہاہے۔ طبی سہولیات کچھ سرکار کے ذریعہ اورکچھ یونیسیف کے ذریعہ باہم پہنچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔

کاش زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کچھ اسی طرح کوشش کی جائے جس طرح معدنیات کو نکالنے کے لئے سرکاری وغیر سرکاری اور نجی کمپنیاں دن رات زمین کا دوہن کررہی ہیں اگر وہ اسی طرح کوشش کریں تو یہاں صحت اورزندگی کی رفتار دوسرے علاقوں کے لئے مثال بن سکتی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔