ملائم سنگھ اب جو کررہے ہیں وہ زیادہ مہلک ہے!

حفیظ نعمانی

یادو خاندان میں اگر کسی سے تعارف اور تعلق ہے تو وہ شیوپال یادو سے ہے۔ ان کے بھائی نیتاجی ملائم سنگھ اور بھتیجا اکھلیش یادو کو جتنا کچھ جانتے ہیں وہ ان کی سیاست اور انداز حکومت تک محدود ہے۔ ملائم سنگھ نے اپنی خوشی سے اکھلیش یادوکو وزیر اعلیٰ بنایا تھا اور ان کے اس فیصلہ سے عام طور پر خوشی نہیں منائی گئی تھی۔ اکھلیش یادوکے بارے میں یہ محسوس ہوتا تھا کہ انہیں حکومت تو دے دی ہے لیکن شاید وہ ایسی حکومت ہے جیسی لالو پرشاد یادونے اپنی بیوی رابڑی دیوی کو دے دی تھی۔ کہ قدم قدم پر ملائم سنگھ انہیں ٹوکتے تھے اور ہر دو تین مہینے کے بعد انہیں نااہل ثابت کرتے تھے۔ اور یہ مشہور ہوگیا تھا کہ اترپردیش کے چار وزیر اعلیٰ ہیں ۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اکھلیش پر کیا گذرتی ہوگی لیکن سمجھتے تھے کہ کیا گذررہی ہوگی؟

آخرکار ایک دن برداشت کا گھڑا پھوٹا اور اکھلیش نے وہ سارے بندھن توڑ دیئے جو اس کو اپنی مرضی سے ایک قدم بھی نہیں چلنے دے رہے تھے۔ اس کے بعد وہ سب ہوا جو اقتدار کے لئے ہوتا ہے اور انتہائی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ شیوپال اور ملائم سنگھ بہت نچلی سطح پر اُتر آئے۔ اقتدار اور اختیار اپنے بیٹوں کو دینے کی یہ کوئی نادر مثال نہیں تھی۔ اگر ملائم سنگھ حکومت سپرد کرکے کہتے کہ اب تک یہ ہوا ہے پانچ سال حکومت کی ہے تو پھر واپسی نہیں ہوئی ہے۔ اب تم یہ سوچ کر اپنا منصوبہ بنانا کہ پانچ سال کے بعد تم کو ہی واپس آنا ہے۔ اور پانچ سال کے لئے وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتے تب انہیں یہ حق تھا کہ وہ کہتے۔ الیکشن کانگریس کے ساتھ مل کر لڑنے کی وجہ سے ہارے۔

ملائم سنگھ نے تو ہر قدم پر ٹوکا کہ یہ کیا اٹھایا اور یہ کیوں بڑھایا؟ انہوں نے حکومت بیشک دی لیکن عوام کو ایک دن بھی یہ یقین نہیں دلایا کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ نہیں اکھلیش یادو ہیں ۔ وہ ہر دن کوئی ایسی بات کرتے تھے جس سے یہ شہرت ہوجاتی تھی کہ کرسی پر بٹھا تو دیا ہے لیکن نیتاجی ہی حکومت چلا رہے ہیں ۔ کانگریس نے جو بداعمالیاں کیں وہ صرف ملائم سنگھ کے ساتھ ہی نہیں اپنے ہر مخالف کے ساتھ کانگریس نے یہی کیا اور اس کے ساتھ اتحاد اس کی عزت نہیں اس کی بے عزتی تھی کہ بہار میں وہ آج نتیش کے تلوے چاٹ رہی ہے اور اگر ملائم سنگھ، شیوپال سنگھ اور امرسنگھ نے ماحول نہ بگاڑا ہوتا تو اُترپردیش میں راہل اکھلیش کے پیچھے پیچھے دُم ہلاتے ہوئے نظر آتے۔ لیکن اُترپردیش میں ملائم سنگھ نے وہ نہیں ہونے دیا جو بہار میں ہوا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس نے بھی اُترپردیش میں وہ نہیں کیا جو بہار میں کیا تھا۔ ان کی ذمہ داری بھی ملائم سنگھ پر ہے۔

ملائم سنگھ بار بار ہار کی ذمہ داری اکھلیش پر ڈال رہے ہیں وہ یہ بتائیں کہ وہ حکومت کرکے تین بار کیوں ہارے؟ اور ہارے بھی تو مایاوتی سے ہارے۔ اکھلیش کا مقابلہ مایاوتی سے جتنا تھا وہ تو دیکھ لیا کہ آج کانگریس یہ کہہ رہی ہے کہ مسلمان سماج وادی میں چلا گیا۔ جبکہ مایاوتی نے 100  ٹکٹ دیئے تھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مسلمان نے اکھلیش کی پوری مدد کی۔ اگر ان کا مقابلہ اکیلے مودی جی سے ہوتا تو نقشہ کچھ اور ہوتا لیکن پورا آر ایس ایس اور پوری فرقہ پرستی مودی کے ساتھ تھی۔ مودی جی نے اکھلیش کو آدھا مسلمان ثابت کرنے میں پوری طاقت لگادی۔ وہ وزیر اعظم تو کیا رہتے وہ تو ہندو لیڈر بھی نہیں رہے بلکہ سبرامنیم سوامی اور پروین توگڑیا سے بھی بہت نیچے گرگئے حد یہ ہے کہ وہ جھوٹ اور گندے جھوٹ میں لت پت ہوگئے کہ انہوں نے قبرستان اور شمشان کی زمین کا جھگڑا کھڑا کردیا اور رمضان میں بجلی کے خرچ کو دیوالی کے خرچ سے بڑھا دیا۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک بات غلط فہمی کی بناء پر ہوتی ہے اور ایک جان بوجھ کر۔ مودی جی نے لاعلمی اور غلط فہمی کی وجہ سے نہیں سب کچھ جانتے بوجھتے جھوٹ بولا اور جھوٹ بولتے وقت اپنی آواز اور اپنے چہرے کو نہیں دیکھا کہ وہ پہلے سرخ اور پھر کالا ہوجاتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ یوپی کا وزیر اعلیٰ یوگی جی کو اسی لئے بنایا ہو کہ وہ بھی اخباری نمائندوں سے لڑرہے تھے کہ دیوالی میں اکھلیش کم بجلی دیتے ہیں اور رمضان میں زیادہ۔ اور ان دونوں میں کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ دیوالی ایک رات کی ہوتی ہے اور رمضان تیس راتوں کی۔ خدا کا کرنا ایسا ہے کہ اب سے صرف 18  دن کے بعد رمضان ہیں ، تب معلوم کریں گے کہ ہر رات کون ان سے دیوالی کی برابر بجلی مانگتا ہے؟

نریندر مودی کچھ بھی کہہ رہے تھے مگر یہ بھی کہہ رہے تھے کہ جو اپنے باپ کا نہیں ہوا وہ تمہارا کیا ہوگا؟ اور ملائم سنگھ جن کے ہاتھوں میں بھی کھیل رہے ہوں وہ اپنی بربادی کا تماشہ دیکھتے رہے۔ جبکہ ان کا فرض تھا کہ وہ اس حکومت کو بچانے کے لئے جو اُن کی تھی مودی کے مقابلہ میں تلوار سونت کر اسی طرح میدان میں آتے جیسے 2014 ء میں آئے تھے۔ سب سے زیادہ ملائم سنگھ نے اور اپنی کم عقلی سے شیوپال نے نقصان پہونچایا ہے اور اکھلیش کو اتنی بڑی جنگ لڑنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا اور شیوپال کہتے رہے کہ میں 11  مارچ کو نئی پارٹی بنا لوں گا۔ اور اس کے باوجود بکتے رہے کہ وہ سائیکل کے نشان پر خود لڑرہے تھے۔

ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملک کی باگ ڈور کسی ایک کے ہات میں نہ آئے اگر حزب مخالف نہ ہو تو حکمراں فرعون ہوجاتا ہے۔ ملائم سنگھ اب سب کچھ بھول جائیں ۔ پورے ملک نے دیکھا ہے کہ اکھلیش یادو انتہائی سعادت مند فرمانبردار اور باصلاحیت بیٹا ہے جس پر ملائم سنگھ کو فخر کرنا چاہئے۔ اس نے اپنے باپ کی کوئی چیز زبردستی نہیں لی جنرل سکریٹری نے اجلاس بلایا 205  ایم ایل اے آئے وہ ملائم سنگھ کے پاس بھی جاسکتے تھے انہیں کس نے روکا تھا؟ لیکن وہ اپنی خوشی سے اکھلیش کے ساتھ آئے اور حلف نامہ دیا کہ وہ اکھلیش کے ساتھ ہیں ۔ تو اسے بغاوت کون کہے گا؟ اب کارپوریشن کے الیکشن سر پر ہیں مایاوتی میدان میں نہیں ہیں اگر کانگریس سے مل کر لڑلیا جائے اور دلتوں کو سمیٹ لیا جائے تو بہت بڑا کام ہوگا۔ کاش ملائم سنگھ اگر ساتھ نہ دیں اور اکھلیش کو لڑلینے دیں اس کا اثر 2019 ء پر بھی پڑے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔